قبولیت کا گلہ نہیں ہے کہ لب پہ کوئی صدا دیا ہے
عزابِ جان کا صلہ نہ مانگو ابھی کیسے کہاں ہوا ہے
اداس چہرے سوال آنکھیں یہ میرا شہرِ وفا نہیں ہے
یہ بستیاں جس نے راکھ کر دیں چراغوں سے جلایا گیا ہے
ہے نظریوں میں یہ کیسی نفرت ،عداوتیں جا گزیں ہیں کیونکہ؟
جدا ہے چہرہ،بدن جدا ہے، لہو کی رنگت نہیں جدا ہے
تمہاری روشن خیالوں نے نہ جانے کیسا ہے کھیل کھیلا
نہیں ہے رخ پر حجاب باقی ،نگا ہ میں بھی نہیں حیا ہے
سسک رہی ہے غریب بیٹی ،ضعیف والد بھی رو رہا ہے
دلہن بنے گی رچے گی مہندی ،نہ جانے کب یہ نہیں پتا ہے
کہیں بھی ہو حادثہ وطن میں ہمی ہیں ملزم ہمی ہیں مجرم!
ہے کون ملزم ہے کون مجرم؟ کسی سے اب کچھ نہیں چھپا ہے
کوئی تو وشمہ سکوں کا پل ہو! یہ زندگی ہے سزا نہیں ہے
نصیب ہے جو یہاں مِلا ہے، وہاں جو مِلنا ہے بس عطا ہے