نام جمہور لیئے ظلم کی شاہی بن کر
خوف و دہشت کے خداؤں کی خدائی بن کر
جنکو لایا گیا امید شفاء دل میں لیئے
وہ ہی نکلے یہاں زہریلی دوائی بن کر
موت کے گھاٹ اتارا گیا لوگوں کو یہاں
یوں مسیحائی کری تم نے قصائی بن کر
بیگناہوں کا لہو جس نے بہایا ہے یہاں
موت کانٹوں پہ گھسیٹے گی گواہی بن کر
نور سمجھا گیا جن کو وہی تاریک صفت
راہ سے بھٹکا ئیں اندھیروں میں سیا ہی بن کر
دونوں ہاتھوں سے خزانے کو ہے لوٹا تم نے
تم حفاظت پہ کھڑے کیوں تھے سپاہی بن کر
کل دعا تھی کہ تم آؤ تو بہاریں آ ئیں
آ ج پھر ہاتھ اٹھے ہیں یہ دہا ئی بن کر
نظریں اٹھنے لگیں پھر سے اسی جانب سب کی
وہ ہی آ جا ئیں غلا ظت میں صفا ئی بن کر