ختم صدمات کی یہ رات نہ ہو پائے گی
اب کبھی تم سے ملاقات نہ ہو پائے گی
بس تمہارے لیے تصور میں ہو جاؤں گی
اب فقط یاد کی زنجیر میں ہو جاؤں گی
رات ڈر جاؤ تو مجھ کو نہ پکارا کرنا
میں تڑپ ُاٹھوں گی ،ایسا نہ خدارا کرنا
لمس ممتا کا وہ ُرخسار پہ ،پیشانی پر
میرا برہم سا وہ لہجہ کسی نادانی پر
ڈانٹ دینا مرا معصوم سی شیطانی پر
میرا سمجھانا تمہاری کسی حیرانی پر
بال سہلانا ،تھپک کر وہ ُسلانا میرا
یاد آئے گا بہت لوری سنانا میرا
میرا چہرہ تمھیں خوابوں میں نظر آئے گا
کبھی پریوں کی کہانی میں ُابھر آئے گا
یاد آجائے تو آنکھیں نہ کہیں بھر آئیں
درد دل میں رہے آنسو نہ ُامڈ کر آئیں
پوچھے مطلب کوئی انصاف کا ،آزادی کا
تو ُسنا ڈالنا قصہ مری بربادی کا