نہ آنا تھا نہ آیا ہے
یونہی دل کو ستایا ہے
بہت لذّت ہے اِس پھل میں
پھر آدم توڑ لایا ہے
تجھے پا کر نہ وہ ملتا
تجھے کھو کر جو پایا ہے
سفر صحرائے الفت کا
نہ بادل ہے نہ سایہ ہے
تیرے قالب کا ہر ذرّہ
سُن اے غافل! پرایا ہے
قدم رُکتے نہیں اب تو
نویدؔ اُس نے بلایا ہے