پہلی بارش
Poet: عمیر اکبر By: umair Akbar tabish , Rawalpindi
لے آؤ کوئی جاؤ میرے پیار کی وہ پہلی بارش
جو اس کی آنکھ میں میرے پیار کی شبنم کی طرح تھی
کہ دو ان موسموں سے کہ اب نہ برسیں مجھ پر
وہ برسنے والی میری جان اک دسمبر کی طرح تھی
بے موسمی بارش میں اب جی نہیں لگتا تابش
وہ پہلی تھی اور پہلی محبت کی طرح تھی
More Rain/Barish Poetry
سوکھ جاتی ہے مری چشم رواں بارش میں سوکھ جاتی ہے مری چشم رواں بارش میں
آسماں ہوتا رہے اشک فشاں بارش میں
سارے صحرائی رہائی کے تمنائی نہ تھے
آ گیا لے کے ہمیں قیس کہاں بارش میں
گھونسلے ٹوٹ گئے پیڑ گرے باندھ گرے
گاؤں پہ پھر بھی جواں نشۂ جاں بارش میں
تیری سرسبز بہاروں پہ دمکتے قطرے
لوح محفوظ کے کچھ رمز نہاں بارش میں
لب احساس کبھی تو کسی قابل ہو جا
چوم لے منزل مبہم کے نشاں بارش میں
ہانپتی کانپتی مضبوط ارادوں والی
بنچ پہ بیٹھی ہوئی محو گماں بارش میں
پہلی ٹپ ٹپ ہی مرے ہوش اڑا دیتی ہے
نیند اڑتی ہے اٹک جاتی ہے جاں بارش میں
آج بھی ڈرتا ہوں بجلی کے کڑاکے سے بہت
اس کو قابو میں کیا کرتی تھی ماں بارش میں
میرے کمرے کا مکیں حبس گلا گھونٹتا ہے
کوئی تو رمز اذیت ہے نہاں بارش میں
آسماں ہوتا رہے اشک فشاں بارش میں
سارے صحرائی رہائی کے تمنائی نہ تھے
آ گیا لے کے ہمیں قیس کہاں بارش میں
گھونسلے ٹوٹ گئے پیڑ گرے باندھ گرے
گاؤں پہ پھر بھی جواں نشۂ جاں بارش میں
تیری سرسبز بہاروں پہ دمکتے قطرے
لوح محفوظ کے کچھ رمز نہاں بارش میں
لب احساس کبھی تو کسی قابل ہو جا
چوم لے منزل مبہم کے نشاں بارش میں
ہانپتی کانپتی مضبوط ارادوں والی
بنچ پہ بیٹھی ہوئی محو گماں بارش میں
پہلی ٹپ ٹپ ہی مرے ہوش اڑا دیتی ہے
نیند اڑتی ہے اٹک جاتی ہے جاں بارش میں
آج بھی ڈرتا ہوں بجلی کے کڑاکے سے بہت
اس کو قابو میں کیا کرتی تھی ماں بارش میں
میرے کمرے کا مکیں حبس گلا گھونٹتا ہے
کوئی تو رمز اذیت ہے نہاں بارش میں
حمزہ
چھا گیا سر پہ مرے گرد کا دھندلا بادل چھا گیا سر پہ مرے گرد کا دھندلا بادل
اب کے ساون بھی گیا مجھ پہ نہ برسا بادل
سیپ بجھتے ہوئے سورج کی طرف دیکھتے ہیں
کیسی برسات مری جان کہاں کا بادل
وہ بھی دن تھے کہ ٹپکتا تھا چھتوں سے پہروں
اب کے پل بھر بھی منڈیروں پہ نہ ٹھہرا بادل
فرش پر گر کے بکھرتا رہا پارے کی طرح
سبز باغوں میں مرے بعد نہ جھولا بادل
لاکھ چاہا نہ ملی پیار کی پیاسی آغوش
گھر کی دیوار سے سر پھوڑ کے رویا بادل
آج کی شب بھی جہنم میں سلگتے ہی کٹی
آج کی شب بھی تو بوتل سے نہ چھلکا بادل
اب کے ساون بھی گیا مجھ پہ نہ برسا بادل
سیپ بجھتے ہوئے سورج کی طرف دیکھتے ہیں
کیسی برسات مری جان کہاں کا بادل
وہ بھی دن تھے کہ ٹپکتا تھا چھتوں سے پہروں
اب کے پل بھر بھی منڈیروں پہ نہ ٹھہرا بادل
فرش پر گر کے بکھرتا رہا پارے کی طرح
سبز باغوں میں مرے بعد نہ جھولا بادل
لاکھ چاہا نہ ملی پیار کی پیاسی آغوش
گھر کی دیوار سے سر پھوڑ کے رویا بادل
آج کی شب بھی جہنم میں سلگتے ہی کٹی
آج کی شب بھی تو بوتل سے نہ چھلکا بادل
علی






