ہم نے دولت کا بہت نقش گراں دیکھا ہے
آپ کے فقر کی عظمت کو کہاں دیکھا ہے
ثبت ہیں نقش کفِ پا کی تمہارے مہریں
محضر عظمتِ انساں کو جہاں دیکھا ہے
شہر طیبہ کی فضا میں یہ سحر کاری ہے
ہر قدم پر تری عظمت کا نشاں دیکھا ہے
جس نے دنیا میں ترے نقش قدم کو چھوڑا
چشم عالم نے اسے اشکِ فشا دیکھا ہے
جس زمیں پر کھلے الفت کے گلابوں کے چمن
ان کو کب آنکھ نے پاپند خزاں دیکھا ہے
جب کبھی میں نے جگائی ہے جبیں سجدے میں
یاد سے ان کی عجب ربطَ نہاں دیکھا ہے
ان کے اعجاز تکلم کے مقابل وشمہ
سرنگوں شعر کا انداز بیاں دیکھا ہے