Poetries by عبدالرافع (واسیٓ)
رائیگانی مجھے یہ تسلیم کرنے میں شاید عمر لگے
کہ تو جاچکی ہے
تجھے رائیگانی کا اندازہ نہیں ہے
تجھے یاد ہے وہ زمانہ کہ جب
ان پگڈنڈیوں پہ ہمارے قدم بہم چل رہے تھے
تلخ دن بھی محبت کی شاموں میں ڈھل رہے تھے
رگوں میں دھڑکتی ہر دھڑکن
عشق کے سُرود سنا رہی تھی
تو کتنے سپنے سجا رہی تھی کتنے خواب دکھا رہی تھی
تجھے معلوم ہے کہ جب
کیمپس کی سیڑھیوں پر اک جہاں کیے ہوئے تھے
تو کلام کر رہی تھی تو کتنے گماں کیے ہوئے تھے
تو جب بول رہی تھی تو کائنات کی ہر آواز اپنے اندر
تیری آواز سموئے گونج رہی تھی
مگر
جس دم تو نے چپ سادھ لی
تو کتنے خوش گوؤں کے لحجے برباد ہو گئے
وہ جو کان دھرے بیٹھے تھے اِس آس میں کہ
تو بولے اور تیری آواز سے اپنی سماعتوں کا پیٹ بھر سکیں فنا ہو گئے
کیا ستم کہ تو بولی ہی بہت کم تھی !!
اب تو بہت دور جا چکی ہے
تو کہہ دو یہ سب خواب ہے فسانہ ہے
کہہ دو یہ گزرا ہوا زمانہ ہے
تجھے کیا معلوم کہ
میں اپنی شاعری میں ذرہ ذرہ بٹ چکا ہوں
میں اپنی ذات میں قطرہ قطرہ گَھٹ چکا ہوں
اب کہ میں دشت زاروں کی وحشت لیے
اپنے پیروں میں غم باندھے تا بہ گردوں بگولوں کے سائے تلے نوحہءِ رفتگاں گنگنا رہا ہوں
میرے ہاتھ تمہارے لمس کے تشنگی میں جھریوں کا جال بن رہے ہیں
اب تو خزاں رسیدہ پتوں پر بھی پاؤں رکھتے ہوئے ہجر کے نوحے یاد اتے ہیں
نارسائی کا اک دشت ہے جو میری نظموں میں خالی پن پرو رہا ہے
افسوس کہ
نارسائی کے نوحے کسی کی نظرِ سماعت نہ ہوئے
یہ درد لیے بے خانماں دل بجھ گیا ہے
تجھے خبر نہیں لیکن
اس زمینِ ناشناساں پر اس زماں میں
تیرے چلے جانے سے بزم جہاں میں
کچھ بھی پُر مزہ نہیں ہے
تجھے رائیگانی کا اندازہ نہیں ہے عبدالرؤف چانڈیو
کہ تو جاچکی ہے
تجھے رائیگانی کا اندازہ نہیں ہے
تجھے یاد ہے وہ زمانہ کہ جب
ان پگڈنڈیوں پہ ہمارے قدم بہم چل رہے تھے
تلخ دن بھی محبت کی شاموں میں ڈھل رہے تھے
رگوں میں دھڑکتی ہر دھڑکن
عشق کے سُرود سنا رہی تھی
تو کتنے سپنے سجا رہی تھی کتنے خواب دکھا رہی تھی
تجھے معلوم ہے کہ جب
کیمپس کی سیڑھیوں پر اک جہاں کیے ہوئے تھے
تو کلام کر رہی تھی تو کتنے گماں کیے ہوئے تھے
تو جب بول رہی تھی تو کائنات کی ہر آواز اپنے اندر
تیری آواز سموئے گونج رہی تھی
مگر
جس دم تو نے چپ سادھ لی
تو کتنے خوش گوؤں کے لحجے برباد ہو گئے
وہ جو کان دھرے بیٹھے تھے اِس آس میں کہ
تو بولے اور تیری آواز سے اپنی سماعتوں کا پیٹ بھر سکیں فنا ہو گئے
کیا ستم کہ تو بولی ہی بہت کم تھی !!
اب تو بہت دور جا چکی ہے
تو کہہ دو یہ سب خواب ہے فسانہ ہے
کہہ دو یہ گزرا ہوا زمانہ ہے
تجھے کیا معلوم کہ
میں اپنی شاعری میں ذرہ ذرہ بٹ چکا ہوں
میں اپنی ذات میں قطرہ قطرہ گَھٹ چکا ہوں
اب کہ میں دشت زاروں کی وحشت لیے
اپنے پیروں میں غم باندھے تا بہ گردوں بگولوں کے سائے تلے نوحہءِ رفتگاں گنگنا رہا ہوں
میرے ہاتھ تمہارے لمس کے تشنگی میں جھریوں کا جال بن رہے ہیں
اب تو خزاں رسیدہ پتوں پر بھی پاؤں رکھتے ہوئے ہجر کے نوحے یاد اتے ہیں
نارسائی کا اک دشت ہے جو میری نظموں میں خالی پن پرو رہا ہے
افسوس کہ
نارسائی کے نوحے کسی کی نظرِ سماعت نہ ہوئے
یہ درد لیے بے خانماں دل بجھ گیا ہے
تجھے خبر نہیں لیکن
اس زمینِ ناشناساں پر اس زماں میں
تیرے چلے جانے سے بزم جہاں میں
کچھ بھی پُر مزہ نہیں ہے
تجھے رائیگانی کا اندازہ نہیں ہے عبدالرؤف چانڈیو
گماں تھا کہ اس کی محبت تمام ہوئ گماں تھا کہ اس کی محبت تمام ہوئ
اک آواز نے آ کر کہا حضرت تمام ہوئ
جبر ناروا سے رواجوں نے کیا جدا جدا
آنکھیں اتنا روئیں کہ بصارت تمام ہوئ
کیا ہوا آج کل تمہارے غم کم ہونے لگے ؟
مہرباں کیا تیری ہم پر عنایت تمام ہوئ ؟
دو گھڑی کو ملی تھی کوچہِ آرزو میں
آغازِ گفتگو سے پہلے ملاقات تمام ہوئ
خیر سے وداع بھی نہ کیا تجھے ہاۓ
تَذَبذُب کی فضّا میں حالت تمام ہوئ
میں آن پڑا ہوں حلقہِ وحشت کی طرف
بزمِ احباب سے مَژدہ عِشرت تمام ہوئ
یوں کب تلک اداسی کو ہوا دیتا رہوں
دل ہی بجھ گیا اب حسرت تمام ہوئ
اے خدایا ! تجھے یہ تیری دنیا مبارک
ہماری دنیا سے اب حجت تمام ہوئ
تھکا دیا ہمیں دو دن کی مسافت نے
زندگی بس کہ تیری اب مدت تمام ہوئ عبد الرافع
اک آواز نے آ کر کہا حضرت تمام ہوئ
جبر ناروا سے رواجوں نے کیا جدا جدا
آنکھیں اتنا روئیں کہ بصارت تمام ہوئ
کیا ہوا آج کل تمہارے غم کم ہونے لگے ؟
مہرباں کیا تیری ہم پر عنایت تمام ہوئ ؟
دو گھڑی کو ملی تھی کوچہِ آرزو میں
آغازِ گفتگو سے پہلے ملاقات تمام ہوئ
خیر سے وداع بھی نہ کیا تجھے ہاۓ
تَذَبذُب کی فضّا میں حالت تمام ہوئ
میں آن پڑا ہوں حلقہِ وحشت کی طرف
بزمِ احباب سے مَژدہ عِشرت تمام ہوئ
یوں کب تلک اداسی کو ہوا دیتا رہوں
دل ہی بجھ گیا اب حسرت تمام ہوئ
اے خدایا ! تجھے یہ تیری دنیا مبارک
ہماری دنیا سے اب حجت تمام ہوئ
تھکا دیا ہمیں دو دن کی مسافت نے
زندگی بس کہ تیری اب مدت تمام ہوئ عبد الرافع
زندگی بس کہ تیری اب مدت تمام ہوئی گماں تھا کہ اس کی محبت تمام ہوئی
اک آواز نے آ کر کہا حضرت تمام ہوئی
جبر ناروا سے رواجوں نے کیا جدا جدا
آنکھیں اتنا روئیں کہ بصارت تمام ہوئی
کیا ہوا آج کل تمہارے غم کم ہونے لگے
مہرباں کیا تیری ہم پر عنایت تمام ہوئی
دو گھڑی کو ملی تھی کوچہِ آرزو میں
آغازِ گفتگو سے پہلے ملاقات تمام ہوئی
خیر سے وداع بھی نہ کیا تجھے ہاۓ
تَذَبذُب کی فضّا میں حالت تمام ہوئی
میں آن پڑا ہوں حلقہِ وحشت کی طرف
بزمِ احباب سے مَژدہ عِشرت تمام ہوئی
یوں کب تلک اداسی کو ہوا دیتا رہوں
دل ہی بجھ گیا اب حسرت تمام ہوئی
اے خدایا ! تجھے یہ تیری دنیا مبارک
ہماری دنیا سے اب حجت تمام ہوئی
تھکا دیا ہمیں دو دن کی مسافت نے
زندگی بس کہ تیری اب مدت تمام ہوئی عبدالرافع (واسیٓ)
اک آواز نے آ کر کہا حضرت تمام ہوئی
جبر ناروا سے رواجوں نے کیا جدا جدا
آنکھیں اتنا روئیں کہ بصارت تمام ہوئی
کیا ہوا آج کل تمہارے غم کم ہونے لگے
مہرباں کیا تیری ہم پر عنایت تمام ہوئی
دو گھڑی کو ملی تھی کوچہِ آرزو میں
آغازِ گفتگو سے پہلے ملاقات تمام ہوئی
خیر سے وداع بھی نہ کیا تجھے ہاۓ
تَذَبذُب کی فضّا میں حالت تمام ہوئی
میں آن پڑا ہوں حلقہِ وحشت کی طرف
بزمِ احباب سے مَژدہ عِشرت تمام ہوئی
یوں کب تلک اداسی کو ہوا دیتا رہوں
دل ہی بجھ گیا اب حسرت تمام ہوئی
اے خدایا ! تجھے یہ تیری دنیا مبارک
ہماری دنیا سے اب حجت تمام ہوئی
تھکا دیا ہمیں دو دن کی مسافت نے
زندگی بس کہ تیری اب مدت تمام ہوئی عبدالرافع (واسیٓ)