Poetries by Aisha Baig Aashi
ہوا سے خوشبو چرا رہی ہوں ہوا سے خوشبو چرا رہی ہوں
دریچے دل کے سجا رہی ہوں
جو میری سوچوں کو روشنی دیں
نظر میں سورج اُگا رہی ہوں
سخن کی شاخِ خیالِ نو پر
میں رنگ و خوشبو کِھلا رہی ہوں
سجا کے حرفوں میں چاند تارے
رُخِ غزل جگمگا رہی ہوں
کشید کر کے گُلوں سے رنگت
دھنک زمیں پر سجا رہی ہُوں
حصار کر کے محبتوں کا
دِیے ہوا میں جلا رہی ہوں
ازل سے آبِ حیات عاشی
امیدِ جاں کو پلا رہی ہوں aisha baig aashi
دریچے دل کے سجا رہی ہوں
جو میری سوچوں کو روشنی دیں
نظر میں سورج اُگا رہی ہوں
سخن کی شاخِ خیالِ نو پر
میں رنگ و خوشبو کِھلا رہی ہوں
سجا کے حرفوں میں چاند تارے
رُخِ غزل جگمگا رہی ہوں
کشید کر کے گُلوں سے رنگت
دھنک زمیں پر سجا رہی ہُوں
حصار کر کے محبتوں کا
دِیے ہوا میں جلا رہی ہوں
ازل سے آبِ حیات عاشی
امیدِ جاں کو پلا رہی ہوں aisha baig aashi
اندھیروں کو جبینِ دہر سے اب دُور ہونا ہے اندھیروں کو جبینِ دہر سے اب دُور ہونا ہے
نئے سُورج کی خاطر آسماں میں بیج بونا ہے
وطن کی سرزمیں کو، نسلِ کہنہ زخم دے بیٹھی
ہمیں ہر زخم بھرنا ہے، ہمیں ہر داغ دھونا ہے
وجُودِ نصف اپنا سازشوں میں کٹ چکا صد حیف!
وہی سازش کی رُت ہے ، پر نہیں اب، کچھ بھی کھونا ہے
لسانیّت کی بنیادوں پہ کیوں تقسیم کرتے ہو
ہمیں زنجیرِ پاکستان میں سب کو پرونا ہے
مصمَّم عزم سے کرنی ہے ہم کو جستجو لوگو
اسی مٹّی میں ہیرے ہیں، اسی مٹّی میں سونا ہے
مقدّم سب پہ رکھنا ہے، مفادِ ملک و ملّت کو
یہی قائد کا کہنا ہے، یہی عاشی کا رونا ہے aisha baig aashi
نئے سُورج کی خاطر آسماں میں بیج بونا ہے
وطن کی سرزمیں کو، نسلِ کہنہ زخم دے بیٹھی
ہمیں ہر زخم بھرنا ہے، ہمیں ہر داغ دھونا ہے
وجُودِ نصف اپنا سازشوں میں کٹ چکا صد حیف!
وہی سازش کی رُت ہے ، پر نہیں اب، کچھ بھی کھونا ہے
لسانیّت کی بنیادوں پہ کیوں تقسیم کرتے ہو
ہمیں زنجیرِ پاکستان میں سب کو پرونا ہے
مصمَّم عزم سے کرنی ہے ہم کو جستجو لوگو
اسی مٹّی میں ہیرے ہیں، اسی مٹّی میں سونا ہے
مقدّم سب پہ رکھنا ہے، مفادِ ملک و ملّت کو
یہی قائد کا کہنا ہے، یہی عاشی کا رونا ہے aisha baig aashi
سرد رنگ کے موتی سرد رنگ کے موتی
سوچ آسمانوں سے
دل کی پیاسی دھرتی پر
اس طرح اترتے ہیں
زندگی کی شاخوں کو
جگمگانے لگتتے ہیں
زندگی کے گلشن کے
سرخ رُو گلابوں کو
دان تازگی کر کے
مسکرانے لگتے ہیں
زندگی کے چہرے سے
وقت کی تمازت کو
درد کی کثافت کو
اپنی خوشنمائی سے
تازگی لطافت سے
خوشنما بناتے ہیں
سرد رنگ کے موتی
تیری یاد ہوں جیسے Aisha Baig Aashi
سوچ آسمانوں سے
دل کی پیاسی دھرتی پر
اس طرح اترتے ہیں
زندگی کی شاخوں کو
جگمگانے لگتتے ہیں
زندگی کے گلشن کے
سرخ رُو گلابوں کو
دان تازگی کر کے
مسکرانے لگتے ہیں
زندگی کے چہرے سے
وقت کی تمازت کو
درد کی کثافت کو
اپنی خوشنمائی سے
تازگی لطافت سے
خوشنما بناتے ہیں
سرد رنگ کے موتی
تیری یاد ہوں جیسے Aisha Baig Aashi
مجھے کچھ وقت دو جاناں ذرا ٹھہرو
مجھے کچھ وقت دو جاناں
مرے کچھ خواب آئینے
سرِ تعبیر ٹوٹے تھے
میں انکی کرچیاں چن لوں
انہی پر خار راہوں نے
مرے ارمان لوٹے تھے
میں انکی دھجیاں چن لوں
مرے کچھ مان ٹوٹے تھے
میں انکی سسکیاں سن لوں
مری تقدیر کی مالا کے موتی بھی
تمناؤں کی راہوں میں
بِنا آواز بکھرے تھے
ذرا یہ سب سمٹ جائے
تو اپنے زخمی ہاتھوں سے
بنا کر اک لحَد انکی
پھر اس میں دفن انہیں کر لوں
تو سکھ کا سانس لینے کو
جبینِ نارسا کو اک نئی تقدیر دینے کو
تمہارے ساتھ چلتی ہوں Aisha Baig Aashi
مجھے کچھ وقت دو جاناں
مرے کچھ خواب آئینے
سرِ تعبیر ٹوٹے تھے
میں انکی کرچیاں چن لوں
انہی پر خار راہوں نے
مرے ارمان لوٹے تھے
میں انکی دھجیاں چن لوں
مرے کچھ مان ٹوٹے تھے
میں انکی سسکیاں سن لوں
مری تقدیر کی مالا کے موتی بھی
تمناؤں کی راہوں میں
بِنا آواز بکھرے تھے
ذرا یہ سب سمٹ جائے
تو اپنے زخمی ہاتھوں سے
بنا کر اک لحَد انکی
پھر اس میں دفن انہیں کر لوں
تو سکھ کا سانس لینے کو
جبینِ نارسا کو اک نئی تقدیر دینے کو
تمہارے ساتھ چلتی ہوں Aisha Baig Aashi
گلاب رت کے حصار میں ہوں سنو سہیلی
وہ عہدِ رفتہ
دھواں دھواں تھا ہر ایک رستہ
نشانِ منزل کہیں نہیں تھا
امید آنگن میں دھندلکے تھے
مری نگاہوں میں خواب موسم ٹھہر چکے تھے
کہ جن کی تعبیر پر تھی بندش
بھٹک رہی تھی میں وحشتوں میں اذیتوں میں
وہیں ملا تھا سکون پیکر
گئی رتوں میں جو خواب سا تھا
جو شاعری کی کتاب سا تھا
سوال بن کر جواب سا تھا
وہ دھوپ رت میں سحاب سا تھا
سنو سہیلی
وہ ایک لمحے میں سال جیسا
مصوروں کے خیال جیسا
وہ جگنوؤں کی مثال جیسا
وہ روٹھے سورج کے ٹھنڈے میٹھے زوال جیسا
وہ دشتِ تشنہ میں نم گلابوں کی شال جیسا
مجسمِ جاں ہوا مخاطب
سنو مری کائناتِ بےکل
سنو اگر تم ہو ساتھ میرے
تو تھام لو آکے ہاتھ میرے
سلگتے سورج کو چاند کر دوں
میں اس کی حدّت کو ماند کر دوں
میں صورتِ ابر تم پہ سایہ فگن رہوں گا
تمہارے خوابوں کو میں حقیقت کا روپ دوں گا
تمہارے جیون کے بجھتے رنگوں کو اپنی خوشبو کے رنگ دوں گا
سکوتِ دل کو میں دھڑکنوں کی ترنگ دوں گا
تمہاری آنکھوں کو روشنی کی امنگ دوں گا
سنو سہیلی
وہ آج میرا ہے صرف میرا
میں سر بسراسکے پیار میں ہوں
گلاب رت کے حصار میں ہوں Aisha Baig Aashi
وہ عہدِ رفتہ
دھواں دھواں تھا ہر ایک رستہ
نشانِ منزل کہیں نہیں تھا
امید آنگن میں دھندلکے تھے
مری نگاہوں میں خواب موسم ٹھہر چکے تھے
کہ جن کی تعبیر پر تھی بندش
بھٹک رہی تھی میں وحشتوں میں اذیتوں میں
وہیں ملا تھا سکون پیکر
گئی رتوں میں جو خواب سا تھا
جو شاعری کی کتاب سا تھا
سوال بن کر جواب سا تھا
وہ دھوپ رت میں سحاب سا تھا
سنو سہیلی
وہ ایک لمحے میں سال جیسا
مصوروں کے خیال جیسا
وہ جگنوؤں کی مثال جیسا
وہ روٹھے سورج کے ٹھنڈے میٹھے زوال جیسا
وہ دشتِ تشنہ میں نم گلابوں کی شال جیسا
مجسمِ جاں ہوا مخاطب
سنو مری کائناتِ بےکل
سنو اگر تم ہو ساتھ میرے
تو تھام لو آکے ہاتھ میرے
سلگتے سورج کو چاند کر دوں
میں اس کی حدّت کو ماند کر دوں
میں صورتِ ابر تم پہ سایہ فگن رہوں گا
تمہارے خوابوں کو میں حقیقت کا روپ دوں گا
تمہارے جیون کے بجھتے رنگوں کو اپنی خوشبو کے رنگ دوں گا
سکوتِ دل کو میں دھڑکنوں کی ترنگ دوں گا
تمہاری آنکھوں کو روشنی کی امنگ دوں گا
سنو سہیلی
وہ آج میرا ہے صرف میرا
میں سر بسراسکے پیار میں ہوں
گلاب رت کے حصار میں ہوں Aisha Baig Aashi
ترا خیال کریں ایسے اُستوار آنکھیں ترا خیال کریں ایسے اُستوار آنکھیں
فضا میں رقص کیے جائیں بے قرار آنکھیں
از اتفاق ملا لمسِ جاں کا جو لمحہ!
اُسی کو سوچتی رہتی ہیں بار بار آنکھیں
یہ تارِ نُورِ نظر ہے تجھی سے وابستہ
تری نظر پہ ہی کرتی ہیں انحصار آنکھیں
ترے سِوا نہ شبِیہ اور دیکھتیں کوائی
مکینِ فکر جو ہوتیں خود اختیار آنکھیں
بھروسہ کرتی نہیں ہیں کسی پہ دنیا میں
جہاں میں کرتی ہیں بس تجھ پہ انحصار آنکھیں
غزل غزل میں محبت کی روشنی بھر دیں
ہر ایک شعر کی جاں تیری حرف زار آنکھیں
ہے یاد عاشی وہ پل پہلی بار ملنے کا
ٹھہر گئیں مرے چہرے پہ بن کے پیار آنکھیں Aisha Baig Aashi
فضا میں رقص کیے جائیں بے قرار آنکھیں
از اتفاق ملا لمسِ جاں کا جو لمحہ!
اُسی کو سوچتی رہتی ہیں بار بار آنکھیں
یہ تارِ نُورِ نظر ہے تجھی سے وابستہ
تری نظر پہ ہی کرتی ہیں انحصار آنکھیں
ترے سِوا نہ شبِیہ اور دیکھتیں کوائی
مکینِ فکر جو ہوتیں خود اختیار آنکھیں
بھروسہ کرتی نہیں ہیں کسی پہ دنیا میں
جہاں میں کرتی ہیں بس تجھ پہ انحصار آنکھیں
غزل غزل میں محبت کی روشنی بھر دیں
ہر ایک شعر کی جاں تیری حرف زار آنکھیں
ہے یاد عاشی وہ پل پہلی بار ملنے کا
ٹھہر گئیں مرے چہرے پہ بن کے پیار آنکھیں Aisha Baig Aashi
صورتِ ابر مرے سر پہ رہا کرتا ہے صورتِ ابر مرے سر پہ رہا کرتا ہے
دُھوپ کو میرے بدن سے وہ جدا کرتا ہے
اپنے پیکر میں جیا کرتی ہے دنیا لیکن
وہ عجب شخص ہے وہ مجھ میں جیا کرتا ہے
پاس رہ کر بھی رفاقت نہیں مل پاتی کبھی
دُور، رہ کر بھی مرے ساتھ رہا کرتا ہے
اس سے پہلے کہ کوئی حرف دے لب پر دستک
وہ مری ان کہی ہر بات سنا کرتا ہے
جب بھی ہوتی ہے شبِ زیست میں تاریکی سی
بن کے مہتاب مری شب میں ضیا کرتا ہے
سارے جذبوں کی محبت کی چمک ہو جن میں
اُن ستاروں سے مری مانگ بھرا کرتا ہے
زخم کیسا ہی ہو دیتا ہی نہیں درد مجھے
درد سے پہلے ہی وہ اُسکی دوا کرتا ہے
ایسا لگتا ہے کہ تھم جائیں گی سانسیں میری
کوئی پل کو جو وہ خاموش ہُوا کرتا ہے
کیوں نہ عاشی میں غرور اپنے مقدر پہ کروں
اِس قدر پیار بھلا کس کو ملا کرتا ہے Aisha Baig Aashi
دُھوپ کو میرے بدن سے وہ جدا کرتا ہے
اپنے پیکر میں جیا کرتی ہے دنیا لیکن
وہ عجب شخص ہے وہ مجھ میں جیا کرتا ہے
پاس رہ کر بھی رفاقت نہیں مل پاتی کبھی
دُور، رہ کر بھی مرے ساتھ رہا کرتا ہے
اس سے پہلے کہ کوئی حرف دے لب پر دستک
وہ مری ان کہی ہر بات سنا کرتا ہے
جب بھی ہوتی ہے شبِ زیست میں تاریکی سی
بن کے مہتاب مری شب میں ضیا کرتا ہے
سارے جذبوں کی محبت کی چمک ہو جن میں
اُن ستاروں سے مری مانگ بھرا کرتا ہے
زخم کیسا ہی ہو دیتا ہی نہیں درد مجھے
درد سے پہلے ہی وہ اُسکی دوا کرتا ہے
ایسا لگتا ہے کہ تھم جائیں گی سانسیں میری
کوئی پل کو جو وہ خاموش ہُوا کرتا ہے
کیوں نہ عاشی میں غرور اپنے مقدر پہ کروں
اِس قدر پیار بھلا کس کو ملا کرتا ہے Aisha Baig Aashi
سوچ گلیوں میں الجھنیں دیکھوں سوچ گلیوں میں الجھنیں دیکھوں
سہمی سہمی سی خواہشیں دیکھوں
دشتِ اُمید کے بگُولوں کی
شدیتیں دیکھوں! وحشتیں دیکھوں!
رَوِشِ نَبضِ وقت دیکھوں یا
دم بہ لب دل کی دھڑکنیں دیکھوں
خواب نگری میں تیری خوشبو کی
بھینی بھینی سی آہٹیں دیکھوں
وعدہ ء خُلد اب وفا کر دے
اور کتنی قیامتیں دیکھوں
حُجلہ ء جاں میں ہر طرف عاشی
حِرزِ جاں کی محبتیں دیکھوں Aisha Baig Aashi
سہمی سہمی سی خواہشیں دیکھوں
دشتِ اُمید کے بگُولوں کی
شدیتیں دیکھوں! وحشتیں دیکھوں!
رَوِشِ نَبضِ وقت دیکھوں یا
دم بہ لب دل کی دھڑکنیں دیکھوں
خواب نگری میں تیری خوشبو کی
بھینی بھینی سی آہٹیں دیکھوں
وعدہ ء خُلد اب وفا کر دے
اور کتنی قیامتیں دیکھوں
حُجلہ ء جاں میں ہر طرف عاشی
حِرزِ جاں کی محبتیں دیکھوں Aisha Baig Aashi
حسیں کردار سی آنکھیں حسیں کردار سی آنکھیں
وہ خوش گفتار سی آنکھیں
نگہباں ہیں محبت کی
درو دیوار سی آنکھیں
نمیدہ شبنمی گل پوش
گُل و گُلزار سی آنکھیں
دہکتی دھوپ میں ٹھنڈک
گھنے اشجار سی آنکھیں
خزینہ ہیں وہ یادوں کا
حسیں پندار سی آنکھیں
حکایت ہیں خموشی کی
وہی اقرار سی آنکھیں
گھٹا پلکوں پہ رکھتی ہیں
ابد امطار سی آنکھیں
کمالِ حسن و رعنائی
سخن اشعار سی آنکھیں
کتابِ درد کے اوراق
حسیں افگار سی آنکھیں
خموشی خوش خیالی سی
صبا اظہار سی آنکھیں
ہیں عاشی ہست کا صحرا
میری سنسار سی آنکھیں Aisha Baig Aashi
وہ خوش گفتار سی آنکھیں
نگہباں ہیں محبت کی
درو دیوار سی آنکھیں
نمیدہ شبنمی گل پوش
گُل و گُلزار سی آنکھیں
دہکتی دھوپ میں ٹھنڈک
گھنے اشجار سی آنکھیں
خزینہ ہیں وہ یادوں کا
حسیں پندار سی آنکھیں
حکایت ہیں خموشی کی
وہی اقرار سی آنکھیں
گھٹا پلکوں پہ رکھتی ہیں
ابد امطار سی آنکھیں
کمالِ حسن و رعنائی
سخن اشعار سی آنکھیں
کتابِ درد کے اوراق
حسیں افگار سی آنکھیں
خموشی خوش خیالی سی
صبا اظہار سی آنکھیں
ہیں عاشی ہست کا صحرا
میری سنسار سی آنکھیں Aisha Baig Aashi
غزل کی دھڑکن سخن کی روشن جبین ہُوں میں غزل کی دھڑکن سخن کی روشن جبین ہُوں میں
میں استعارہ نہیں , مکمل یقین ہُوں میں
وفا کی فصلوں کی آبیاری سرشت میری
صداقتوں کی محبتوں کی زمین ہُوں میں
فلک سے اُوپر بھی دیکھوں پاتال میں بھی دیکھوں
عجیب وحشت مزاج حساس بین ہُوں میں
غریقِ جلوت خیال میں ماوریٰ نظر سے
کہ ظاہراً ہر نظر میں خلوت نشین ہوں میں
کشش زمیں کی نہ کھینچ پائے وجود میرا
زمین سے دُور ہُوں خلا کی مکین ہُوں میں
مجھے تراشا ہے جس نے عاشی اُسی نظر نے
یقیں دیا ہے سخن کی صورت حسین ہُوں میں Aisha Baig Aashi
میں استعارہ نہیں , مکمل یقین ہُوں میں
وفا کی فصلوں کی آبیاری سرشت میری
صداقتوں کی محبتوں کی زمین ہُوں میں
فلک سے اُوپر بھی دیکھوں پاتال میں بھی دیکھوں
عجیب وحشت مزاج حساس بین ہُوں میں
غریقِ جلوت خیال میں ماوریٰ نظر سے
کہ ظاہراً ہر نظر میں خلوت نشین ہوں میں
کشش زمیں کی نہ کھینچ پائے وجود میرا
زمین سے دُور ہُوں خلا کی مکین ہُوں میں
مجھے تراشا ہے جس نے عاشی اُسی نظر نے
یقیں دیا ہے سخن کی صورت حسین ہُوں میں Aisha Baig Aashi
آخری کوئی پل نہیں ہوتا آخری کوئی پل نہیں ہوتا
ہر کسی کا بدل نہیں ہوتا
گردشِ فکر اک معمہ ہے
جو کسی طور حل نہیں ہوتا
جن درختوں کا ہوتا ہے سایہ
اُن کی قسمت میں پھل نہیں ہوتا
فکرِامرُوز ہو جنہیں ہر پل
اُن کے ہاتھوں میں کل نہیں ہوتا
سحر انگیز حرف ہوتے نہیں
تُو! جو جانِ غزل نہیں ہوتا
ایک سا پانی ساری جھیلوں میں
ہر کسی میں کنول نہیں ہوتا
زندگی نے سکھایا ہے عاشی
حرف کوئی اٹل نہیں ہوتا Aisha Baig Aashi
ہر کسی کا بدل نہیں ہوتا
گردشِ فکر اک معمہ ہے
جو کسی طور حل نہیں ہوتا
جن درختوں کا ہوتا ہے سایہ
اُن کی قسمت میں پھل نہیں ہوتا
فکرِامرُوز ہو جنہیں ہر پل
اُن کے ہاتھوں میں کل نہیں ہوتا
سحر انگیز حرف ہوتے نہیں
تُو! جو جانِ غزل نہیں ہوتا
ایک سا پانی ساری جھیلوں میں
ہر کسی میں کنول نہیں ہوتا
زندگی نے سکھایا ہے عاشی
حرف کوئی اٹل نہیں ہوتا Aisha Baig Aashi
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے مجھ کو جنت میں چاہے نہ جینا ملے
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے
تیرگی سے اجالوں کے دستور تک
ہر طرف روشنی ہو جہاں دور تک
لے چلے جو مجھے ساحلِ نور تک
بحرِ ہجرت میں ایسا سفینہ ملے
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے
بے عمل عشقِ کامل نہ کہلا سکے
یہ دیوانی بھی دربار تک جا سکے
سنت و سیرتِ شاہ اپنا سکے
اِس کو جینے کا احسن قرینہ ملے
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے
اُجڑی اُجڑی ہوئی زندگی ہے یہاں
آتشِ ہجر کا ہے دھواں ہی دھواں
میرے آقا بدل جائے میرا جہاں
یثربی زندگی کو وہ زینہ ملے
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے
سامنے ہو سدا قریہ ء مصطفیٰ
وا کرُوں تو ملے روضہ ء مصطفیٰ
بند ہوں تو ملے جلوہ ء مصطفیٰ
پُتلیوں کو وہ اِک آبگینہ ملے
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے
جاہ و حشمت مری آرزو ہی نہیں
تُزک و رفعت مری جستجو ہی نہیں
زر پرستی تو عاشی کی خو ہی نہیں
صرف نعتِ نبی کا خزینہ ملے
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے Aisha Baig Aashi
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے
تیرگی سے اجالوں کے دستور تک
ہر طرف روشنی ہو جہاں دور تک
لے چلے جو مجھے ساحلِ نور تک
بحرِ ہجرت میں ایسا سفینہ ملے
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے
بے عمل عشقِ کامل نہ کہلا سکے
یہ دیوانی بھی دربار تک جا سکے
سنت و سیرتِ شاہ اپنا سکے
اِس کو جینے کا احسن قرینہ ملے
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے
اُجڑی اُجڑی ہوئی زندگی ہے یہاں
آتشِ ہجر کا ہے دھواں ہی دھواں
میرے آقا بدل جائے میرا جہاں
یثربی زندگی کو وہ زینہ ملے
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے
سامنے ہو سدا قریہ ء مصطفیٰ
وا کرُوں تو ملے روضہ ء مصطفیٰ
بند ہوں تو ملے جلوہ ء مصطفیٰ
پُتلیوں کو وہ اِک آبگینہ ملے
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے
جاہ و حشمت مری آرزو ہی نہیں
تُزک و رفعت مری جستجو ہی نہیں
زر پرستی تو عاشی کی خو ہی نہیں
صرف نعتِ نبی کا خزینہ ملے
بس مدینہ مدینہ مدینہ ملے Aisha Baig Aashi
محبت بانجھ ہوتی ہے کبھی یہ پھل نہیں دیتی خوشی کا اور راحت کا کبھی اِک پل نہیں دیتی
سدا بےچین رکھتی ہے محبت کل نہیں دیتی
وفا بِیجو، یقیں بِیجو، خلوص ایثار بھی بِیجو
محبت بانجھ ہوتی ہے کبھی یہ پھل نہیں دیتی
محبت کی ندی میں ڈُوب کر بھی ہم رہے تِشنہ
یہ کوئی آبِ زمزم کوئی گنگا جل نہیں دیتی
گھٹن ہے حبس ہے اور چلچلاتی دھوپ ہے ہر سو
عجب ساون کی رُت ہے بُوند بھر بادل نہیں دیتی
محبت کر کے عاشی اب سبھی سوچوں پہ پہرے ہیں
نویدِ جاں فزا امید کی کونپل نہیں دیتی Aisha Baig Aashi
سدا بےچین رکھتی ہے محبت کل نہیں دیتی
وفا بِیجو، یقیں بِیجو، خلوص ایثار بھی بِیجو
محبت بانجھ ہوتی ہے کبھی یہ پھل نہیں دیتی
محبت کی ندی میں ڈُوب کر بھی ہم رہے تِشنہ
یہ کوئی آبِ زمزم کوئی گنگا جل نہیں دیتی
گھٹن ہے حبس ہے اور چلچلاتی دھوپ ہے ہر سو
عجب ساون کی رُت ہے بُوند بھر بادل نہیں دیتی
محبت کر کے عاشی اب سبھی سوچوں پہ پہرے ہیں
نویدِ جاں فزا امید کی کونپل نہیں دیتی Aisha Baig Aashi
شوق خواہشاتی ہے شوق خواہشاتی ہے
ضبط معجزاتی ہے
رابطہ نہیں ٹُوٹا
دل مواصلاتی ہے
صبح دم تری خوشبو
بادِ صبح لاتی ہے
دل سے تُو کبھی اُترے
غیر ممکناتی ہے
تُو شمار سے باہر
جگ معاملاتی ہے
دیکھ بے بسی میری
مجھ پہ مسکراتی ہے
یاد، شام، جھیل اور تُو
آنکھ ڈُبڈباتی ہے
خاک، باد، آب، آتش
پر! تصوراتی ہے
آسمان تک دیوار
مصلحت اُٹھاتی ہے
آرزوئے جاں عاشی
کس قدر ستاتی ہے Aisha Baig Aashi
ضبط معجزاتی ہے
رابطہ نہیں ٹُوٹا
دل مواصلاتی ہے
صبح دم تری خوشبو
بادِ صبح لاتی ہے
دل سے تُو کبھی اُترے
غیر ممکناتی ہے
تُو شمار سے باہر
جگ معاملاتی ہے
دیکھ بے بسی میری
مجھ پہ مسکراتی ہے
یاد، شام، جھیل اور تُو
آنکھ ڈُبڈباتی ہے
خاک، باد، آب، آتش
پر! تصوراتی ہے
آسمان تک دیوار
مصلحت اُٹھاتی ہے
آرزوئے جاں عاشی
کس قدر ستاتی ہے Aisha Baig Aashi
میں نے تو کبھی گھر کے ملازِم نہیں بدلے پر کیف ہیں اندازِ مکارِم نہیں بدلے
اُترے تھے جو اس دل میں وہ موسِم نہیں بدلے
گو! کُوچہ ء جاناں کے بدلتے رہے حالات
لیکن ! دلِ جاناں کے مراسِم نہیں بدلے
نیرنگی ء دوراں تھی کہ نیرنگی ء پیماں
ہم اپنی زباں پر رہے قائم ۔۔۔۔۔۔ نہیں بدلے
اس گھر کی میں بنیاد ہی کسطرح بدل دُوں
میں نے تو کبھی گھر کے ملازِم نہیں بدلے
رشتوں کا بھرم رکھنے کو قربانی ء جذبات
اے عشق ! ترے اب بھی لوازِم نہیں بدلے
عُشاق تفاسیر بناتے رہے اپنی
آیاتِ محبت کے تراجِم نہیں بدلے
شعلے بھی ہیں، کانٹے بھی ہیں ، پتھر بھی ہیں عاشی
منزل پہ پہنچنے کے عزائِم نہیں بدلے Aisha Baig Aashi
اُترے تھے جو اس دل میں وہ موسِم نہیں بدلے
گو! کُوچہ ء جاناں کے بدلتے رہے حالات
لیکن ! دلِ جاناں کے مراسِم نہیں بدلے
نیرنگی ء دوراں تھی کہ نیرنگی ء پیماں
ہم اپنی زباں پر رہے قائم ۔۔۔۔۔۔ نہیں بدلے
اس گھر کی میں بنیاد ہی کسطرح بدل دُوں
میں نے تو کبھی گھر کے ملازِم نہیں بدلے
رشتوں کا بھرم رکھنے کو قربانی ء جذبات
اے عشق ! ترے اب بھی لوازِم نہیں بدلے
عُشاق تفاسیر بناتے رہے اپنی
آیاتِ محبت کے تراجِم نہیں بدلے
شعلے بھی ہیں، کانٹے بھی ہیں ، پتھر بھی ہیں عاشی
منزل پہ پہنچنے کے عزائِم نہیں بدلے Aisha Baig Aashi
دریا ہوئی ہے آنکھ تو صحرا ہوا ہے دل دریا ہوئی ہے آنکھ تو صحرا ہوا ہے دل
کس کیفِ بے مراد میں ٹھہرا ہوا ہے دل
فولادِ غم نکالے گا دریائے دل سے کون
اب تو سمندروں سے بھی گہرا ہوا ہے دل
عکاسِ دردِ عالمِ کُل یونہی کب ہُوا
بھٹی میں صدیوں جل کے سنہرا ہُوا ہے دل
دھڑکن کی آرزو کوبھلا کس طرح سنے
سیسا بگوش یاس ہے ، بہرا ہوا ہے دل
اے کاش بے سبب نہ مچلتا، سنبھلتا کچھ
عاشی کا انتباہ تھا، پہرہ ہوا ہے ! دل Aisha Baig Aashi
کس کیفِ بے مراد میں ٹھہرا ہوا ہے دل
فولادِ غم نکالے گا دریائے دل سے کون
اب تو سمندروں سے بھی گہرا ہوا ہے دل
عکاسِ دردِ عالمِ کُل یونہی کب ہُوا
بھٹی میں صدیوں جل کے سنہرا ہُوا ہے دل
دھڑکن کی آرزو کوبھلا کس طرح سنے
سیسا بگوش یاس ہے ، بہرا ہوا ہے دل
اے کاش بے سبب نہ مچلتا، سنبھلتا کچھ
عاشی کا انتباہ تھا، پہرہ ہوا ہے ! دل Aisha Baig Aashi
سینے میں تھا جو دل وہ ہمارا نہیں رہا اب دھڑکنوں کا اِس پہ اجارہ نہیں رہا
سینے میں تھا جو دل وہ ہمارا نہیں رہا
دریا کے پار پھر ہُوا دریا کا سامنا
اب پانیوں کا کوئی کنارہ نہیں رہا
یُوں ابر آسمانِ تحیُر پہ چھاگئے
تسکین کا تو ایک بھی تارا نہیں رہا
بے خوف دل کی راکھ میں اب ہاتھ پھیر لو
چنگاری کوئی، کوئی شرارہ نہیں رہا
جذبِ نہاں عیاں ہو، مجھے بس تمام دے
اب میرا بے بسی سے گزارا نہیں رہا
ٹوٹی ہُوئی عمارتِ جاں کیسے ٹھیک ہو
اِک اینٹ بھی لگانے کو گارا نہیں رہا
اب مطمئن ہُوں سونپ کے تقدیر کو میں سب
ہونے کو، کوئی بھی تو خسارہ نہیں رہا
عاشی نہ جانے کس گھڑی گِر جائے آسمان
تھامے تھا جو فلک، وہ سہارا نہیں رہا
دل کے آپریشن کے بعد ہوش میں آتے ہی آئی سی یو میں کہی گئی غزل Aisha Baig Aashi
سینے میں تھا جو دل وہ ہمارا نہیں رہا
دریا کے پار پھر ہُوا دریا کا سامنا
اب پانیوں کا کوئی کنارہ نہیں رہا
یُوں ابر آسمانِ تحیُر پہ چھاگئے
تسکین کا تو ایک بھی تارا نہیں رہا
بے خوف دل کی راکھ میں اب ہاتھ پھیر لو
چنگاری کوئی، کوئی شرارہ نہیں رہا
جذبِ نہاں عیاں ہو، مجھے بس تمام دے
اب میرا بے بسی سے گزارا نہیں رہا
ٹوٹی ہُوئی عمارتِ جاں کیسے ٹھیک ہو
اِک اینٹ بھی لگانے کو گارا نہیں رہا
اب مطمئن ہُوں سونپ کے تقدیر کو میں سب
ہونے کو، کوئی بھی تو خسارہ نہیں رہا
عاشی نہ جانے کس گھڑی گِر جائے آسمان
تھامے تھا جو فلک، وہ سہارا نہیں رہا
دل کے آپریشن کے بعد ہوش میں آتے ہی آئی سی یو میں کہی گئی غزل Aisha Baig Aashi