✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
nadeem
Search
Add Poetry
Poetries by nadeem
نہ شیخ کا ہے تذکرہ نہ برہمن کی بات ہے
نہ شیخ کا ہے تذکرہ نہ برہمن کی بات ہے
مِری زباں پہ چند اہلِ مکر و فن کی بات ہے
کسی پہ گل کی بارشیں کسی کو خار و خس ملے
یہ باغباں کا ظرف ہے چمن چمن کی بات ہے
کسی کو خُم کے خم ملے، کوئی ترس کے رہ گیا
ہٹاؤ جانے دو تمہاری انجمن کی بات ہے
جو بو الہوس تھے ان کو تم وفا پرست کہتے ہو
چلو یہی سہی تمہارے حسنِ ظن کی بات ہے
وفا کرو جفا ملے، بھلا کرو برا ملے
ہے ریت دیش دیش کی چلن چلن کی بات ہے
ستم بھی اخترؔ اپنوں سے جو ہوں تو بھول جائیے
بھلی ہو یا بری سب اپنے ہی وطن کی بات ہے
Nadeem Ahmad
Copy
تمہاری بزم کی یوں آبرو بڑھا کے چلے
تمہاری بزم کی یوں آبرو بڑھا کے چلے
پئے بغیر ہی ہم پاؤں لڑکھڑا کے چلے
یہ مَے پرست مئے ناب پی کے بہکیں گے
نگاہِ ساقی سے ہم تو نظر ملا کے چلے
تمہاری راہ بھی تاریکیوں میں گُم ہوگی
مری اُمؔیدوں کی شمعیں کہاں بجھا کے چلے
شہیدِ ناز کا انجام دیکھتے جاؤ
یہ کیا کہ چپکے سے برقِ نظر گرا کے چلے
نقاب حسنِ سلامت بخیر جلوئہ ناز
کہاں نظر کا مری حوصلہ بڑھا کے چلے
یہ وہ چمن ہے جہاں گل بھی خارِ خصلت ہیں
چمن پرست بھی دامن بچا بچا کے چلے
بجھا سکے نہ کبھی میری شمعِ شہرت کو
یہ تُند جھونکے تو اخترؔ بہت ہوا کے چلے
Nadeem Ahmad
Copy
محرمِ راز غمِ دل پہ نظر ہو نہ سکی
محرمِ راز غمِ دل پہ نظر ہو نہ سکی
جوششِ بحر کی ساحل کو خبر ہو نہ سکی
دل کا ہر داغ تو خورشید صفت ہے لیکن
پھر بھی اے دوست شبِ غم کی سحر ہو نہ سکی
کون ہے جس نے مرے حال پہ ماتم نہ کیا
مجھ پہ اک تم سے عنایت کی نظر ہو نہ سکی
یوں بھی آئے ہو مری خلوتِ خاموش میں تم
اپنے آنے کی تمھیں خود بھی خبر ہو نہ سکی
لبِ خاموش سے اک آہ نکل آئی تھی
وہ بھی شرمندئہ تاثیر مگر ہو نہ سکی
ایک نکلی تو ہزاروں نے جگہ لی اخترؔ
کبھی تکمیل تمنّائے بشر ہو نہ سکی
Nadeem Ahmad
Copy
مرے ساتھ سیرِ چمن کبھی، تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مرے ساتھ سیرِ چمن کبھی، تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ فضا، وہ چاند، وہ چاندنی تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ سرور و کیف کی سرخوشی وہ سرور و نغمہ کی دل کشی
وہ مئے نشاط کی بے خودی تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
پسِ پردہ آنکھ مچولیاں وہ کبھی عیاں وہ کبھی نہاں
وہ نگاہِ شوق کی بے کلی تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تھیں تمہاری جس پہ نوازشیں کبھی تم بھی جس پہ تھے مہرباں
یہ وہی ہے اخترِؔ مسلمی تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
Nadeem Ahmad
Copy
یہ ہوائیں ٹھنڈی ٹھنڈی یہ سکون بخش سائے
یہ ہوائیں ٹھنڈی ٹھنڈی یہ سکون بخش سائے
رہِ عشق کے مسافر تجھے نیند آ نہ جائے
یہ چمن، یہ تم، یہ موسم، یہ حسیں گلوں کے سائے
میرا عہد پارسائی کہیں پھر نہ ٹوٹ جائے
جسے لذّتِ اسیری ہی ازل سے راس آئے
ترے دامِ زلف پُرخم سے کہاں نکل کے جائے
مرا دل پناہ دے گا مرے دل میں سر چھپائے
ترا تیر چشمِ ساقی جو کہیں اماں نہ پائے
یہ کرم نُما نگاہیں یہ وفا نما تبسّم
کوئی جیسے ہلکے ہلکے مرے دل کو گدگدائے
مرے دل پہ ہاتھ رکھ کر مجھے دینے والے تسکیں
کہیں دل کی دھڑکنوں سے تجھے چوٹ آ نہ جائے
یہ خلش، یہ سوزِ پنہاں، یہ جگر کے داغ تاباں
تمہیں منصفی سے کہہ دو کوئی کیسے مسکرائے
شبِ غم نکل پڑا تھا مرے دل سے ایک نالہ
مجھے ڈر ہے اُن کو یا رب کوئی آنچ آ نہ جائے
مری شاعری سے رغبت کبھی بے سبب نہیں ہے
اُسے کیا پڑی ہے اخترؔ مرا شعر گنگنائے
Nadeem Ahmad
Copy
بیداد کا ساماں کرتا ہے مائل بہ جفا ہو جاتا ہے
بیداد کا ساماں کرتا ہے مائل بہ جفا ہو جاتا ہے
اظہارِ تمنّا کرتے ہی بندہ بھی خدا ہوجاتا ہے
ہاں یہ بھی طریقہ اچھا ہے تم خواب میں ملتے ہو مجھ سے
آتے بھی نہیں غم خانے تک وعدہ بھی وفا ہوجاتا ہے
پہنچے نہ اذیّت کچھ ان کو ایسا نہ ہو کوئی آنچ آئے
نکلی جو لبوں سے آہ تو دل مصروفِ دعا ہو جاتا ہے
اس رشکِ مسیحا کی اخترؔ میں لاج تو رکھ لیتا ہوں مگر
اس دردِ جگر کو کیا کہیے کچھ اور سِوا ہوجاتا ہے
Nadeem Ahmad
Copy
دل میرا اگر رفتہ رفتہ مانوسِ ستم ہوجاتا ہے
دل میرا اگر رفتہ رفتہ مانوسِ ستم ہوجاتا ہے
یہ حسن جفا دیکھو اس کا مائل بہ کرم ہوجاتا ہے
ہم اُن سے شکایت کیا کرتے روداد شبِ غم کیا کہتے
آتے ہی زباں تک شکرِ کرم ہر شکوئہ غم ہوجاتا ہے
اللہ رے دل بیداد پسند اس درجہ ستم کا خوگر ہے
ہوتا ہے فسردہ جب کوئی مائل بہ کرم ہوجاتا ہے
تم ہو کہ ہے اپنوں پر بھی ستم میں ہوں کہ ہے میرا یہ عالم
دشمن پہ بھی ہو بیداد اگر دل وقفِ الم ہوجاتا ہے
جب وجہِ سکونِ دل ہے یہی اخترؔ تو مداویٰ کیا معنی
دل اور تڑپنے لگتا ہے کچھ درد جو کم ہوجاتا ہے
Nadeem Ahmad
Copy
دل کوئی سہارا اب لے کر شرمندئہ احساں کیا ہوگا
دل کوئی سہارا اب لے کر شرمندئہ احساں کیا ہوگا
اب درد ہی درماں ہے اپنا اب درد کا درماں کیا ہوگا
ہوجاتی ہے شامِ غم روشن اب میرے جگر کے داغوں سے
یہ انجمِ تاباں کیا ہوں گے یہ ماہِ درخشاں کیا ہوگا
ہوتا ہے ستم جب مجھ پہ کوئی خود عفوِ ستم کردیتا ہوں
وہ اپنی جفائے ناحق پر تا حشر پشیماں کیا ہوگا
اک بار تو ٹکرا کر دیکھو کشتی کو بھیانک موجوں سے
یوں راحتِ ساحل کے خوگر اندازئہ طوفاں کیا ہوگا
مسموم فضائے گلشن ہے پھولوں کا دریدہ دامن ہے
اس سے تو قفس ہی بہتر ہے یہ صحنِ گلستاں کیا ہوگا
ہر شاخِ چمن ہے افسردہ ہر پھول کا چہرہ پژمردہ
آغاز ہی جب ایسا ہے تو پھر انجامِ بہاراں کیا ہوگا
اے اہلِ طرب افسانئہ غم کہتا ہے غزل کے پردے میں
اک غم کا سراپا ہے اخترؔ بیچارہ غزل خواں کیا ہوگا
Nadeem Ahmad
Copy
آئینِ جفا ان کا سمجھے تھے نہ ہم پہلے
آئینِ جفا ان کا سمجھے تھے نہ ہم پہلے
ہوتا ہے ستم پیچھے کرتے ہیں کرم پہلے
کیوں سیرِ گلستاں پر ہے چیں بجبیں کوئی
زنداں میں بھی رکّھا تھا میں نے ہی قدم پہلے
آباد رہیں دونوں بُت خانہ بھی کعبہ بھی
یہ بات نہ تھی تم میں اے شیخِ حرم پہلے
ہنستے ہیں گلستاں میں پھر جا کے کہیں غنچے
کرتی ہے دعا شبنم بادیدئہ نم پہلے
ہوتی نہ اگر کُلفت کیا لطف تھا راحت میں
رہتی ہے مسرّت بھی منّت کشِ غم پہلے
کوشاں ہیں نکلنے کو یوں جاں بھی تمنّا بھی
وہ کہتی ہے ہم پہلے یہ کہتی ہے ہم پہلے
ہے نورِ حقیقت کا جویا تو مگر زاہد
اس راہ میں ملتے ہیں انوارِ صنم پہلے
برہم انھیں کرنے کو مجرم مری آنکھیں ہیں
کچھ کہہ نہ سکا ان سے یہ ہوگئیں نم پہلے
بخشا ہے محبت نے کچھ رنگِ اثر شاید
تھا تم میں کہاں اخترؔ یہ زورِ قلم پہلے
Nadeem Ahmad
Copy
پیدا ابھی مذاق گلستاں نہ کرسکے
پیدا ابھی مذاق گلستاں نہ کرسکے
تبدیلِ ذوق خوگرِ زنداں نہ کرسکے
کیوں کر کہیں بہار ہم ایسی بہار کو
شیرازئہ خزاں جو پریشاں نہ کرسکے
مجھ کو اسے بہار ہی کہنے میں عذر ہے
ہر نوکِ خار کو جو گلستاں نہ کرسکے
کیا بات اے بہارِ چمن ہے کہ آج تک
ہم محوِ یادِ راحتِ زنداں نہ کرسکے
ہونے کو جلوہ ریز ہوئے لاکھ آفتاب
شامِ خزاں کو صبحِ بہاراں نہ کرسکے
کیا ہوسکے گا اس سے علاجِ غمِ جہاں
جو آپ اپنے درد کا درماں نہ کرسکے
اخترؔ اس انقلاب کی اُڑ جائیں دھجّیاں
دشوارئِ عوام جو آساں نہ کرسکے
Nadeem Ahmad
Copy
ہر شب تارِ خزاں صبح بہاراں کردیں
ہر شب تارِ خزاں صبح بہاراں کردیں
خار بے جاں کو بھی رشک چمنستاں کردیں
کرکے رنگیں در و دیوار لہو سے اپنے
ہم اگر چاہیں تو زنداں کو گلستاں کردیں
عیش میں اپنے نہ ہو جن کو غریبوں کا خیال
اُن کے ہر عیش کا شیرازہ پریشاں کردیں
چیخ چیخ اُٹھتے ہیں جس درد کی بیتابی سے
دلِ مظلوم کے اس درد کا درماں کردیں
کرکے باطل کے خداؤں کی خدائی نابود
دوستو آؤ علاجِ غمِ دوراں کردیں
ہر طرف بغض و عداوت کی گھٹا چھائی ہے
دہر میں شمعِ محبت کو فروزاں کردیں
ہے اخوّت کا اثر جن کے دلوں سے مفقود
اُن درندہ صفت انسانوں کو انساں کردیں
ظلمتِ شب میں بھٹکتا ہے زمانہ اخترؔ
آؤ ہر ذرّے کو خورشید درخشاں کردیں
Nadeem Ahmad
Copy
ازل سے سرمشق جور پیہم خدنگ آفات کا نشانہ
ازل سے سرمشق جور پیہم خدنگ آفات کا نشانہ
میں سر سے پا تک ہوں نالئہ غم سناؤں کیا عیش کا ترانہ
سنا تو میں نے بھی ہے کہ دامِ قفس کو ٹوٹے ہوا زمانہ
تمیز لیکن نہ کرسکا میں کہ یہ قفس ہے کہ آشیانہ
عجیب اُلجھن میں تو نے ڈالا مجھے اے گردشِ زمانہ
سکون ملتا نہیں قفس میں نہ راس آتا ہے آشیانہ
اگر ارادے میں پختگی ہے تو پھیر دوں گا رُخِ زمانہ
جہاں پہ یورش ہے بجلیوں کی وہیں بناؤں گا آشیانہ
مصیبتوں کے گلے عبث ہیں فضول ہے شکوئہ زمانہ
جو مجھ سے پوچھو تو میں کہوں گا کہ ہی یہ عبرت کا تازیانہ
اسیر زنداں تھے جیسے پہلے وہی ہیں حالات اب بھی لیکن
ہے فرق اتنا کہ ہم سمجھنے لگے ہیں قفس ہی کو آشیانہ
نہ مجھ کو پروا خزاں کی ہوتی نہ خوف صیؔاد و برق ہوتا
بدل لے اے کاش کوئی اپنے قفس سے میرا یہ آشیانہ
وفا تو میری سرشت میں ہے وفا پرستی شعار میرا
جفائیں تم اپنی پہلے دیکھو وفائیں میری پھر آزمانہ
ہے میرا ذوق سجود اب بے نیاز دیر و حرم سے اختر
جبیں جہاں خم کروں گا ہوگا وہیں نمودار آستانہ
Akhtar Muslimi
Copy
اے دوست یہ باتیں تم شاید سمجھو نہ مرے سمجھانے سے
اے دوست یہ باتیں تم شاید سمجھو نہ مرے سمجھانے سے
انجام محبت کا کیا ہے پوچھو یہ کسی پروانے سے
کم بخت یہ دل اُف کام پڑا مجھ کو بھی عجب دیوانے سے
سمجھے نہ کبھی سمجھانے سے بہلے نہ کبھی بہلانے سے
تنہائی میں اکثر دل سے مری اس طرح بھی باتیں ہوتی ہیں
جس طرح کرے باتیں کوئی دیوانہ کسی دیوانے سے
بے عشق تمیزِ حسن نہیں بے حسن وجودِ عشق نہیں
پیمانے کی عزت مے سے ہے اور رونق مے پیمانے سے
بربادی مجھے اپنے دل کی بے ساختہ یاد آجاتی ہے
جب بھی کبھی اختر میرا گذر ہوتا ہے کسی ویرانے سے
Akhtar Muslimi
Copy
قیامت ہے بہار اب کے برس اپنے گلستاں کی
قیامت ہے بہار اب کے برس اپنے گلستاں کی
گلوں میں کیفیت پیدا ہوئی خارِ بیاباں کی
جو باہم عندلیبانِ چمن دست و گریباں ہیں
تو ایسی کشمکش میں فکر ہے کس کو گلستاں کی
رہا اب اور کیا باقی زوالِ آدمیّت میں
کہ طینت ہوگئی ہے، مائلِ تخریب انساں کی
اگر ہے جذبئہ صادق تو کیا ڈر موجِ طوفاں سے
لگا دے گی کنارے خود ہی کشتی موجِ طوفاں کی
بہاروں میں کرے کوئی ہزار ان کی نگہ بانی
کہاں جاتی ہے دیوانوں سے خو چاکِ گریباں کی
مجھے جب درد ہی میں زندگی کا لطف ملتا ہے
تو پھر اے چارہ گر مجھ کو ضرورت کیا ہے درماں کی
بڑی مشکل سے اُف کم بخت دل کو چین آیا تھا
معاذ اللہ پھر یاد آگئی کس فتنہ ساماں کی
اندھیری رات میں ہے جگنوؤں کی روشنی کافی
غریبوں کی لحد پر کیا ضرورت ہے چراغاں کی
اسے اہلِ نظر کہتے ہیں توہینِ جنوں اخترؔ
کسے شوریدگی میں فکر ہوتی ہے گریباں کی
Akhtar Muslimi
Copy
اک حشر اضطراب سا قلب و جگر میں ہے
اک حشر اضطراب سا قلب و جگر میں ہے
کیا جانے کس بلا کا اثر اس نظر میں ہے
اس پر بھی اختیار نہیں وائے بے بسی
سمجھے ہوئے تھے ہم کہ دل اپنے اثر میں ہے
جلوے تمام کون و مکاں کے سما گئے
وسعت کہاں کی میرے دلِ مختصر میں ہے
ہے دیکھنا تو دیدئہ بینا سے دیکھیے
جلوے ہیں کس کے کون یہ شمس و قمر میں ہے
ان کی نگاہِ ناز سے بھی بے نیاز ہے
سمجھے ہوئے تھے ہم کہ دل ان کے اثر میں ہے
پھر آ رہا ہے کوئی تصور میں بار بار
اخترؔ کچھ آج اور ہی عالم نظر میں ہے
Akhtar Muslimi
Copy
کیا بتائیں کتنا لطفِ زندگی پاتا ہے دل
کیا بتائیں کتنا لطفِ زندگی پاتا ہے دل
جب نگاہِ ناز تیری زد پہ آجاتا ہے دل
کون ہے غم خوار اپنا شامِ غم اے بے کسی
دل کو بہلاتا ہوں میں یا مجھ کو بہلاتا ہے دل
آ کے ان کی یاد کچھ تسکین دیتی ہے مجھے
جب شبِ فرقت کی تنہائی میں گھبراتا ہے دل
ہائے وہ منظر نہ پوچھو جب بحسنِ اتفاق
ملتی ہیں نظروں سے نظریں دل سے مل جاتا ہے دل
کیوں نہ سمجھوں آپ کو میں سو بہاروں کی بہار
سامنے جب آپ آتے ہیں تو کھِل جاتا ہے دل
کوئی جادہ ہے، نہ منزل ہے، نہ کچھ قیدِ مقام
اپنی دھن میں اک طرف مجھ کو لیے جاتا ہے دل
جانے کیوں اخترؔ مری آنکھوں میں آجاتے ہیں اشک
جب وہ رنگیں داستاں ماضی کی دہراتا ہے دل
Akhtar Muslimi
Copy
کیوں کرے کوئی بہاروں میں نگہبانی مری
تخلیقِ دو عالم ہے بفیضانِ محمد
دنیا کی ہر اک شے پہ ہے احسانِ محمد
یہ رتبئہ عالی ہے یہ ہے شانِ محمد
خود خالقِ عالم ہے ثنا خوانِ محمد
بخشا ہے لقب آپ کو رحمت کا خدا نے
ہر اِک کے لیے عام ہے فیضانِ محمد
توحید کی دولت سے بھرا دامنِ انساں
کیا کم ہے زمانے پہ یہ احسانِ محمد
پہچان لے اللہ کو ممکن ہی نہیں ہے
حاصل نہ ہوا ہو جسے عرفانِ محمد
کیوں لرزہ براندام نہ ہو سطوتِ شاہی
شاہوں سے بھی بڑھ کر ہیں غلامانِ محمد
آ دیکھوں ترا زور بھی اے مہرِ قیامت
ہے سر پہ مرے سایئہ دامانِ محمد
اختر مجھے دیکھیں گے تو بول اٹھیں گے قدسی
آیا وہ سرِ حشر ثنا خوانِ محمد
Akhtar Muslimi
Copy
کیوں کرے کوئی بہاروں میں نگہبانی مری
کیوں کرے کوئی بہاروں میں نگہبانی مری
جا نہیں سکتی یہ خوئے چاک دامانی مری
کرلے جتنا ہوسکے تجھ سے ستم اے آسماں
رنگ لائے گی کبھی تو نالئہ سامانی مری
وسعت دل دیکھیے گر دیکھنا ہے آپ کو
ظاہری پردہ ہے شان تنگ دامانی مری
آستان دوست کے سجدوں پہ ہے ناژ عروج
کب کسی کے سامنے جھکتی ہے پیشانی مری
وہ تو اختر آئے تھے بہر علاج درد دل
بڑھ گئی کچھ اور بھی لیکن پریشانی مری
Akhtar Muslimi
Copy
اے دلِ بے خبر ابھی کیا ہے
اے دلِ بے خبر ابھی کیا ہے
جانتا بھی ہی عاشقی کیا ہی
سبب جورِ بے رخی کیا ہے
کچھ کہو وجہِ برہمی کیا ہے
جانے والا چلا گیا اب تو
نگہہ شوق دیکھتی کیا ہے
یاد مونس ہے غم گسار ہے دل
شام فرقت میں بے کسی کیا ہے
جی رہا ہوں ترے بغیر مگر
اک مصیت ہے زندگی کیا ہے
جز ترے کیا طلب کروں تجھ سے
مجھ کو تیرے سوا کمی کیا ہے
پر تَوِ حسن روئے دوست ہے یہ
ماہ و انجم میں روشنی کیا ہے
دوستی میرے بخت سے ہے تجھے
مجھ سے اے نیند دشمنی کیا ہے
اپنے بس ہی کی جب نہیں اختر
ہائے ایسی بھی زندگی کیا ہے
nadeem
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets