Ali Zaryoun Ghazal
Ali Zaryoun Ghazal is best way to express your words and emotion. Check out the amazing collection of express your feeling in words. This section is based on a huge data of all the latest Ali Zaryoun Ghazal that can be dedicated to your family, friends and love ones. Convey the inner feelings of heart with this world’s largest Ali Zaryoun Ghazal compilation that offers an individual to show the sentiments through words.
غزل چکھ کے دیکھ اِس دفعہ مختلف ہے
سنو ! تم نے دنیا پھری ہے پرندو
یہ تنہائی کیا ہر جگہ مختلف ہے؟
صدا کام کیسے کرے گی یہاں پر
گلـی تو وہـی ہے گلـہ مختلف ہے
ہماری تمہاری سزا اک نہیں کیوں؟
ہمــاری تمہاری خــطا مختلف ہے؟
تم اب تک منافق دلوں میں رہی ہو
میرے دل کی آب و ہوا مختلف ہے
وہ روتے ہوئے ہنــس پڑا اور بولا
خــدا آدمــی سے بــڑا مختلف ہے
دوستی مجھ سے اور پیار کوئی اور ہے ناں
جو تیرے حسن پہ مرتے ہیں بہت سے ہوں گے
پر تیرے دل کا طلبگار کوئی اور ہے ناں
تُو میرے اشک نہ دیکھ، اور فقط اتنا بتا
میں نہیں ہوں تیرا دلدار کوئی اور ہے ناں
اس لئیے بھی تجھے دنیا سے الگ چاہتا ہوں
تُو کوئی اور ہے، سنسار کوئی اور ہے ناں
کوئی بین سنے دروازوں کا
زکریا پیڑوں کی مت سن
یہ جنگل ہے خمیازوں کا
ترے سر میں سوز نہیں پیارے
تو اہل نہیں مرے سازوں کا
اوروں کو صلاحیں دیتا ہے
کوئی ڈسا ہوا اندازوں کا
مرا نخرہ کرنا بنتا ہے
میں غازی ہوں ترے غازوں کا
اک ریڑھی والا منکر ہے
تری توپوں اور جہازوں کا
ادھر سے ظلم ادھر سے دہائی جاری ہے
بچھڑ گیا ہوں مگر یاد کرتا رہتا ہوں
کتاب چھوڑ چکا ہوں پڑھائی جاری ہے
ترے علاوہ کہیں اور بھی ملوث ہوں
تری وفا سے مری بے وفائی جاری ہے
وہ کیوں کہیں گے کہ دونوں میں امن ہو جائے
ہماری جنگ سے جن کی کمائی جاری ہے
عجیب خبط مسیحائی ہے کہ حیرت ہے
مریض مر بھی چکا ہے دوائی جاری ہے
تو تو جو کہہ دے وہی بن جاؤں گا
اے زبوری پھول اے نیلے گلاب
مت خفا ہو میں دوبارہ آؤں گا
سات صدیاں سات راتیں سات دن
اک پہیلی ہے کسے سمجھاؤں گا
یار ہو جائے سہی تجھ سے مجھے
تیرے قبضے سے تجھے چھڑواؤں گا
تم بہت معصوم لڑکی ہو تمہیں
نظم بھیجوں گا دعا پہناؤں گا
کوئی دریا ہے نہ جنگل اور نہ باغ
میں یہاں بالکل نہیں رہ پاؤں گا
یاد کرواؤں گا تجھ کو تیرے زخم
تیری ساری نعمتیں گنواؤں گا
چھوڑنا اس کے لئے مشکل نہ ہو
مجھ سے مت کہنا میں یہ کر جاؤں گا
میں علیؔ زریون ہوں کافی ہے یہ
میں ظفر اقبال کیوں بن جاؤں گا
یہ سمجھنا ہے تو پھر پہلے طریقت سمجھیں
میں جواباً بھی جنہیں گالی نہیں دیتا وہ لوگ
میری جانب سے اسے خاص محبت سمجھیں
میں تو مر کر بھی نہ بیچوں گا کبھی یار کا نام
آپ تاجر ہیں نمائش کو عبادت سمجھیں
میں کسی بیچ کے رستے سے نہیں پہنچا یہاں
حاسدوں سے یہ گزارش ہے ریاضت سمجھیں
میرا بے ساختہ پن ان کے لئے خطرہ ہے
ساختہ لوگ مجھے کیوں نہ مصیبت سمجھیں
فیس بک وقت اگر دے تو یہ پیارے بچے
اپنے خاموش بزرگوں کی شکایت سمجھیں
پیش کرتا ہوں میں خود اپنی گرفتاری علیؔ
ان سے کہنا کہ مجھے زیر حراست سمجھیں
مجھے لگا میں کسی معجزے سے مل رہا تھا
میں جاگتا تھا کہ جب لوگ سو چکے تھے تمام
چراغ مجھ سے مرے تجربے سے مل رہا تھا
ہوس سے ہوتا ہوا آ گیا میں عشق کی سمت
یہ سلسلہ بھی اسی راستے سے مل رہا تھا
خدا سے پہلی ملاقات ہو رہی تھی مری
میں اپنے آپ کو جب سامنے سے مل رہا تھا
عجیب لے تھی جو تاثیر دے رہی تھی مجھے
عجیب لمس تھا ہر زاویے سے مل رہا تھا
میں اس کے سینۂ شفاف کی ہری لو سے
دہک رہا تھا سو پورے مزے سے مل رہا تھا
ثواب و طاعت و تقویٰ فضیلت و القاب
پڑے ہوئے تھے کہیں میں نشے سے مل رہا تھا
ترے جمال کا بجھنا تو لازمی تھا کہ تو
بغیر عشق کئے آئنے سے مل رہا تھا
زمین بھی مرے آغوش سرخ میں تھی علیؔ
فلک بھی مجھ سے ہرے ذائقے سے مل رہا تھا
خود اپنے ساتھ ہوں یعنی خدا کے ساتھ ہوں میں
مجاوران ہوس تنگ ہیں کہ یوں کیسے
بغیر شرم و حیا بھی حیا کے ساتھ ہوں میں
سفر شروع تو ہونے دے اپنے ساتھ مرا
تو خود کہے گا یہ کیسی بلا کے ساتھ ہوں میں
میں چھو گیا تو ترا رنگ کاٹ ڈالوں گا
سو اپنے آپ سے تجھ کو بچا کے ساتھ ہوں میں
درود بر دل وحشی سلام بر تپ عشق
خود اپنی حمد خود اپنی ثنا کے ساتھ ہوں میں
یہی تو فرق ہے میرے اور ان کے حل کے بیچ
شکایتیں ہیں انہیں اور رضا کے ساتھ ہوں میں
میں اولین کی عزت میں آخرین کا نور
وہ انتہا ہوں کہ ہر ابتدا کے ساتھ ہوں میں
دکھائی دوں بھی تو کیسے سنائی دوں بھی تو کیوں
ورائے نقش و نوا ہوں فنا کے ساتھ ہوں میں
بہ حکم یار لویں قبض کرنے آتی ہے
بجھا رہی ہے؟ بجھائے ہوا کے ساتھ ہوں میں
یہ صابرین محبت یہ کاشفین جنوں
انہی کے سنگ انہیں اولیا کے ساتھ ہوں میں
کسی کے ساتھ نہیں ہوں مگر جمال الہ
تری قسم ترے ہر مبتلا کے ساتھ ہوں میں
زمانے بھر کو پتا ہے میں کس طریق پہ ہوں
سبھی کو علم ہے کس دل ربا کے ساتھ ہوں میں
منافقین تصوف کی موت ہوں میں علیؔ
ہر اک اصیل ہر اک بے ریا کے ساتھ ہوں میں
جب عشق دیکھ لیں گے تو سر پر بٹھائیں گے
تو تو پھر اپنی جان ہے تیرا تو ذکر کیا
ہم تیرے دوستوں کے بھی نخرے اٹھائیں گے
غالبؔ نے عشق کو جو دماغی خلل کہا
چھوڑیں یہ رمز آپ نہیں جان پائیں گے
پرکھیں گے ایک ایک کو لے کر تمہارا نام
دشمن ہے کون دوست ہے پہچان جائیں گے
قبلہ کبھی تو تازہ سخن بھی کریں عطا
یہ چار پانچ غزلیں ہی کب تک سنائیں گے
آگے تو آنے دیجئے رستہ تو چھوڑیئے
ہم کون ہیں یہ سامنے آ کر بتائیں گے
یہ اہتمام اور کسی کے لئے نہیں
طعنے تمہارے نام کے ہم پر ہی آئیں گے
میں خوش نہیں ہوں تجھے خود میں مبتلا کر کے
اصولی طور پہ مر جانا چاہیے تھا مگر
مجھے سکون ملا ہے تجھے جدا کر کے
یہ کیوں کہا کہ تجھے مجھ سے پیار ہو جائے
تڑپ اٹھا ہوں ترے حق میں بد دعا کر کے
میں چاہتا ہوں خریدار پر یہ کھل جائے
نیا نہیں ہوں رکھا ہوں یہاں نیا کر کے
میں جوتیوں میں بھی بیٹھا ہوں پورے مان کے ساتھ
کسی نے مجھ کو بلایا ہے التجا کر کے
بشر سمجھ کے کیا تھا نا یوں نظر انداز
لے میں بھی چھوڑ رہا ہوں تجھے خدا کر کے
تو پھر وہ روتے ہوئے منتیں بھی مانتے ہیں
جو انتہا نہیں کرتے ہیں ابتدا کر کے
بدل چکا ہے مرا لمس نفسیات اس کی
کہ رکھ دیا ہے اسے میں نے ان چھوا کر کے
منا بھی لوں گا گلے بھی لگاؤں گا میں علیؔ
ابھی تو دیکھ رہا ہوں اسے خفا کر کے
وہ بالکل مجھ سا ہوتا ہے
آنکھیں ہنس کر پوچھ رہی ہیں
نیند آنے سے کیا ہوتا ہے
مٹی کی عزت ہوتی ہے
پانی کا چرچا ہوتا ہے
جانتا ہوں منصور کو بھی میں
اپنے ہی گھر کا ہوتا ہے
اچھی لڑکی ضد نہیں کرتے
دیکھو عشق برا ہوتا ہے
وحشت کا اک گر ہے جس میں
قیس اپنا بچہ ہوتا ہے
بعض اوقات مجھے دنیا پر
دنیا کا بھی شبہ ہوتا ہے
تم مجھ کو اپنا کہتے ہو
کہہ لینے سے کیا ہوتا ہے
کتنی اچھی لڑکی ہو
بات نہیں سنتی ہو کیوں
غزلیں بھی تو سنتی ہو
کیا رشتہ ہے شاموں سے
سورج کی کیا لگتی ہو
لوگ نہیں ڈرتے رب سے
تم لوگوں سے ڈرتی ہو
میں تو جیتا ہوں تم میں
تم کیوں مجھ پہ مرتی ہو
آدم اور سدھر جائے
تم بھی حد ہی کرتی ہو
کس نے جینس کری ممنوع
پہنو اچھی لگتی ہو
پیار میں جسم کو یکسر نہ مٹا جانے دے
تو جو ہر روز نئے حُسن پہ مر جاتا ہے
تو بتائے گا مجھے عشق ہے کیا جانے دے
چائے پیتے ہیں کہیں بیٹھ کہ دونو بھائی
جا چکی ہے نا تو بس چھوڈ چل آ جانے دے
تو کی جنگل میں لگی آگ سی بےساختہ ہے
خود پہ تہزیب کی چادر نہ چڈھا جابے دے
جابتا ہوں کہ تجھے کون سی تھی مجبوری
یوں میرے سامنے ٹسوئے نہ بہا جانے دے
Ali Zaryoun Ghazals in Urdu are also translated into other languages. In India, a large number of people also read Ali Zaryoun Ghazal in Hindi. However, Ali Zaryoun all Ghazals are popular irrespective of languages. The affection between two people increases when they read and share Ali Zaryoun Ghazals in Urdu with the people they love the most.
Ali zaryoun and tehzaeeb hai I love you
- Saeed Ahmad , Lahore
- Thu 18 Sep, 2025
Ali Zaryoun's poetry touches the heart with its deep and meaningful words. His verses beautifully express emotions and reality.
- Hina , Kohata
- Mon 28 Jul, 2025
Ali Zaryoun's poetry is a powerful blend of intellect, emotion, and contemporary thought. His words speak to the heart with clarity and depth, addressing social realities, love, and inner conflicts.
- Basit , Peshawar
- Thu 17 Jul, 2025