Poetries by Asrar Ahmad Adraak
انساں نے کیسا سماں کر رکھا ہے انساں نے کیسا سماں کر رکھا ہے
اک ذرے کو اس نے جہاں کر رکھا ہے
انسان ہے وہ ناداں جس نے خود ہی
خود کو پابندِ زنداں کر رکھا ہے
زمیں بھی ہوتی اس پر بہشت سی لیکن
ہوائے نفس کو اس نے آسماں کر رکھا ہے
جنت انسان کے سامنے ہے لیکن
خود کو بے خانماں کر رکھا ہے
بڑی ہی بے تاب ہ ےروح جس نے ادراک
ٹھیکرے کو اپنا مکاں کر رکھا ہے Roomi
اک ذرے کو اس نے جہاں کر رکھا ہے
انسان ہے وہ ناداں جس نے خود ہی
خود کو پابندِ زنداں کر رکھا ہے
زمیں بھی ہوتی اس پر بہشت سی لیکن
ہوائے نفس کو اس نے آسماں کر رکھا ہے
جنت انسان کے سامنے ہے لیکن
خود کو بے خانماں کر رکھا ہے
بڑی ہی بے تاب ہ ےروح جس نے ادراک
ٹھیکرے کو اپنا مکاں کر رکھا ہے Roomi
یہ وجود اک ساغر کی مثال ہے یہ وجود اک ساغر کی مثال ہے
زندگی سیال ہے، عالم خیال ہے
میری زندگی بھی نغمہ اک گیت ہے
پر کیا ہے کہ سُر ہے نہ کوئی تال ہے
ابلیس ٹھہرا اک مردِ دانا غریقِ تحقیق
روز اٹھاتا ایک نکتہ اک نیا سوال ہے
میں بھی ہوں محوِ سفر اے متلاطم لہرو
ناؤ میں سوراخ ہے یہ بھی تو کمال ہے
اک نقطہ تجلی کا ہوا ہے عطا
ورنہ ارض چمن فقط پاتال ہے
یہ شجر بے سایہ اس کا پھل ہے ضائع
وجودِ ادراک بے ناموس بے آل ہے
Asrar Ahmad Adraak
زندگی سیال ہے، عالم خیال ہے
میری زندگی بھی نغمہ اک گیت ہے
پر کیا ہے کہ سُر ہے نہ کوئی تال ہے
ابلیس ٹھہرا اک مردِ دانا غریقِ تحقیق
روز اٹھاتا ایک نکتہ اک نیا سوال ہے
میں بھی ہوں محوِ سفر اے متلاطم لہرو
ناؤ میں سوراخ ہے یہ بھی تو کمال ہے
اک نقطہ تجلی کا ہوا ہے عطا
ورنہ ارض چمن فقط پاتال ہے
یہ شجر بے سایہ اس کا پھل ہے ضائع
وجودِ ادراک بے ناموس بے آل ہے
Asrar Ahmad Adraak
آج اک بغاوت کا مزا چکھتا ہوں میں آج اک بغاوت کا مزا چکھتا ہوں میں
ہاں ایسا ہی کچھ ظرف رکھتا ہوں میں
تیری شکائت بجا میں نے کچھ نہ کیا
چل دیکھ پھر آج کیا کرتا ہوں میں
تو کبھی خرید نہ پایا تھا مجھے لیکن
تیری خاکِ پا کے عوض آج بکتا ہوں میں
خزاں رسیدہ پتوں میں خطوں کا دھواں ہے
تیری یادوں کے سنگ آج بکھرتا ہوں میں
اگر جرات ہے تو بھی لکھ دے ایسا ہی
نام کے سنگ نام تیرا لکھتا ہوں میں Asrar Ahmad Adraak
ہاں ایسا ہی کچھ ظرف رکھتا ہوں میں
تیری شکائت بجا میں نے کچھ نہ کیا
چل دیکھ پھر آج کیا کرتا ہوں میں
تو کبھی خرید نہ پایا تھا مجھے لیکن
تیری خاکِ پا کے عوض آج بکتا ہوں میں
خزاں رسیدہ پتوں میں خطوں کا دھواں ہے
تیری یادوں کے سنگ آج بکھرتا ہوں میں
اگر جرات ہے تو بھی لکھ دے ایسا ہی
نام کے سنگ نام تیرا لکھتا ہوں میں Asrar Ahmad Adraak
کھوج رہا ہوں کھوج رہا ہوں اپنا شرف میں کب سے
صحرا میں ہوا ہوں برف میں کب سے
تجھے چاہنے پا لینے کا وعدہ کر کے
ہو چکا ہوں خدایا منحرف میں کب سے
شناسائی اک بھولا بسرا خواب ہے
ہو چکا ہوں لوگوں بے مصرف میں کب سے
تیری تیر اندازی کیا بگاڑ لے گی
اب ہو چکا ہوں تیری طرف میں کب سے
مٹی کی اک ڈھیری پر لکھا ہے اک نام
ہو چکا ہوں فقط اک حرف میں کب سے
Asrar Ahmad Adraak
صحرا میں ہوا ہوں برف میں کب سے
تجھے چاہنے پا لینے کا وعدہ کر کے
ہو چکا ہوں خدایا منحرف میں کب سے
شناسائی اک بھولا بسرا خواب ہے
ہو چکا ہوں لوگوں بے مصرف میں کب سے
تیری تیر اندازی کیا بگاڑ لے گی
اب ہو چکا ہوں تیری طرف میں کب سے
مٹی کی اک ڈھیری پر لکھا ہے اک نام
ہو چکا ہوں فقط اک حرف میں کب سے
Asrar Ahmad Adraak