Poetries by Azhar Sabri
مرے نصیب مے باقی ذرا گمان بھی نہیں مرے نصیب مے باقی ذرا گمان بھی نہیں
اگر زمین بھی نہیں میری آسمان بھی نہیں
جسے شمار کیا کرتا تھا ستاروں مے
رہا اب اسکا تو باقی نشان بھی نہیں
تو لوٹ آ مے کرونگا گلا نہ سکوا کچھ
جو فاصلے تھے کبھی اب وہ درمیان بھی نہیں
مے کر رہا ہوں عطا مفت مے یہ دل اپنا
عطا یہ مول کریگا تمہے جہاں بھی نہیں
نیا نیا سا لگے ایسا کیا لکھوں اظہر
کے میرے پاس کوئی ایسی داستان بھی نہیں Mr Imam
اگر زمین بھی نہیں میری آسمان بھی نہیں
جسے شمار کیا کرتا تھا ستاروں مے
رہا اب اسکا تو باقی نشان بھی نہیں
تو لوٹ آ مے کرونگا گلا نہ سکوا کچھ
جو فاصلے تھے کبھی اب وہ درمیان بھی نہیں
مے کر رہا ہوں عطا مفت مے یہ دل اپنا
عطا یہ مول کریگا تمہے جہاں بھی نہیں
نیا نیا سا لگے ایسا کیا لکھوں اظہر
کے میرے پاس کوئی ایسی داستان بھی نہیں Mr Imam
میرے نصیب میں باقی زرا گمان بھی نہیں میرے نصیب میں باقی زرا گمان بھی نہیں
اگر زمین بھی نہیں میری آسمان بھی نہیں
جسے شمار کیا کرتا تھا ستاروں مے
رہا اب اسکا تو باقی نشان بھی نہیں
تو لوٹ آ میں کرونگا گلا نہ شکوہ کچھ
جو فاصلے تھےکبھی اب وہ درمیان بھی نہیں
میں کر رہا ہوں عطا مفت مے یہ دل اپنا
عطا یہ مول کریگا تمہیں جہاں بھی نہیں
نیا نیا سا لگے ایسا کیا لکھوں اظہر
کے میرے پاس کوئی ایسی داستان بھی نہیں
saifi
اگر زمین بھی نہیں میری آسمان بھی نہیں
جسے شمار کیا کرتا تھا ستاروں مے
رہا اب اسکا تو باقی نشان بھی نہیں
تو لوٹ آ میں کرونگا گلا نہ شکوہ کچھ
جو فاصلے تھےکبھی اب وہ درمیان بھی نہیں
میں کر رہا ہوں عطا مفت مے یہ دل اپنا
عطا یہ مول کریگا تمہیں جہاں بھی نہیں
نیا نیا سا لگے ایسا کیا لکھوں اظہر
کے میرے پاس کوئی ایسی داستان بھی نہیں
saifi
دل کی مٹی اگر طہارت ہے دل کی مٹی اگر طہارت ہے
ساری دنیا ہی نیک عورت ہے
سب سے ملنے کی اپنی عادت ہے
اس مے کچھ بھی نہیں سیاست ہے
اس کی پرچھآیی دیکھ لو جاکر
خوف کتنا بلند قیامت ہے
ہے کنارے فرات کے گم صم
جیسے ٹھہری ہوئی قیامت ہے
ایک منظر ہے جلتے خیمو کا
جو ابھی آنکھ مے سلامت ہے
آندھیوں مے دیے جلانا پھر
اب کے اچھی ہوا کی نیّت ہے
بے بسی کا ملال مت کرنا
سب پی بھاری خدا کی قدرت ہے
زندگی کے سراۓ خانے مے
چار دن کی کہاں ضرورت ہے
اینے سے ملا تو اسنے کہا
سچ ہی کہنے کی مجھکو عادت ہے
Azhar Sabri
ساری دنیا ہی نیک عورت ہے
سب سے ملنے کی اپنی عادت ہے
اس مے کچھ بھی نہیں سیاست ہے
اس کی پرچھآیی دیکھ لو جاکر
خوف کتنا بلند قیامت ہے
ہے کنارے فرات کے گم صم
جیسے ٹھہری ہوئی قیامت ہے
ایک منظر ہے جلتے خیمو کا
جو ابھی آنکھ مے سلامت ہے
آندھیوں مے دیے جلانا پھر
اب کے اچھی ہوا کی نیّت ہے
بے بسی کا ملال مت کرنا
سب پی بھاری خدا کی قدرت ہے
زندگی کے سراۓ خانے مے
چار دن کی کہاں ضرورت ہے
اینے سے ملا تو اسنے کہا
سچ ہی کہنے کی مجھکو عادت ہے
Azhar Sabri
عطا یہ مول کریگا تمہیں جہاں بھی نہیں میرے نصیب مے باقی ذرا گمان بھی نہیں
اگر زمین بھی نہیں میری آسمان بھی نہیں
جسے شمار کیا کرتا تھا ستاروں مے
رہا اب اسکا تو باقی نشان بھی نہیں
تو لوٹ آ میں کرونگا گلا نہ شکوہ کچھ
جو فاصلے تھےکبھی اب وہ درمیان بھی نہیں
میں کر رہا ہوں عطا مفت مے یہ دل اپنا
عطا یہ مول کریگا تمہیں جہاں بھی نہیں
نیا نیا سا لگے ایسا کیا لکھوں اسطر
کے میرے پاس کوئی ایسی داستان بھی نہیں
Mr Imam
اگر زمین بھی نہیں میری آسمان بھی نہیں
جسے شمار کیا کرتا تھا ستاروں مے
رہا اب اسکا تو باقی نشان بھی نہیں
تو لوٹ آ میں کرونگا گلا نہ شکوہ کچھ
جو فاصلے تھےکبھی اب وہ درمیان بھی نہیں
میں کر رہا ہوں عطا مفت مے یہ دل اپنا
عطا یہ مول کریگا تمہیں جہاں بھی نہیں
نیا نیا سا لگے ایسا کیا لکھوں اسطر
کے میرے پاس کوئی ایسی داستان بھی نہیں
Mr Imam
Sooraj Ko Nigal Jaata Hai Badnam Sooraj Ko Nigal Jaata Hai Badnam Samandar
Hota Hai Khatarnak Sar-E-Shaam Samandar
Insaan Ki Kahani Hai Ke Darya Ki Rawani
Aghaz Samandar Hai Aur Anjam Samandar
Mallah Ko Khene Ka Saleeqa Bhi Naheen Thaa
Kuchh Yun Bhi Hai Pehle Hi Se Badnam Samandar
Wo Boond Kahaan Hai Jo Miri Pyas Bujaye
Sahra Hai Ke Bikhra Hai Bahargam Samandar
Kasthi Miiri Sahil Se Ham Aghosh Hui Jab
Sar Apna Patakne Laga Nakam Samandar Azhar Sabri
Hota Hai Khatarnak Sar-E-Shaam Samandar
Insaan Ki Kahani Hai Ke Darya Ki Rawani
Aghaz Samandar Hai Aur Anjam Samandar
Mallah Ko Khene Ka Saleeqa Bhi Naheen Thaa
Kuchh Yun Bhi Hai Pehle Hi Se Badnam Samandar
Wo Boond Kahaan Hai Jo Miri Pyas Bujaye
Sahra Hai Ke Bikhra Hai Bahargam Samandar
Kasthi Miiri Sahil Se Ham Aghosh Hui Jab
Sar Apna Patakne Laga Nakam Samandar Azhar Sabri
شکوہ نہیں ہے کوئی، شکایت نہیں کوئی شکوہ نہیں ہے کوئی، شکایت نہیں کوئی
باقی جو اس کے دل میں محبت نہیں کوئی
جنت کی اس کے حق میں بشارت نہیں کوئی
آنکھوں میں جس کی اسکِ ندامت نہیں کوئی
ہم کو ہے یار تم سے عداوت نہیں کوئی
جب تک کروگے ہم سے بغاوت نہیں کوئی
اے یار کیوں مکرتے ہو یوں بات بات پر
یہ عشق ہے حضور! تجارت نہیں کوئی
واعظ ہمیں ڈراتا ہے کیوں روزِ حشر سے؟
اس عشق سے بڑی تو قیامت نہیں کوئی
بس اک ہی دعا ہے، میسر ہو اس کی دید
دل میں ہمارے دوسری حسرت نہیں کوئی
ہر شخص کیوں یہ پوچھتا ہے شمسؔ کا پتہ
اب تک ملی ہے اس کو تو شوہرت نہیں کوئی Azhar Sabri
باقی جو اس کے دل میں محبت نہیں کوئی
جنت کی اس کے حق میں بشارت نہیں کوئی
آنکھوں میں جس کی اسکِ ندامت نہیں کوئی
ہم کو ہے یار تم سے عداوت نہیں کوئی
جب تک کروگے ہم سے بغاوت نہیں کوئی
اے یار کیوں مکرتے ہو یوں بات بات پر
یہ عشق ہے حضور! تجارت نہیں کوئی
واعظ ہمیں ڈراتا ہے کیوں روزِ حشر سے؟
اس عشق سے بڑی تو قیامت نہیں کوئی
بس اک ہی دعا ہے، میسر ہو اس کی دید
دل میں ہمارے دوسری حسرت نہیں کوئی
ہر شخص کیوں یہ پوچھتا ہے شمسؔ کا پتہ
اب تک ملی ہے اس کو تو شوہرت نہیں کوئی Azhar Sabri