Poetries by frehman
اُن کے گفتار و کردار سے ہوئی یہ سحر پیدا چاہت ہے اگر کہ ہو چمن میں سحر پیدا
تو کرو انقلاب کیلئے وہ قلب و نظر پیدا
جوانوں کوفرصت ہی نہیں فلم بینی سے
پھر کیسے ہوگی چشم دل میں نظر پیدا
متاع علم و ہنر شرط ہے عروج کیلئے
یہ وہ شجر ہے کہ لازم کرتا ہے ثمر پیدا
کرپشن کو بہت ہی کم ہے سیاستدانوں کی
اگرچہ زمیں سے ہو سونا شام و سحرپیدا
بے سبب آیا نہیں اس جہاں میں انقلاب فضل
اُن کے گفتار و کردار سے ہوئی یہ سحرپیدا
Frehman
تو کرو انقلاب کیلئے وہ قلب و نظر پیدا
جوانوں کوفرصت ہی نہیں فلم بینی سے
پھر کیسے ہوگی چشم دل میں نظر پیدا
متاع علم و ہنر شرط ہے عروج کیلئے
یہ وہ شجر ہے کہ لازم کرتا ہے ثمر پیدا
کرپشن کو بہت ہی کم ہے سیاستدانوں کی
اگرچہ زمیں سے ہو سونا شام و سحرپیدا
بے سبب آیا نہیں اس جہاں میں انقلاب فضل
اُن کے گفتار و کردار سے ہوئی یہ سحرپیدا
Frehman
اپنی آنکھوں میں فرقت کے وہ لمحے رہے اپنی آنکھوں میں فُرقت کے وہ لمحے رہے
اُس کےچہرے پہ خوشیوں کے گُل کھلے رہے
دل کے زخم سدا ہرے بھرے رہے
موسم گل کو مگر ہم سے فاصلے رہے
نظر کوزندگی بھر تلاش رہی اُس کی
دل بیتاب میں چاہت کے زمزمے رہے
میرے ہونٹوں پہ تیرا نام رہتا ہے
تیرے لبوں پہ مگر سدا گلے رہے
شب فراق طویل تر ہوئی فضل
شاید اُس کے گیسوکُھلے رہے Frehman
اُس کےچہرے پہ خوشیوں کے گُل کھلے رہے
دل کے زخم سدا ہرے بھرے رہے
موسم گل کو مگر ہم سے فاصلے رہے
نظر کوزندگی بھر تلاش رہی اُس کی
دل بیتاب میں چاہت کے زمزمے رہے
میرے ہونٹوں پہ تیرا نام رہتا ہے
تیرے لبوں پہ مگر سدا گلے رہے
شب فراق طویل تر ہوئی فضل
شاید اُس کے گیسوکُھلے رہے Frehman
خالقِ ارض و سما ہے تُو خالقِ ارض و سما ہے تُو
ذرے ذرے میں عیاں ہے تُو
تُو ہی خالق و مالک ہمارا
ہم ہیں بندے تیرےآقا ہے تُو
بُلند و بالا پہاڑوں میں شان ہے تیری
کتنا عظیم ہے تُو کتنا اعلی ہے تُو
سمندروں سے بادل اُٹھا تا ہے تُو
اور بادلوں سے مینہ برساتا ہے تُو
نہیں نا اُمید تیری رحمت سے فضل
کہ رحیم اور رحماں ہے تُو Frehman
ذرے ذرے میں عیاں ہے تُو
تُو ہی خالق و مالک ہمارا
ہم ہیں بندے تیرےآقا ہے تُو
بُلند و بالا پہاڑوں میں شان ہے تیری
کتنا عظیم ہے تُو کتنا اعلی ہے تُو
سمندروں سے بادل اُٹھا تا ہے تُو
اور بادلوں سے مینہ برساتا ہے تُو
نہیں نا اُمید تیری رحمت سے فضل
کہ رحیم اور رحماں ہے تُو Frehman
یار بے وفا درد آنکھوں سے اشک بن کے ٹپکتے رہے
تیری یادوں کے موسم یوں ہی کٹتے رہے
جو چمن میں پھول بن کے مہکتے رہے
مسلے گئے تو کئی دل تڑپتے،سسکتے رہے
نظام بدلنے کی آس تھی جن سے
ہر پل وہ نئے رُوپ بدلتے رہے
ہم نے تو دل تیرے نام کر دیا تھا
پھر کیوں ہم سے یہ فاصلے رہے
دل کے مکاں میں صرف تُو ہی بسا ہوا تھا
تیرے ہجر سے اب تک ویرانیوں کے سلسلے رہے
دل و جاں اُن کی چاہت میں ہار بیٹھے فضل
یار بے وفا کو پھر بھی ہم سے گِلے رہے Frehman
تیری یادوں کے موسم یوں ہی کٹتے رہے
جو چمن میں پھول بن کے مہکتے رہے
مسلے گئے تو کئی دل تڑپتے،سسکتے رہے
نظام بدلنے کی آس تھی جن سے
ہر پل وہ نئے رُوپ بدلتے رہے
ہم نے تو دل تیرے نام کر دیا تھا
پھر کیوں ہم سے یہ فاصلے رہے
دل کے مکاں میں صرف تُو ہی بسا ہوا تھا
تیرے ہجر سے اب تک ویرانیوں کے سلسلے رہے
دل و جاں اُن کی چاہت میں ہار بیٹھے فضل
یار بے وفا کو پھر بھی ہم سے گِلے رہے Frehman
پالے تھے جو آنکھوں میں سپنے بکھر گئے پالے تھے جو آنکھوں میں سپنے بکھر گئے
دل یوں ٹوٹا کہ ہر سُو ٹکڑے بکھر گئے
قلب و نظر کے حوصلوں پہ ہمیں ناز تھا بہت
دیکھا جو اُن کا جلوہ تو بے موت مر گئے
ساقی تیرے میخانے کا عجب نظام دیکھا
رند آئے کئی تو کئی گُزر گئے
ہر پل تیری جدائی کا غم دل میں رہتا ہے مگر
ہم کیسے سخت جاں ہیں کہ اب تک نہ مر گئے
اپنے تومقدر میں تنہائیوں کے روز و شب رہے فضل
اچھا ہوا رقیب کے تو دن سنور گئے
frehman
دل یوں ٹوٹا کہ ہر سُو ٹکڑے بکھر گئے
قلب و نظر کے حوصلوں پہ ہمیں ناز تھا بہت
دیکھا جو اُن کا جلوہ تو بے موت مر گئے
ساقی تیرے میخانے کا عجب نظام دیکھا
رند آئے کئی تو کئی گُزر گئے
ہر پل تیری جدائی کا غم دل میں رہتا ہے مگر
ہم کیسے سخت جاں ہیں کہ اب تک نہ مر گئے
اپنے تومقدر میں تنہائیوں کے روز و شب رہے فضل
اچھا ہوا رقیب کے تو دن سنور گئے
frehman
ہر وقت خیالوں میں تیرا چہرہ لئے پھرتا ہوں ہر وقت خیالوں میں تیرا چہرہ لئے پھرتا ہوں
میں درد دل کی یہ دوا لئے پھرتا ہوں
جب سے دیکھے ہیں تیرے نشیلے نین
ہاتھوں میں ساغر و مینا لئے پھرتا ہوں
صرف دیدارِ رخ یار کی خاطر
گلی گلی کاسئہ التجا لئے پھرتا ہوں
جلا کے رکھ دوں گا یہ تیری شوخیاں صنم
میں دل میں آگ کا دریا لئے پھرتا ہوں
آنکھوں سے نکلتے نہیں دو آنسو فضل
دل میں مگر برسات کا سماں لئے پھرتا ہوں
frehman
میں درد دل کی یہ دوا لئے پھرتا ہوں
جب سے دیکھے ہیں تیرے نشیلے نین
ہاتھوں میں ساغر و مینا لئے پھرتا ہوں
صرف دیدارِ رخ یار کی خاطر
گلی گلی کاسئہ التجا لئے پھرتا ہوں
جلا کے رکھ دوں گا یہ تیری شوخیاں صنم
میں دل میں آگ کا دریا لئے پھرتا ہوں
آنکھوں سے نکلتے نہیں دو آنسو فضل
دل میں مگر برسات کا سماں لئے پھرتا ہوں
frehman