✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
Farheen Naz Tariq
Search
Add Poetry
Poetries by Farheen Naz Tariq
یاد
بےوقعت لوگوں میں
بے سروپا باتوں میں
بیکار سی آوازوں میں
کوئی تو یاد کرے گا ہم کو
یا شاید بھول جائے گی دنیا
کہ اس نام و نشان کا کوئی شخص
کبھی اس دنیا میں موجود تھا
کیا معلوم کسی میٹھے خواب کی مانند
یا کسی شیریں احساس کی مانند
کبھی کسی معصوم بچے کی آنکھ سے ٹپکے شفاف موتی کی مانند
کسی بھولی بسری یاد کے لمحے
ہم بھی اک انجانی مسکان بن کر کسی لب پر جگمگائیں گے
کیا معلوم اس پل کو
پرانے شناسا کی مانند ہم کسی یاد میں کوندا بن کر لپکیں گے
یا ہمیشہ کے لیے یادداشت کے خانوں سے مٹا دیے جائیں گے
یا ہمارےجگہ کوئی دوسرے عکس سجالیےجائیں گے
اور ہم کو پلکوں میں آنسو جتنی جگہ بھی نہ مل پائے گی
اور ویرانوں میں اپنی شناخت ڈھونڈتے ڈھونڈتے اک دن
ہم بھی دیوانے ہوجائیں گے
اور کوئی ہماری طرف قدم بڑھائے گا تو محض پتھر مارنے کی خاطر
مگر اس میں نیا کیا ہوگا
کہ یہ پتھر تو ہم برسوں سے بمع ہوش و حواس کھاتے آرہے ہیں
تو کیا یہ طے رہا کہ زندگی کا تمام تر تکلیف دہ سفر
فقط اس پہلے پتھر اور آخری پتھر کا درمیانی فاصلہ طے کرنے کی خاطر کاٹا گیا تھا
یہ تمام تر محض اک دن گمنام پڑے مر جانے کی خاطر لڑی گئی تھی
یا اس سفر کی کوئی دوسری حقیقت بھی تھی؟
اور اگر تھی تو کیا تھی
کیونکہ زندگی تو ہر خاص و عام
اعلیٰ و ادنیٰ کو کچلتی چلی جارہی ہے
پگڑی والوں کی پگڑیاں
تخت والوں کے تاج اور گدا والوں کے خالی کٹورے
ایک ہی جیسے اپنے بے رحم پنجوں میں جکڑ کر
روندے جاتی ہے
کسی ایسے پرندے کی مانند جو گھڑی بھر کہیں رکا ہواپنے پروں کا سایہ کسی اونچی حویلی کی منڈیر پر پھیلا کر
اس کے مکینوں کو بدبختی دان کر دور اڑ چلا ہو۔
بھکاری کی بھیک،
لکھاری کے لیکھ
شاہ کی دستار اور تاخ و تخت، بخت، لخت سب سیاہ کرتا دور جا بیٹھا بربادی کے منظر دیکھ رہا ہو
اور اس منظر کے پیچھے بہت دور کہیں ہم منحنی سا وجود لیے دم بخود بیٹھے رہ گئے ہیں
فرحین ناز طارق
Copy
گلاب
انسان مرجھا جاتے ہیں
جیسے پھول مرجھا ہی جاتے ہیں
اگر مناسب پزیرائی نہ ملے
اگر دیکھ بھال میں چوک ہوجائے
محبت کا پانی نہ مل پائے
آبیاری دل کی مشکل ہے
تمہیں سمجھنا ہوگا
وقت کی تیز رفتار میں
کسی کا وقت تمہاری اک مسکان پر
رک بھی سکتا ہے
اگر ایسا کوئی پالو
تو اسے سنبھال کر رکھنا
محبت بارش کی بوندوں کی مانند ہے
ہاتھ سے پھسل بھی سکتی ہے
محبت مہک کی مانند ہے
سوکھے گلابوں سے خوشبو نہیں آتی
ایسے سوکھے گلاب
پھر فقط دیمک لگی پرانی ڈائریوں میں رکھنے کے کام آتے ہیں
دھیان رکھنا
کسی کی خوشبو چرا کر
کسی گلاب کو مسل کر
اس بے رحم دنیا کے سپرد کر کے
جو بے مول کر دو گے
سکون تم بھی کہاں سے پاؤ گے
کہ ان مسلے گلابوں کی بے ضرر خوشبو
جان لیوا پچھتاوؤں کی صورت
تمہارا پیچھا کرے گی۔
اور پچھتاوے مار دیتے ہیں۔
فرحین ناز طارق
Copy
تم کوئی نہیں ہو
تم سو جاؤ تمہاری سانسوں کی آواز سنتے میری آنکھ لگ جائے
اور اٹھنے پر بھی کال یوں ہی جاری ہو۔ تم سو رہے ہو اور میں تمہیں دیکھتی رہوں
بیچ میں نہ میلوں کے فاصلے ہوں نہ وقت کی مسافت
صرف تم اور تمہاری سانسوں کی مدھر آواز سنتی میں
تیسرا کوئی نفس بیچ میں نہ ہو
ایسی ہی کئی اور کہانیاں جو تم کبھی نہ کہو اور میں سن سکوں
جو میں لکھ نہ پاؤں اور تم پڑھ سکو
بہت سے قصے جو بناء کہے ہم ایک دوسرے کو سنائیں۔
مگر تم کہاں ہو
تم تو اک احساسِ تخیل سے زیادہ کچھ نہیں ہو
تم تو کوئی نہیں ہو
اور تمہارے اس نہ ہونے نے
میرے بہت سے کردار ماردیے ہیں
بہت سے لفظ جو میں کہنا چاہتی تھی
ایسی دلکش تحریریں جو میں لکھنا چاہتی تھی
اور ایسے نقش جو میں دلوں پر ابھارنا چاہتی تھی
تمہارے نہ ہونے کے درد کی نظر ہوگئے ہیں
کاش تم وجود رکھتے
میرے احساس پر مبنی وجود رکھتے
میرے تخیل میں جو ہیولا موجود ہے
تمہارا تصور جو میرے ذہن کے خانوں پر دھندلا سا موجود ہے
ویسا ہی دلکش اور جان لیوا وجود اگر رکھتے تم
تو میرے بہت سے الفاظ و کردار زندہ ہوسکتے تھے
میرے بہت سے احساسات وجود پاسکتے تھے
مگر تم کہاں ہو
تم تو کوئی نہیں ہو
سو میں بھی نہیں ہوں
تمہاری طرح میرا وجود بھی محض خیالی ہے
فرحین ناز طارق
Copy
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
سوہنی نہ سسی نہ
صاحبہ دی تصویر وے مرزیا
نہ ای شیریں آں فرہاد دی
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
نہ کیدو نہ کھیڑے
نہ پنوں دے ویر وے مرزیا
فر وی ملن دی نہیں آس وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
بھانبھڑ بلدے ہجر دے دل وچ
دل وچ لگیا تیر وے مرزیا
دنیا سمجھے مینوں اپنی جاگیر وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
میرے عشق دی نہ بجھدی اگ
تن دے لیرے ہین سلامت
من میرا لیرو لیر وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
صاحبہ رول دتی تیری بھری جوانی
توں کیتی نہ کدی اف وے مرزیا
اے کیہو جیہا عشق وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
کیتی وفا تو جیدھے نال
اسی صاحبہ بھنے تیر وے مرزیا
ایہہ نہیں عشق دی تفصیر وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
اک واری ویکھ لے میرے ول
میں دتی جوانی روڑھ وے مرزیا
تیرے عشق دا پایا تعویذ وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
فرحین ناز طارق
Copy
رات
ان سیاہ یخ بستہ راتوں میں
تنہائی اک واحد ساتھی ہے
جو دل لٹانے آئے تھے
وہ جاں لے کر رخصت ہوئے
جہاں سفر کا آغاز ہوا تھا
وہی پھر انجام ہوا ہے
آہستہ سے کچھ کہنے کو
شنگرفی لب وا ہوئے تھے
اور پل بھر میں سب
رشتے ناطے تباہ ہوئے ہیں
اب بولائے بولائے سے
نجانے کہاں پھرتے ہیں
ان تاریک راتوں کی وحشت
اپنی جگہ پر قائم ہے
مگر جو قدم بڑھے تھے پذیرائی کو
اور ساتھی بنے تھے جو شام کو
رات کے سناٹے میں ڈھل چکے ہیں
آس کے جگنو مر چکے ہیں
رشتے ناطے سب جل چکے ہیں
آنکھوں میں نئی امید بسائے
پنچھی تو کب کے اڑ چکے ہیں
اور ہم
خود کو اسی دشت میں سنگسار کیے
کب کے لاشے دفنا چکے ہیں
پھولوں کی چاہ میں خود کو
قبرستان بنا چکے ہیں
اب آزمانے کو کیا باقی رہا ہے
مہمان تو سارے جا چکے ہیں۔لله
Farheen Naz Tariq
Copy
وقت
سدا کب وقت ایک سا رہتا ہے
سدا کب کوئی ساتھ چلتا ہے
سدا کب باغ پھول کھلاتے ہیں
سدا کب خزاں کا موسم رہتا ہے
یہ دن بھی گزر جائے گا ہردن کی طرح
سدا کب کوئی سوگ رہتا ہے
نہ مارو ناحق سر تیشے پہ، صبر کرو
سدا کب کوئی روگ رہتا ہے
Farheen Naz Tariq
Copy
سر خاک ڈالی، گھر بار پھونکا، بدن سوکھ کر ہوا کانٹا
سر خاک ڈالی، گھر بار پھونکا، بدن سوکھ کر ہوا کانٹا
بول میاں مجنوں تو نے اس عشق میں کیا کچھ جھونکا
Farheen Naz Tariq
Copy
تحریف
روشنی میری دور تلک جائے گی
شرط یہ هے تیل او جی ڈی سی ایل سے منگواؤ یارو
F.N.Tariq
Copy
متفرق
باپ کی غریبی میں بچپن کھو گیا
بچہ وقت سے پہلے بڑا ہو گیا
F.N.Tariq.
Copy
کیا ایسا هو گا پاکستان
کیا ایسا هو گا پاکستان
یه ٹوٹی پھوٹی سڑکیں
یه میلے کچیلے بچے
یه آنکھوں میں بسے
ٹوٹے هوئے کئی سپنے
کرچی کرچی وجود اپنے
خالی پیٹ معصوم بچے
بھرے پیٹ مرده ضمیر
قائد کے عهد کی
بے وقعت قندیل
سوهنی دھرتی اور
سونی تعبیر
اقبال کے خوابوں کی
مرده تصویر
اپنے هی خون میں
ڈوبی شمشیر
مهکتے خواب کی
اجڑی تعبیر
کیا یه هے حقیقت
کیا یه هے هماری تسخیر؟
F.N.Tariq.
Copy
In memory of A.P.S kids & the kids died in bomb blasts.
Little angels of Aps.
Apples of their mother's eyes.
They had to rise and shine.
But they are lying underneath the soil.
With some shattered dreams.
They were killed brutally before the eyes of mankind.
Their sufferings, their pain has not remain silent.
We have taken their revenge.
But still pain remain.
Aps kids and the kids died in bomb blasts,
Were not just some blooming Flowers but...
The future of our mother land.
We will never forget u till the end of mankind.
F.N.Tariq
Copy
عشق کا دعوئ کرتے هو
عشق کا دعوئ کرتے هو تو سیکھو آداب عشق بھی پہلے
نام میر رکھیو اپنا، پھر هوؤ دیوانے صاحب
F.N.Tariq
Copy
خواب بیچ آیا هوں
میں اپنے خواب بیچ آیا هوں
هوس سے بھری دنیا میں
نفرت سے پر وجود لیے پھرنے والو
میرے گھر کو بے بسی کی بھینٹ چڑھا کر
کرگس کی طرح ماس نوچ کر کھانے والو
ابھی بهت سے من میت باقی هیں
لهو کا بازار گرم کرنے والو
ابھی تمهارے راستے میں بهت سی دیواریں باقی هیں
اهل وطن جو خواب دیکھنا بھول گئے هیں
ان کو اپنے لهو سے سینچے
کچھ خواب دان کیے هیں
میری نیند سے بوجھل خالی آنکھیں بتاتی هیں
میں اپنا سب کچھ وار آیا هوں
میں اپنے خواب بنا دام هی بیچ آیا هوں
تاکه وه میری آئنده نسلوں کی کچی نیندوں میں
انکے دم توڑتے حوصلوں میں نیا ولوله پیدا کر سکیں
میرے تھک کر شهر خموشاں میں سونے کے بعد
نئے حوصلے پیدا کر سکیں
تاکه نئے سنگ میل ترتیب دیے جاسکیں
جو اندھیروں میں روشنی کے جگنو بن کر بکھریں
اسی لیے اپنے خواب بیچ آیا هوں
میں بے دام هی اپنے خواب بیچ آیا هوں
Dedicated 2 Quaid e Azam M. Ali Jinnah
F.N.Tariq
Copy
کیا عجب کھیل هے دنیا داری
کیا عجب کھیل هے دنیا داری
نه سکوں هے نه هے خودداری
زندگی کی بساطت پر
هاری هے هر ایک بازی
زندگی تو میری هے مگر
دستنگر هے اهل جهاں داری
F.N.Tariq
Copy
میں پاکستان هوں
بھت بیمار هوں
بھت لاچار هوں
نفرتوں میں گھرا هوں
مجھے محبتوں کا تریاق دو
میرا سینه هے چھلنی
میرے پانچوں بیٹے هیں برسر پیکار
مجھے دل و جگر په چل رهی هیں
فرقه واریت کی برچھیاں
آبله پا هوں
زخم و تھکن سے چور هوں
اشک سے تر بتر هیں میرے کھیت کھلیان
میری دھرتی سهانے دنوں کی یادمیں هے ماتم کناں
میرے نونهالوں کےلبوں په هیں سسکیاں
بیگار و مشقت کی شکنوں کا جال هے
انکی پیشانی په رقم
بھوک سے نڈھال هیں وجود میرے بچوں کے
پھر بھی اس آس په هوں زنده
میرے بچے سامراج کی غلامی کی بیڑیاں
اک دن میرے پاؤں سے کاٹ کے پھینک دینگے
کبھی تو اجالا میرے ویرانوں میں چھٹے گا
لال رنگ خون کی هولی مچانے کے بجائے
فقط دلهن کے لباس په دکھے گا
کبھی تو لاٹھی کی بغیر
میں چلنا سیکھوں گا
بس اک اس آسمیں زنده هوں
که
میں بنا تھاقائم رهنے کو
میرے رب ذوالجلال کے نام کا سایه
مجھے تنها نهیں چھوڑے گا
میں زنده تھا میں زنده هوں
اور زنده رهوں گا
میں پنجابی سندھی بلوچی اورپختون نهیں
پاکستان تھا پاکستان هوں اور پاکستان هی رهوں گا
Farheen Naz Tariq
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets