Add Poetry

Poetries by Farheen Naz Tariq

یاد بےوقعت لوگوں میں
بے سروپا باتوں میں
بیکار سی آوازوں میں
کوئی تو یاد کرے گا ہم کو
یا شاید بھول جائے گی دنیا
کہ اس نام و نشان کا کوئی شخص
کبھی اس دنیا میں موجود تھا
کیا معلوم کسی میٹھے خواب کی مانند
یا کسی شیریں احساس کی مانند
کبھی کسی معصوم بچے کی آنکھ سے ٹپکے شفاف موتی کی مانند
کسی بھولی بسری یاد کے لمحے
ہم بھی اک انجانی مسکان بن کر کسی لب پر جگمگائیں گے
کیا معلوم اس پل کو
پرانے شناسا کی مانند ہم کسی یاد میں کوندا بن کر لپکیں گے
یا ہمیشہ کے لیے یادداشت کے خانوں سے مٹا دیے جائیں گے
یا ہمارےجگہ کوئی دوسرے عکس سجالیےجائیں گے
‏اور ہم کو پلکوں میں آنسو جتنی جگہ بھی نہ مل پائے گی
اور ویرانوں میں اپنی شناخت ڈھونڈتے ڈھونڈتے اک دن
ہم بھی دیوانے ہوجائیں گے
اور کوئی ہماری طرف قدم بڑھائے گا تو محض پتھر مارنے کی خاطر
مگر اس میں نیا کیا ہوگا
کہ یہ پتھر تو ہم برسوں سے بمع ہوش و حواس کھاتے آرہے ہیں
تو کیا یہ طے رہا کہ زندگی کا تمام تر تکلیف دہ سفر
فقط اس پہلے پتھر اور آخری پتھر کا درمیانی فاصلہ طے کرنے کی خاطر کاٹا گیا تھا
یہ تمام تر محض اک دن گمنام پڑے مر جانے کی خاطر لڑی گئی تھی
یا اس سفر کی کوئی دوسری حقیقت بھی تھی؟
اور اگر تھی تو کیا تھی
کیونکہ زندگی تو ہر خاص و عام
اعلیٰ و ادنیٰ کو کچلتی چلی جارہی ہے
پگڑی والوں کی پگڑیاں
تخت والوں کے تاج اور گدا والوں کے خالی کٹورے
ایک ہی جیسے اپنے بے رحم پنجوں میں جکڑ کر
روندے جاتی ہے
کسی ایسے پرندے کی مانند جو گھڑی بھر کہیں رکا ہواپنے پروں کا سایہ کسی اونچی حویلی کی منڈیر پر پھیلا کر
اس کے مکینوں کو بدبختی دان کر دور اڑ چلا ہو۔
بھکاری کی بھیک،
لکھاری کے لیکھ
شاہ کی دستار اور تاخ و تخت، بخت، لخت سب سیاہ کرتا دور جا بیٹھا بربادی کے منظر دیکھ رہا ہو
اور اس منظر کے پیچھے بہت دور کہیں ہم منحنی سا وجود لیے دم بخود بیٹھے رہ گئے ہیں
فرحین ناز طارق
تم کوئی نہیں ہو ‏تم سو جاؤ تمہاری سانسوں کی آواز سنتے میری آنکھ لگ جائے
اور اٹھنے پر بھی کال یوں ہی جاری ہو۔ تم سو رہے ہو اور میں تمہیں دیکھتی رہوں
بیچ میں نہ میلوں کے فاصلے ہوں نہ وقت کی مسافت
صرف تم اور تمہاری سانسوں کی مدھر آواز سنتی میں
تیسرا کوئی نفس بیچ میں نہ ہو
ایسی ہی کئی اور کہانیاں جو تم کبھی نہ کہو اور میں سن سکوں
جو میں لکھ نہ پاؤں اور تم پڑھ سکو
بہت سے قصے جو بناء کہے ہم ایک دوسرے کو سنائیں۔
مگر تم کہاں ہو
تم تو اک احساسِ تخیل سے زیادہ کچھ نہیں ہو
تم تو کوئی نہیں ہو
اور تمہارے اس نہ ہونے نے
میرے بہت سے کردار ماردیے ہیں
بہت سے لفظ جو میں کہنا چاہتی تھی
ایسی دلکش تحریریں جو میں لکھنا چاہتی تھی
اور ایسے نقش جو میں دلوں پر ابھارنا چاہتی تھی
تمہارے نہ ہونے کے درد کی نظر ہوگئے ہیں
کاش تم وجود رکھتے
میرے احساس پر مبنی وجود رکھتے
میرے تخیل میں جو ہیولا موجود ہے
تمہارا تصور جو میرے ذہن کے خانوں پر دھندلا سا موجود ہے
ویسا ہی دلکش اور جان لیوا وجود اگر رکھتے تم
تو میرے بہت سے الفاظ و کردار زندہ ہوسکتے تھے
میرے بہت سے احساسات وجود پاسکتے تھے
مگر تم کہاں ہو
تم تو کوئی نہیں ہو
سو میں بھی نہیں ہوں
تمہاری طرح میرا وجود بھی محض خیالی ہے
فرحین ناز طارق
میں پاکستان هوں بھت بیمار هوں
بھت لاچار هوں
نفرتوں میں گھرا هوں
مجھے محبتوں کا تریاق دو
میرا سینه هے چھلنی
میرے پانچوں بیٹے هیں برسر پیکار
مجھے دل و جگر په چل رهی هیں
فرقه واریت کی برچھیاں
آبله پا هوں
زخم و تھکن سے چور هوں
اشک سے تر بتر هیں میرے کھیت کھلیان
میری دھرتی سهانے دنوں کی یادمیں هے ماتم کناں
میرے نونهالوں کےلبوں په هیں سسکیاں
بیگار و مشقت کی شکنوں کا جال هے
انکی پیشانی په رقم
بھوک سے نڈھال هیں وجود میرے بچوں کے
پھر بھی اس آس په هوں زنده
میرے بچے سامراج کی غلامی کی بیڑیاں
اک دن میرے پاؤں سے کاٹ کے پھینک دینگے
کبھی تو اجالا میرے ویرانوں میں چھٹے گا
لال رنگ خون کی هولی مچانے کے بجائے
فقط دلهن کے لباس په دکھے گا
کبھی تو لاٹھی کی بغیر
میں چلنا سیکھوں گا
بس اک اس آسمیں زنده هوں
که
میں بنا تھاقائم رهنے کو
میرے رب ذوالجلال کے نام کا سایه
مجھے تنها نهیں چھوڑے گا
میں زنده تھا میں زنده هوں
اور زنده رهوں گا
میں پنجابی سندھی بلوچی اورپختون نهیں
پاکستان تھا پاکستان هوں اور پاکستان هی رهوں گا
Farheen Naz Tariq
Famous Poets
View More Poets