Poetries by Farheen Naz Tariq
یاد بےوقعت لوگوں میں
بے سروپا باتوں میں
بیکار سی آوازوں میں
کوئی تو یاد کرے گا ہم کو
یا شاید بھول جائے گی دنیا
کہ اس نام و نشان کا کوئی شخص
کبھی اس دنیا میں موجود تھا
کیا معلوم کسی میٹھے خواب کی مانند
یا کسی شیریں احساس کی مانند
کبھی کسی معصوم بچے کی آنکھ سے ٹپکے شفاف موتی کی مانند
کسی بھولی بسری یاد کے لمحے
ہم بھی اک انجانی مسکان بن کر کسی لب پر جگمگائیں گے
کیا معلوم اس پل کو
پرانے شناسا کی مانند ہم کسی یاد میں کوندا بن کر لپکیں گے
یا ہمیشہ کے لیے یادداشت کے خانوں سے مٹا دیے جائیں گے
یا ہمارےجگہ کوئی دوسرے عکس سجالیےجائیں گے
اور ہم کو پلکوں میں آنسو جتنی جگہ بھی نہ مل پائے گی
اور ویرانوں میں اپنی شناخت ڈھونڈتے ڈھونڈتے اک دن
ہم بھی دیوانے ہوجائیں گے
اور کوئی ہماری طرف قدم بڑھائے گا تو محض پتھر مارنے کی خاطر
مگر اس میں نیا کیا ہوگا
کہ یہ پتھر تو ہم برسوں سے بمع ہوش و حواس کھاتے آرہے ہیں
تو کیا یہ طے رہا کہ زندگی کا تمام تر تکلیف دہ سفر
فقط اس پہلے پتھر اور آخری پتھر کا درمیانی فاصلہ طے کرنے کی خاطر کاٹا گیا تھا
یہ تمام تر محض اک دن گمنام پڑے مر جانے کی خاطر لڑی گئی تھی
یا اس سفر کی کوئی دوسری حقیقت بھی تھی؟
اور اگر تھی تو کیا تھی
کیونکہ زندگی تو ہر خاص و عام
اعلیٰ و ادنیٰ کو کچلتی چلی جارہی ہے
پگڑی والوں کی پگڑیاں
تخت والوں کے تاج اور گدا والوں کے خالی کٹورے
ایک ہی جیسے اپنے بے رحم پنجوں میں جکڑ کر
روندے جاتی ہے
کسی ایسے پرندے کی مانند جو گھڑی بھر کہیں رکا ہواپنے پروں کا سایہ کسی اونچی حویلی کی منڈیر پر پھیلا کر
اس کے مکینوں کو بدبختی دان کر دور اڑ چلا ہو۔
بھکاری کی بھیک،
لکھاری کے لیکھ
شاہ کی دستار اور تاخ و تخت، بخت، لخت سب سیاہ کرتا دور جا بیٹھا بربادی کے منظر دیکھ رہا ہو
اور اس منظر کے پیچھے بہت دور کہیں ہم منحنی سا وجود لیے دم بخود بیٹھے رہ گئے ہیں فرحین ناز طارق
بے سروپا باتوں میں
بیکار سی آوازوں میں
کوئی تو یاد کرے گا ہم کو
یا شاید بھول جائے گی دنیا
کہ اس نام و نشان کا کوئی شخص
کبھی اس دنیا میں موجود تھا
کیا معلوم کسی میٹھے خواب کی مانند
یا کسی شیریں احساس کی مانند
کبھی کسی معصوم بچے کی آنکھ سے ٹپکے شفاف موتی کی مانند
کسی بھولی بسری یاد کے لمحے
ہم بھی اک انجانی مسکان بن کر کسی لب پر جگمگائیں گے
کیا معلوم اس پل کو
پرانے شناسا کی مانند ہم کسی یاد میں کوندا بن کر لپکیں گے
یا ہمیشہ کے لیے یادداشت کے خانوں سے مٹا دیے جائیں گے
یا ہمارےجگہ کوئی دوسرے عکس سجالیےجائیں گے
اور ہم کو پلکوں میں آنسو جتنی جگہ بھی نہ مل پائے گی
اور ویرانوں میں اپنی شناخت ڈھونڈتے ڈھونڈتے اک دن
ہم بھی دیوانے ہوجائیں گے
اور کوئی ہماری طرف قدم بڑھائے گا تو محض پتھر مارنے کی خاطر
مگر اس میں نیا کیا ہوگا
کہ یہ پتھر تو ہم برسوں سے بمع ہوش و حواس کھاتے آرہے ہیں
تو کیا یہ طے رہا کہ زندگی کا تمام تر تکلیف دہ سفر
فقط اس پہلے پتھر اور آخری پتھر کا درمیانی فاصلہ طے کرنے کی خاطر کاٹا گیا تھا
یہ تمام تر محض اک دن گمنام پڑے مر جانے کی خاطر لڑی گئی تھی
یا اس سفر کی کوئی دوسری حقیقت بھی تھی؟
اور اگر تھی تو کیا تھی
کیونکہ زندگی تو ہر خاص و عام
اعلیٰ و ادنیٰ کو کچلتی چلی جارہی ہے
پگڑی والوں کی پگڑیاں
تخت والوں کے تاج اور گدا والوں کے خالی کٹورے
ایک ہی جیسے اپنے بے رحم پنجوں میں جکڑ کر
روندے جاتی ہے
کسی ایسے پرندے کی مانند جو گھڑی بھر کہیں رکا ہواپنے پروں کا سایہ کسی اونچی حویلی کی منڈیر پر پھیلا کر
اس کے مکینوں کو بدبختی دان کر دور اڑ چلا ہو۔
بھکاری کی بھیک،
لکھاری کے لیکھ
شاہ کی دستار اور تاخ و تخت، بخت، لخت سب سیاہ کرتا دور جا بیٹھا بربادی کے منظر دیکھ رہا ہو
اور اس منظر کے پیچھے بہت دور کہیں ہم منحنی سا وجود لیے دم بخود بیٹھے رہ گئے ہیں فرحین ناز طارق
گلاب انسان مرجھا جاتے ہیں
جیسے پھول مرجھا ہی جاتے ہیں
اگر مناسب پزیرائی نہ ملے
اگر دیکھ بھال میں چوک ہوجائے
محبت کا پانی نہ مل پائے
آبیاری دل کی مشکل ہے
تمہیں سمجھنا ہوگا
وقت کی تیز رفتار میں
کسی کا وقت تمہاری اک مسکان پر
رک بھی سکتا ہے
اگر ایسا کوئی پالو
تو اسے سنبھال کر رکھنا
محبت بارش کی بوندوں کی مانند ہے
ہاتھ سے پھسل بھی سکتی ہے
محبت مہک کی مانند ہے
سوکھے گلابوں سے خوشبو نہیں آتی
ایسے سوکھے گلاب
پھر فقط دیمک لگی پرانی ڈائریوں میں رکھنے کے کام آتے ہیں
دھیان رکھنا
کسی کی خوشبو چرا کر
کسی گلاب کو مسل کر
اس بے رحم دنیا کے سپرد کر کے
جو بے مول کر دو گے
سکون تم بھی کہاں سے پاؤ گے
کہ ان مسلے گلابوں کی بے ضرر خوشبو
جان لیوا پچھتاوؤں کی صورت
تمہارا پیچھا کرے گی۔
اور پچھتاوے مار دیتے ہیں۔ فرحین ناز طارق
جیسے پھول مرجھا ہی جاتے ہیں
اگر مناسب پزیرائی نہ ملے
اگر دیکھ بھال میں چوک ہوجائے
محبت کا پانی نہ مل پائے
آبیاری دل کی مشکل ہے
تمہیں سمجھنا ہوگا
وقت کی تیز رفتار میں
کسی کا وقت تمہاری اک مسکان پر
رک بھی سکتا ہے
اگر ایسا کوئی پالو
تو اسے سنبھال کر رکھنا
محبت بارش کی بوندوں کی مانند ہے
ہاتھ سے پھسل بھی سکتی ہے
محبت مہک کی مانند ہے
سوکھے گلابوں سے خوشبو نہیں آتی
ایسے سوکھے گلاب
پھر فقط دیمک لگی پرانی ڈائریوں میں رکھنے کے کام آتے ہیں
دھیان رکھنا
کسی کی خوشبو چرا کر
کسی گلاب کو مسل کر
اس بے رحم دنیا کے سپرد کر کے
جو بے مول کر دو گے
سکون تم بھی کہاں سے پاؤ گے
کہ ان مسلے گلابوں کی بے ضرر خوشبو
جان لیوا پچھتاوؤں کی صورت
تمہارا پیچھا کرے گی۔
اور پچھتاوے مار دیتے ہیں۔ فرحین ناز طارق
تم کوئی نہیں ہو تم سو جاؤ تمہاری سانسوں کی آواز سنتے میری آنکھ لگ جائے
اور اٹھنے پر بھی کال یوں ہی جاری ہو۔ تم سو رہے ہو اور میں تمہیں دیکھتی رہوں
بیچ میں نہ میلوں کے فاصلے ہوں نہ وقت کی مسافت
صرف تم اور تمہاری سانسوں کی مدھر آواز سنتی میں
تیسرا کوئی نفس بیچ میں نہ ہو
ایسی ہی کئی اور کہانیاں جو تم کبھی نہ کہو اور میں سن سکوں
جو میں لکھ نہ پاؤں اور تم پڑھ سکو
بہت سے قصے جو بناء کہے ہم ایک دوسرے کو سنائیں۔
مگر تم کہاں ہو
تم تو اک احساسِ تخیل سے زیادہ کچھ نہیں ہو
تم تو کوئی نہیں ہو
اور تمہارے اس نہ ہونے نے
میرے بہت سے کردار ماردیے ہیں
بہت سے لفظ جو میں کہنا چاہتی تھی
ایسی دلکش تحریریں جو میں لکھنا چاہتی تھی
اور ایسے نقش جو میں دلوں پر ابھارنا چاہتی تھی
تمہارے نہ ہونے کے درد کی نظر ہوگئے ہیں
کاش تم وجود رکھتے
میرے احساس پر مبنی وجود رکھتے
میرے تخیل میں جو ہیولا موجود ہے
تمہارا تصور جو میرے ذہن کے خانوں پر دھندلا سا موجود ہے
ویسا ہی دلکش اور جان لیوا وجود اگر رکھتے تم
تو میرے بہت سے الفاظ و کردار زندہ ہوسکتے تھے
میرے بہت سے احساسات وجود پاسکتے تھے
مگر تم کہاں ہو
تم تو کوئی نہیں ہو
سو میں بھی نہیں ہوں
تمہاری طرح میرا وجود بھی محض خیالی ہے
فرحین ناز طارق
اور اٹھنے پر بھی کال یوں ہی جاری ہو۔ تم سو رہے ہو اور میں تمہیں دیکھتی رہوں
بیچ میں نہ میلوں کے فاصلے ہوں نہ وقت کی مسافت
صرف تم اور تمہاری سانسوں کی مدھر آواز سنتی میں
تیسرا کوئی نفس بیچ میں نہ ہو
ایسی ہی کئی اور کہانیاں جو تم کبھی نہ کہو اور میں سن سکوں
جو میں لکھ نہ پاؤں اور تم پڑھ سکو
بہت سے قصے جو بناء کہے ہم ایک دوسرے کو سنائیں۔
مگر تم کہاں ہو
تم تو اک احساسِ تخیل سے زیادہ کچھ نہیں ہو
تم تو کوئی نہیں ہو
اور تمہارے اس نہ ہونے نے
میرے بہت سے کردار ماردیے ہیں
بہت سے لفظ جو میں کہنا چاہتی تھی
ایسی دلکش تحریریں جو میں لکھنا چاہتی تھی
اور ایسے نقش جو میں دلوں پر ابھارنا چاہتی تھی
تمہارے نہ ہونے کے درد کی نظر ہوگئے ہیں
کاش تم وجود رکھتے
میرے احساس پر مبنی وجود رکھتے
میرے تخیل میں جو ہیولا موجود ہے
تمہارا تصور جو میرے ذہن کے خانوں پر دھندلا سا موجود ہے
ویسا ہی دلکش اور جان لیوا وجود اگر رکھتے تم
تو میرے بہت سے الفاظ و کردار زندہ ہوسکتے تھے
میرے بہت سے احساسات وجود پاسکتے تھے
مگر تم کہاں ہو
تم تو کوئی نہیں ہو
سو میں بھی نہیں ہوں
تمہاری طرح میرا وجود بھی محض خیالی ہے
فرحین ناز طارق
میں آں تیری ہیر وے مرزیا سوہنی نہ سسی نہ
صاحبہ دی تصویر وے مرزیا
نہ ای شیریں آں فرہاد دی
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
نہ کیدو نہ کھیڑے
نہ پنوں دے ویر وے مرزیا
فر وی ملن دی نہیں آس وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
بھانبھڑ بلدے ہجر دے دل وچ
دل وچ لگیا تیر وے مرزیا
دنیا سمجھے مینوں اپنی جاگیر وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
میرے عشق دی نہ بجھدی اگ
تن دے لیرے ہین سلامت
من میرا لیرو لیر وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
صاحبہ رول دتی تیری بھری جوانی
توں کیتی نہ کدی اف وے مرزیا
اے کیہو جیہا عشق وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
کیتی وفا تو جیدھے نال
اسی صاحبہ بھنے تیر وے مرزیا
ایہہ نہیں عشق دی تفصیر وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
اک واری ویکھ لے میرے ول
میں دتی جوانی روڑھ وے مرزیا
تیرے عشق دا پایا تعویذ وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
فرحین ناز طارق
صاحبہ دی تصویر وے مرزیا
نہ ای شیریں آں فرہاد دی
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
نہ کیدو نہ کھیڑے
نہ پنوں دے ویر وے مرزیا
فر وی ملن دی نہیں آس وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
بھانبھڑ بلدے ہجر دے دل وچ
دل وچ لگیا تیر وے مرزیا
دنیا سمجھے مینوں اپنی جاگیر وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
میرے عشق دی نہ بجھدی اگ
تن دے لیرے ہین سلامت
من میرا لیرو لیر وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
صاحبہ رول دتی تیری بھری جوانی
توں کیتی نہ کدی اف وے مرزیا
اے کیہو جیہا عشق وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
کیتی وفا تو جیدھے نال
اسی صاحبہ بھنے تیر وے مرزیا
ایہہ نہیں عشق دی تفصیر وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
اک واری ویکھ لے میرے ول
میں دتی جوانی روڑھ وے مرزیا
تیرے عشق دا پایا تعویذ وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
میں آں تیری ہیر وے مرزیا
فرحین ناز طارق
رات ان سیاہ یخ بستہ راتوں میں
تنہائی اک واحد ساتھی ہے
جو دل لٹانے آئے تھے
وہ جاں لے کر رخصت ہوئے
جہاں سفر کا آغاز ہوا تھا
وہی پھر انجام ہوا ہے
آہستہ سے کچھ کہنے کو
شنگرفی لب وا ہوئے تھے
اور پل بھر میں سب
رشتے ناطے تباہ ہوئے ہیں
اب بولائے بولائے سے
نجانے کہاں پھرتے ہیں
ان تاریک راتوں کی وحشت
اپنی جگہ پر قائم ہے
مگر جو قدم بڑھے تھے پذیرائی کو
اور ساتھی بنے تھے جو شام کو
رات کے سناٹے میں ڈھل چکے ہیں
آس کے جگنو مر چکے ہیں
رشتے ناطے سب جل چکے ہیں
آنکھوں میں نئی امید بسائے
پنچھی تو کب کے اڑ چکے ہیں
اور ہم
خود کو اسی دشت میں سنگسار کیے
کب کے لاشے دفنا چکے ہیں
پھولوں کی چاہ میں خود کو
قبرستان بنا چکے ہیں
اب آزمانے کو کیا باقی رہا ہے
مہمان تو سارے جا چکے ہیں۔لله Farheen Naz Tariq
تنہائی اک واحد ساتھی ہے
جو دل لٹانے آئے تھے
وہ جاں لے کر رخصت ہوئے
جہاں سفر کا آغاز ہوا تھا
وہی پھر انجام ہوا ہے
آہستہ سے کچھ کہنے کو
شنگرفی لب وا ہوئے تھے
اور پل بھر میں سب
رشتے ناطے تباہ ہوئے ہیں
اب بولائے بولائے سے
نجانے کہاں پھرتے ہیں
ان تاریک راتوں کی وحشت
اپنی جگہ پر قائم ہے
مگر جو قدم بڑھے تھے پذیرائی کو
اور ساتھی بنے تھے جو شام کو
رات کے سناٹے میں ڈھل چکے ہیں
آس کے جگنو مر چکے ہیں
رشتے ناطے سب جل چکے ہیں
آنکھوں میں نئی امید بسائے
پنچھی تو کب کے اڑ چکے ہیں
اور ہم
خود کو اسی دشت میں سنگسار کیے
کب کے لاشے دفنا چکے ہیں
پھولوں کی چاہ میں خود کو
قبرستان بنا چکے ہیں
اب آزمانے کو کیا باقی رہا ہے
مہمان تو سارے جا چکے ہیں۔لله Farheen Naz Tariq
کیا ایسا هو گا پاکستان کیا ایسا هو گا پاکستان
یه ٹوٹی پھوٹی سڑکیں
یه میلے کچیلے بچے
یه آنکھوں میں بسے
ٹوٹے هوئے کئی سپنے
کرچی کرچی وجود اپنے
خالی پیٹ معصوم بچے
بھرے پیٹ مرده ضمیر
قائد کے عهد کی
بے وقعت قندیل
سوهنی دھرتی اور
سونی تعبیر
اقبال کے خوابوں کی
مرده تصویر
اپنے هی خون میں
ڈوبی شمشیر
مهکتے خواب کی
اجڑی تعبیر
کیا یه هے حقیقت
کیا یه هے هماری تسخیر؟ F.N.Tariq.
یه ٹوٹی پھوٹی سڑکیں
یه میلے کچیلے بچے
یه آنکھوں میں بسے
ٹوٹے هوئے کئی سپنے
کرچی کرچی وجود اپنے
خالی پیٹ معصوم بچے
بھرے پیٹ مرده ضمیر
قائد کے عهد کی
بے وقعت قندیل
سوهنی دھرتی اور
سونی تعبیر
اقبال کے خوابوں کی
مرده تصویر
اپنے هی خون میں
ڈوبی شمشیر
مهکتے خواب کی
اجڑی تعبیر
کیا یه هے حقیقت
کیا یه هے هماری تسخیر؟ F.N.Tariq.
In memory of A.P.S kids & the kids died in bomb blasts. Little angels of Aps.
Apples of their mother's eyes.
They had to rise and shine.
But they are lying underneath the soil.
With some shattered dreams.
They were killed brutally before the eyes of mankind.
Their sufferings, their pain has not remain silent.
We have taken their revenge.
But still pain remain.
Aps kids and the kids died in bomb blasts,
Were not just some blooming Flowers but...
The future of our mother land.
We will never forget u till the end of mankind. F.N.Tariq
Apples of their mother's eyes.
They had to rise and shine.
But they are lying underneath the soil.
With some shattered dreams.
They were killed brutally before the eyes of mankind.
Their sufferings, their pain has not remain silent.
We have taken their revenge.
But still pain remain.
Aps kids and the kids died in bomb blasts,
Were not just some blooming Flowers but...
The future of our mother land.
We will never forget u till the end of mankind. F.N.Tariq
خواب بیچ آیا هوں میں اپنے خواب بیچ آیا هوں
هوس سے بھری دنیا میں
نفرت سے پر وجود لیے پھرنے والو
میرے گھر کو بے بسی کی بھینٹ چڑھا کر
کرگس کی طرح ماس نوچ کر کھانے والو
ابھی بهت سے من میت باقی هیں
لهو کا بازار گرم کرنے والو
ابھی تمهارے راستے میں بهت سی دیواریں باقی هیں
اهل وطن جو خواب دیکھنا بھول گئے هیں
ان کو اپنے لهو سے سینچے
کچھ خواب دان کیے هیں
میری نیند سے بوجھل خالی آنکھیں بتاتی هیں
میں اپنا سب کچھ وار آیا هوں
میں اپنے خواب بنا دام هی بیچ آیا هوں
تاکه وه میری آئنده نسلوں کی کچی نیندوں میں
انکے دم توڑتے حوصلوں میں نیا ولوله پیدا کر سکیں
میرے تھک کر شهر خموشاں میں سونے کے بعد
نئے حوصلے پیدا کر سکیں
تاکه نئے سنگ میل ترتیب دیے جاسکیں
جو اندھیروں میں روشنی کے جگنو بن کر بکھریں
اسی لیے اپنے خواب بیچ آیا هوں
میں بے دام هی اپنے خواب بیچ آیا هوں
Dedicated 2 Quaid e Azam M. Ali Jinnah F.N.Tariq
هوس سے بھری دنیا میں
نفرت سے پر وجود لیے پھرنے والو
میرے گھر کو بے بسی کی بھینٹ چڑھا کر
کرگس کی طرح ماس نوچ کر کھانے والو
ابھی بهت سے من میت باقی هیں
لهو کا بازار گرم کرنے والو
ابھی تمهارے راستے میں بهت سی دیواریں باقی هیں
اهل وطن جو خواب دیکھنا بھول گئے هیں
ان کو اپنے لهو سے سینچے
کچھ خواب دان کیے هیں
میری نیند سے بوجھل خالی آنکھیں بتاتی هیں
میں اپنا سب کچھ وار آیا هوں
میں اپنے خواب بنا دام هی بیچ آیا هوں
تاکه وه میری آئنده نسلوں کی کچی نیندوں میں
انکے دم توڑتے حوصلوں میں نیا ولوله پیدا کر سکیں
میرے تھک کر شهر خموشاں میں سونے کے بعد
نئے حوصلے پیدا کر سکیں
تاکه نئے سنگ میل ترتیب دیے جاسکیں
جو اندھیروں میں روشنی کے جگنو بن کر بکھریں
اسی لیے اپنے خواب بیچ آیا هوں
میں بے دام هی اپنے خواب بیچ آیا هوں
Dedicated 2 Quaid e Azam M. Ali Jinnah F.N.Tariq
میں پاکستان هوں بھت بیمار هوں
بھت لاچار هوں
نفرتوں میں گھرا هوں
مجھے محبتوں کا تریاق دو
میرا سینه هے چھلنی
میرے پانچوں بیٹے هیں برسر پیکار
مجھے دل و جگر په چل رهی هیں
فرقه واریت کی برچھیاں
آبله پا هوں
زخم و تھکن سے چور هوں
اشک سے تر بتر هیں میرے کھیت کھلیان
میری دھرتی سهانے دنوں کی یادمیں هے ماتم کناں
میرے نونهالوں کےلبوں په هیں سسکیاں
بیگار و مشقت کی شکنوں کا جال هے
انکی پیشانی په رقم
بھوک سے نڈھال هیں وجود میرے بچوں کے
پھر بھی اس آس په هوں زنده
میرے بچے سامراج کی غلامی کی بیڑیاں
اک دن میرے پاؤں سے کاٹ کے پھینک دینگے
کبھی تو اجالا میرے ویرانوں میں چھٹے گا
لال رنگ خون کی هولی مچانے کے بجائے
فقط دلهن کے لباس په دکھے گا
کبھی تو لاٹھی کی بغیر
میں چلنا سیکھوں گا
بس اک اس آسمیں زنده هوں
که
میں بنا تھاقائم رهنے کو
میرے رب ذوالجلال کے نام کا سایه
مجھے تنها نهیں چھوڑے گا
میں زنده تھا میں زنده هوں
اور زنده رهوں گا
میں پنجابی سندھی بلوچی اورپختون نهیں
پاکستان تھا پاکستان هوں اور پاکستان هی رهوں گا Farheen Naz Tariq
بھت لاچار هوں
نفرتوں میں گھرا هوں
مجھے محبتوں کا تریاق دو
میرا سینه هے چھلنی
میرے پانچوں بیٹے هیں برسر پیکار
مجھے دل و جگر په چل رهی هیں
فرقه واریت کی برچھیاں
آبله پا هوں
زخم و تھکن سے چور هوں
اشک سے تر بتر هیں میرے کھیت کھلیان
میری دھرتی سهانے دنوں کی یادمیں هے ماتم کناں
میرے نونهالوں کےلبوں په هیں سسکیاں
بیگار و مشقت کی شکنوں کا جال هے
انکی پیشانی په رقم
بھوک سے نڈھال هیں وجود میرے بچوں کے
پھر بھی اس آس په هوں زنده
میرے بچے سامراج کی غلامی کی بیڑیاں
اک دن میرے پاؤں سے کاٹ کے پھینک دینگے
کبھی تو اجالا میرے ویرانوں میں چھٹے گا
لال رنگ خون کی هولی مچانے کے بجائے
فقط دلهن کے لباس په دکھے گا
کبھی تو لاٹھی کی بغیر
میں چلنا سیکھوں گا
بس اک اس آسمیں زنده هوں
که
میں بنا تھاقائم رهنے کو
میرے رب ذوالجلال کے نام کا سایه
مجھے تنها نهیں چھوڑے گا
میں زنده تھا میں زنده هوں
اور زنده رهوں گا
میں پنجابی سندھی بلوچی اورپختون نهیں
پاکستان تھا پاکستان هوں اور پاکستان هی رهوں گا Farheen Naz Tariq