Add Poetry

Poetries by Habib Afridi

ابد کے سمندر کی اک موج جس پر مری زندگی کا کنول تیرتا ہے ابد کے سمندر کی اک موج جس پر مری زندگی کا کنول تیرتا ہے
کسی ان سنی دائمی راگنی کی کوئی تان آزردہ آوارہ برباد
جو دم بھر کو آ کر مری الجھی الجھی سی سانسوں کے سنگیت میں ڈھل گئی ہے
زمانے کی پھیلی ہوئی بیکراں وسعتوں میں یہ دو چار لمحوں کی میعاد
طلوع و غروب مہ و مہر کے جاودانی تسلسل کی دو چار کڑیاں
یہ کچھ تھرتھراتے اجالوں کا رومان یہ کچھ سنسناتے اندھیروں کا قصہ
یہ جو کچھ کہ میرے زمانے میں ہے اور یہ جو کچھ کہ اس کے زمانے میں میں ہوں
یہی میرا حصہ ازل سے ابد کے خزانوں سے ہے بس یہی میرا حصہ
مجھے کیا خبر وقت کے دیوتا کی حسیں رتھ کے پہیوں تلے پس چکے ہیں
مقدر کے کتنے کھلونے زمانوں کے ہنگامے صدیوں کے صد ہا ہیولے
مجھے کیا تعلق میری آخری سانس کے بعد بھی دوش گیتی پہ مچلے
مہ و سال کے لا زوال آبشار رواں کا وہ آنچل جو تاروں کو چھو لے
مگر آہ یہ لمحۂ مختصر جو مری زندگی میرا زاد سفر ہے
مرے ساتھ ہے میرے بس میں ہے میری ہتھیلی پہ ہے یہ لبا لب پیالہ
یہی کچھ ہے لے دے کے میرے لیے اس خرابات شام و سحر میں یہی کچھ
یہ اک مہلت کاوش درد ہستی یہ اک فرصت کوشش آہ و نالہ
یہ صہبائے امروز جو صبح کی شاہزادی کی مست انکھڑیوں سے ٹپک کر
بدور حیات آ گئی ہے یہ ننھی سی چڑیاں جو چھت میں چہکنے لگی ہیں
ہوا کا یہ جھونکا جو میرے دریچے میں تلسی کی ٹہنی کو لرزا گیا ہے
پڑوسن کے آنگن میں پانی کے نلکے پہ یہ چوڑیاں جو چھنکنے لگی ہیں
یہ دنیائے امروز میری ہے میرے دل زار کی دھڑکنوں کی امیں ہے
یہ اشکوں سے شاداب دو چار صبحیں یہ آہوں سے معمور دو چار شامیں
انہی چلمنوں سے مجھے دیکھنا ہے وہ جو کچھ کہ نظروں کی زد میں نہیں ہے
Habib Afridi
مِرے لفظوں کی ہر مالا تمہارے نام رہتی ہے مِری مصروفیت دیکھو
سحرسے شام آفس میں چراغِ عمر جلتا ہے
پھر اس کے بعد دنیا کی کئی مجبوریاں پاؤں میں بیڑی ڈال رکھتی ہیں
مجھے بے فکر، چاہت سے بھرے سپنے نہیں دِکھتے
ٹہلنے، جاگنے، رونے کی فرصت ہی نہیں ملتی
ستاروں سے ملے عرصہ ہوا ناراض ہوں شاید
کتابوں سے شغف میرا ابھی ویسے ہی قائم ہے
فرق اتنا پڑا ہے میں انہیں عرصہ میں پڑھتا ہوں
تمہیں کس نے کہا پگلی! تمہیں میں یاد کرتا ہوں؟
کہ میں خود کو بھلانے کی مسلسل جستجو میں ہوں
تمہیں نہ یاد آنے کی مسلسل جستجو میں ہوں
مگر یہ جستجو میری، بہت ناکام رہتی ہے
مِرے دن رات میں اب بھی تمہاری شام رہتی ہے
مِرے لفظوں کی ہر مالا تمہارے نام رہتی ہے
تمہیں کس نے کہا پگلی! مجھے تم یاد آتی ہو؟
پرانی بات ہے جو لوگ اکثر گنگناتے ہیں
انہیں ہم یاد کرتے ہیں، جنہیں ہم بھول جاتے ہیں
عجب پاگل سی لڑکی ہے
مِری مصروفیت دیکھو
تمہیں دل سے بھلاؤں تو تمہاری یاد آئے نا
تمہیں دل سے بھلانے کی مجھے فرصت نہیں ملتی
اور اس مصروف جیون میں
تمہارے خط کا اِک جملہ
تمہیں میں یاد آتی ہوں؟
مِری چاہت کی شدّت میں کمی ہونے نہیں دیتا
بہت راتیں جگاتا ہے، مجھے سونے نہیں دیتا
سو اگلی بار اپنے خط میں یہ جملہ نہیں لکھنا
عجب پاگل سی لڑکی ہے، مجھے پھر بھی یہ کہتی ہے
مجھے تم یاد کرتے ہو؟ تمہیں میں یاد آتی ہوں؟
 
Habib Afridi
Famous Poets
View More Poets