Poetries by Syed Harris Ahmed
مجھے متاثر کرتا ہے دن بھر کی محنت کے بعد
چند روپے اکھٹے کر کے
ان سے دال روٹی
اپنی اولاد کو کھلا کر
ماں کا خالی پیٹ سونا
مجھے متاثر کرتا ہے
کھلے آسماں میں
جب سج جاتی ہیں
رنگ برنگی پتنـگیں
اور جب وہ کٹ جائیں
تو انھیں
بچوں کا ہنستے ہوئے لوٹنا
مجھے متاثر کرتا ہے
اپنی لگن میں
سب کچھ بھلائے
داڑھی خراش کرتے ہوئے
زمین پہ گرتے ہوئے کنگھے کو
اس نائی کا چومنا
مجھے متاثر کرتا ہے
خاموش جہاں میں
قبروں کے درمیان
اپنے پیاروں کو یاد کر کے
لوگوں کا بے اختیار رونا
مجھے متاثر کرتا ہے
اولڈ ایج ھوم میں
کچھ ایسی مائیں
جو نکالی گئیں اپنے گھروں سے
اپنےہی پیاروں کے ہاتھوں
انکی نمازوں میں انہی اپنوں کے لئے
گڑ گڑا کر دعائیں مانگنا
مجھے متاثر کرتا ہے
Syed Harris Ahmed
چند روپے اکھٹے کر کے
ان سے دال روٹی
اپنی اولاد کو کھلا کر
ماں کا خالی پیٹ سونا
مجھے متاثر کرتا ہے
کھلے آسماں میں
جب سج جاتی ہیں
رنگ برنگی پتنـگیں
اور جب وہ کٹ جائیں
تو انھیں
بچوں کا ہنستے ہوئے لوٹنا
مجھے متاثر کرتا ہے
اپنی لگن میں
سب کچھ بھلائے
داڑھی خراش کرتے ہوئے
زمین پہ گرتے ہوئے کنگھے کو
اس نائی کا چومنا
مجھے متاثر کرتا ہے
خاموش جہاں میں
قبروں کے درمیان
اپنے پیاروں کو یاد کر کے
لوگوں کا بے اختیار رونا
مجھے متاثر کرتا ہے
اولڈ ایج ھوم میں
کچھ ایسی مائیں
جو نکالی گئیں اپنے گھروں سے
اپنےہی پیاروں کے ہاتھوں
انکی نمازوں میں انہی اپنوں کے لئے
گڑ گڑا کر دعائیں مانگنا
مجھے متاثر کرتا ہے
Syed Harris Ahmed
اکثر یہ بڑے پہاڑ اکثر یہ بڑے پہاڑ
مجھ سے کچھ کہنا چاھتے ہیں
میں انکے قریب جاتا ہوں
یہ مجھ سے دور ہو جاتے ہیں
ملنے کی کوشش
دونوں جانب سے ہے
مگر
کبھی مجھے دیر ہوئی
تو کبھی وہ دیر کر جاتے ہیں
یہ درخت مجھے اپنے
رقیب سے محسوس ہوتے ہیں
یہ مجھ سے جلتے ہیں
مجھے اپنی چھاؤں سے دور کر کے
میری تڑپ کاموازنہ
گرم تپش سے کرتے ہیں
پہاڑ بھی مجھے دیکھنے کا
منتظر لگتا ہے
جب بھی کھلے آکاش کے سائے تلے
اسے دل بھر کے جو دیکھوں
تو برف سے خود کو
ڈھانپ لیتا ہے
ھوا بھی شاملِ سازش ھے
تیز آوازوں سے
اسکے الفاظ دبا دیتی ہے
لہجے کو گونج نہیں دیتی
مجھے بے بس دیکھ کر
مۤسکراتی ہـے
رشک تو اِن چشموں کی قسمت پہ ہے
جو اِسکے درمیاں بہتے ہیں
اسکے چھو کر
خود کو محزوظ کرتے ہیں
مجھے بے چین دیکھ کر
بہت اِترا کے چلتے ہیں
میں تو احسان مند بس
رِم جِھم کا رہـتا ہوں
جو میرے ارمانوں کا بھرم
بڑے شان سے رکھتی ہے
اّس پر برس کر
میرے پاس آتی ہے
اور اسکی خوشبـو سے
میرا دل بہلاتی ہے
مجھے دِلاسہ دیتی ہـے Syed Harris Ahmed
مجھ سے کچھ کہنا چاھتے ہیں
میں انکے قریب جاتا ہوں
یہ مجھ سے دور ہو جاتے ہیں
ملنے کی کوشش
دونوں جانب سے ہے
مگر
کبھی مجھے دیر ہوئی
تو کبھی وہ دیر کر جاتے ہیں
یہ درخت مجھے اپنے
رقیب سے محسوس ہوتے ہیں
یہ مجھ سے جلتے ہیں
مجھے اپنی چھاؤں سے دور کر کے
میری تڑپ کاموازنہ
گرم تپش سے کرتے ہیں
پہاڑ بھی مجھے دیکھنے کا
منتظر لگتا ہے
جب بھی کھلے آکاش کے سائے تلے
اسے دل بھر کے جو دیکھوں
تو برف سے خود کو
ڈھانپ لیتا ہے
ھوا بھی شاملِ سازش ھے
تیز آوازوں سے
اسکے الفاظ دبا دیتی ہے
لہجے کو گونج نہیں دیتی
مجھے بے بس دیکھ کر
مۤسکراتی ہـے
رشک تو اِن چشموں کی قسمت پہ ہے
جو اِسکے درمیاں بہتے ہیں
اسکے چھو کر
خود کو محزوظ کرتے ہیں
مجھے بے چین دیکھ کر
بہت اِترا کے چلتے ہیں
میں تو احسان مند بس
رِم جِھم کا رہـتا ہوں
جو میرے ارمانوں کا بھرم
بڑے شان سے رکھتی ہے
اّس پر برس کر
میرے پاس آتی ہے
اور اسکی خوشبـو سے
میرا دل بہلاتی ہے
مجھے دِلاسہ دیتی ہـے Syed Harris Ahmed
میں ڈرتا ہوں میں ڈرتا ہوں
جب اندھیری رات
اور بارش کی ٹِپ ٹِپ
میرے دروازے پہ دستک د یتی ہیں
میں ڈرتا ہوں
جب انجان ارواح کا جُھرمٹ سیاہ بادلوں پہ
اذانوں کی آواز پہ
رقص کرتے ہیں
میں ڈرتا ہوں
جب ہوا کا زور دار جھونکا
میرے جسم ٹکرا کر
پیوند کی گا نٹھ کھولتا ہے
میں ڈرتا ہوں
زخموں کی تڑپ
اپنے اونی کپڑوں میں
جب کوئ چھپاۓ پھرتا ہے
میں ڈرتا ہوں
اور اب تو کیفیت یہ ہے
جب مسکراتے چہرے پر جوش جذبات
دیکھ کر
میں ڈرتا ہوں
Syed Harris Ahmed
جب اندھیری رات
اور بارش کی ٹِپ ٹِپ
میرے دروازے پہ دستک د یتی ہیں
میں ڈرتا ہوں
جب انجان ارواح کا جُھرمٹ سیاہ بادلوں پہ
اذانوں کی آواز پہ
رقص کرتے ہیں
میں ڈرتا ہوں
جب ہوا کا زور دار جھونکا
میرے جسم ٹکرا کر
پیوند کی گا نٹھ کھولتا ہے
میں ڈرتا ہوں
زخموں کی تڑپ
اپنے اونی کپڑوں میں
جب کوئ چھپاۓ پھرتا ہے
میں ڈرتا ہوں
اور اب تو کیفیت یہ ہے
جب مسکراتے چہرے پر جوش جذبات
دیکھ کر
میں ڈرتا ہوں
Syed Harris Ahmed