Poetries by ابراہیم شوبی
محبّت نہ کرنا محبّت تم نہیں کرنا 
کسی پہ تم نہیں مرنا
محبّت کے عذابوں میں
کبھی بھی تم نہیں پڑنا
محبّت چھین لیتی ہے
سہانی رات کی نیندیں
محبّت کے سرابوں میں
کسی کے سنگ نہ چلنا
محبّت خود نہیں مرتی
محبّت مار دیتی ہے
محبّت کے شراروں میں
کبھی بھی تم نہیں جلنا
محبّت اپنے چہرے پر
کبھی بھی تم نہیں ملنا
اگر مل لو تو پھر سن لو
کبھی بھی تم نہیں ٹلنا
محبّت یہ بتاتی ہے
محبّت یہ سکھاتی ہے ابراہیم شوبی
کسی پہ تم نہیں مرنا
محبّت کے عذابوں میں
کبھی بھی تم نہیں پڑنا
محبّت چھین لیتی ہے
سہانی رات کی نیندیں
محبّت کے سرابوں میں
کسی کے سنگ نہ چلنا
محبّت خود نہیں مرتی
محبّت مار دیتی ہے
محبّت کے شراروں میں
کبھی بھی تم نہیں جلنا
محبّت اپنے چہرے پر
کبھی بھی تم نہیں ملنا
اگر مل لو تو پھر سن لو
کبھی بھی تم نہیں ٹلنا
محبّت یہ بتاتی ہے
محبّت یہ سکھاتی ہے ابراہیم شوبی
کم کہاں اپنی شان رکھتے ہیں کم کہاں اپنی شان رکھتے ہیں
ہر ارادہ چٹان رکھتے ہیں
میں بھی اُنکا خیال کرتا ہوں
اور وہ میرا مان رکھتے ہیں
کوئی مہمان آنے والا ہے
کسطرح وہ گمان رکھتے ہیں
بولنا جانتے ہیں ہم بھی میاں
منہ میں ہم بھی زبان رکھتے ہیں
بچ کے رہتے ہیں غم کی دھوپ سے ہم
ہم گھنا سائبان رکھتے ہیں
پیٹ خالی کوئی نہ سو جائے
لوگ یہ کب دھیان رکھتے ہیں
وہ ہمیں بولتے ہیں ہم شوبی
سُنتے رہتے ہیں کان رکھتے ہیں
بھول جایئں نہ راستہ شوبی
واپسی کا نشان رکھتے ہیں ابراہیم شوبی
ہر ارادہ چٹان رکھتے ہیں
میں بھی اُنکا خیال کرتا ہوں
اور وہ میرا مان رکھتے ہیں
کوئی مہمان آنے والا ہے
کسطرح وہ گمان رکھتے ہیں
بولنا جانتے ہیں ہم بھی میاں
منہ میں ہم بھی زبان رکھتے ہیں
بچ کے رہتے ہیں غم کی دھوپ سے ہم
ہم گھنا سائبان رکھتے ہیں
پیٹ خالی کوئی نہ سو جائے
لوگ یہ کب دھیان رکھتے ہیں
وہ ہمیں بولتے ہیں ہم شوبی
سُنتے رہتے ہیں کان رکھتے ہیں
بھول جایئں نہ راستہ شوبی
واپسی کا نشان رکھتے ہیں ابراہیم شوبی
کام آئے نہ استعارے تک  کام آئے نہ استعارے تک 
لفظ پُہنچے نہیں ہمارے تک
آسرا ہے ترا گِروں گا نہیں
یار میرے، ترے سہارے تک
کس لئے در بدر بھٹکتے ہو
آؤ چھوڑ آؤں میں کنارے تک
عشق نے کھینچ ہی لیا آخر
آ گیا لوٹ کے تمہارے تک
توڑ لاتا کسی کی خاطر میں
ہاتھ پہنچا نہیں ستارے تک
یہ تو خصلت ہے آدمی کی میاں
بعض آتا نہیں خسارے تک
کیسا عاشق ہے وہ ترا شوبی
جو سمجھتا نہیں اشارے تک ابراہیم شوبی
لفظ پُہنچے نہیں ہمارے تک
آسرا ہے ترا گِروں گا نہیں
یار میرے، ترے سہارے تک
کس لئے در بدر بھٹکتے ہو
آؤ چھوڑ آؤں میں کنارے تک
عشق نے کھینچ ہی لیا آخر
آ گیا لوٹ کے تمہارے تک
توڑ لاتا کسی کی خاطر میں
ہاتھ پہنچا نہیں ستارے تک
یہ تو خصلت ہے آدمی کی میاں
بعض آتا نہیں خسارے تک
کیسا عاشق ہے وہ ترا شوبی
جو سمجھتا نہیں اشارے تک ابراہیم شوبی
محبّت نہ کرنا محبّت تم نہیں کرنا 
کسی پہ تم نہیں مرنا
محبّت کے عذابوں میں
کبھی بھی تم نہیں پڑنا
محبّت چھین لیتی ہے
سہانی رات کی نیندیں
محبّت کے سرابوں میں
کسی کے سنگ نہ چلنا
محبّت خود نہیں مرتی
محبّت مار دیتی ہے
محبّت کے شراروں میں
کبھی بھی تم نہیں جلنا
محبّت اپنے چہرے پر
کبھی بھی تم نہیں ملنا
اگر مل لو تو پھر سن لو
کبھی بھی تم نہیں ٹلنا
محبّت یہ بتاتی ہے
محبّت یہ سکھاتی ہے ابراہیم شوبی
کسی پہ تم نہیں مرنا
محبّت کے عذابوں میں
کبھی بھی تم نہیں پڑنا
محبّت چھین لیتی ہے
سہانی رات کی نیندیں
محبّت کے سرابوں میں
کسی کے سنگ نہ چلنا
محبّت خود نہیں مرتی
محبّت مار دیتی ہے
محبّت کے شراروں میں
کبھی بھی تم نہیں جلنا
محبّت اپنے چہرے پر
کبھی بھی تم نہیں ملنا
اگر مل لو تو پھر سن لو
کبھی بھی تم نہیں ٹلنا
محبّت یہ بتاتی ہے
محبّت یہ سکھاتی ہے ابراہیم شوبی
یوں بھی کڑوا انہیں لگوں گا میں یوں بھی کڑوا انہیں لگوں گا میں
سچ کی عادت ہے سچ کہوں گا میں
ہار مانوں گا کب سہولت سے
جب تلک سانس ہے لڑوں گا میں
لڑکھڑانے لگے قدم میرے
گر گیا بھی تو پھر اُٹھوں گا میں
جیسی کرنی ہے ویسی بھرنی ہے
گر کیا ہے بُرا بھروں گا میں
تم جو چاہو تو کیا نہیں ممکن
تم نہ چاہو تو کیا کروں گا میں
جس میں نورِ خُدا بھرا ہوا ہے
طاقچے میں وہ دل رکھوں گا میں
ایسا سوچا بھی تھا نہیں شوبی
کہ کسی پہ کبھی مروں گا میں
ابراہیم شوبی
سچ کی عادت ہے سچ کہوں گا میں
ہار مانوں گا کب سہولت سے
جب تلک سانس ہے لڑوں گا میں
لڑکھڑانے لگے قدم میرے
گر گیا بھی تو پھر اُٹھوں گا میں
جیسی کرنی ہے ویسی بھرنی ہے
گر کیا ہے بُرا بھروں گا میں
تم جو چاہو تو کیا نہیں ممکن
تم نہ چاہو تو کیا کروں گا میں
جس میں نورِ خُدا بھرا ہوا ہے
طاقچے میں وہ دل رکھوں گا میں
ایسا سوچا بھی تھا نہیں شوبی
کہ کسی پہ کبھی مروں گا میں
ابراہیم شوبی
Ghazal تُم سامنے جو آئے تو جُرأت رہی نہیں 
کہنی تھی کوئی بات جو تُم سے کہی نہیں
گر عشق ہے تو آج ہی بندھن میں باندھ لو
"گویا ابھی نہیں ہے کا ہے مطلب کبھی نہیں "
چاہا ہے تُم کو ٹوٹ کے میں نے صنم مرے
کرتے ہیں اِتنی چاہ سے چاہت سبھی نہیں
جی لوں گا چین سے میں تُمہارے بغیر بھی
مُجھ کو تمہاری اِتنی بھی عادت لگی نہیں
یہ کیسی کیفیت ہے عجب اِضطراب ہے
پہلے پہل ہوئی تھی جو چاہت اِبھی نہیں
پروردگار شُکر ترا ماں ہے میرے پاس
دولت کی میرے واسطے بالکل کمی نہیں
بھولا نہیں ہوں آج بھی وہ رات یاد ہے
سردی کی رات ہے تو مگر شبنمی نہیں
لوگو کے چاہنے سے کہاں شوبی کچھ ہُوا
دِل پہ ہمارے برف تو اب تک جمی نہیں ابراہیم شوبی
کہنی تھی کوئی بات جو تُم سے کہی نہیں
گر عشق ہے تو آج ہی بندھن میں باندھ لو
"گویا ابھی نہیں ہے کا ہے مطلب کبھی نہیں "
چاہا ہے تُم کو ٹوٹ کے میں نے صنم مرے
کرتے ہیں اِتنی چاہ سے چاہت سبھی نہیں
جی لوں گا چین سے میں تُمہارے بغیر بھی
مُجھ کو تمہاری اِتنی بھی عادت لگی نہیں
یہ کیسی کیفیت ہے عجب اِضطراب ہے
پہلے پہل ہوئی تھی جو چاہت اِبھی نہیں
پروردگار شُکر ترا ماں ہے میرے پاس
دولت کی میرے واسطے بالکل کمی نہیں
بھولا نہیں ہوں آج بھی وہ رات یاد ہے
سردی کی رات ہے تو مگر شبنمی نہیں
لوگو کے چاہنے سے کہاں شوبی کچھ ہُوا
دِل پہ ہمارے برف تو اب تک جمی نہیں ابراہیم شوبی
وہ کہیں نہ ملا ڈھونڈتا رہ گیا  وہ کہیں نہ ملا ڈھونڈتا رہ گیا 
گِرد دنیا کے میں گھومتا رہ گیا
بارہا مجھ سے احباب نے یہ کہا
محفلوں میں کہاں اب مزہ رہ گیا
آج بھی ماں سے سُنتا ہوں میں لوریاں
"عمر بیتی مگر بچپنا رہ گیا"
بھولتا ہی نہیں میں مُحبّت کبھی
ذہن میں بس وہی حادثہ رہ گیا
دل میں اب کوئی میرے مکیں تو نہیں
آنے جانے کا بس راستہ رہ گیا
چاہنے کے لئے ساری دنیا تھی پر
آپ ہی کو فقط چاہتا رہ گیا
اُڑ گئے جب درختوں سے پنچھی سبھی
کتنا ویران سا گھونسلہ رہ گیا
آخری دید کو بھی وہ آیا نہیں
بند میرے کفن کا بندھا رہ گیا
ساری امداد تو حکمراں کھا گئے
اور مُفلس یہاں چیختا رہ گیا
وہ گیا چھوڑ کے جب سے شوبی مجھے
میری آنکھوں میں بس رت جگا رہ گیا ابراہیم شوبی
گِرد دنیا کے میں گھومتا رہ گیا
بارہا مجھ سے احباب نے یہ کہا
محفلوں میں کہاں اب مزہ رہ گیا
آج بھی ماں سے سُنتا ہوں میں لوریاں
"عمر بیتی مگر بچپنا رہ گیا"
بھولتا ہی نہیں میں مُحبّت کبھی
ذہن میں بس وہی حادثہ رہ گیا
دل میں اب کوئی میرے مکیں تو نہیں
آنے جانے کا بس راستہ رہ گیا
چاہنے کے لئے ساری دنیا تھی پر
آپ ہی کو فقط چاہتا رہ گیا
اُڑ گئے جب درختوں سے پنچھی سبھی
کتنا ویران سا گھونسلہ رہ گیا
آخری دید کو بھی وہ آیا نہیں
بند میرے کفن کا بندھا رہ گیا
ساری امداد تو حکمراں کھا گئے
اور مُفلس یہاں چیختا رہ گیا
وہ گیا چھوڑ کے جب سے شوبی مجھے
میری آنکھوں میں بس رت جگا رہ گیا ابراہیم شوبی
ماں اور بچپن  مجھے گودی میں 
اک بار پھر سے ماں
میرے بچپن کی یادوں کو
دوبارہ سے نیا
اک بار کر دے ماں
مجھے ہے یادجب بھی میں
کبھی بے چین ہوتا تھا
مجھے آغوش میں لے کر
تو سینے سے لگاتی تھی
مجھے لوری سُناتی تھی
مجھے ہردرد سے، دُکھ سے بچاتی تھی
مجھے محسوس ہوتا تھا
کہ میں جنت میں سوتا ہوں
میں جب بیمار ہوتا تھا
تیری شفقت کے سائے میں
شفا یابی ملی مجھکو
تیرے آغوش کی حِدّت
تیرے آنچل کی وہ ٹھنڈک
میں اب بھی چاہتا ہوں ماں
میرے بچپن کی سب یادوں کو
پھر سے تازگی دے دے
مجھے پھر گود میں لے لے
مجھے گودی میں لے
اک بار پھرسے ماں ابراہیم شوبی
اک بار پھر سے ماں
میرے بچپن کی یادوں کو
دوبارہ سے نیا
اک بار کر دے ماں
مجھے ہے یادجب بھی میں
کبھی بے چین ہوتا تھا
مجھے آغوش میں لے کر
تو سینے سے لگاتی تھی
مجھے لوری سُناتی تھی
مجھے ہردرد سے، دُکھ سے بچاتی تھی
مجھے محسوس ہوتا تھا
کہ میں جنت میں سوتا ہوں
میں جب بیمار ہوتا تھا
تیری شفقت کے سائے میں
شفا یابی ملی مجھکو
تیرے آغوش کی حِدّت
تیرے آنچل کی وہ ٹھنڈک
میں اب بھی چاہتا ہوں ماں
میرے بچپن کی سب یادوں کو
پھر سے تازگی دے دے
مجھے پھر گود میں لے لے
مجھے گودی میں لے
اک بار پھرسے ماں ابراہیم شوبی
عشق میں ہم نے بھی کھاۓ پتھر عشق میں ہم نے بھی کھاۓ پتھر
آہ نکلی یہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاۓپتھر
سوکھے ٹکڑے ہی میسر آئے
بھوک میں ہم نے چباۓ پتھر
گویا شیطان سمجھ بیٹھے ہیں
ہم کو دنیا نے لگاۓ پتھر
ٹھوکریں مارتے ہیں لوگ مجھے
میں یہ سُنتا ہوں صداۓ پتھر
آپ کی سمت سے جو آۓ تھے
ہم نے سینے سے لگاۓ پتھر
پھیر لی آنکھ دوستوں نے مرے
آنکھ میں ان کی سماۓ پتھر
مل گیا ازن ِ تکلم ان کو
جب ہتھیلی پہ اٹھائے پتھر
میں بھی دیوانہ بن گیا شوبی
آج میں نے بھی اٹھاۓ پتھر ابراہیم شوبی
آہ نکلی یہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاۓپتھر
سوکھے ٹکڑے ہی میسر آئے
بھوک میں ہم نے چباۓ پتھر
گویا شیطان سمجھ بیٹھے ہیں
ہم کو دنیا نے لگاۓ پتھر
ٹھوکریں مارتے ہیں لوگ مجھے
میں یہ سُنتا ہوں صداۓ پتھر
آپ کی سمت سے جو آۓ تھے
ہم نے سینے سے لگاۓ پتھر
پھیر لی آنکھ دوستوں نے مرے
آنکھ میں ان کی سماۓ پتھر
مل گیا ازن ِ تکلم ان کو
جب ہتھیلی پہ اٹھائے پتھر
میں بھی دیوانہ بن گیا شوبی
آج میں نے بھی اٹھاۓ پتھر ابراہیم شوبی
دِل بھلا کس لئے جلاتے ہیں  دِل بھلا کس لئے جلاتے ہیں 
چل کوئی راستہ بناتے ہیں
تُم ہمیں کیا دکھاؤ گے دُنیا
ہم تُمہیں آئینہ دِکھاتے ہیں
گاؤں ہم چھوڑ آئے ہیں کب کا
آج بھی بام و در بُلاتے ہیں
خوبصورت بہت ہی لگتے ہیں
وہ سِتارے جو جگمگاتے ہیں
ہو گئی آپکو محبّت ناں
اِس لئے آپ گنگناتے ہیں
کیا رکھا ہے پُرانی باتوں میں
بات تُجھ کو نئی بتاتے ہیں
خُود بھی روئیں گے پھوٹ کر اِک دن
لوگ جِتنا مُجھے رُلاتے ہیں
دل یہاں لگ نہیں رہا اپنا
اپنی دُنیا الگ بساتے ہیں
اُن کی عادت نہیں مُحبّت ہے
روٹھ جاؤں تو خُود مناتے ہیں
ہو زیارت خُدا کےگھر کی نصیب
ہاتھ اپنے چلو اُٹھاتے ہیں
دوست اپنے بُہت ہیں پر شوبی
پھول رستے میں کُچھ بِچھاتے ہیں ابراہیم شوبی
چل کوئی راستہ بناتے ہیں
تُم ہمیں کیا دکھاؤ گے دُنیا
ہم تُمہیں آئینہ دِکھاتے ہیں
گاؤں ہم چھوڑ آئے ہیں کب کا
آج بھی بام و در بُلاتے ہیں
خوبصورت بہت ہی لگتے ہیں
وہ سِتارے جو جگمگاتے ہیں
ہو گئی آپکو محبّت ناں
اِس لئے آپ گنگناتے ہیں
کیا رکھا ہے پُرانی باتوں میں
بات تُجھ کو نئی بتاتے ہیں
خُود بھی روئیں گے پھوٹ کر اِک دن
لوگ جِتنا مُجھے رُلاتے ہیں
دل یہاں لگ نہیں رہا اپنا
اپنی دُنیا الگ بساتے ہیں
اُن کی عادت نہیں مُحبّت ہے
روٹھ جاؤں تو خُود مناتے ہیں
ہو زیارت خُدا کےگھر کی نصیب
ہاتھ اپنے چلو اُٹھاتے ہیں
دوست اپنے بُہت ہیں پر شوبی
پھول رستے میں کُچھ بِچھاتے ہیں ابراہیم شوبی
یوں بھی کڑوا انہیں لگوں گا میں یوں بھی کڑوا انہیں لگوں گا میں
سچ کی عادت ہے سچ کہوں گا میں
ہار مانوں گا کب سہولت سے
جب تلک سانس ہے لڑوں گا میں
لڑکھڑانے لگے قدم میرے
گر گیا بھی تو پھر اُٹھوں گا میں
جیسی کرنی ہے ویسی بھرنی ہے
گر کیا ہے بُرا بھروں گا میں
تم جو چاہو تو کیا نہیں ممکن
تم نہ چاہو تو کیا کروں گا میں
جس میں نورِ خُدا بھرا ہوا ہے
طاقچے میں وہ دل رکھوں گا میں
ایسا سوچا بھی تھا نہیں شوبی
کہ کسی پہ کبھی مروں گا میں
ابراہیم شوبی
سچ کی عادت ہے سچ کہوں گا میں
ہار مانوں گا کب سہولت سے
جب تلک سانس ہے لڑوں گا میں
لڑکھڑانے لگے قدم میرے
گر گیا بھی تو پھر اُٹھوں گا میں
جیسی کرنی ہے ویسی بھرنی ہے
گر کیا ہے بُرا بھروں گا میں
تم جو چاہو تو کیا نہیں ممکن
تم نہ چاہو تو کیا کروں گا میں
جس میں نورِ خُدا بھرا ہوا ہے
طاقچے میں وہ دل رکھوں گا میں
ایسا سوچا بھی تھا نہیں شوبی
کہ کسی پہ کبھی مروں گا میں
ابراہیم شوبی
 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 