Poetries by imran Gohar
جاناں نظارہ اور نہ بھایا
سو اشکبار ہے جاناں
آشوبِ چشم کی دوا
تیرا دیدار ہے جاناں
وہ ہو گا اور جو تڑپا
مُحبت چاہتا ہو گا
مُحبت کرنیوالوں کو
سَدا قرار ہے جاناں
مُسافر کو ہمیشہ کب
یہ بستر راس آتا ہے
ہو جسے آرزو تیری
وہی بیدار ہے جاناں
سُنا جو شہرِ جاناں کا
نظارہ جان افزا ہے
کہا بے ساختہ دل نے
سَدا بہار ہے جاناں
ہر اِک چہرا! تیرا چہرا
مُجھے محسوس ہوتا ہے
یہ ہے دیوانگی شاید
یہی خُمار ہے جاناں
نہیں شکوہ مُحبت کا
نہ ہے دھڑکا عداوت کا
مُجھے تو عرض کرنی ہے
کہ انتظار ہے جاناں
کبھی کھٹکا سا ہوتا ہے
کہ ہو گا حشرِ گوہر کیا؟
مگر تو مُسکرا اُٹھے
تو بیڑہ پار ہے جاناں imran Gohar
سو اشکبار ہے جاناں
آشوبِ چشم کی دوا
تیرا دیدار ہے جاناں
وہ ہو گا اور جو تڑپا
مُحبت چاہتا ہو گا
مُحبت کرنیوالوں کو
سَدا قرار ہے جاناں
مُسافر کو ہمیشہ کب
یہ بستر راس آتا ہے
ہو جسے آرزو تیری
وہی بیدار ہے جاناں
سُنا جو شہرِ جاناں کا
نظارہ جان افزا ہے
کہا بے ساختہ دل نے
سَدا بہار ہے جاناں
ہر اِک چہرا! تیرا چہرا
مُجھے محسوس ہوتا ہے
یہ ہے دیوانگی شاید
یہی خُمار ہے جاناں
نہیں شکوہ مُحبت کا
نہ ہے دھڑکا عداوت کا
مُجھے تو عرض کرنی ہے
کہ انتظار ہے جاناں
کبھی کھٹکا سا ہوتا ہے
کہ ہو گا حشرِ گوہر کیا؟
مگر تو مُسکرا اُٹھے
تو بیڑہ پار ہے جاناں imran Gohar
ناراض نہ ہو ہم سے ناراض نہ ہو ہم سے
اے رازداں ہمارے
ہم لا ئیں گے چُرا کر
خوشیوں کے پل تمہارے
مانا کہ بَہر سو ہیں
تاریکیوں کے ڈیرے
لیکن تُجھے خطر کیا
ہم ہیں تیرے شرارے
آنے دو آندھیوں کو
بڑھنے دو مُشکلوں کو
ہم جَھیل لیں گے تنہا
تیرے سبھی خِسارے
اُڑنا ہے ساتھ لیکر
تم کو سطحِ اَبر تک
جَڑنے ہیں ہم کو تیری
پوشاک پر سِتارے
لانا ہے دسترس میں
لوح و قلم کو ہم نے
کب تک جئیں گے آخر
تقدیر کے سہارے
کرتے نہیں ہیں شکوہ
درماں سے عشق والے
کرتے ہیں خُوب اپنے
دردوں کے آپ چارے
خاموش باش ہم تم
عزلت میں دن گُزاریں
دارِ سُخن کے شہری
ہیں شورشوں کے مارے
ہم رازِ جانِ گوہر
ہو جاؤ راضی اب تو
خوش خوش گُزار جائیں
دو چار دن ہیں سارے imran Gohar
اے رازداں ہمارے
ہم لا ئیں گے چُرا کر
خوشیوں کے پل تمہارے
مانا کہ بَہر سو ہیں
تاریکیوں کے ڈیرے
لیکن تُجھے خطر کیا
ہم ہیں تیرے شرارے
آنے دو آندھیوں کو
بڑھنے دو مُشکلوں کو
ہم جَھیل لیں گے تنہا
تیرے سبھی خِسارے
اُڑنا ہے ساتھ لیکر
تم کو سطحِ اَبر تک
جَڑنے ہیں ہم کو تیری
پوشاک پر سِتارے
لانا ہے دسترس میں
لوح و قلم کو ہم نے
کب تک جئیں گے آخر
تقدیر کے سہارے
کرتے نہیں ہیں شکوہ
درماں سے عشق والے
کرتے ہیں خُوب اپنے
دردوں کے آپ چارے
خاموش باش ہم تم
عزلت میں دن گُزاریں
دارِ سُخن کے شہری
ہیں شورشوں کے مارے
ہم رازِ جانِ گوہر
ہو جاؤ راضی اب تو
خوش خوش گُزار جائیں
دو چار دن ہیں سارے imran Gohar
زندگی اور موت زندگی اور موت ہیں سوارِ دوش میرے
ایک ڈھلنے کو ہے دوجا سوار ہونے کو
آگ کی دوستی مہنگی پڑے گی روزِ حشر
خاک کی دوستی بھلی حصار ہونے کو
سُنے ہیں بارہا قصے دیوانِ محشر کے
وجہ کافی تھی یہی اشکبار ہونے کو
میں یہاں محوِ تماشہ ہوں دوسری جانِب
صراط محوِ عمل تیغ دھار ہونے کو
یہ دِل فراق سے اُکتا گیا ہے یا رب
تڑپ رہا ہے تیرا جاں نثار ہونے کو
حاجتِ دید لئے ایک عُمر سے گوہر
تیری دہلیز پر جُھکا ہے پار ہونے کو imran Gohar
ایک ڈھلنے کو ہے دوجا سوار ہونے کو
آگ کی دوستی مہنگی پڑے گی روزِ حشر
خاک کی دوستی بھلی حصار ہونے کو
سُنے ہیں بارہا قصے دیوانِ محشر کے
وجہ کافی تھی یہی اشکبار ہونے کو
میں یہاں محوِ تماشہ ہوں دوسری جانِب
صراط محوِ عمل تیغ دھار ہونے کو
یہ دِل فراق سے اُکتا گیا ہے یا رب
تڑپ رہا ہے تیرا جاں نثار ہونے کو
حاجتِ دید لئے ایک عُمر سے گوہر
تیری دہلیز پر جُھکا ہے پار ہونے کو imran Gohar
ایمان صورتِ آدمی رحمان سے مِلا ہوتا
تو اگر آقائےِ جہان سے مِلا ہوتا
گوش با گوش بڑے شوق سے تُجھے سُنتا
تیرا لہجہ فقط قرآن سے مِلا ہوتا
ہر ایک گام بھلائی بکھیرتا تو بھی
تُجھے یہ وصف مہربان سے مِلا ہوتا
اپنے راہیں پہ ہرگز نہ بھروسہ کرتا
اے کاش سچے پاسبان سے مِلا ہوتا
ہاتھ میں ہوتا یداللہ تو کوئی بات ہوتی
قدِ گوہر بھی آسمان سے مِلا ہوتا
جاری ہے imran
تو اگر آقائےِ جہان سے مِلا ہوتا
گوش با گوش بڑے شوق سے تُجھے سُنتا
تیرا لہجہ فقط قرآن سے مِلا ہوتا
ہر ایک گام بھلائی بکھیرتا تو بھی
تُجھے یہ وصف مہربان سے مِلا ہوتا
اپنے راہیں پہ ہرگز نہ بھروسہ کرتا
اے کاش سچے پاسبان سے مِلا ہوتا
ہاتھ میں ہوتا یداللہ تو کوئی بات ہوتی
قدِ گوہر بھی آسمان سے مِلا ہوتا
جاری ہے imran
بنامِ آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قسمت پہ اترا رہے ہیں
چاند تارے ضیا پا رہے میں
محوِ رقصاں ہے ماحول دل کا
پھول شاخوں پہ لہرا رہے ہیں
آج فریادیوں کا ہے میلہ
آج فریاد رس آرہے ہیں
فرش والوں کی اوقات کیا ہے
عرش والے یہ فرما رہے ہیں
کہ
جشن کونین میں ہو رہا ہے
فرش پر ہو رہی ہے منادی
سب کے دامن بھرے جا رہے ہیں
آج غوث الوری کی ہے شادی
ہر ولی بادشاہ مانتا ہے
اُن کے قدموں میں جا مانگتا ہے
ہاں وہی غوثِ اعظم جنہوں نے
پار برسوں کی ڈوبی لگا دی
اُن کی رحمت کا دیکھو قرینہ
پھنس گیا تھا بھنور میں سفینہ
مِل گیا دیکھتے ہی کِنارہ
میں نے جُوں المدد کی صدا دی
تنہا تریاقِ غم بہہ رہی ہے
کیا یہ نہرِ اِرم کہہ رہی ہے
آج کوئی شرابی نہ آیا
آج ساقی نے چِلمن اُٹھا دی
سارا عالم نہیں بھی تو کیا ہے
جانِ عالم تو پہچان لیں گے
آلِ اطہر کے گُن گائے گوہر
جانئیے آخرت ہی سجا لی Imran Gohar
چاند تارے ضیا پا رہے میں
محوِ رقصاں ہے ماحول دل کا
پھول شاخوں پہ لہرا رہے ہیں
آج فریادیوں کا ہے میلہ
آج فریاد رس آرہے ہیں
فرش والوں کی اوقات کیا ہے
عرش والے یہ فرما رہے ہیں
کہ
جشن کونین میں ہو رہا ہے
فرش پر ہو رہی ہے منادی
سب کے دامن بھرے جا رہے ہیں
آج غوث الوری کی ہے شادی
ہر ولی بادشاہ مانتا ہے
اُن کے قدموں میں جا مانگتا ہے
ہاں وہی غوثِ اعظم جنہوں نے
پار برسوں کی ڈوبی لگا دی
اُن کی رحمت کا دیکھو قرینہ
پھنس گیا تھا بھنور میں سفینہ
مِل گیا دیکھتے ہی کِنارہ
میں نے جُوں المدد کی صدا دی
تنہا تریاقِ غم بہہ رہی ہے
کیا یہ نہرِ اِرم کہہ رہی ہے
آج کوئی شرابی نہ آیا
آج ساقی نے چِلمن اُٹھا دی
سارا عالم نہیں بھی تو کیا ہے
جانِ عالم تو پہچان لیں گے
آلِ اطہر کے گُن گائے گوہر
جانئیے آخرت ہی سجا لی Imran Gohar
عجیب لگتا ہے درد بِکتا عجیب لگتا ہے
اپنا رِشتہ عجیب لگتا ہے
میں نہ کر پاؤں گا وفا تُجھ سے
اشک ہنستا عجیب لگتا ہے
جس کو ہر چیز سونپ دی جائے
پھر وہ ڈستا عجیب لگتا ہے
نہ دیکھ قاتلانہ نظروں سے
زخم بہتا عجیب لگتا ہے
تیرے ہر لفظ میں بناوٹ ہے
بات کرتا عجیب لگتا ہے
جس کی ہر ہر ادا نرالی ہو
وہی مرتا عجیب لگتا ہے
کیسے ہم بَیچ دیں نیلامی میں
گوہر سستا عجیب لگتا ہے imran Gohar
اپنا رِشتہ عجیب لگتا ہے
میں نہ کر پاؤں گا وفا تُجھ سے
اشک ہنستا عجیب لگتا ہے
جس کو ہر چیز سونپ دی جائے
پھر وہ ڈستا عجیب لگتا ہے
نہ دیکھ قاتلانہ نظروں سے
زخم بہتا عجیب لگتا ہے
تیرے ہر لفظ میں بناوٹ ہے
بات کرتا عجیب لگتا ہے
جس کی ہر ہر ادا نرالی ہو
وہی مرتا عجیب لگتا ہے
کیسے ہم بَیچ دیں نیلامی میں
گوہر سستا عجیب لگتا ہے imran Gohar
روٹھ جانے سے پہلے میرے ضبط کو آزمانے سے پہلے
ذرا سوچ لو
روٹھ جانے سے پہلے
جُدائی کے لمحات خاصے کٹھن ہیں
محبت کے وعدے نبھاتے ہیں دونوں
عہدِ وفا بھول جانا غلط ہے
سوچو ذرا
ہم جدا ہوگئے تو
لوگوں کے طعنوں کا مرکز بنیں گے
اگرچہ ابھی تم حسیں ہو جواں ہو
مگر عُمر کا جب اندھیرا بڑھے گا
دیے کی ضرورت کا احساس ہو گا
فقظ
اُس گھڑی یاد آؤں گا تُجھ کو اور
آنکھوں سے بِن چاہے بہنے لگوں گا
ٹپک کر گِروں گا ہتھیلی پہ تیری
کہوں گا تجھے مُسکرانے سے پہلے
ذرا سوچ لو
روٹھ جانے سے پہلے imran Gohar
ذرا سوچ لو
روٹھ جانے سے پہلے
جُدائی کے لمحات خاصے کٹھن ہیں
محبت کے وعدے نبھاتے ہیں دونوں
عہدِ وفا بھول جانا غلط ہے
سوچو ذرا
ہم جدا ہوگئے تو
لوگوں کے طعنوں کا مرکز بنیں گے
اگرچہ ابھی تم حسیں ہو جواں ہو
مگر عُمر کا جب اندھیرا بڑھے گا
دیے کی ضرورت کا احساس ہو گا
فقظ
اُس گھڑی یاد آؤں گا تُجھ کو اور
آنکھوں سے بِن چاہے بہنے لگوں گا
ٹپک کر گِروں گا ہتھیلی پہ تیری
کہوں گا تجھے مُسکرانے سے پہلے
ذرا سوچ لو
روٹھ جانے سے پہلے imran Gohar
مونھ چوُٹھ دا لُک دا سَچ دا نئیں مونھ چُوٹھ دا لُک دا سَچ دا نئیں
اَیس رُوپ تہ پردہ جَچ دا نئیں
میں آپ ہاں بوٹی ویلے دی
لُقمے نوں لُقمہ پَچ دا نیئں
جُو سیانیاں آکھی سچی اے
بھن پُھو کاں پانبھڑ مچُ دا نئیں
کی جانے ٹُٹناں جُڑنا توں
تیرا دل تہ کَچ دا نئیں
لَکھ اوہلے اوہلے رہ گوہر
ویلے توں کوئی بَچ دا نیئں imran Gohar
اَیس رُوپ تہ پردہ جَچ دا نئیں
میں آپ ہاں بوٹی ویلے دی
لُقمے نوں لُقمہ پَچ دا نیئں
جُو سیانیاں آکھی سچی اے
بھن پُھو کاں پانبھڑ مچُ دا نئیں
کی جانے ٹُٹناں جُڑنا توں
تیرا دل تہ کَچ دا نئیں
لَکھ اوہلے اوہلے رہ گوہر
ویلے توں کوئی بَچ دا نیئں imran Gohar
آتشِ قلب زبانِ شوق کو نغمہِ کبریائی دے
عادلِ وقت کو قانونِ مُصطفائی دے
تپشِ کِردار سے پُرنور رہے بزمِ عمل
آتشِ قلب ! سرِ دَہر روشنائی دے
کتابِ نُور کو بنا کے شان ڈھالِ صدر
اپنے احباب کو تدریسِ آشنائی دے
آؤ سب دارِ مُحمد کا لِبادہ اُوڑھیں
سپاہِ حشر وہاں سر نگوں دکھائی دیں
فطرتِ نارِ جہنم میں راکھ ہے گوہر
آتشِ قلب کے شُعلے تو پزیرائی دیں imran Gohar
عادلِ وقت کو قانونِ مُصطفائی دے
تپشِ کِردار سے پُرنور رہے بزمِ عمل
آتشِ قلب ! سرِ دَہر روشنائی دے
کتابِ نُور کو بنا کے شان ڈھالِ صدر
اپنے احباب کو تدریسِ آشنائی دے
آؤ سب دارِ مُحمد کا لِبادہ اُوڑھیں
سپاہِ حشر وہاں سر نگوں دکھائی دیں
فطرتِ نارِ جہنم میں راکھ ہے گوہر
آتشِ قلب کے شُعلے تو پزیرائی دیں imran Gohar
اِک مُعجزہ اِک مُعجزہ کمال ہوا رات خواب میں
دیدارِ نور جمال ہوا رات خواب میں
اِتنی تابندہ شب کہ ! شبِ پونماں حقیر
خود سَرنگوں ہِلال ہوا رات خواب میں
ٹوٹا ہوا ہو بَند گو نہرِ بہشت کا
بادہ کشی حَلال ہوا رات خواب میں
بُلبُل، گُل و گُلزار، دھنک خارجِ زمرہ
منظر ہی بے مثال ہوا رات خواب میں
دیکھا سراپا حُسن جو آنگن میں ٹہلتے
ہر آئینہ نڈھال ہوا رات خواب میں
اب فرض ہے نمازِ شُکر کی ادائیگی
آخر گوہر وصال ہوا رات خواب میں imran Gohar
دیدارِ نور جمال ہوا رات خواب میں
اِتنی تابندہ شب کہ ! شبِ پونماں حقیر
خود سَرنگوں ہِلال ہوا رات خواب میں
ٹوٹا ہوا ہو بَند گو نہرِ بہشت کا
بادہ کشی حَلال ہوا رات خواب میں
بُلبُل، گُل و گُلزار، دھنک خارجِ زمرہ
منظر ہی بے مثال ہوا رات خواب میں
دیکھا سراپا حُسن جو آنگن میں ٹہلتے
ہر آئینہ نڈھال ہوا رات خواب میں
اب فرض ہے نمازِ شُکر کی ادائیگی
آخر گوہر وصال ہوا رات خواب میں imran Gohar
آتشِ قلب زَبانِ شوق کو نغمہِ کبریائی دیں
مُنصفِ دور کو قانونِ مصطفائی دیں
تپشِ الفاظ سے گرمائیے!بزمِ سماع
آتشِ قلب! سرِ دَہر روشنائی دیں
محورِ نفس ہو فقط! طہارتِ ایماں
نوعِ انسان کو تمغہِ پارسائی دیں
کِتابِ نور کو بنائیں رہیں ڈھالِ صدر
اپنے احباب کو تدریسِ آشنائی دیں
آؤ ہم دارِ محمد کا لِبادہ اوڑھیں
سپاہِ حشر وہاں سرنگوں دکھائی دیں
فطرتِ آتشِِ دوزخ ہے! خاک! گوہر
آتشِ قلب کے شُعلے تو پزیرائی دیں imran Gohar
مُنصفِ دور کو قانونِ مصطفائی دیں
تپشِ الفاظ سے گرمائیے!بزمِ سماع
آتشِ قلب! سرِ دَہر روشنائی دیں
محورِ نفس ہو فقط! طہارتِ ایماں
نوعِ انسان کو تمغہِ پارسائی دیں
کِتابِ نور کو بنائیں رہیں ڈھالِ صدر
اپنے احباب کو تدریسِ آشنائی دیں
آؤ ہم دارِ محمد کا لِبادہ اوڑھیں
سپاہِ حشر وہاں سرنگوں دکھائی دیں
فطرتِ آتشِِ دوزخ ہے! خاک! گوہر
آتشِ قلب کے شُعلے تو پزیرائی دیں imran Gohar
کِسی پر دوش نہ آئے۔۔۔ ہٹا دو آنکھ سے پردہ
کسی پر دوش نہ آئے
پِلا دو آج کچھ ایسا
کہ ساقی ہوش نہ آئے
چڑھاو آج وہ مستی
کہ پا جاوں فنِ ہستی
سبھی پر پیار ہی آئے
کسی پر جوش نہ ائے
کسی پر دوش نہ آئے
محبت سے تُجھے سمجھا
وگرنہ کون یہ سمجھا
کہیں نعلین نہ اُتریں
کہیں پاپوش نہ آئے
کسی پر دوش نہ آئے
نکارا امن کا باجے
فُغاں شہنائی ہو جائے
کسی مظلوم کا نالہ
قریبِ گوش نہ آئے
کسی پر دوش نہ آئے
کسی پر دوش نہ آئے imran Gohar
کسی پر دوش نہ آئے
پِلا دو آج کچھ ایسا
کہ ساقی ہوش نہ آئے
چڑھاو آج وہ مستی
کہ پا جاوں فنِ ہستی
سبھی پر پیار ہی آئے
کسی پر جوش نہ ائے
کسی پر دوش نہ آئے
محبت سے تُجھے سمجھا
وگرنہ کون یہ سمجھا
کہیں نعلین نہ اُتریں
کہیں پاپوش نہ آئے
کسی پر دوش نہ آئے
نکارا امن کا باجے
فُغاں شہنائی ہو جائے
کسی مظلوم کا نالہ
قریبِ گوش نہ آئے
کسی پر دوش نہ آئے
کسی پر دوش نہ آئے imran Gohar
واہ ! مُسافر دنیا کے۔۔۔ حِصہ اول واہ! مُسافر دنیا کے تو کتنا بھولا بھالا ہے
پُر ہے سارا مُنہ تیرا، ٹھونسے مگر نوالا ھے
واہ! مُسافر دُنیا کے تو کِتنا بھولا بھالا ہے
جو چاہے سو کرتا ہے، لیکن آہیں بھرتا ہے
اور بھی مخلوقات مگر، تیرا بھید نرالا ہے
واہ! مُسافر دنیا کے تو کِتنا بھولا بھالا ہے
آنکھ میں تیری کیا اُترا، گدلا کیا ؟ کیا سُتھرا؟
خنز و خیر بلا جانے، جو آئے سو اعلی ہے
واہ! مُسافر دنیا کے تو کتنا بھولا بھالا ہے imran Gohar
پُر ہے سارا مُنہ تیرا، ٹھونسے مگر نوالا ھے
واہ! مُسافر دُنیا کے تو کِتنا بھولا بھالا ہے
جو چاہے سو کرتا ہے، لیکن آہیں بھرتا ہے
اور بھی مخلوقات مگر، تیرا بھید نرالا ہے
واہ! مُسافر دنیا کے تو کِتنا بھولا بھالا ہے
آنکھ میں تیری کیا اُترا، گدلا کیا ؟ کیا سُتھرا؟
خنز و خیر بلا جانے، جو آئے سو اعلی ہے
واہ! مُسافر دنیا کے تو کتنا بھولا بھالا ہے imran Gohar
میرا دوست اِلہام کا، ادراک کا اوتار میرا دوست
قلم، میرا شِِعار، میرا یار میرا دوست
تحریرِ ہر زمان کا راوی رہا ہے یہ
ہر دستِ اہلِ حرف کا اوزار میرا دوست
ہرگز کتابِ لوح پہ کوئی نام نہ ہوتا
ہوتا نا اگر منشئیِ کِرتار میرا دوست
جانے بِنا رضا کبھی لب کھولتا نہیں
کتنا ہے مُجھ سے وفادار میرا دوست
لاتا ہے دشتِ ورق پر سمیٹ کر جہاں
کرتا ہے رقم نِت نئے کردار میرا دوست
یہ تزکرہ گِراں ہے مگر اہلِ قلم پر
اُن کے لیے ہے ذریعہِ اظہار میرا دوست imran Gohar
قلم، میرا شِِعار، میرا یار میرا دوست
تحریرِ ہر زمان کا راوی رہا ہے یہ
ہر دستِ اہلِ حرف کا اوزار میرا دوست
ہرگز کتابِ لوح پہ کوئی نام نہ ہوتا
ہوتا نا اگر منشئیِ کِرتار میرا دوست
جانے بِنا رضا کبھی لب کھولتا نہیں
کتنا ہے مُجھ سے وفادار میرا دوست
لاتا ہے دشتِ ورق پر سمیٹ کر جہاں
کرتا ہے رقم نِت نئے کردار میرا دوست
یہ تزکرہ گِراں ہے مگر اہلِ قلم پر
اُن کے لیے ہے ذریعہِ اظہار میرا دوست imran Gohar
تصویر تیری جِس پَل دیکھی تصویر تیری
تسکین ملی اِن آنکھوں کو
تعریف میں تیری کیا بولوں
لب کُھلتے ہیں سِل جاتے ہیں
پُر زور سعی فرماتا ہے
تصویر تیری
اِک دیکھنے والا کہتا ہے
یہ رُخ دیکھوں تو لگتا ہے
جیسے ہو رِیگ کے صحرا میں
سونے کی مورت ہاتھ لگی
ارکان تمہارے چہرے کے
عالم کی سیر کراتے ہیں
یہ آنکھیں،
کیا کہنا اِن کا
مخمور کریں ہیں بِن بادہ
یہ نین تیرے اتنے سادہ
جُوں یک جا ہو، منزل، جادہ
یہ گیسو،
دیبا ہیں تو ،
سُلجھے ریشم کے دھاگے ہیں
اِتنی سی حقیقت پانے کو
ہم رات رات بھر جاگے ہیں
تُلسی کی مہک رکھنے والے
یہ ہونٹ،
تو ہیں چکھنے والے
ب، ب سے بن کر بےپرواہ
رَس بار بار برساتے ہیں
رُخسار
گُلاب سے ہیں تیرے
یہ کہنا، بات بڑھانا ہے
تو سر سے لے کر قدموں تک
مستانی رُت کا گانا ہے
ناک میں موتی، ایسے جیسے
چاند میں اُبھرا تارا ہو
دل یہی تو مانگا کرتا تھا
اِک ساتھی ہو جو پیارا ہو
کان میں موتی جُھمکا ہے
جُھمکے کی ہمجا بالی ہے
آنکھ نے دیکھے لاکھ حسیں
پر تیری بات نرالی ہے
لکھنے کو اور بھی ہے لیکن
ہر بات کو لکھنا ٹھیک نہیں
لیکن جو اب تک لکھا ہے
ہرگز مت کہنا ٹھیک نہیں
شاید کوئی آنے والا ہے
چاپ کسی کی سُنتا ہوں
چشمِ بد دور رہے تم سے
اِس لئے یہ پردہ کرتا ہوں
تصویر تیری اب رکھتا ہوں
تصویر تیری اب رکھتا ہوں imran Gohar
تسکین ملی اِن آنکھوں کو
تعریف میں تیری کیا بولوں
لب کُھلتے ہیں سِل جاتے ہیں
پُر زور سعی فرماتا ہے
تصویر تیری
اِک دیکھنے والا کہتا ہے
یہ رُخ دیکھوں تو لگتا ہے
جیسے ہو رِیگ کے صحرا میں
سونے کی مورت ہاتھ لگی
ارکان تمہارے چہرے کے
عالم کی سیر کراتے ہیں
یہ آنکھیں،
کیا کہنا اِن کا
مخمور کریں ہیں بِن بادہ
یہ نین تیرے اتنے سادہ
جُوں یک جا ہو، منزل، جادہ
یہ گیسو،
دیبا ہیں تو ،
سُلجھے ریشم کے دھاگے ہیں
اِتنی سی حقیقت پانے کو
ہم رات رات بھر جاگے ہیں
تُلسی کی مہک رکھنے والے
یہ ہونٹ،
تو ہیں چکھنے والے
ب، ب سے بن کر بےپرواہ
رَس بار بار برساتے ہیں
رُخسار
گُلاب سے ہیں تیرے
یہ کہنا، بات بڑھانا ہے
تو سر سے لے کر قدموں تک
مستانی رُت کا گانا ہے
ناک میں موتی، ایسے جیسے
چاند میں اُبھرا تارا ہو
دل یہی تو مانگا کرتا تھا
اِک ساتھی ہو جو پیارا ہو
کان میں موتی جُھمکا ہے
جُھمکے کی ہمجا بالی ہے
آنکھ نے دیکھے لاکھ حسیں
پر تیری بات نرالی ہے
لکھنے کو اور بھی ہے لیکن
ہر بات کو لکھنا ٹھیک نہیں
لیکن جو اب تک لکھا ہے
ہرگز مت کہنا ٹھیک نہیں
شاید کوئی آنے والا ہے
چاپ کسی کی سُنتا ہوں
چشمِ بد دور رہے تم سے
اِس لئے یہ پردہ کرتا ہوں
تصویر تیری اب رکھتا ہوں
تصویر تیری اب رکھتا ہوں imran Gohar