✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
kanwalnaveed
Search
Add Poetry
Poetries by kanwalnaveed
تسخیر
کوئی تدبیر نہ ملی ہم کو کہ وہ ہمارا ہو
بہت برس مایوسی میں گزارے ہم نے
بیساکھیاں توڑ دی تو ہم اپائج بھی نہ رہے
مانگنا چھوڑ دئیےاب کے سہارے ہم نے
محبت میں ضروری نہیں محبوب ساتھ رہے
بدل ڈالے فرسودہ خیال سارے ہمارے ہم نے
گہرائی میسر آئی زندگی کے سمندر کی اس دم
دیکھنا چھوڑ دئیے مُڑ مُڑکر جب کنارے ہم نے
بے چین رکھتی ہے کنول جستجو ہم ،ہم میں نہیں
پھیلا دئیے جب سے اپنی سوچ کے دھارے ہم نے
Kanwal Naveed
Copy
غزل ( جنس)۔
جسم سے نکل کر تھوڑی سی زندگی چاہیے
میرے وجود کو جیون کو کچھ تو آزاد ہونے دو
عزت و وراثت نہ ہی شے ہوں کسی کی کوئی
مجھے بھی سانس لینے دو دنیا میں آباد ہونے دو
تخلیق کا موجد رب ،مقام ملے اسے خدائی کا
باعث تخلیق ہوں مجھ پر، اب اجتہاد ہونے دو
محور فساد میں تھی ! نہ ہو ہی سکتی ہوں
میں ناشاد ہوں تو جہاں کو بھی ناشاد ہونے دو
جلتے ہوئے چہرے، کہیں لٹتی ہوئی عصمت
فقط جنس کے باعث نہ عورت برباد ہونے دو
kanwalnaveed
Copy
غلامی
کہیں مندر ہے کہیں مسجد کہیں کلیسا کا بول بالا ہے
انسان کہتا پھرتا ہے مذہب سب سے اسی کا اعلیٰ ہے
کبھی میں کائنات کو دیکھوں کبھی تخلیقا تِ انسان
سردھنتا ہے اکثراس پر، کس نے کس کو پالا ہے
جیون ،جوانی خوابوں کوسنبھالتا ہے جو، اک بچہ
وثوق سے کہتی ہے دنیا ماں نے بچہ سنبھالا ہے
کیوں نکلیں پنجرے سے؟ پر ہوں یا نہیں کیا مطلب
شکاری سےعشق ومحبت کا طوق گلےمیں ڈالا ہے
اتنی آسائش دیتا ہے معاشرہ منہ بند کرنے پرکنولؔ
چہرے پر ہے کھوکھلی ہنسی اور ہرزبان پر تالا ہے
kanwalnaveed
Copy
سچ
جب سے ہم نے قسم کھائی ہے سچ کہنے کی
دُعا ہے نہ تکرار کی اب کوئی صورت نکلے
اب تو لازم ہوا مجھ پر کہہ دوں اس سے
اپنی طلب سا وہ بھی تو خوبصورت نکلے
سچ سنتے ہی ہو جاتا ہے کنول ہر کوئی خفا
ٹپکے زبان سے عداوت ،دل سے کدورت نکلے
kanwalnaveed
Copy
محبت
ایسی محبت کو آگ دو
جو وجود کے سودے میں ملے
قمیمت کیوں نہ دینے والے کی نذد کروں
جو کھوٹے سِکے میں ملے
آج ہم کو پتہ چلا وہ جانتا ہے کرے ہے کیا
کہتا ہے مجھ کو لُٹا نہ وہ
جو تجھے مجھ سےملے
یہ کیسی تفریق ہے ،تیری ذات سے میری ذات کی
میری ذات ہو فقظ عزت تیری ،ہر ذلت مجھ میں ملے
یہ آہ زاری یہ سسکیاں ، آو آج بدل دیں جان
جو میرا ہے تجھ سے آ ملے
جو تیرا ہے مجھ سے آملے
kanwalnaveed
Copy
مہ محبت
ٹوٹ کیوں نہیں جاتا میرے دل کا یہ پیالہ
جس نے تیری دید کے چند گھونٹ پیئے ہیں
یہ انکھوں کا برسنا تو عجب برسات لیے ہے
ہم نے مہ محبت کے فقط چند قطرے لیے ہیں
نڈھال ہے زندگی مگر لب خاموش تماشائی
دھاگہ وفا نےکنولؔ ہمارے لب سیے ہیں
kanwalnaveed
Copy
ماضی
کیسے کیسے نقش بنے تھے پھر سارے مٹ گئے
ساحل کی ریت سا جیون بس تم کو دیکھا سکتا ہوں
میرے دل میں محبت کا اک سمندرٹھاٹیں مارتا تھا
تم کو انکھوں میں فقط چند بوندیں ہی دیکھا سکتا ہوں
روحوں کی شناسائی کا تعلق کیا کنول خاک و مٹی سے
مٹی ہو جو تم تو پھر میں تم کو مٹی ہی دیکھا سکتا ہوں
Kanwal Naveed
Copy
آج کی بیوی
بیوی بدلی ہے آج کی یہ الزام لگایا جاتا ہے
شوہر کا ہی کیوں ہر کرتوت چھپایا جاتا ہے
جیسا آدمی ہوتا ہے وہ ویسی بیوی پاتا ہے
کہی سنی بات نہیں یہ قرآن ہمیں بتاتا ہے
قرآن کی تعلیم ہر دور میں یکساں چلتی ہے
خوشیوں سے بیوی آدمی کا دامن بھرتی ہے
معاشرے میں بیوی آدمی کی عزت ہوتی ہے
آدمی پاس دولت بیوی کی قسمت ہوتی ہے
ماں کو نوکرنی بنا، بیوی کو سر جو چڑھاتے ہیں
آدمی کو یہ کرتوت ماں باپ ہی تو سکھاتے ہیں
نہ رہیں اگر نہ چاہیں، بندھن ہے یہ کوئی قید نہیں
اک راہ ہمشہ ہے کھلی، راستہ جس کا ناپید نہیں
ریموٹ دبایا جائے و یسی ہی چلتی ٹی وی ہے
جیسا آج کا شوہر ہے ویسی ہی آج کی بیوی ہے
kanwalnaveed
Copy
آؤ پنچھی آزاد کر دیں
آؤ پنچھی آزاد کر دیں
اِنہیں اِیسے آباد کر دیں
جِیسے ان کا من چاہتا ہے
جِیسے ان کو جینا آتا ہے
ان کے دل کی فریاد سن لیں
پنجرے کے سارے دانے چن لیں
آؤپنچھی آزاد کر دیں
ہمارے بچے بھی پرندے ہی ہیں
جیون ساز کے سازندے ہی ہیں
یہ ہیں دھرتی کے تابندہ ستارے
چھونے دیں اِنہیں آسماں کے کنارے
ان پر سات سُروں کی قید نہ ہو
تخلیق ان کی ناپید نہ ہو
احسان ان پر ایک آدھ کر دیں
آؤُ پنچھی آزاد کر دیں
kanwalnaveed
Copy
خدا کہاں ہے؟
دیکھتا ہوں بغورجب میں ٹوٹے گھروں کو
گِرے ہوئے درخت کی کمزور جڑوں کو
سسکتی ہوئی انسانیت جو دم توڑ رہی ہے
ماں اپنے ہی بچوں کا ہاتھ چھوڑ رہی ہے
سوچتا ہوں بپا محبت کی وہ صدا کہاں ہے
سوچتا ہوں یہاں ہے تو مگر خدا کہاں ہے
بہت سے چہروں سے ہنسی نوچتے درندے
پنجروں میں پر کٹے ہوئے اداس ہیں پرندے
کی تھی جو خوشی کے لیے وہ دعا کہاں ہے
سوچتا ہوں یہاں ہے تو مگر خدا کہاں ہے
دیر تک اپنے دل کو ہم تو ٹٹول رہے تھے
سوالوں کو سوال ہی جھنجھوڑ رہے تھے
دل کی دہلیز پر تھا میری جواب کھڑا ہوا
گلابوں میں مرجھایا ہوا گلاب تھا پڑا ہوا
دنیا میں ابھی نہیں کنولؔ مکمل حشر بپا ہے
یہ کم ثبوت ہے اس کا یہیں پر ہی خدا ہے
Kanwal Naveed
Copy
پیار
سب کے لیے سب تو نہیں دے سکتے حضور
ذات کی نوکیں مگرہم ہموارتوکرہی سکتے ہیں
دولت مشکل ہے دینا سب ہی جانتے ہیں یہ تو
مخلوق خدا سے مگر پیار تو کرہی سکتے ہیں
kanwalnaveed
Copy
کہانی
ک ننھی منی کہانی ہے
اک طوطے اک چڑیا کی
زندگی نہیں یہ وہ زندگی
کہانی گڈے اور گڑیا کی
ساتھ ساتھ بیٹھے ہوں
بھلے لگیں نگاہوں کو
محسوس کہاں کرتے ہیں
سسکیوں کواور آہوں کو
طوطا چڑیا کو نہ سمجھے
نہ سمجھے چڑیا طوطے کو
سوتا جاگتے سے انجان رہے
جاگتا نہ جانے سوتے کو
بہت سے گھر ہیں یہاں پر
جہاں طوطا،چڑیا بستے ہیں
اندر اندر روتے ہیں وہ
دنیا کے لیے ہنستے ہیں
بچوں کی اپنی ذات وہاں
نہ گڈا کوئی نہ گڑیا ہے
نہ جانے کون سی ہستی ان کی
نہ طوطا ہیں وہ ،نہ چڑیا ہے
طوطے کے ساتھ رکھیں طوطی
چڑے کے ساتھ چڑیا کو
اسی صورت ہم پا سکتے ہیں
پرامن سے گڈے،گڑیا کو
kanwalnaveed
Copy
قفس
کیسے کہوں کہ عاشق تیریﷺ ذات کا ہوں
قفسِ نفس میں دن رات ہی پھر پھرآتا ہوں
ٹھہرنے دیتی نہیں تیرے پاس سرشت میری
نیکی کرتے ہی میں گناہوں میں لوٹ آتا ہوں
kanwalnaveed
Copy
یاد
ہت دیر تک بیٹھے رہے تیری یاد میں قلم لیے
چہرے کی مسکان کو لفظوں میں نہ قید کر سکے
ہمارے ارد گرد ہجوم رہا نظر مگر رہی رو برو
درمیان جو ہم میں کششش رہی نہ ناپید کر سکے
kanwalnaveed
Copy
اجنبی
سونپا اپناآپ تجھےخود سےبےدخل ہوئے
اگرچہ دنیا کے لیے اب بھی اجنبی ہیں ہم
باطن دیکھے کون، ہماری آپس کی بات وہ
ظاہراْ کنول ؔ محبت سے انجان ابھی ہیں ہم
kanwalnaveed
Copy
دھاگے
ہم بھی تو بس دھاگے ہیں
ہم بھی تو بس دھاگے ہیں
کبھی ہیں الجھے الجھے سے
کبھی ہیں سلجھے سلجھے سے
کبھی ہلکے ہیں کبھی گہرے ہیں
کبھی بند ڈبیا میں ٹھہرے ہیں
کچھ دلہن کو سجاتے ہیں
کچھ کفن میں سماتے ہیں
کچھ کھلے ہوئے کچھ کھچئے ہوئے
کچھ قدموں میں بچھئے ہوئے
کبھی تاج کے موتی میں پیوست سے
کبھی اونچے ہیں کچھ ہیں پست سے
کچھ اک ضرب سے ٹوٹ جاتے ہیں
کچھ ناکوں چنے چبواتے ہیں
یہ دھاگوں کی کہانی ہے
اک دھاگے کی زبانی ہے
kanwalnaveed
Copy
چاہت
نہ میں تیرے جیسی ھوں نہ تو میرے جیسا ہے
میں جانو میں کیسی ہوں تو جانے تو کیسا ہے
محبت اس کو بھی ہے ہم سے محبت ہم بھی کرتے ہیں
انکار اس کو بھی ہے چاہت کا انکار ہم بھی کرتے ہیں
سمندر کڑوا کڑوا سا ندی بھی ہے پیاسی پیاسی سی
کچھ نہ کچھ ادھورا ہے دونوں میں ہے اداسی سی
اپنا اپنا ہاتھ لیے ہم سنگ سنگ ہیں چل رہے
نہ لوٹیں گئے قیمتی ،گزر جو ہیں پل رہئے
تم ہماری طرف جو آتے ہو ہم تمہاری طرف چلے جاتے ہیں
ستم ظریفی ہے کنول قسمت کی، نہ تم پاتے ہو نہ ہم پاتے ہیں
kanwalnaveed
Copy
ارادہ
دیکھا تھا ہم نے صدا ستاروں کو ہی
دوست چاند کایونہی نہیں ہے بنا جاتا
ہم بےکار کے خواب نہیں دیکھا کرتے
ارادوں کو پورا کرنے کا بھی ہے ارادہ
آگ بھی گلزار بن جاتی ہے اس کے لیے
آزمائشِ قدرت کو یقین سےجو ہے آزماتا
چنی ہے راہ تو پھر اس پر یقین سے چل
ارادہ پختہ ہو تو انسان کیا نہیں ہے پاتا
علم کاشہرہو گا دل تیرا، اگر پاک رہے
حکمت کا ہر ذرہ پاکیزگی میں ہے سماتا
kanwalnaveed
Copy
اندازہ
محبت میں کچھ لمحے
بڑے شدید ہوتے ہیں
جن میں خود ہمیں بھی
ہماری پہچان نہیں ہوتی
ڈوب کر محبت کے سمندر میں
سیپوں کو ڈھونڈ لاتے ہیں
محبوب کو دیکھاتےہیں
کہ ہم سا کوئی ہو نہیں سکتا
کوئی ہم سا ہو گا بھی کیسے
جو اس کی چاہت میں مرتا ہو
یہ تسلیم کرتا ہو
کہ جان تک دے وہ سکتا ہے
اپنی وفاکے موتی دیکھا کے
یقین دلاتا ہو
جہاں وہ دے سکتا ہے
میں بھی تو ایسی تھی
کیسے جوش سے کہتی تھی
مجھے تم سے محبت ہے
محبت تو عبادت ہے
اگرچہ عبادت سے عاری تھی
وہ محبت جو بیماری تھی
اسی کو سب کچھ سمجھتی تھی
مگر جو بیمار نہیں تھا وہ
اکثر خاموش رہتا تھا
سنتی ہوئی نظروں میں
عجیب الفاظ رکھتا تھا
میں جو جذبہ محبت میں اکثر
اس سے سوال کرتی تھی
کیا آزمائش پہ پورا اُترے گا
کبھی جو میں آزمائش لوں
وہ فقط مسکراتا تھا
یوں چیرہ گماتا تھا
کہ جیسے ناآشنا ہے وہ
لینے دینے کے جذبہ سے
پھر میں کہتی تھی اس سے
میں تو کر سکتی ہوں کچھ بھی
اگرچہ جو مرنا پڑے مجھ کو
تو بھی مشکل نہیں ہو گا
مگر اندازہ نہیں تھا مجھ کو
یہ باتوں کا بادل ہے
جو برسات سے عاری ہے
یہ محبت جو بیماری ہے
بہت جلد ٹھیک ہو جائے گی
یہ جھوٹی ساری باتیں تھیں
جو میرا نفس بناتا تھا
مگر وہ کہاں قفس بناتا تھا
آزاد کر گیا مجھ کو
فقط دو ٹھہرے آنسو دے کر
جو میرے دل پر باقی ہیں
کوئی موتی نہیں ہیں وہ
پتھر ہیں
سلوں سے بھاری
محبت جو ہے بیماری
وہ محبت میں اب نہیں کرتی
کر نہیں پائے گا وہ بھی
اتنے تلخ تجربے سنگ
چھین لیتا ہے جو جیون رنگ
تھک جاتاہے جیون سفر میں
جو تنہا پیادہ ہے
کنول یہ میرا اندازہ ہے
kanwalnaveed
Copy
چوہے
نظر دیکھ کر حیران ہے
عجب سا یہ جہان ہے
ہر مخلوق کا الگ رنگ ہے
اپنی اپنی فطرت سنگ ہے
تم چوہے دیکھو غور سے
عاری ہیں یہ زور سے
مگر کیسا ناچ نچاتے ہیں
نانی کی یاد دلاتے ہیں
گھروں میں گھر بناتے ہیں
خود کو پھر چھپاتے ہیں
جو ملتا ہے کھا جاتے ہیں
یوں پیٹ کی آگ بجھاتےہیں
کھانے کے پیچھے لڑتے ہیں
مرنے سے بہت ڈرتے ہیں
جان پر بنے تو جان بچاتا ہے
چوہا چوہے کو کھا جاتا ہے
کچھ ملے تو ادھم مچاتے ہیں
موت کو پھر بھول جاتے ہیں
غور کرو یہ کیسے ہیں
کیا نہیں یہ ہم جیسے ہیں
کچھ ہم میں ان میں فرق تو ہو
تفکر میں یہ زہین غرق تو ہو
فقط نفس کے پیچھے جائیں گئے
تو ہم بھی چوہے کہلائیں گئے
kanwalnaveed
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets