Add Poetry

Poetries by کنزالعلم

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
جو تیرے در سے یار پھرتے ہیں
در بدر یوں ہی خار پھرتے ہیں
آہ کل عیش تو کئے ہم نے
آج وہ بے قرار پھرتے ہیں
ان کے ایما سے دونوں باگوں پر
خیلِ لیل و نہار پھرتے ہیں
ہر چراغ مزار پر قدسی
کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں
اس گلی کا گدا ہوں میں جس میں
مانگتے تاجدار پھرتے ہیں
جان ہے جان کیا نظر آئے
کیوں عدو گردِ غار پھرتے ہیں
پھول کیا دیکھوں میری آنکھوں میں
دشتِ طیبہ کے خار پھرتے ہیں
لاکھوں قدسی ہیں کامِ خدمت پر
لاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں
وردیاں بولتے ہیں ہرکارے
پہرہ دیتے سوار پھرتے ہیں
رکھیے جیسے ہیں خانہ زاد ہیں ہم
مول کے عیب دار پھرتے ہیں
ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں
پانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں
بائیں رستے سے نہ جا مسافر سن
مال ہے راہ مار پھرتے ہیں
جاگ سنسان بَن ہے رات آئی
گُرگ بہرِ شکار پھرتے ہیں
نفس پہ کوئی چال ہے ظالم
جیسے خاصے بجار پھرتے ہیں
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ
تجھ سے شیدا ہزار پھرتے ہیں
مقطعہ میں اعلحٰضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمٰن نے اپنے آپ کو عاجزاً ''کتا'' لکھا ہے ۔ لیکن میں نے ادبِ اعلحٰضرت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ''شیدا'' لکھ دیا ہے۔

 
Kanz ul ilam
یادِ وطن ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں یادِ وطن ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں
بیٹھے بٹھائے بد نصیب سر پہ بلا اٹھائی کیوں
دل میں چوٹ تھی دبی ہائے غضب اُبھر گئی
پوچھو تو آہِ سرد سے ٹھنڈی ہوا چلائی کیوں
چھوڑ کے اس حرم کو آپ بن میں ٹھگوں کے آ بسو
پھر کہو سر پہ دَھر کے ہاتھ ُلٹ گئی سب کمائی کیوں
باغِ عرب کا سرو باز دیکھ لیا ہے ورنہ آج
قمری جانِ غمزدہ گونج کے چہچہائی کیوں
نامِ مدینہ لے دیا چلنے لگی نسیمِ خُلد
سوزشِ غم کو ہم نے بھی کیسی ہوا بتائی کیوں
کس کی نگاہ کی حیاء پھرتی ہے میری آنکھ میں
نرگسِ مست ناز نے مجھ سے نظر چرائی کیوں
تو نے تو کر دیا طبیب آتشِ سینہ کا علاج
آج کے دردِ آہ میں بوئے کباب آئی کیوں
فکرِ معاش بد بلا ہولِ معاد جان گزا
لاکھوں بلا میں پھنسنے کو روح بدن میں آئی کیوں
ہو نہ ہو آج کچھ میرا ذکر حضور میں ہوا
ورنہ میری طرف دیکھ کے خوشی مسکرائی کیوں
حورِ جناں ستم کیا طیبہ نظر میں پھر گیا
چھیڑ کے پردہ حجاز دیس کی چیز گائی کیوں
غٖفلتِ شیخ و شباب پر ہنستے ہیں طفلِ شیر خوار
کرنے کو گدگدی عبث آنے لگی بہائی کیوں
عرض کروں حضور سے دل کی تو میرے خیر ہے
پٹتی سر کو آرزو دشتِ حرم سے لائی کیوں
حسرت نو کا سانحہ سنتے ہی دل بگڑ گیا
ایسے مریض کو رضاؔ مرگِ جواں سنائی کیوں

 
Kanz ul ilam
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں
دل کو جو عقل دے خدا ان کی گلی سے جائے کیوں
رخصتِ قافلہ کو شور غش سے ہمیں اٹھائے کیوں
سوتے ہیں اِن کے سایہ میں کوئی میں جگائے کیوں
بار نہ تھے حبیب کو پالتے ہی غریب کو
روئیں جو اب نصیب کو چین کہو گنوائے کیوں
یادِ حضور کی قسم غفلت عیش ہے ستم
خوب ہیں قیدِ غم میں ہم کوئی ہمیں چھڑائے کیوں
دیکھ کے حضرتِ غنی پھیل پڑے فقیر بھی
چھائی ہے اب تو چھاؤنی حشر ہی آ نہ جائے کیوں
جان ہے عشق مصطفےٰ روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزہ ناز دوا اٹھائے کیوں
ہم تو ہیں آپ دل فگار غم میں ہنسی ہے ناگوار
چھیڑ کے گل کو نو بہار خون ہمیں رلائے کیوں
یا تو یونہی تڑپ کے جائیں یا وہی دام سے چھڑائیں
منتِ غیر کیوں اٹھائیں کوئی ترس جتائے کیوں
ان کے جلال کا اثر دل سے لگائے ہے قمر
جو کہ ہو لوٹ زخم پر داغِ جگر مٹائے کیوں
خوش رہے گل پہ عندلیب خارِ حرم مجھے نصیب
میری بلا بھی ذکر پر پھول کے خار کھائے کیوں
گِردِ ملال اگر دھلے دل کی کلی اگر کھلے
برق سے آنکھ کیوں جلے رونے پہ مسکرائے کیوں
جانِ سفر نصیب کو کس نے کہا مزے سے سو
کھٹکا اگر سحر کا ہو شام سے موت آئے کیوں
اب تو نہ روک اے غنی عادت سگ بگڑ گئی
میرے کریم پہلے ہی لقمہ تر کھلائے کیوں
راہِ نبی میں کیا کمی فرشِ بیاض دیدہ کی
چادرِ ظل ہے مُلگجی زیرِ قدم بچھائے کیوں
سنگِ درِ حضور سے ہم کو خدا نہ صبر دے
جانا ہے سر کو جا چکے دل کو قرار آئے کیوں
ہے تو رضاؔ نِرا ستم جرم پہ گر لجائیں ہم
کوئی بجائے سوزِ غم سازِ طرب بجائے کیوں

 
Kanz ul ilam
رشکِ قمر ہوں رنگِ رُخِ آفتاب ہوں رشکِ قمر ہوں رنگِ رُخِ آفتاب ہوں
ذرہ تیرا جو اے کردوں جناب ہوں
درِ نجف ہوں گوہرِ پاکِ خوشاب ہوں
یعنی تراب رہ گزر بُو تراب ہوں
گر آنکھ ہوں تو اَبر کی چشمِ پُرآب ہوں
دل ہوں تو برق کا دل پُراضطراب ہوں
خونیں جگر ہوں طائرِ بے آشیاں شہا
رنگ پریدہ رخِ گل کا جواب ہوں
بے اصل و بے ثبات ہوں بحرِ کرم مدد
پروردہئ کنار سراب و حباب ہوں
عبرت فزا ہے شرمِ گناہ سے میرا سکوت
گویا لبِ خموشِ لحد کا جواب ہوں
کیوں نالہ سوز سے کروں کیوں خونِ دل پیوں
سیخِ کباب ہوں نہ میں جامِ شراب ہوں
دل بستہ بے قرار ، جگر چاک ، اشک بار
غنچہ ہوں ، گل ہوں ، برقِ تپاں ہوں ، سحاب ہوں
دعویٰ ہے سب سے تیری شفاعت پہ بیشتر
دفتر میں عاصیوں کے شہا انتخاب ہوں
مولیٰ دہائی نظروں سے گر کے جلا غلام
اشکِ مژہ رسیدہ چشمِ کباب ہوں
مٹ جائے یہ خودی تو وہ جلوہ کہاں نہیں
دردا میں آپ اپنی نظروں کا حجاب ہوں
صدقے ہوں اس پہ نار سے دے گا جو مخلصی
بلبل نہیں کہ آتشِ گل پر کباب ہوں
قالب تہی کئے ہمہ آغوش ہے ہلال
اے شہسوارِ طیبہ میں تیری رقاب ہوں
کیا کیا ہیں تجھ سے ناز تیرے قصر کو کہ ہیں
کعبہ کی جان ، عرش بریں کا جواب ہوں
شاہا بجھے سقر میرے اشکوں سے تا نہ میں
آبِ عبث چکیدہ چشمِ کباب ہوں
میں تو کہا ہی چاہوں کہ بندہ ہوں شاہ کا
پر لطف جب ہے کہہ دیں اگر وہ جناب ''ہوں''
حسرت میں خاک بوسی طیبہ کی اے رضاؔ
ٹپکا جو چشمِ مہر سے وہ خونِ ناب ہوں
Kanz ul ilam
عارض شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں عارض شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں
عرش کی آنکھوں کے تارے ہیں وہ خوشتر ایڑیاں
جا بجا پَر تُو فگن ہیں آسماں پر ایڑیاں
دن کو ہیں خورشیدِ شب ، شب کو ماہ اُختر ایڑیاں
نجمِ گَردوں تو نظر آتے ہیں چھوٹے اور وہ پاؤں
عرش پر پھر کیوں نہ ہوں محسوس لاغر ایڑیاں
دب کے زیر پا نہ گنجائش سمانے کو رہی
بن گیا جلوہ کف پا کا ابھر کر ایڑیاں
ان کا منگتا پاؤں سے ٹھکرا دے وہ دنیا کا تاج
جن کی خاطر مر گئے منعم رگڑ کر ایڑیاں
دو قمر ، دو پنجہ خور ، دو ستارے ، دس ہلال
ان کے تلوے ، پنجے ، ناخن ، پائے اطہر ، ایڑیاں
ہائے اس پتھر سے اس سینہ کی قسمت پھوڑیئے
بے تکلف جس کے دل میں یوں کریں گھر ایڑیاں
تاجِ روحُ القدس کے موتی جسے سجدہ کریں
رکھتی ہیں واﷲ وہ پاکیزہ گوہر ایڑیاں
ایک ٹھوکر میں اُحد کا زلزلہ جاتا رہا
رکھتی ہیں کتنا وقار اﷲ اکبر ایڑیاں
چرخ پر چڑھتے ہی چاندی میں سیاہی آگئی
کر چکی ہیں بدر کو ٹکسال باہر ایڑیاں
اے رضاؔ طوفان محشر کے تلاطم سے نہ ڈر
شاد ہو ہیں کشتیئ امت کو لنگر ایڑیاں

 
Kanz ul ilam
پاٹ وہ ، کچھ دھار یہ ، کچھ زار ہم پاٹ وہ ، کچھ دھار یہ ، کچھ زار ہم
یا الٰہی کیوں کر اُتریں پار ہم
کس بلا کی مے سے ہیں سر شار ہم
دن ڈھلا ہوتے نہیں ہوشیار ہم
تم کرم سے ُمشترَی ہر عیب کے
جنس نا مقبول ہر بازار ہم
دشمنوں کی آنکھ میں بھی پھول تم
دوستوں کی بھی نظر میں خار ہم
لغزشِ پا کا سہارا ایک تم
گرنے والے لاکھوں ناہنجار ہم
صدقہ اپنے بازؤں کا المدد
کیسے توڑیں یہ بت پندار ہم
دم قدم کی خیر اے جانِ مسیح
در پہ لائے ہیں دلِ بیمار ہم
اپنی رحمت کی طرف دیکھیں حضور
جانتے ہیں جیسے ہیں بدکار ہم
اپنے مہمانوں کا صدقہ ایک بوند
مر مٹے پیاسے اِدھر سرکار ہم
اپنے کوچہ سے نکالا تو نہ دو
ہیں تو حد بھر کے خدائی خوار ہم
ہاتھ اٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریم
ہیں سخی کے مال میں حقدار ہم
چاندنی چٹکی ہے ان کے نور کی
آؤ دیکھیں سیرِ طور و نار ہم
ہمت اے ضعف ان کے در پر گر کے ہوں
بے تکلف سایہ دیوار ہم
با عطا تم ، شاہ تم ، مختار تم
بے نوا ہم ، زار ہم ، ناچار ہم
تم نے تو لاکھوں کو جانیں پھیر دیں
ایسا کتنا رکھتے ہیں آزار ہم
اپنی ستاری کا یا رب واسطہ
ہوں نہ رسوا برسرِ دربار ہم
اتنی عرض آخری کہہ دو کوئی
ناؤ ٹوٹی آ پڑے منجدھار ہم
منہ بھی دیکھا ہے کسی کے عفو کا
دیکھ او عصیاں نہیں بے یار ہم
میں نثار ایسا مسلماں کیجئے
توڑ ڈالیں نفس کا زُنار ہم
کب سے پھیلائے ہیں دامن تیغ عشق
اب تو پائیں زخم دامن دار ہم
سنیت سے کھٹکے سب کی آنکھ میں
پھول ہو کر بن گئے کیا خار ہم
ناتوانی کا بھلا ہو بن گئے
نقش پائے طالبانِ یار ہم
دل کے ٹکڑے نذر حاضر لائے ہیں
اے سگانِ کوچہ دل دار ہم
قسمتِ ثور و حرا کی حرص میں
چاہتے ہیں دل میں گہرا غار ہم
چشم پوشی و کرم شان شما
کار ما بے باکی و اصرار ہم
فصل گل سبزہ صبا مستی شباب
چھوڑیں کس دل سے در خمار ہم
مے کدہ چھٹتا ہے ﷲ ساقیا !
اب کے ساغر سے نہ ہوں ہوشیار ہم
ساقی تسنیم جب تک آ نہ جائے
اے سیہ مستی نہ ہوں ہوشیار ہم
نازشیں کرتے ہیں آپس میں ملک
ہیں غلامان شہہ ابرار ہم
لطف از خود وارفتگی یا رب نصیب
ہوں شہید جلوہئ رفتار ہم
ان کے آگے دعویٰ ہستی ر ضاؔ
کیا بَکے جاتا ہے یہ ہر بار ہم


 
kanzul ilam
کیا ٹھیک ہو رُخِ نبوی پر مثالِ گل کیا ٹھیک ہو رُخِ نبوی پر مثالِ گل
پامال جلوہ کفِ پا ہے جمالِ گل
جنت ہے ان کے جلوہ سے جو یائے رنگ و بو
اے گل ہمارے گل سے ہے گل کو سوالِ گل
ان کے قدم سے سلعہ غالی ہوئی جناں
واﷲ میرے گل سے ہے جاہ و جلالِ گل
سنتا ہوں عشقِ شاہ میں دل ہو گا خوں فشاں
یا رب یہ مژدہ سچ ہو مبارک ہو فالِ گل
بلبلِ حرم کو چل غمِ فانی سے فائدہ
کب تک کہے گی ہائے وہ غنجہ وہ لالِ گل
غمگیں ہے شوقِ غازہ خاک مدینہ میں
شبنم سے دُھل سکے گی نہ گر ملالِ گل
بلبل! یہ کیا کہا میں کہاں فصلِ گل کہاں
اُمید رکھ کہ عام ہے جود و نوالِ گل
بلبل گھرا ہے ابرِ ولا مژدہ ہو کہ اب
گرتی ہے آشیانہ پہ برقِ جمالِ گل
یا رب ہرا بھرا رہے داغِ جگر کا باغ
ہر مہ مہِ بہار ہو ہر سال سالِ گل
رنگِ مژہ سے کر کے خجل یادِ شاہ میں
کھنچا ہے ہم نے کانٹوں پہ عطرِ جمالِ گل
میں یاد شاہ میں روؤں عنادل کریں ہجوم
اک اشکِ لالہ فام پہ ہو احتمالِ گل
ہیں عکسِ چہرہ سے لب گلگوں میں ُسرخیاں
ڈوبا ہے بدرِ گل سے شفق میں ہلالِ گل
نعتِ حضور میں مترنم ہے عندلیب
شاخوں کے جھومنے سے عیاں وجد و حالِ گل
بلبلِ گلِ مدینہ ہمیشہ بہار ہے
دو دن کی ہے بہار فنا ہے مآلِ گل
شیخین اِدھر نثار غنی و علی اُدھر
غنچہ ہے بلبلوں کا یمین و شمالِ گل
چاہے خدا تو پائیں گے عشقِ نبی میں خلد
نکلی ہے نامہ دل پرُخوں میں فالِ گل
کر اس کی یاد جس سے ملے چین عندلیب
دیکھا نہیں خارِ الم ہے خیالِ گل
دیکھا تھا خواب خارِ حرم عندلیب نے
کھٹکا کیا ہے آنکھ میں شب بھر خیالِ گل
ان دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پھول ہیں
کیجئے رضاؔ کو حشر میں خنداں مثالِ گل
kanzul ilam
زہے عزت و اعتلائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم زہے عزت و اعتلائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
کہ ہے عرش حق زیر پائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
مکاں عرش ان کا فلک فرش ان کا
ملک خادمان سرائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
عجب کیا اگر رحم فرمائے ہم پر
خدائے محمد برائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
محمد صلی اللہ علیہ وسلم برائے جناب الٰہی
جناب الٰہی برائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
بسی عطر محبوب کبریا سے
عبائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم قبائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
بہم عہد باندھے ہیں وصل ابد کا
رضائے خدا اور رضائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
دم نزع جاری ہو میری زباں پر
محمد صلی اللہ علیہ وسلم محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدائے محمد
عصائے کلیم اژدھائے غضب تھا
گروں کا سہارا عصائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
میں قربان کیا پیاری پیاری ہے نسبت
یہ آن خدا وہ خدائے محمد
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دم خاص بہر خدا ہے
سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم برائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
خدا ان کو کس پیار سے دیکھتا ہے
جو آنکھیں ہیں محو لقائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
جلو میں اجابت خواصی میں رحمت
بڑھی کس تزک سے دعائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
اجابت نے جھک کر گلے سے لگایا
بڑھی ناز سے جب دعائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
اجابت کا سہرا عنایت کا جوڑا
دلہن بن کے نکلی دعائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
رضاؔ پل سے اب وجد کرتے گزریئے
کہ ہے رَبِّ سَلِّمْ دعائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
 
kanzul ilam
جو بنوں پر ہے بہار چمن آئی دوست جو بنوں پر ہے بہار چمن آئی دوست
خلد کا نام نہ لے بلبل شیدائی دوست
تھک کے بیٹھے تو در دل پہ تمنائی دوست
کون سے گھر کا اجالا نہیں زیبائی دوست
عرصہ حشر کجا موقف محمود کجا
ساز ہنگاموں سے رکھتی نہیں یکتائی دوست
مہر کس منہ سے جلو داری جاناں کرتا
سایہ کے نام سے بیزار سے یکتائی دوست
مرنے والوں کو یہاں ملتی ہے عمر جاوید
زندہ چھوڑے گی کسی کو نہ مسیحائی دوست
ان کو یکتا کیا اور خلق بنائی یعنی
انجمن کر کے تماشا کریں تنہائی دوست
کعبہ و عرش میں کہرام ہے ناکامی کا
آہ کس بزم میں ہے جلوہ یکتائی دوست
حسن بے پردہ کے پردے نے مٹا رکھا ہے
ڈھونڈنے جائیں کیاں جلوہ ہرجائی دوست
شوق روکے نہ رکے پاؤں اٹھے نہ اٹھے
کسی مشکل میں ہیں اﷲ تمنائی دوست
شرم سے جھکتی ہے محراب کہ ساجد ہیں حضور
سجدہ کرواتی ہے کعبہ سے جبیں سائی دوست
تاج والوں کا یہاں خاک پہ ماتھا دیکھا
سارے داراؤں کی دارا ہوئی دارائی ددوست
طور پر کوئی ، کوئی چرخ پہ ، یہ عرش سے پار
سارے بالاؤں پہ بالا رہی بالائی دوست
اَنْت َ فَیْھِمْ نے عدو کو بھی لیا دامن میں
عیش جاوید مبارک تجھے شیدائی دوست
رنج اعداء کا رضاؔ چارہ ہی کیا ہے انہیں
آپ گستاخ رکھے حلم و شکیبائی دوست


 
kanzul ilam
پھر اُٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر اُٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب
پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب
باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب
ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب
میٹھی باتیں تیری دین عجم ایمان عرب
نمکیں حسن تیرا جان عجم شان عرب
اب تو ہے گریہ خواں گوہر دامان عرب
جسمیں دو لعل تھے زہرا کے وہ تھی کان عرب
دل وہی دل ہے جو آنکھوں سے ہو حیران عرب
آنکھیں وہ آنکھیں ہیں جو دل سے ہوں قربان عرب
ہائے کس وقت لگی پھانس الم کی دل میں
کہ بہت دور رہے خار مغیلان عرب
فصل گل لاکھ نہ ہو وصل کی رکھ آس ہزار
پھولتے پھلتے ہیں بے فصل گلستان عرب
صدقے ہونے کو چلے آتے ہیں لاکھوں گلزار
کچھ عجب رنگ سے پھولا ہے گلستان عرب
عندلیبی پہ جھگڑتے ہیں کٹتے مرتے ہیں
گل و بلبل کو لڑاتا ہے گلستان عرب
صدقے رحمت کے کہاں پھول کہاں خار کا کام
خود ہے دامن کش بلبل گل خندان عرب
شادی حشر ہے صدقے میں چھٹیں گے قیدی
عرش پر دھوم سے ہے دعوت مہمان عرب
چرچے ہوتے ہیں یہ کملائے ہوئے پھولوں میں
کیوں یہ دن دیکھتے ، پاتے جو بیابان عرب
تیرے بے دام کے بندے ہیں رئیسان عجم
تیرے بے دام کے بندی ہیں ہزاران عرب
ہشت خلد آئیں وہاں کسب لطافت کو رضاؔ
چار دن برسے جہاں ابر بہاران عرب

 
kanzul ilam
Famous Poets
View More Poets