Poetries by Mahmood ul Haq
تمہاری یاد کے آنسو بن بن آس آتے ہیں تمہاری یاد کے آنسو بن بن آس آتے ہیں
سرابِ زندگی میں لبِ جان بن پیاس آتے ہیں
خیالِ بزم میں میری مہماں بن آتے ہیں
قلبِ تازیانے پہ اپنے گمراہِ احساس آتے ہیں
میرا اپنا ہی کیا ، کیا بتاؤں تمہیں
خوشی خوشی رخت سفر پلٹ کر اداس آتے ہیں
اُڑا کر میرا رنگ ہوا میں بہلاتے ہیں
آج نہ سمجھے عمر بھر بن قیاس آتے ہیں
میں تو بیج پھل ہوں گہرائی میں اُتر آتا ہوں
گر رہتا ساحل پہ لہر میں خناس آتے ہیں
رحمتِ ساون میں وفائیں بن گھٹا آتی ہیں
تنہا بھی ہو پڑھتے فلق و الناس آتے ہیں
قیامِ جہان میں مجھے مقامِ امتحاں آتے ہیں
عارضِ انساں تجھے محمود بن افلاس آتے ہیں
Mahmood ul Haq
سرابِ زندگی میں لبِ جان بن پیاس آتے ہیں
خیالِ بزم میں میری مہماں بن آتے ہیں
قلبِ تازیانے پہ اپنے گمراہِ احساس آتے ہیں
میرا اپنا ہی کیا ، کیا بتاؤں تمہیں
خوشی خوشی رخت سفر پلٹ کر اداس آتے ہیں
اُڑا کر میرا رنگ ہوا میں بہلاتے ہیں
آج نہ سمجھے عمر بھر بن قیاس آتے ہیں
میں تو بیج پھل ہوں گہرائی میں اُتر آتا ہوں
گر رہتا ساحل پہ لہر میں خناس آتے ہیں
رحمتِ ساون میں وفائیں بن گھٹا آتی ہیں
تنہا بھی ہو پڑھتے فلق و الناس آتے ہیں
قیامِ جہان میں مجھے مقامِ امتحاں آتے ہیں
عارضِ انساں تجھے محمود بن افلاس آتے ہیں
Mahmood ul Haq
رہنے کو ٹھکانہ نہیں جاڑا سر کو آیا رہنے کو ٹھکانہ نہیں جاڑا سر کو آیا
راہیں مشکل کٹتی نہیں تھکا سفر کو آیا
تو چل میں آیا بن کے تیرا خود کا سایہ
دیوانگی بنا تب ہوش جب صبر کو آیا
بدن اپنے کو ہاتھ اپنا ہی کھجاتا ہے
عشق بنا دل صحرا انتظارِ ابر کو آیا
ہنستے موجِ مستی، سوتے قفسِ ہستی
سازِ ردھم میں صنم حاضری قبر کو آیا
چلتا ہے کارواں سستاتا جب زمانِ جہاں
چاند چھپ جائے تو تارا بن کے ازہر کو آیا
کچے دھاگوں سے پروتا ایک لڑی میں ہر گھڑی
جمع اتنا کیا کہ ٹوٹنا من تو شر کو آیا
سوچتا ہوں تو آ یا اب میں چلا آؤں
سجدہ میں تو، میں رینگتا تیرے در کو آیا
Mahmood ul Haq
راہیں مشکل کٹتی نہیں تھکا سفر کو آیا
تو چل میں آیا بن کے تیرا خود کا سایہ
دیوانگی بنا تب ہوش جب صبر کو آیا
بدن اپنے کو ہاتھ اپنا ہی کھجاتا ہے
عشق بنا دل صحرا انتظارِ ابر کو آیا
ہنستے موجِ مستی، سوتے قفسِ ہستی
سازِ ردھم میں صنم حاضری قبر کو آیا
چلتا ہے کارواں سستاتا جب زمانِ جہاں
چاند چھپ جائے تو تارا بن کے ازہر کو آیا
کچے دھاگوں سے پروتا ایک لڑی میں ہر گھڑی
جمع اتنا کیا کہ ٹوٹنا من تو شر کو آیا
سوچتا ہوں تو آ یا اب میں چلا آؤں
سجدہ میں تو، میں رینگتا تیرے در کو آیا
Mahmood ul Haq
لہو ءمسلمان کی اس قدر ارزانی پہلے تو نہ تھی لہو ءمسلمان کی اس قدر ارزانی پہلے تو نہ تھی
دین میں دی جاتی تعلیمِ نادانی پہلے تو نہ تھی
خدا کے سامنے سر تو نہتے پہ تلوار نہ اٹھتی
اسلام سر گزشتہ میں ایسی مسلمانی پہلے تو نہ تھی
اپنے ہاتھوں کو اپنا سر ہی درکار رہ گیا
قلب قوم میں ایسی ہوس فراوانی پہلے تو نہ تھی
ہاتھوں کی بنے زنجیر اب اس قوم کی پکار ہے
غفلت صبح میں ڈوبی قوم ِسلطانی پہلے تو نہ تھی
قلب ِترازو میں پلڑا عشق ِاللہ و رسولؑ کیا ہوا
چاہ طلب دنیا کا بھاری پلڑا انسانی پہلے تو نہ تھی
Mahmood ul Haq
دین میں دی جاتی تعلیمِ نادانی پہلے تو نہ تھی
خدا کے سامنے سر تو نہتے پہ تلوار نہ اٹھتی
اسلام سر گزشتہ میں ایسی مسلمانی پہلے تو نہ تھی
اپنے ہاتھوں کو اپنا سر ہی درکار رہ گیا
قلب قوم میں ایسی ہوس فراوانی پہلے تو نہ تھی
ہاتھوں کی بنے زنجیر اب اس قوم کی پکار ہے
غفلت صبح میں ڈوبی قوم ِسلطانی پہلے تو نہ تھی
قلب ِترازو میں پلڑا عشق ِاللہ و رسولؑ کیا ہوا
چاہ طلب دنیا کا بھاری پلڑا انسانی پہلے تو نہ تھی
Mahmood ul Haq
دغاء انسان سے اٹھ میرا وفاءایماں گیا دغاء انسان سے اٹھ میرا وفاءایماں گیا
ظاہر سیرت فرشتہ اندر دیکھا ہو حیراں گیا
نام ِخدا سے ہے جنکو ملتا مقامِ عزت جہاں
قلبِ سیاہ سے جلتا دیا خود اپنے پہ قرباں گیا
نام سے شہرت نہیں تو در سے گھر نہیں
جو خود کو نہیں بھولا دور اس سے لا مکاں گیا
ایک جسم و جاں میں رکھتے دو الگ فریب روپ ہیں
سوکھے پھول ہیں سب نام رکھا گلستاں گیا
خوش قسمت ہیں گل و گلزار عداوت خار رکھتے ہیں
ہر بشر عظیم کا ہاتھ اپنے ہی گریباں گیا
میرا فرش ِملک ادنیٰ تیرا عرشِ فلک عظیم
حاکمیتِ فرعون نہ رہی مگر چھوڑ نفرت نشاں گیا
اسلاف اسلام تو ہے سفینہ محبت مقامِ مصطفےؑ
زمام رفعت ِمقام میں کھوتا بھٹکا انساں گیا
Mahmood ul Haq
ظاہر سیرت فرشتہ اندر دیکھا ہو حیراں گیا
نام ِخدا سے ہے جنکو ملتا مقامِ عزت جہاں
قلبِ سیاہ سے جلتا دیا خود اپنے پہ قرباں گیا
نام سے شہرت نہیں تو در سے گھر نہیں
جو خود کو نہیں بھولا دور اس سے لا مکاں گیا
ایک جسم و جاں میں رکھتے دو الگ فریب روپ ہیں
سوکھے پھول ہیں سب نام رکھا گلستاں گیا
خوش قسمت ہیں گل و گلزار عداوت خار رکھتے ہیں
ہر بشر عظیم کا ہاتھ اپنے ہی گریباں گیا
میرا فرش ِملک ادنیٰ تیرا عرشِ فلک عظیم
حاکمیتِ فرعون نہ رہی مگر چھوڑ نفرت نشاں گیا
اسلاف اسلام تو ہے سفینہ محبت مقامِ مصطفےؑ
زمام رفعت ِمقام میں کھوتا بھٹکا انساں گیا
Mahmood ul Haq
آپؑ جزاب ہو راہِ صواب ہو آپؑ جزاب ہو راہِ صواب ہو
زرِ ناب ہو خندہ آفتاب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ
آپؑ رشاد محبوب رب العباد ہو
پرِ سرخاب ہو تَسخیرِ ماہتاب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ
آپؑ اِتساہ باصفا اذعان ہو
باغِ رضوان ہو توقیر الوہاب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ
آپؑ روشن سواد دل نہاد ہو
رشادی روشن جہان تاب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ
آپؑ چمن دلبہار اشہر نجم اطہر ہو
ہم صادق الاعتقاد کو امید حسن الماب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ
میرے دل چاک کو آپؑ فرحت ناک ہو
میں گوہر بے آب ہوں آپؑ گوہر خوش آب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ
میں مشت خاک ہوں آپؑ مصحف پاک ہو
میں نقش بر آب ہوں آپؑ نگہت مآب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ
Mahmood ul Haq
زرِ ناب ہو خندہ آفتاب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ
آپؑ رشاد محبوب رب العباد ہو
پرِ سرخاب ہو تَسخیرِ ماہتاب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ
آپؑ اِتساہ باصفا اذعان ہو
باغِ رضوان ہو توقیر الوہاب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ
آپؑ روشن سواد دل نہاد ہو
رشادی روشن جہان تاب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ
آپؑ چمن دلبہار اشہر نجم اطہر ہو
ہم صادق الاعتقاد کو امید حسن الماب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ
میرے دل چاک کو آپؑ فرحت ناک ہو
میں گوہر بے آب ہوں آپؑ گوہر خوش آب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ
میں مشت خاک ہوں آپؑ مصحف پاک ہو
میں نقش بر آب ہوں آپؑ نگہت مآب ہو
اللہ اللہ یا رسول اللہ
اللہ اللہ یا محبوب اللہ
Mahmood ul Haq
زندگی ہم سے یوں اُلجھ جائے گی زندگی ہم سے یوں اُلجھ جائے گی
سوچا تھا یہ ایسے ہی گزر پائے گی
من مان کر بھی میرا نہ ہوا
چھوڑ بیٹھا تھا کہ کیسے یاد بھلائے گی
چھوڑ اِس یار کو دے اُسے ہاتھ
یہ سمٹ کر خود بانہوں میں آئے گی
پہن کر دیکھو اُنکی ؑ پیراہن طریقت کو
وہ تم پر رنگ و نور برسائے گی
بزمِ عاشقاں میں جب ہو گی حاضری
شمع محفل بھی تم سے شرمائے گی
Mahmood ul Haq
سوچا تھا یہ ایسے ہی گزر پائے گی
من مان کر بھی میرا نہ ہوا
چھوڑ بیٹھا تھا کہ کیسے یاد بھلائے گی
چھوڑ اِس یار کو دے اُسے ہاتھ
یہ سمٹ کر خود بانہوں میں آئے گی
پہن کر دیکھو اُنکی ؑ پیراہن طریقت کو
وہ تم پر رنگ و نور برسائے گی
بزمِ عاشقاں میں جب ہو گی حاضری
شمع محفل بھی تم سے شرمائے گی
Mahmood ul Haq
سَہل اَنگاروں کا پیچھا پچھتاوے کرتے ہیں سَہل اَنگاروں کا پیچھا پچھتاوے کرتے ہیں
گرہوں عاجز تو خوف کے مارے ڈرتے ہیں
وحدہُ لاشریک لہ کی اَمان میں جو نہیں رہتے
نفس کے کئی خداوَں سے وہ مرتے ہیں
قربتیں کم ہوں یا تفاوت بڑھ جائیں
ساعَت کی قید فرنگ سے نہیں نکل پاتے ہیں
بڑھتے درد کا صبر جب فریاد بن جائے
انصاف کے باب کھلنے سے نہیں رکتے ہیں
بلند پرواز میں نہیں رکھتے جو ماویٰ
بدلتی رتوں سے بھی گزرتے چلے جاتے ہیں
Mahmood ul Haq
گرہوں عاجز تو خوف کے مارے ڈرتے ہیں
وحدہُ لاشریک لہ کی اَمان میں جو نہیں رہتے
نفس کے کئی خداوَں سے وہ مرتے ہیں
قربتیں کم ہوں یا تفاوت بڑھ جائیں
ساعَت کی قید فرنگ سے نہیں نکل پاتے ہیں
بڑھتے درد کا صبر جب فریاد بن جائے
انصاف کے باب کھلنے سے نہیں رکتے ہیں
بلند پرواز میں نہیں رکھتے جو ماویٰ
بدلتی رتوں سے بھی گزرتے چلے جاتے ہیں
Mahmood ul Haq
راستے میں جو کٹا وہ زادِ سفر میرا نہ تھا راستے میں جو کٹا وہ زادِ سفر میرا نہ تھا
ہوش میں نہ تھا جو کھویا وہ صبر میرا نہ تھا
پروازمیں کوتاہ نگاہی نے یوں شرمسار کیا
نشانہ پر جو نہ لگا وہ دعائے اثر میرا نہ تھا
یہ ہاتھ خود چھوٹ کر ہاتھ سے جدا ہو گیا
گلستان جلا جس سے وہ شرر میرا نہ تھا
آس نے یاس سے ہٹ کر خود کو پاس کر لیا
بارانِ رحمت میں پھیلتا ہر ابر میرا نہ تھا
مجھے میری تلاش ہے تو اپنے انتظار میں
نسیمِ جاں میں جو رہ گیا وہ ثمر میرا نہ تھا
اتنا بھی کیا کم ملا پھر انتظار میں بیٹھ گیا
یہ فلکِ جہاں اس کا کوئی امبر میرا نہ تھا
جب لوٹنا ہی لکھا تقدیر میں منزل تا حدِ نگاہ
محمود بس تو لکھتا جا وہ نشر میرا نہ تھا
Mahmood ul Haq
ہوش میں نہ تھا جو کھویا وہ صبر میرا نہ تھا
پروازمیں کوتاہ نگاہی نے یوں شرمسار کیا
نشانہ پر جو نہ لگا وہ دعائے اثر میرا نہ تھا
یہ ہاتھ خود چھوٹ کر ہاتھ سے جدا ہو گیا
گلستان جلا جس سے وہ شرر میرا نہ تھا
آس نے یاس سے ہٹ کر خود کو پاس کر لیا
بارانِ رحمت میں پھیلتا ہر ابر میرا نہ تھا
مجھے میری تلاش ہے تو اپنے انتظار میں
نسیمِ جاں میں جو رہ گیا وہ ثمر میرا نہ تھا
اتنا بھی کیا کم ملا پھر انتظار میں بیٹھ گیا
یہ فلکِ جہاں اس کا کوئی امبر میرا نہ تھا
جب لوٹنا ہی لکھا تقدیر میں منزل تا حدِ نگاہ
محمود بس تو لکھتا جا وہ نشر میرا نہ تھا
Mahmood ul Haq
عرقِ عبادات سے گناہوں کو اپنے تم دھویا کرو عرقِ عبادات سے گناہوں کو اپنے تم دھویا کرو
نازاں جو مقامِ دھن اپنے حال اُن کے تم رویا کرو
جل جل کے خاک پھونکوں سے بجھتے چراغ ہوتے ہیں
مخمل شان میں عاجزیء فقیری کو تم پرویا کرو
بھر بھر کے رحمتوں کو میں اَبر کیوں نہ بن جاؤں
جامِ تحسین کو مے خوش آب میں تم ڈبویا کرو
پھولوں سے ہی تم نے اتنے درد سہہ لئے
کانٹوں پہ اب محمود جی بھر تم سویا کرو
Mahmood ul Haq
نازاں جو مقامِ دھن اپنے حال اُن کے تم رویا کرو
جل جل کے خاک پھونکوں سے بجھتے چراغ ہوتے ہیں
مخمل شان میں عاجزیء فقیری کو تم پرویا کرو
بھر بھر کے رحمتوں کو میں اَبر کیوں نہ بن جاؤں
جامِ تحسین کو مے خوش آب میں تم ڈبویا کرو
پھولوں سے ہی تم نے اتنے درد سہہ لئے
کانٹوں پہ اب محمود جی بھر تم سویا کرو
Mahmood ul Haq
پھول کھلتے ہیں گلستان میں جلتا ہے بیاباں پھول کھلتے ہیں گلستان میں جلتا ہے بیاباں
رحمتوں کی ہر دم نوازش شکرِ کلمہ پر ہے زباں
گلِ نام میں کیا رکھا ہے خوشبو تو خود نامہ بریں
آندھی کے آم چنتے جاؤ بے پرواہ ہے باغباں
آنکھ سے گر لہو ٹپکے گوہر فشاں بن بھڑکے
نظر کرم ہو اس کی آگ بھی ہو جائے روحِ پاسباں
گھر یہ گر میرا ہے مکیں نظر میں کیوں جچتے نہیں
تن پوشاکِ مالابار قلب کیفیت غریباں
جواب پڑھ کر بھی جو سوال سے ہٹتے نہیں
اندھیروں میں بھٹکتے ڈھونڈتے پھر کیوں نیاباں
آفتاب کو دھکایا کس نے مہتاب کو چمکایا کس نے
زروں سے جو پہاڑ گرا دے وہی تو ہے نگہباں
کچھ پڑھا ہوتا کچھ تم نے بھی سمجھا ہوتا
یہ نہ بھولا ہوتا ہجومِ بھیڑ ہیں حصار غلہ باں
علم کا کال ورقِ علم کالا تحریر ہے کہاں
نقطوں پہ تحریریں لفظوں میں زمانہ علم و ادباں Mahmood ul Haq
رحمتوں کی ہر دم نوازش شکرِ کلمہ پر ہے زباں
گلِ نام میں کیا رکھا ہے خوشبو تو خود نامہ بریں
آندھی کے آم چنتے جاؤ بے پرواہ ہے باغباں
آنکھ سے گر لہو ٹپکے گوہر فشاں بن بھڑکے
نظر کرم ہو اس کی آگ بھی ہو جائے روحِ پاسباں
گھر یہ گر میرا ہے مکیں نظر میں کیوں جچتے نہیں
تن پوشاکِ مالابار قلب کیفیت غریباں
جواب پڑھ کر بھی جو سوال سے ہٹتے نہیں
اندھیروں میں بھٹکتے ڈھونڈتے پھر کیوں نیاباں
آفتاب کو دھکایا کس نے مہتاب کو چمکایا کس نے
زروں سے جو پہاڑ گرا دے وہی تو ہے نگہباں
کچھ پڑھا ہوتا کچھ تم نے بھی سمجھا ہوتا
یہ نہ بھولا ہوتا ہجومِ بھیڑ ہیں حصار غلہ باں
علم کا کال ورقِ علم کالا تحریر ہے کہاں
نقطوں پہ تحریریں لفظوں میں زمانہ علم و ادباں Mahmood ul Haq
کھلتا جو گلاب ہے کھلتا جو گلاب ہے جلتاپھر یہ زمان کیوں
گزرا ہر نشیدہ پل بہکاتا نیا شیطان کیوں
تجھے آنا مشکل نہیں جانا ہی پھر امتحان کیوں
جگر کا گرم لہو قلب ہی پھر ارمان کیوں
چبھتا نہیں خار بھی ، پھول پھر پشیمان کیوں
ڈرتا تاریکی سے چاندنی مجھ پہ مہربان کیوں
کٹتا رہا قلب تنہا ، میرا تن نادان کیوں
بیتابیء جاناں میں پٹخنا سر ہی آسان کیوں
چاہتے شب وروز مسیحائی کم پھر انسان کیوں
لکھتا لوح قلم پہ ، پڑھتے نہیں پھر قرآن کیوں
Mahmood ul Haq
گزرا ہر نشیدہ پل بہکاتا نیا شیطان کیوں
تجھے آنا مشکل نہیں جانا ہی پھر امتحان کیوں
جگر کا گرم لہو قلب ہی پھر ارمان کیوں
چبھتا نہیں خار بھی ، پھول پھر پشیمان کیوں
ڈرتا تاریکی سے چاندنی مجھ پہ مہربان کیوں
کٹتا رہا قلب تنہا ، میرا تن نادان کیوں
بیتابیء جاناں میں پٹخنا سر ہی آسان کیوں
چاہتے شب وروز مسیحائی کم پھر انسان کیوں
لکھتا لوح قلم پہ ، پڑھتے نہیں پھر قرآن کیوں
Mahmood ul Haq
بھاری لہو کیوں ہے اُٹھ نہیں پاتا جہاں میں بھاری لہو کیوں ہے
جو سمجھ ہی نہیں پاتا ایسی جستجو کیوں ہے
دشت ہو یا صحرا ، گلزار ہو یا ہو گلستان
بہلانے میں نہیں رنگ پھر ماہ نو کیوں ہے
دست میں رکھا دم ، پا سرِ خم کر دیا
قلب عشقِ امتحان ،عقل جامِ سبو کیوں ہے
بیان جو میرا نہیں مفہوم بھی تو تیرا نہیں
ڈستے مجھے اندھیرے پھیلایا آفتاب صبو کیوں ہے
اصلاحِ احوال نہیں رہتے جو دامان اِستاد ہو
پلک جھپکتی روشِ روشن قلب کسو کیوں ہے
زلفِ نار سے جھولتے ، مے خراب سے مستی نہیں
محبتوں کے رنگ ہیں تیرا فراق ہجو کیوں ہے
آسان نہیں سمجھنا لعاب ریشم کی دھار ِ کنار کو
قیام جہان میں تنہا ،سجدہ میں روبرو کیوں ہے Mahmood ul Haq
جو سمجھ ہی نہیں پاتا ایسی جستجو کیوں ہے
دشت ہو یا صحرا ، گلزار ہو یا ہو گلستان
بہلانے میں نہیں رنگ پھر ماہ نو کیوں ہے
دست میں رکھا دم ، پا سرِ خم کر دیا
قلب عشقِ امتحان ،عقل جامِ سبو کیوں ہے
بیان جو میرا نہیں مفہوم بھی تو تیرا نہیں
ڈستے مجھے اندھیرے پھیلایا آفتاب صبو کیوں ہے
اصلاحِ احوال نہیں رہتے جو دامان اِستاد ہو
پلک جھپکتی روشِ روشن قلب کسو کیوں ہے
زلفِ نار سے جھولتے ، مے خراب سے مستی نہیں
محبتوں کے رنگ ہیں تیرا فراق ہجو کیوں ہے
آسان نہیں سمجھنا لعاب ریشم کی دھار ِ کنار کو
قیام جہان میں تنہا ،سجدہ میں روبرو کیوں ہے Mahmood ul Haq
محبت نہ اتنی پاس ہوتی محبت نہ اتنی پاس ہوتی تو دل کو آس ہوتی
طولانی جب مسافت ہوتی تبھی تو پیاس ہوتی
زندگی کا سنا کر قصہ عشق مجھ کو بیمار کر دیا
ایسی بھی کیا مجبوری کیاری میں اب گھاس ہوتی
چلو چھوڑو پرانی کہانی کو دیتے ہیں نیا عنوان
پہننے کو جو رہ گئی لنگی کہنے کو کبھی لباس ہوتی
اپنی قسمت ہی کو روتا زمانہ تو قصور وار ہوا
ایسی غلطی کا ہوتا خمیازہ عسرتِ افلاس ہوتی
رہتا ہمیشہ زیر بار ہی اب تو کرایہ دار بھی تو
محبت بھی کاش کھیل کی طرح جیت کی ٹاس ہوتی Mahmood Ul Haq
طولانی جب مسافت ہوتی تبھی تو پیاس ہوتی
زندگی کا سنا کر قصہ عشق مجھ کو بیمار کر دیا
ایسی بھی کیا مجبوری کیاری میں اب گھاس ہوتی
چلو چھوڑو پرانی کہانی کو دیتے ہیں نیا عنوان
پہننے کو جو رہ گئی لنگی کہنے کو کبھی لباس ہوتی
اپنی قسمت ہی کو روتا زمانہ تو قصور وار ہوا
ایسی غلطی کا ہوتا خمیازہ عسرتِ افلاس ہوتی
رہتا ہمیشہ زیر بار ہی اب تو کرایہ دار بھی تو
محبت بھی کاش کھیل کی طرح جیت کی ٹاس ہوتی Mahmood Ul Haq
بھر گیا میرا قلبِ قلب اَب تو بھر گیا میرا قلبِ قلب اَب تو
بھر دے جھولی یا رب اَب تو
آتش عشق کو جو بڑھکایا اَب تک
سینہ بہ سینہ کر دے سبب اَب تو
مانگا جو میں نے بڑی کوئی بات نہیں
دکھتے ہیں بہت خیال مراتب اَب تو
نہیں کوئی شکوہ زندگی اپنے پن سے
نہیں تنہا شوق ذوق ارباب اَب تو
پھیلتی انوار روشن سمٹتی سایہ زندگی
روٹھ نہ جائے کہیں نِسبت نَسب اَب تو Mahmood Ul Haq
بھر دے جھولی یا رب اَب تو
آتش عشق کو جو بڑھکایا اَب تک
سینہ بہ سینہ کر دے سبب اَب تو
مانگا جو میں نے بڑی کوئی بات نہیں
دکھتے ہیں بہت خیال مراتب اَب تو
نہیں کوئی شکوہ زندگی اپنے پن سے
نہیں تنہا شوق ذوق ارباب اَب تو
پھیلتی انوار روشن سمٹتی سایہ زندگی
روٹھ نہ جائے کہیں نِسبت نَسب اَب تو Mahmood Ul Haq
رہتی دنیا تک ہیں آباد رہتی دنیا تک ہیں آباد پیغام حی علی الصلواۃ
گونج کون و مَکاں بالِیدَگی حی علی الفلاح
قوم وطن سے تو ملت اسلامیہ سے علم بلند
وعدہ اس کا سچا إِذَا جَآءَ نَصۡرُ ٱللَّهِ وَٱلفَتح
انتشار ملت میں پوشیدہ زوال قوم کی تقدیر امنگ
دن پہ جن کے ہو طاری رات کی سپیدئ سحر صبح
گرہن آفتاب سے چھپتے ہلال پہ زور جبر ایام
ہوئے خود سے جدا چاہتے مقام مبلغ مصباح
انجم خود محتاج انتظار اطہر نور دل فگار
روح قرآن سینوں میں جنکے ڈھلا وہ قد افلح Mahmood Ul Haq
گونج کون و مَکاں بالِیدَگی حی علی الفلاح
قوم وطن سے تو ملت اسلامیہ سے علم بلند
وعدہ اس کا سچا إِذَا جَآءَ نَصۡرُ ٱللَّهِ وَٱلفَتح
انتشار ملت میں پوشیدہ زوال قوم کی تقدیر امنگ
دن پہ جن کے ہو طاری رات کی سپیدئ سحر صبح
گرہن آفتاب سے چھپتے ہلال پہ زور جبر ایام
ہوئے خود سے جدا چاہتے مقام مبلغ مصباح
انجم خود محتاج انتظار اطہر نور دل فگار
روح قرآن سینوں میں جنکے ڈھلا وہ قد افلح Mahmood Ul Haq
پروانہ شمع سے جلے پروانہ شمع سے جلے الزام تمازتِ آفتاب پہ ہو
عشقِ وفا کہاں جو چاہتِ محبوب وصلِ بیتاب پہ ہو
زندگی کو تماشا نہ بناؤ تماشا خود زندگی ہو جائے
درد کا چیخِ مسکن خوشیِ القاب پہ ہو
تختِ عرش کو دوام رہتا جو ہوا میں ہے
فرشِ محل نہیں پائیدار قائم جو بنیادِ آب پہ ہو
گل گلزار سے تو مہک بہار سے ہے وابستہ
اگتا ہے صرف خار ہی بستا جو سراب پہ ہو
شاہِ زماں سے دل گرفتہ رہتے جو معظمِ ہمراز
دلگیری فقیر میں سدا رنگ تابانی مہتاب پہ ہو
Mahmood Ul Haq
عشقِ وفا کہاں جو چاہتِ محبوب وصلِ بیتاب پہ ہو
زندگی کو تماشا نہ بناؤ تماشا خود زندگی ہو جائے
درد کا چیخِ مسکن خوشیِ القاب پہ ہو
تختِ عرش کو دوام رہتا جو ہوا میں ہے
فرشِ محل نہیں پائیدار قائم جو بنیادِ آب پہ ہو
گل گلزار سے تو مہک بہار سے ہے وابستہ
اگتا ہے صرف خار ہی بستا جو سراب پہ ہو
شاہِ زماں سے دل گرفتہ رہتے جو معظمِ ہمراز
دلگیری فقیر میں سدا رنگ تابانی مہتاب پہ ہو
Mahmood Ul Haq
مُحَمَّدۖ کی نگری میں فقیر صدا دیتا پھرے مُحَمَّدۖ کی نگری میں فقیر صدا دیتا پھرے
اُٹھو مدینہ والو دیکھو امبر افشانی کرے
عبادت میں ہو حرا تو حفاظت کرے ثور
پہاڑوں سے میدانوں تک مقام ہرے بھرے
جو نازاں تھے اپنے علم و قلم کے تکبر سے
بلند کر دئیے آویزاں کوثر نے رتبے تیرےۖ
دعوت میں پیش امام شہر نبیۖ کو لاکھوں سلام
سچے عاشق رسولۖ مسلمانان پاک و ہند ہمارے
قریہ قریہ بستی بستی ہے جشن ولادت نبیۖ
مہکتے گلستانوں میں چند پتیاں پھول میرے
دعا کرو اے عاشق عبادت گزارو
رفاقت نبی سے متصل ہو مقام صفہ تمہارے
اس جہاں میں جینا تو جسم جان سے ہے
عالم ارواح میں مقام میرا نہ دور ٹھہرے
محبت مُحَمَّدۖ کی شان کیسے کروں بیان
خون جگر سے نہیں روح ایمان سے پروتا ہوں تارے
قلب ِ روشنی سے ہے میری قلم سیاہی
کاتب روح تعریف و تحسین نبیۖ ہمارے
اللہ کی شان محبوب خدا ہو میری روح جان
دیکھو آتش عشق میں کٹتے قلب کے نظارے
نور سے نور ہوا ہم کلام معراج مقام
محبوب سے ُاٹھا دئیے حجاب کے پردے سارے Mahmood Ul Haq
اُٹھو مدینہ والو دیکھو امبر افشانی کرے
عبادت میں ہو حرا تو حفاظت کرے ثور
پہاڑوں سے میدانوں تک مقام ہرے بھرے
جو نازاں تھے اپنے علم و قلم کے تکبر سے
بلند کر دئیے آویزاں کوثر نے رتبے تیرےۖ
دعوت میں پیش امام شہر نبیۖ کو لاکھوں سلام
سچے عاشق رسولۖ مسلمانان پاک و ہند ہمارے
قریہ قریہ بستی بستی ہے جشن ولادت نبیۖ
مہکتے گلستانوں میں چند پتیاں پھول میرے
دعا کرو اے عاشق عبادت گزارو
رفاقت نبی سے متصل ہو مقام صفہ تمہارے
اس جہاں میں جینا تو جسم جان سے ہے
عالم ارواح میں مقام میرا نہ دور ٹھہرے
محبت مُحَمَّدۖ کی شان کیسے کروں بیان
خون جگر سے نہیں روح ایمان سے پروتا ہوں تارے
قلب ِ روشنی سے ہے میری قلم سیاہی
کاتب روح تعریف و تحسین نبیۖ ہمارے
اللہ کی شان محبوب خدا ہو میری روح جان
دیکھو آتش عشق میں کٹتے قلب کے نظارے
نور سے نور ہوا ہم کلام معراج مقام
محبوب سے ُاٹھا دئیے حجاب کے پردے سارے Mahmood Ul Haq