Poetries by mannan bijnori
کھولتے تیل پہ ظالم نے اچھالا پانی عمر بھر آنکھ کے رستے سے نکالا پانی
کس قدر دل نے ترے رنج کا پالا پانی
جس سے مرہم کی تھی امید نمک پاشی کی
کھولتے تیل پہ ظالم نے اچھالا پانی
ہے بہت بھیڑ وضو خانے پہ اے ذوقِ نماز
مول لے آتے ہیں چل بوتلو ں والا پانی
پاؤں دھو دھو کے پیوں روز تو کم ہے اے پیاس
ماں کی نعلین سے اک بار چھوالا پانی
کم نہیں ہم بھی اگر اسنے پیا ہے منان
سیکڑوں گھاٹ کا ہم نے ہے کھنگالا پانی mannan bijnori
کس قدر دل نے ترے رنج کا پالا پانی
جس سے مرہم کی تھی امید نمک پاشی کی
کھولتے تیل پہ ظالم نے اچھالا پانی
ہے بہت بھیڑ وضو خانے پہ اے ذوقِ نماز
مول لے آتے ہیں چل بوتلو ں والا پانی
پاؤں دھو دھو کے پیوں روز تو کم ہے اے پیاس
ماں کی نعلین سے اک بار چھوالا پانی
کم نہیں ہم بھی اگر اسنے پیا ہے منان
سیکڑوں گھاٹ کا ہم نے ہے کھنگالا پانی mannan bijnori
سیکڑوں اسبابَ غم اور سب ہیں آلِ آرزو سیکڑوں اسبابِ غم اور سب ہیں آلِ آرزو
جس کے دل میں اتنے کاشانے ہوں پالے آرزو
ایسی بیچینی کہ ممکن ہی نہیں جس کا شمار
بیکلی در بیکلی اکثر مآلِ آرزو
فارغ البالی سے ہے پر نور راہِ خواہشات
پیٹ خالی ہو تو پھیکا ہے جمالِ آرزو
عمر بھر کی کوششیں ہوجایئں جس کی رائگاں
اس سے پوچھا جائے کیا ہوتا ہے حالِ آرزو
تھی کبھی دریا صفت منان موجِ اشتیاق
کشتِ حاجت لےاڑی آبِ جمالِ آرزو mannan bijnori
جس کے دل میں اتنے کاشانے ہوں پالے آرزو
ایسی بیچینی کہ ممکن ہی نہیں جس کا شمار
بیکلی در بیکلی اکثر مآلِ آرزو
فارغ البالی سے ہے پر نور راہِ خواہشات
پیٹ خالی ہو تو پھیکا ہے جمالِ آرزو
عمر بھر کی کوششیں ہوجایئں جس کی رائگاں
اس سے پوچھا جائے کیا ہوتا ہے حالِ آرزو
تھی کبھی دریا صفت منان موجِ اشتیاق
کشتِ حاجت لےاڑی آبِ جمالِ آرزو mannan bijnori
مری غزل میں ہے سب کچھ مرے زمانے کا گھٹن ملال الم شوق مئسکرانے کا
مری غزل میں ہے سب کچھ مرے زمانے کا
کس اہتمام سے اڑتے ہیں مل کے لاکھوں طیور
سلیقہ چاہئے اپنی ڈگر بنانے کا
سگار پیتے ہیں ہم نے کبھی شراب نہ پی
دھویں سے کام لیا بزمِ غم سجانےکا
ہوس سے پاک ہے شہرِ گراں میں عشقِ غریب
کہ اچھا خاصہ کرایہ ہے وصل خانے کا
حصولِ یافت کو معشوق کر لیا ہم نے
عجیب لطف ہے اس یار کو منانے کا
ہیں اقتدار کے خواہاں یہ ماہرینِ فساد
بہانہ ڈھونڈ تے رہتے ہیں ورغلانے کا
وہی ہے خصلتِ انساں وہی وتیرئہِ شر
جدید عہد نیا عکس ہے پرانے کا
دکانِ تذکئہِ قلب قفل خواہ ہوئ
سبب ہے مال نہ بکنا دکاں بڑھانے کا
وہ ساری خوبیاں منان ترک کر دی ہیں
گمان جن پہ تھا انسانیت گنوانے کا mnnan bijnori
مری غزل میں ہے سب کچھ مرے زمانے کا
کس اہتمام سے اڑتے ہیں مل کے لاکھوں طیور
سلیقہ چاہئے اپنی ڈگر بنانے کا
سگار پیتے ہیں ہم نے کبھی شراب نہ پی
دھویں سے کام لیا بزمِ غم سجانےکا
ہوس سے پاک ہے شہرِ گراں میں عشقِ غریب
کہ اچھا خاصہ کرایہ ہے وصل خانے کا
حصولِ یافت کو معشوق کر لیا ہم نے
عجیب لطف ہے اس یار کو منانے کا
ہیں اقتدار کے خواہاں یہ ماہرینِ فساد
بہانہ ڈھونڈ تے رہتے ہیں ورغلانے کا
وہی ہے خصلتِ انساں وہی وتیرئہِ شر
جدید عہد نیا عکس ہے پرانے کا
دکانِ تذکئہِ قلب قفل خواہ ہوئ
سبب ہے مال نہ بکنا دکاں بڑھانے کا
وہ ساری خوبیاں منان ترک کر دی ہیں
گمان جن پہ تھا انسانیت گنوانے کا mnnan bijnori
وہ بن سنور کے جہ نکلے تو فضا پوچھتی ہے۔مختلف بحر وہ بن سنور کے جو نکلے تو فضا پوچھتی ہے
یہ برق کس کے نشیمن کا پتا پوچھتی ہے
وہ زلف کھولدے تو رشک بھرے لہجے میں
یہ مجھ سا کون ہے ساون کی گھٹا پوچھتی ہے
وہ جس کو دیکھ لے خم کر کے نشیلی آنکھیں
شراب اس سے خجل ہو کے رضا پوچھتی ہے
وہ سادگی سے نگاہیں جو اٹھا کر دیکھے
تو حال چال مریضوں کا دوا پوچھتی ہے
وہ مسکرا کے عیادت جو دمِ مرگ کرے
تو کتنی دیر ٹھہر جاؤں قضا پوچھتی ہے
اسے پتہ ہے کہ وہ ایک ہے لاکھوں میں مگر
وہ اپنے بارے میں اوروں کا کہا پوچھتی ہے
وہ خود کو دیکھ کےآئینے میں شرماتی ہے
سہیلیوں سے مگر کیا ہے حیا پوچھتی ہے
بڑا رسیلا ہے منان تکلم اسکا
وہ درد دیکے تڑپنے کا مزہ پو چھتی ہے mannan bijnori
یہ برق کس کے نشیمن کا پتا پوچھتی ہے
وہ زلف کھولدے تو رشک بھرے لہجے میں
یہ مجھ سا کون ہے ساون کی گھٹا پوچھتی ہے
وہ جس کو دیکھ لے خم کر کے نشیلی آنکھیں
شراب اس سے خجل ہو کے رضا پوچھتی ہے
وہ سادگی سے نگاہیں جو اٹھا کر دیکھے
تو حال چال مریضوں کا دوا پوچھتی ہے
وہ مسکرا کے عیادت جو دمِ مرگ کرے
تو کتنی دیر ٹھہر جاؤں قضا پوچھتی ہے
اسے پتہ ہے کہ وہ ایک ہے لاکھوں میں مگر
وہ اپنے بارے میں اوروں کا کہا پوچھتی ہے
وہ خود کو دیکھ کےآئینے میں شرماتی ہے
سہیلیوں سے مگر کیا ہے حیا پوچھتی ہے
بڑا رسیلا ہے منان تکلم اسکا
وہ درد دیکے تڑپنے کا مزہ پو چھتی ہے mannan bijnori
رودکی کے وضع کردہ چوبیس اوزان پر چوبیس رباعیاں پاس آ کہ زرا غور سے دیکھیں گے تجھے
ہم زاوئیہ اور سےدیکھیں گے تجھے
انداز بدل دیں گے ترے سوچنے کا
اس طور نئے طور سے دیکھیں گے تجھے
پھرتا ہے بھٹک تا ہوا آوارہ خیال
جاتا ہے بڑی دور تلک برق کی چال
پھر آکے تہی دست یہ کہتا ہے مدام
لے ڈوبا مجھے آج بھی جزبوں کا زوال
ہر چہرہ پڑھا اور ٹٹولیں آنکھیں
جو بات زباں پر تھی نہ بولیں آنکھیں
ہر سینے میں کینہ ہے دلوں میں نفرت
منان یہ کس دور میں کھو لیں آنکھیں
کوشش مری بیکار گئ دسیوں بار
نصرت کے نظر آتے نہ تھے کچھ آثار
میں عام سا انسان ہوں لیکن منان
مجھکو بھی ہوئ فتح نصیب آ خر کار
تہذ یب و تمدن کا قائل ہی نہیں
بد نطق بھی ہے بد خو جاہل ہی نہیں
منھ اس کے میں کیا لگتا خاموش رہا
وہ بات سمجھنے کے قابل ہی نہیں
ہم خوب سمجھتے ہیں انکار کی چال
پڑھ لیتے ہیں چہروں کو اے زہرہ جمال
اور ایسا نہیں ہے تو اک بار یہ بات
جو منھ سے نکالی ہے آنکھوں سے نکال
آوار گیو ہم سے دوری رکھو
تھوڑی سی نہیں بلکہ پوری رکھو
ہم نکہتِ بیگانا سے نالاں ہیں
ملنا ہے ہمیں تو کستوری رکھو
خونخوار درندے تو بن کا بن سیکھ
رہنا ہے جو آگے تو شہری فن سیکھ
رکھ اپنا بھرم کیوں ہے پیچھے نادان
اس دور کے انساں سے جنگلی پن سیکھ
الفاظ کی روشنی خیالات کا نور
کرتے ہیں عطا کلام کو شکلِ ظہور
جذ بوں کی صنم گری فصاحت کا جمال
معراجِ سخن وراں کمالاتِ شعور
لہجے پہ سخن شناس قربان گئے
پختہ ہے ترا کلام سب مان گئے
جس دن سے رباعیاں تری ہمنے پڑھیں
منان خدا قسم تجھے مان گئے
بے فیض تعلیات سے ناطہ توڑ
رخ اپنے تخیلات کا کچھ تو موڑ
قاری ہوں قدیم کب تلک تجھے جھیلوں بول
شاعر، نئے قارئین سے رشطہ جوڑ
اک جھوٹ چلا تھا جھوٹ سب چپ چپ تھے
آپس میں پڑی تھی پھوٹ سب چپ چپ تھے
پاداش میں ان خموشیوں کی آخر
اک لوٹ مچی تھی لوٹ سب چپ چپ تھے mannan bijnori
ہم زاوئیہ اور سےدیکھیں گے تجھے
انداز بدل دیں گے ترے سوچنے کا
اس طور نئے طور سے دیکھیں گے تجھے
پھرتا ہے بھٹک تا ہوا آوارہ خیال
جاتا ہے بڑی دور تلک برق کی چال
پھر آکے تہی دست یہ کہتا ہے مدام
لے ڈوبا مجھے آج بھی جزبوں کا زوال
ہر چہرہ پڑھا اور ٹٹولیں آنکھیں
جو بات زباں پر تھی نہ بولیں آنکھیں
ہر سینے میں کینہ ہے دلوں میں نفرت
منان یہ کس دور میں کھو لیں آنکھیں
کوشش مری بیکار گئ دسیوں بار
نصرت کے نظر آتے نہ تھے کچھ آثار
میں عام سا انسان ہوں لیکن منان
مجھکو بھی ہوئ فتح نصیب آ خر کار
تہذ یب و تمدن کا قائل ہی نہیں
بد نطق بھی ہے بد خو جاہل ہی نہیں
منھ اس کے میں کیا لگتا خاموش رہا
وہ بات سمجھنے کے قابل ہی نہیں
ہم خوب سمجھتے ہیں انکار کی چال
پڑھ لیتے ہیں چہروں کو اے زہرہ جمال
اور ایسا نہیں ہے تو اک بار یہ بات
جو منھ سے نکالی ہے آنکھوں سے نکال
آوار گیو ہم سے دوری رکھو
تھوڑی سی نہیں بلکہ پوری رکھو
ہم نکہتِ بیگانا سے نالاں ہیں
ملنا ہے ہمیں تو کستوری رکھو
خونخوار درندے تو بن کا بن سیکھ
رہنا ہے جو آگے تو شہری فن سیکھ
رکھ اپنا بھرم کیوں ہے پیچھے نادان
اس دور کے انساں سے جنگلی پن سیکھ
الفاظ کی روشنی خیالات کا نور
کرتے ہیں عطا کلام کو شکلِ ظہور
جذ بوں کی صنم گری فصاحت کا جمال
معراجِ سخن وراں کمالاتِ شعور
لہجے پہ سخن شناس قربان گئے
پختہ ہے ترا کلام سب مان گئے
جس دن سے رباعیاں تری ہمنے پڑھیں
منان خدا قسم تجھے مان گئے
بے فیض تعلیات سے ناطہ توڑ
رخ اپنے تخیلات کا کچھ تو موڑ
قاری ہوں قدیم کب تلک تجھے جھیلوں بول
شاعر، نئے قارئین سے رشطہ جوڑ
اک جھوٹ چلا تھا جھوٹ سب چپ چپ تھے
آپس میں پڑی تھی پھوٹ سب چپ چپ تھے
پاداش میں ان خموشیوں کی آخر
اک لوٹ مچی تھی لوٹ سب چپ چپ تھے mannan bijnori
اک بار میں دو مرتبہ اسنے ہمیں جھوٹا کہا تعریف کی تو برملا اسنے ہمیں جھوٹا کہا
لیکن ہمیں اچھا لگا اسنے ہمیں جھوٹا کہا
کیا کیا کہا کیا کیا سنا کیا پوچھتے ہو ماجرا
یہ دل خوشی سے جھوم اٹھا اسنے ہمیں جھوٹا کہا
وہ جو ہمارے صدق کا دیتا تھا ہم کو واسطہ
یہ بات کوئ کم ہے کیا اسنے ہمیں جھوٹا کہا
آنکھیں غزل زلفیں گھٹا چہرہ لگے ہے چاند سا
یہ سن کے سچ مچ باخدا اسنے ہمیں جھوٹا کہا
جھوٹے کا مطلب اور کیا ہوتا ہے دیکھو تو زرا
اک بار میں دو مرتبہ اسنے ہمیں جھوٹا کہا
سن کر قصیدہ حسن کا منان وہ کھل کر ہنسا
پھر اٹھ کے جب جانے لگا اسنے ہمیں جھوٹا کہا mannan bijnori
لیکن ہمیں اچھا لگا اسنے ہمیں جھوٹا کہا
کیا کیا کہا کیا کیا سنا کیا پوچھتے ہو ماجرا
یہ دل خوشی سے جھوم اٹھا اسنے ہمیں جھوٹا کہا
وہ جو ہمارے صدق کا دیتا تھا ہم کو واسطہ
یہ بات کوئ کم ہے کیا اسنے ہمیں جھوٹا کہا
آنکھیں غزل زلفیں گھٹا چہرہ لگے ہے چاند سا
یہ سن کے سچ مچ باخدا اسنے ہمیں جھوٹا کہا
جھوٹے کا مطلب اور کیا ہوتا ہے دیکھو تو زرا
اک بار میں دو مرتبہ اسنے ہمیں جھوٹا کہا
سن کر قصیدہ حسن کا منان وہ کھل کر ہنسا
پھر اٹھ کے جب جانے لگا اسنے ہمیں جھوٹا کہا mannan bijnori
مرا عشق عشق مزاج تھا جو تڑپ سی تھی تر واسطے مرے دل سے کب کی ہوا ہوئی
مرا عشق عشق مزاج تھا ترے بیو فائی سے مر گیا
تو اکیلا ہی تو نہ تھا حسیں مرے آس پاس تھے اور بھی
کوئ منتظر تھا مرا بھی جو مرے دل میں فورن اتر گیا
یہ کہاں کی تک ہے تو ہی بتا کہ ترے فراق میں روتا میں
تو کسی کے پہلو میں سو رہے تجھے یاد کر کے نہ سوتا میں
تجھے مجھ سے اب ہے گلہ تو کیوں تو تری ڈگر میں مری ڈگر
مری کیا خطا ترے ساتھ اگر وہ ہوا جو تونے کیا تھا خود
جو کیا ہے اس کی سزا بھگت یہی زندگی کا نظام ہے
مری راہ پھر سے نہ روکنا ترا قرب مجھ پہ حرام ہے mannan bijnori
مرا عشق عشق مزاج تھا ترے بیو فائی سے مر گیا
تو اکیلا ہی تو نہ تھا حسیں مرے آس پاس تھے اور بھی
کوئ منتظر تھا مرا بھی جو مرے دل میں فورن اتر گیا
یہ کہاں کی تک ہے تو ہی بتا کہ ترے فراق میں روتا میں
تو کسی کے پہلو میں سو رہے تجھے یاد کر کے نہ سوتا میں
تجھے مجھ سے اب ہے گلہ تو کیوں تو تری ڈگر میں مری ڈگر
مری کیا خطا ترے ساتھ اگر وہ ہوا جو تونے کیا تھا خود
جو کیا ہے اس کی سزا بھگت یہی زندگی کا نظام ہے
مری راہ پھر سے نہ روکنا ترا قرب مجھ پہ حرام ہے mannan bijnori
کہا کہ اوں ہنھ برائے وعدہ بنامِ الفت جھلک دکھا کر کہا کہ اوں ہنھ
بدل ہی دی نا میں ہاں فریبی نے چھت پہ آکر کہا کہ اوں ہنھ
وہ بھیگی شب وہ سہانا موسم
وہ گیلے کپڑے وہ جسم اسکا
کڑکتی بجلی کی روشنی میں
بیانِ واعظ کی حور جیسا
کشش تھی ایسی کہ دل مچل کر
ہوا اسی وقت اس کا شیدا
جو پیش کی اس کو اپنی چھتری
تو کپکپا کر کہا کہ اوں ہنھ
برائے وعدہ بنامِ الفت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدل ہی دی نا میں ہاں فریبی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے قدموں کی سن کے آہٹ
وہ اسکا گھر سے نکل کے آنا
پکار کر یوں ہی نام کوئی
وہ بر ہمی سے چھڑی اٹھا نا
ہمارے اس سمت دیکھنے پر
وہ ہولے ہولے سے مسکرانا
نشانہ ہم تو نہیں جو پوچھا
تو مسکرا کر کہا کہ اوں ہنھ
برائے الفت بنامِ وعدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدل ہی دی نا میں ہاں فریبی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حلف اٹھا کر یہ بولے اک دن
ہم اپنا وعدہ وفا کرینگے
ادھر کی د نیا ادھر ہو لیکن
یہ دل تو بس ہم تم ہی کو دینگے
پھر اگلے دن ہی یہ آکے بولے
کہ ہم ہیں بے بس نہ مل سکینگے
سبب نہ بتلا یا بے بسی کا
گھما پھرا کر کہا کہ اوں ہنھ
برائے وعدہ بنامِ الفت جھلک دکھا کر کہا کہ اوں ہنھ
بدل ہی دی نا میں ہاں فریبی نے چھت پہ آ کر کہا کہ او ہنھ mannan bijnori
بدل ہی دی نا میں ہاں فریبی نے چھت پہ آکر کہا کہ اوں ہنھ
وہ بھیگی شب وہ سہانا موسم
وہ گیلے کپڑے وہ جسم اسکا
کڑکتی بجلی کی روشنی میں
بیانِ واعظ کی حور جیسا
کشش تھی ایسی کہ دل مچل کر
ہوا اسی وقت اس کا شیدا
جو پیش کی اس کو اپنی چھتری
تو کپکپا کر کہا کہ اوں ہنھ
برائے وعدہ بنامِ الفت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدل ہی دی نا میں ہاں فریبی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے قدموں کی سن کے آہٹ
وہ اسکا گھر سے نکل کے آنا
پکار کر یوں ہی نام کوئی
وہ بر ہمی سے چھڑی اٹھا نا
ہمارے اس سمت دیکھنے پر
وہ ہولے ہولے سے مسکرانا
نشانہ ہم تو نہیں جو پوچھا
تو مسکرا کر کہا کہ اوں ہنھ
برائے الفت بنامِ وعدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدل ہی دی نا میں ہاں فریبی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حلف اٹھا کر یہ بولے اک دن
ہم اپنا وعدہ وفا کرینگے
ادھر کی د نیا ادھر ہو لیکن
یہ دل تو بس ہم تم ہی کو دینگے
پھر اگلے دن ہی یہ آکے بولے
کہ ہم ہیں بے بس نہ مل سکینگے
سبب نہ بتلا یا بے بسی کا
گھما پھرا کر کہا کہ اوں ہنھ
برائے وعدہ بنامِ الفت جھلک دکھا کر کہا کہ اوں ہنھ
بدل ہی دی نا میں ہاں فریبی نے چھت پہ آ کر کہا کہ او ہنھ mannan bijnori
وہ جو پہلا شعر میں نے تمہیں دیکھ کر کہا تھا جو سکوں بچھڑ گیا تھا وہ ملا کہ لاپتہ ہے
وہ جو ٹیس اک ملی تھی کہو اس کا حال کیا ہے
وہ جو گھر تھا اک تمہارا مرے گھر سے تھوڑا آگے
وہاں رہتے کیوں نہیں ہو وہاں تالا کیوں لگا ہے
وہ جو پہلا شعر میں نے تمہیں دیکھ کر کہا تھا
وہ تمہارے ہی لئے تھا سو کہیں نہیں پڑھا ہے
وہ جو مختصر سند یسہ مرے نام تھا تمہارا
اسے سیو کر لیا تھا اسے بار ہا پڑھا ہے
وہ جو حرف تم نے کاڑھا تھا رومال پر ٹسر سے
کوئی دھاگا ٹوٹنے سے اب ادھڑ تا جا ر ہا ہے
وہ جو گٹھلیاں د با ئیں تھیں سڑک کنارے ہم نے
وہاں جامنوں کے پیڑوں پہ سما بہار کا ہے
وہ جو چائے بیچتا تھا سرِ راہ کلہڑوں میں
میں نے اس سے چائے مانگی تو وہ دو تھما گیا ہے
وہ جو بیچتا تھا جاڑوں میں کراری مونگ پھلیاں
مجھے تنہا آتے جاتے بڑے دکھ سے دیکھتا ہے
وہ جو پا بریدہ سائل ہمیں دیتا تھا دعائیں
مجھے دیکھتے ہی بچھڑوں کا اتارا مانگتا ہے
وہ جو سلسلہ چھتوں کا بڑی دور تک تھا یکساں
اسے کچھ عمارتوں نے کئی لخت کر دیا ہے
وہ جو امتحان کے کمرے میں قلم دیا تھا تم نے
مری شرحِ ہجر لکھنے کو اتاولا ہوا ہے
وہ جو دل گداز باتیں تری ٹیپ کی تھیں میں نے
انھیں سن کے آج دل پر مرے کچھ ملال سا ہے
وہ جو اک خمار سا تھا مجھے تیری چاہتوں کا
تری بے دلی سے منان اب اترتا جا رہا ہے mannan bijnori
وہ جو ٹیس اک ملی تھی کہو اس کا حال کیا ہے
وہ جو گھر تھا اک تمہارا مرے گھر سے تھوڑا آگے
وہاں رہتے کیوں نہیں ہو وہاں تالا کیوں لگا ہے
وہ جو پہلا شعر میں نے تمہیں دیکھ کر کہا تھا
وہ تمہارے ہی لئے تھا سو کہیں نہیں پڑھا ہے
وہ جو مختصر سند یسہ مرے نام تھا تمہارا
اسے سیو کر لیا تھا اسے بار ہا پڑھا ہے
وہ جو حرف تم نے کاڑھا تھا رومال پر ٹسر سے
کوئی دھاگا ٹوٹنے سے اب ادھڑ تا جا ر ہا ہے
وہ جو گٹھلیاں د با ئیں تھیں سڑک کنارے ہم نے
وہاں جامنوں کے پیڑوں پہ سما بہار کا ہے
وہ جو چائے بیچتا تھا سرِ راہ کلہڑوں میں
میں نے اس سے چائے مانگی تو وہ دو تھما گیا ہے
وہ جو بیچتا تھا جاڑوں میں کراری مونگ پھلیاں
مجھے تنہا آتے جاتے بڑے دکھ سے دیکھتا ہے
وہ جو پا بریدہ سائل ہمیں دیتا تھا دعائیں
مجھے دیکھتے ہی بچھڑوں کا اتارا مانگتا ہے
وہ جو سلسلہ چھتوں کا بڑی دور تک تھا یکساں
اسے کچھ عمارتوں نے کئی لخت کر دیا ہے
وہ جو امتحان کے کمرے میں قلم دیا تھا تم نے
مری شرحِ ہجر لکھنے کو اتاولا ہوا ہے
وہ جو دل گداز باتیں تری ٹیپ کی تھیں میں نے
انھیں سن کے آج دل پر مرے کچھ ملال سا ہے
وہ جو اک خمار سا تھا مجھے تیری چاہتوں کا
تری بے دلی سے منان اب اترتا جا رہا ہے mannan bijnori