Add Poetry

Poetries by mannan bijnori

رودکی کے وضع کردہ چوبیس اوزان پر چوبیس رباعیاں پاس آ کہ زرا غور سے دیکھیں گے تجھے
ہم زاوئیہ اور سےدیکھیں گے تجھے
انداز بدل دیں گے ترے سوچنے کا
اس طور نئے طور سے دیکھیں گے تجھے
پھرتا ہے بھٹک تا ہوا آوارہ خیال
جاتا ہے بڑی دور تلک برق کی چال
پھر آکے تہی دست یہ کہتا ہے مدام
لے ڈوبا مجھے آج بھی جزبوں کا زوال
ہر چہرہ پڑھا اور ٹٹولیں آنکھیں
جو بات زباں پر تھی نہ بولیں آنکھیں
ہر سینے میں کینہ ہے دلوں میں نفرت
منان یہ کس دور میں کھو لیں آنکھیں
کوشش مری بیکار گئ دسیوں بار
نصرت کے نظر آتے نہ تھے کچھ آثار
میں عام سا انسان ہوں لیکن منان
مجھکو بھی ہوئ فتح نصیب آ خر کار
تہذ یب و تمدن کا قائل ہی نہیں
بد نطق بھی ہے بد خو جاہل ہی نہیں
منھ اس کے میں کیا لگتا خاموش رہا
وہ بات سمجھنے کے قابل ہی نہیں
ہم خوب سمجھتے ہیں انکار کی چال
پڑھ لیتے ہیں چہروں کو اے زہرہ جمال
اور ایسا نہیں ہے تو اک بار یہ بات
جو منھ سے نکالی ہے آنکھوں سے نکال
آوار گیو ہم سے دوری رکھو
تھوڑی سی نہیں بلکہ پوری رکھو
ہم نکہتِ بیگانا سے نالاں ہیں
ملنا ہے ہمیں تو کستوری رکھو
خونخوار درندے تو بن کا بن سیکھ
رہنا ہے جو آگے تو شہری فن سیکھ
رکھ اپنا بھرم کیوں ہے پیچھے نادان
اس دور کے انساں سے جنگلی پن سیکھ
الفاظ کی روشنی خیالات کا نور
کرتے ہیں عطا کلام کو شکلِ ظہور
جذ بوں کی صنم گری فصاحت کا جمال
معراجِ سخن وراں کمالاتِ شعور
لہجے پہ سخن شناس قربان گئے
پختہ ہے ترا کلام سب مان گئے
جس دن سے رباعیاں تری ہمنے پڑھیں
منان خدا قسم تجھے مان گئے
بے فیض تعلیات سے ناطہ توڑ
رخ اپنے تخیلات کا کچھ تو موڑ
قاری ہوں قدیم کب تلک تجھے جھیلوں بول
شاعر، نئے قارئین سے رشطہ جوڑ
اک جھوٹ چلا تھا جھوٹ سب چپ چپ تھے
آپس میں پڑی تھی پھوٹ سب چپ چپ تھے
پاداش میں ان خموشیوں کی آخر
اک لوٹ مچی تھی لوٹ سب چپ چپ تھے
mannan bijnori
کہا کہ اوں ہنھ برائے وعدہ بنامِ الفت جھلک دکھا کر کہا کہ اوں ہنھ
بدل ہی دی نا میں ہاں فریبی نے چھت پہ آکر کہا کہ اوں ہنھ
وہ بھیگی شب وہ سہانا موسم
وہ گیلے کپڑے وہ جسم اسکا
کڑکتی بجلی کی روشنی میں
بیانِ واعظ کی حور جیسا
کشش تھی ایسی کہ دل مچل کر
ہوا اسی وقت اس کا شیدا
جو پیش کی اس کو اپنی چھتری
تو کپکپا کر کہا کہ اوں ہنھ
برائے وعدہ بنامِ الفت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدل ہی دی نا میں ہاں فریبی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے قدموں کی سن کے آہٹ
وہ اسکا گھر سے نکل کے آنا
پکار کر یوں ہی نام کوئی
وہ بر ہمی سے چھڑی اٹھا نا
ہمارے اس سمت دیکھنے پر
وہ ہولے ہولے سے مسکرانا
نشانہ ہم تو نہیں جو پوچھا
تو مسکرا کر کہا کہ اوں ہنھ
برائے الفت بنامِ وعدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدل ہی دی نا میں ہاں فریبی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حلف اٹھا کر یہ بولے اک دن
ہم اپنا وعدہ وفا کرینگے
ادھر کی د نیا ادھر ہو لیکن
یہ دل تو بس ہم تم ہی کو دینگے
پھر اگلے دن ہی یہ آکے بولے
کہ ہم ہیں بے بس نہ مل سکینگے
سبب نہ بتلا یا بے بسی کا
گھما پھرا کر کہا کہ اوں ہنھ
برائے وعدہ بنامِ الفت جھلک دکھا کر کہا کہ اوں ہنھ
بدل ہی دی نا میں ہاں فریبی نے چھت پہ آ کر کہا کہ او ہنھ
mannan bijnori
وہ جو پہلا شعر میں نے تمہیں دیکھ کر کہا تھا جو سکوں بچھڑ گیا تھا وہ ملا کہ لاپتہ ہے
وہ جو ٹیس اک ملی تھی کہو اس کا حال کیا ہے
وہ جو گھر تھا اک تمہارا مرے گھر سے تھوڑا آگے
وہاں رہتے کیوں نہیں ہو وہاں تالا کیوں لگا ہے
وہ جو پہلا شعر میں نے تمہیں دیکھ کر کہا تھا
وہ تمہارے ہی لئے تھا سو کہیں نہیں پڑھا ہے
وہ جو مختصر سند یسہ مرے نام تھا تمہارا
اسے سیو کر لیا تھا اسے بار ہا پڑھا ہے
وہ جو حرف تم نے کاڑھا تھا رومال پر ٹسر سے
کوئی دھاگا ٹوٹنے سے اب ادھڑ تا جا ر ہا ہے
وہ جو گٹھلیاں د با ئیں تھیں سڑک کنارے ہم نے
وہاں جامنوں کے پیڑوں پہ سما بہار کا ہے
وہ جو چائے بیچتا تھا سرِ راہ کلہڑوں میں
میں نے اس سے چائے مانگی تو وہ دو تھما گیا ہے
وہ جو بیچتا تھا جاڑوں میں کراری مونگ پھلیاں
مجھے تنہا آتے جاتے بڑے دکھ سے دیکھتا ہے
وہ جو پا بریدہ سائل ہمیں دیتا تھا دعائیں
مجھے دیکھتے ہی بچھڑوں کا اتارا مانگتا ہے
وہ جو سلسلہ چھتوں کا بڑی دور تک تھا یکساں
اسے کچھ عمارتوں نے کئی لخت کر دیا ہے
وہ جو امتحان کے کمرے میں قلم دیا تھا تم نے
مری شرحِ ہجر لکھنے کو اتاولا ہوا ہے
وہ جو دل گداز باتیں تری ٹیپ کی تھیں میں نے
انھیں سن کے آج دل پر مرے کچھ ملال سا ہے
وہ جو اک خمار سا تھا مجھے تیری چاہتوں کا
تری بے دلی سے منان اب اترتا جا رہا ہے
mannan bijnori
Famous Poets
View More Poets