Mir Taqi Mir Poetry, Shayari & Ghazal
Mir Taqi Mir is one of the famous Urdu poet in Pakistan and all over the World. Mir Taqi Mir poetry express the feeling of common man, his poetry (shayari) is very easy to understand as he wrote several book based on ghazal and nazm. Now a day Meer Taqi Meer is very popular in socail media in best sad poetry & ghazal. Download or easily share Mir Taqi Mir best poetry in Urdu 2 lines, Hindi and English on whatsapp status, facebook and instagram with your loved ones.
- LATEST POETRY
- اردو
Ab Do Tu Jaam Khali Hi Do, Main Nashe Mein Hun
Aik Aik Qart-e Dor Main Yunhi Hi Muje Bi Do
Jam-e Sharab Par Na Karo, Main Nashe Mein Hun
Masti Se Barhami Hai Meri, Guftagu Ke Bech
Jo Chaho Tum Bi Muj Ko Kahu, Main Nashe Mein Hun
Ya Hathon Hath Lo Muje, Manind Jaam-e May
Ya Thori Door Sath Chalo, Main Nashe Mein Hun
Ma’azoor Hun, Jo Paon Mere Be Tarah Pare
Tu Sargaran Tu Muj Se Na Ho, Main Nashe Mein Hun
Nazak Mazaj Aap Qayamat Hain Mir Ji
Joon Shesha Mere Munh Na Lago, Main Nashe Mein Hun Waqar Ali
Jaan Ka Rog Hai Bala Hai Ishq
Ishq Hi Ishq Hai Jahaan Dekho
Saare Aalam Mein Bhar Raha Hai Ishq
Ishq Maashuq Ishq Aashiq Hai
Yaani Apna Hi Mubtala Hai Ishq
Ishq Hai Tarz-O-Taur Ishq Ke Taeen
Kahin Banda Kahin Khuda Hai Ishq
Kaun Maqsad Ko Ishq Bin Pohuncha
Aarzoo Ishq Wa Mudda Hai Ishq
Koi Khwaahan Nahin Mahabbat Ka
Tu Kahe Jins-E-Narawa Hai Ishq
Mir Ji Zarad Hote Jaate Hain
Kya Kahin Tum Ne Bhi Kiya Hai Ishq
Kashif
Aage Aage Dekhiye Hota Hai Kya.
Qafile Mein Subah Ke Ek Shor Hai,
Yaani Ghaafil Ham Chale Sota Hai Kya.
Sabz Hoti Hi Nahin Yeh Sar Zamin,
Tukhm-E-Khwahish Dil Mein Tu Bota Hai Kya.
Yeh Nishaan-E-Ishq Hain Jaate Nahin,
Daagh Chhaati Ke Abas Dhota Hai Kya.
Ghairat-E-Yousaf Hai Yeh Waqt-E-Aziz,
Mir Isko Raigaan Khota Hai Kya.A
Ahmed Arif
Miyaan Khush Raho Ham Dua Kar Chale
Jo Tujh Bin Na Jeene Ko Kahte The Ham
So Is Ahd Ko Ab Wafa Kar Chale
Koi Naumidana Karte Nigah
So Tum Ham Se Munh Bhi Chhipa Kar Chale
Bahut Aarzoo Thi Gali Ki Teri
So Yaan Se Lahu Mein Naha Kar Chale
Dikhai Diye Yun Ke Bekhud Kiya
Hamen Aap Se Bhi Juda Kar Chale
Jabin Sijda Karte Hi Karte Gayi
Haq-E-Bandgi Ham Ada Kar Chale
Prastash Ki Yaan Taeen Ke Ai But Tujhe
Nazr Mein Sabhon Ki Khuda Kar Chale
Gayi Umr Dar Band-E-Fikr-E-Ghazal
So Is Fan Ko Aisa Bara Kar Chale
Kahen Kya Jo Puchhe Koi Ham Se Mir
Jahaan Mein Tum Ae The Kya Kar Chale
Rashid Lateef
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے
رنگ ہوا سے یوں ٹپکے ہے جیسے شراب چواتے ہیں
آگے ہو مے خانے کے نکلو عہد بادہ گساراں ہے
عشق کے میداں داروں میں بھی مرنے کا ہے وصف بہت
یعنی مصیبت ایسی اٹھانا کار کار گزاراں ہے
دل ہے داغ جگر ہے ٹکڑے آنسو سارے خون ہوئے
لوہو پانی ایک کرے یہ عشق لالہ عذاراں ہے
کوہ کن و مجنوں کی خاطر دشت و کوہ میں ہم نہ گئے
عشق میں ہم کو میرؔ نہایت پاس عزت داراں ہے یاسر
اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں
کیا تیر ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے
جس زخم کو چیروں ہوں پیکان نکلتے ہیں
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
کس کا ہے قماش ایسا گودڑ بھرے ہیں سارے
دیکھو نہ جو لوگوں کے دیوان نکلتے ہیں
گہ لوہو ٹپکتا ہے گہ لخت دل آنکھوں سے
یا ٹکڑے جگر ہی کے ہر آن نکلتے ہیں
کریے تو گلہ کس سے جیسی تھی ہمیں خواہش
اب ویسے ہی یہ اپنے ارمان نکلتے ہیں
جاگہ سے بھی جاتے ہو منہ سے بھی خشن ہو کر
وے حرف نہیں ہیں جو شایان نکلتے ہیں
سو کاہے کو اپنی تو جوگی کی سی پھیری ہے
برسوں میں کبھو ایدھر ہم آن نکلتے ہیں
ان آئینہ رویوں کے کیا میرؔ بھی عاشق ہیں
جب گھر سے نکلتے ہیں حیران نکلتے ہیں عاقب
پیشانی پر ہے قشقہ زنار ہے کمر میں
نازک بدن ہے کتنا وہ شوخ چشم دلبر
جان اس کے تن کے آگے آتی نہیں نظر میں
سینے میں تیر اس کے ٹوٹے ہیں بے نہایت
سوراخ پڑ گئے ہیں سارے مرے جگر میں
آئندہ شام کو ہم رویا کڑھا کریں گے
مطلق اثر نہ دیکھا نالیدن سحر میں
بے سدھ پڑا رہوں ہوں اس مست ناز بن میں
آتا ہے ہوش مجھ کو اب تو پہر پہر میں
سیرت سے گفتگو ہے کیا معتبر ہے صورت
ہے ایک سوکھی لکڑی جو بو نہ ہو اگر میں
ہمسایۂ مغاں میں مدت سے ہوں چنانچہ
اک شیرہ خانے کی ہے دیوار میرے گھر میں
اب صبح و شام شاید گریے پہ رنگ آوے
رہتا ہے کچھ جھمکتا خوناب چشم تر میں
عالم میں آب و گل کے کیونکر نباہ ہوگا
اسباب گر پڑا ہے سارا مرا سفر میں سمیع
شمع روشن کے منہ پہ نور نہیں
کتنی باتیں بنا کے لاؤں ایک
یاد رہتی ترے حضور نہیں
خوب پہچانتا ہوں تیرے تئیں
اتنا بھی تو میں بے شعور نہیں
قتل ہی کر کہ اس میں راحت ہے
لازم اس کام میں مرور نہیں
فکر مت کر ہمارے جینے کا
تیرے نزدیک کچھ یہ دور نہیں
پھر جئیں گے جو تجھ سا ہے جاں بخش
ایسا جینا ہمیں ضرور نہیں
عام ہے یار کی تجلی میرؔ
خاص موسیٰ و کوہ طور نہیں Rabi
پر تمامی عتاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا روئیے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں
ہے تکلف نقاب وے رخسار
کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں
تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے دو سو خراب ہیں دونوں
کچھ نہ پوچھو کہ آتش غم سے
جگر و دل کباب ہیں دونوں
سو جگہ اس کی آنکھیں پڑتی ہیں
جیسے مست شراب ہیں دونوں
پاؤں میں وہ نشہ طلب کا نہیں
اب تو سرمست خواب ہیں دونوں
ایک سب آگ ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
بحث کاہے کو لعل و مرجاں سے
اس کے لب ہی جواب ہیں دونوں
آگے دریا تھے دیدۂ تر میرؔ
اب جو دیکھو سراب ہیں دونوں Adnan
کیا پوچھتے ہو الحمدللہ
مر جاؤ کوئی پروا نہیں ہے
کتنا ہے مغرور اللہ اللہ
پیر مغاں سے بے اعتقادی
استغفر اللہ استغفر اللہ
کہتے ہیں اس کے تو منہ لگے گا
ہو یوں ہی یا رب جوں ہے یہ افواہ
حضرت سے اس کی جانا کہاں ہے
اب مر رہے گا یاں بندہ درگاہ
سب عقل کھوئے ہے راہ محبت
ہو خضر دل میں کیسا ہی گمراہ
مجرم ہوئے ہم دل دے کے ورنہ
کس کو کسو سے ہوتی نہیں چاہ
کیا کیا نہ ریجھیں تم نے پچائیں
اچھا رجھایا اے مہرباں آہ
گزرے ہے دیکھیں کیوں کر ہماری
اس بے وفا سے نے رسم نے راہ
تھی خواہش دل رکھنا حمائل
گردن میں اس کی ہر گاہ و بیگاہ
اس پر کہ تھا وہ شہ رگ سے اقرب
ہرگز نہ پہنچا یہ دست کوتاہ
ہے ماسوا کیا جو میرؔ کہیے
آگاہ سارے اس سے ہیں آگاہ
جلوے ہیں اس کے شانیں ہیں اس کی
کیا روز کیا خور کیا رات کیا ماہ
ظاہر کہ باطن اول کہ آخر
اللہ اللہ اللہ اللہ Rabi
قافلہ جاتا رہا میں صبح ہوتے سو گیا
بے کسی مدت تلک برسا کی اپنی گور پر
جو ہماری خاک پر سے ہو کے گزرا رو گیا
کچھ خطرناکی طریق عشق میں پنہاں نہیں
کھپ گیا وہ راہرو اس راہ ہو کر جو گیا
مدعا جو ہے سو وہ پایا نہیں جاتا کہیں
ایک عالم جستجو میں جی کو اپنے کھو گیا
میرؔ ہر یک موج میں ہے زلف ہی کا سا دماغ
جب سے وہ دریا پہ آ کر بال اپنے دھو گیا Asher
یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گزر جائے
ہے طرفہ مفتن نگہ اس آئنہ رو کی
اک پل میں کرے سینکڑوں خوں اور مکر جائے
نے بت کدہ ہے منزل مقصود نہ کعبہ
جو کوئی تلاشی ہو ترا آہ کدھر جائے
ہر صبح تو خورشید ترے منہ پہ چڑھے ہے
ایسا نہ ہو یہ سادہ کہیں جی سے اتر جائے
یاقوت کوئی ان کو کہے ہے کوئی گلبرگ
ٹک ہونٹ ہلا تو بھی کہ اک بات ٹھہر جائے
ہم تازہ شہیدوں کو نہ آ دیکھنے نازاں
دامن کی تری زہ کہیں لوہو میں نہ بھر جائے
گریے کو مرے دیکھ ٹک اک شہر کے باہر
اک سطح ہے پانی کا جہاں تک کہ نظر جائے
مت بیٹھ بہت عشق کے آزردہ دلوں میں
نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کر جائے
اس ورطے سے تختہ جو کوئی پہنچے کنارے
تو میرؔ وطن میرے بھی شاید یہ خبر جائے Sahir
اس دل جلے کے تاب کے لانے کو عشق ہے
سر مار مار سنگ سے مردانہ جی دیا
فرہاد کے جہان سے جانے کو عشق ہے
اٹھیو سمجھ کے جا سے کہ مانند گرد باد
آوارگی سے تیری زمانے کو عشق ہے
بس اے سپہر سعی سے تیری تو روز و شب
یاں غم ستانے کو ہے جلانے کو عشق ہے
بیٹھی جو تیغ یار تو سب تجھ کو کھا گئی
اے سینے تیرے زخم اٹھانے کو عشق ہے
اک دم میں تو نے پھونک دیا دو جہاں کے تیں
اے عشق تیرے آگ لگانے کو عشق ہے
سودا ہو تب ہو میرؔ کو تو کریے کچھ علاج
اس تیرے دیکھنے کے دوانے کو عشق ہے Shaman
ہم نے بھی طبع آزمائی کی
اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی
وصل کے دن کی آرزو ہی رہی
شب نہ آخر ہوئی جدائی کی
اسی تقریب اس گلی میں رہے
منتیں ہیں شکستہ پائی کی
دل میں اس شوخ کے نہ کی تاثیر
آہ نے آہ نارسائی کی
کاسۂ چشم لے کے جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی
زور و زر کچھ نہ تھا تو بار میرؔ
کس بھروسے پر آشنائی کی Shaman
واں یہ عاجز مدام ہوتا ہے
ہم تو اک حرف کے نہیں ممنون
کیسا خط و پیام ہوتا ہے
تیغ ناکاموں پہ نہ ہر دم کھینچ
اک کرشمے میں کام ہوتا ہے
پوچھ مت آہ عاشقوں کی معاش
روز ان کا بھی شام ہوتا ہے
زخم بن غم بن اور غصہ بن
اپنا کھانا حرام ہوتا ہے
شیخ کی سی ہی شکل ہے شیطان
جس پہ شب احتلام ہوتا ہے
قتل کو میں کہا تو اٹھ بولا
آج کل صبح و شام ہوتا ہے
آخر آؤں گا نعش پر اب آہ
کہ یہ عاشق تمام ہوتا ہے
میرؔ صاحب بھی اس کے ہاں تھے پر
جیسے کوئی غلام ہوتا ہے Hassan
ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ
جی سدا ان ابروؤں ہی میں رہا
کی بسر ہم عمر تلواروں کے بیچ
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
ہیں عناصر کی یہ صورت بازیاں
شعبدے کیا کیا ہیں ان چاروں کے بیچ
جب سے لے نکلا ہے تو یہ جنس حسن
پڑ گئی ہے دھوم بازاروں کے بیچ
عاشقی و بے کسی و رفتگی
جی رہا کب ایسے آزاروں کے بیچ
جو سرشک اس ماہ بن جھمکے ہے شب
وہ چمک کاہے کو ہے تاروں کے بیچ
اس کے آتش ناک رخساروں بغیر
لوٹیے یوں کب تک انگاروں کے بیچ
بیٹھنا غیروں میں کب ہے ننگ یار
پھول گل ہوتے ہی ہیں خاروں کے بیچ
یارو مت اس کا فریب مہر کھاؤ
میرؔ بھی تھے اس کے ہی یاروں کے بیچ Anila
جیتا ہوں تو تجھی میں یہ دل لگا رہے گا
یاں ہجر اور ہم میں بگڑی ہے کب کی صحبت
زخم دل و نمک میں کب تک مزہ رہے گا
تو برسوں میں ملے ہے یاں فکر یہ رہے ہے
جی جائے گا ہمارا اک دم کو یا رہے گا
میرے نہ ہونے کا تو ہے اضطراب یوں ہی
آیا ہے جی لبوں پر اب کیا ہے جا رہے گا
غافل نہ رہیو ہرگز نادان داغ دل سے
بھڑکے گا جب یہ شعلہ تب گھر جلا رہے گا
مرنے پہ اپنے مت جا سالک طلب میں اس کی
گو سر کو کھو رہے گا پر اس کو پا رہے گا
عمر عزیز ساری دل ہی کے غم میں گزری
بیمار عاشقی یہ کس دن بھلا رہے گا
دیدار کا تو وعدہ محشر میں دیکھ کر کر
بیمار غم میں تیرے تب تک تو کیا رہے گا
کیا ہے جو اٹھ گیا ہے پر بستۂ وفا ہے
قید حیات میں ہے تو میرؔ آ رہے گا Anila
ہاں کہو اعتماد ہے ہم کو
شوق ہی شوق ہے نہیں معلوم
اس سے کیا دل نہاد ہے ہم کو
خط سے نکلے ہے بے وفائی حسن
اس قدر تو سواد ہے ہم کو
آہ کس ڈھب سے روئیے کم کم
شوق حد سے زیاد ہے ہم کو
شیخ و پیر مغاں کی خدمت میں
دل سے اک اعتقاد ہے ہم کو
سادگی دیکھ عشق میں اس کے
خواہش جان شاد ہے ہم کو
بد گمانی ہے جس سے تس سے آہ
قصد شور و فساد ہے ہم کو
دوستی ایک سے بھی تجھ کو نہیں
اور سب سے عناد ہے ہم کو
نامرادانہ زیست کرتا تھا
میرؔ کا طور یاد ہے ہم کو captain
Mir Taqi Mir Poetry in Urdu
Urdu poetry is incomplete without the name of Mir Taqi Mir and his contribution is widely acknowledged for not just the Urdu poetry but for the whole Urdu language. Mir Taqi Mir’s philosophy was developed primarily due to his father, who has a large following. His father’s focus on the significance of love and value of compassion seems much visible in the poetry of Meer Taqi Meer and also his life.
No doubt, Mir Taqi Mir was one of the best renowned and leading Urdu poets of 18th century. Mir was his takhallus and Muhammad Taqi, his name. He belongs to Agra in India. Meer Taqi Meer is one of those poets who moulded Urdu language into a garden where flowers of poetry bloom forever. Read complete and best honoured Shayari collection of Mir Taqi Mir on this page.
Meer Taqi Meer real name was Muhammad Taqi and Mir was his pen name. He is the famous Urdu of 18th century, he was the pioneer Urdu Ghazal poet of Mughal era and he was born in Agra, India in 1723. His complete works, Kuliyat, consist of six Diwans containing 13,585 couplets. He can write poetry in Urdu, Farsi (Persian) and Arabic Language, here you can find the best collection of Mir Taqi Mir Ghazal in Urdu, Hindi, English and Roman language.
Read the latest and best collection of Meer Taqi Meer Shayari in Urdu and English as Mir Taqi Mir famous poets, song writer in Pakistan and around the world.
The immense fame gaining, Khuda-e-sukhun and the matchless Urdu poet of 18th century, Mir Taqi was also the pioneer of Urdu Ghazal in Mughal era. Mir Taqi Mir Ghazal are best remembered and cherished all around the world. His complete works, Kuliyat, consist of six Divans which contain 13,585 couplets. He composed poetry in Urdu, Farsi (Persian) and Arabic Language. Complete work collection of Meer is constantly being updated, added and reviewed on this page. If you are a Meer fan, let our added collection mesmerize you with Meer Taqi Meer’s impeccable, challenging and provoking Shayari.
Mir Taqi Mir was not always the defeated in love poet but when he spoke, even the beloved would freeze. Society, Culture and Religion; Mir Taqi Mir wrote on all of these subjects only to rebel them. His satire over the subjects is challenging and remarkable.
Mir Taqi Mir Famous Proses
Here are the famous proses of Mir Taqi Mir:
Ibtida-e-ishqhairota he kya
Age agedekhyehota he kya
(meaning: It's the beginning of Love, why do you wail, Just wait and watch how things unveil)
Baad Marne Ke Meri Qabar Pe Aaya Ghafil,
Yaad Aayi Mere Qatil Ko Wafa Mere Baad!
(meaning: O Mir, he came to my grave after I'd died, My messiah thought of a medicine after I'd died)
Ashk Aankhon Mein Kab Nahin Aata,
Lahu Aata Hai Jab Nahin Aata,
(meaning: From my eye, when doesn't a tear fall? Blood falls when it doesn't fall)
Which are the famous poetry books by Mir Taqi Mir?
Names of some famous poetry books by Mir Taqi Mir are mentioned below:
• Faiz-e-Mir
• Kulliyat-e-Farsi
• Kulliyat-e-Mir
• Mir Taqi Mir Ki Rubaiyat
• Nukat-us-Shura
• Zikr-e-Mir
Mir Taqi Mir Sad Poetry are here as well as, read Mir Taqi Ghazal, Nazm, Shayari in Urdu, Hindi, & English languages on hamariweb.com. Cherish your day with Meer’s flaunting Shayari and please the poetic sense in you.

