Poetries by Muhammad Shariq
لوگ خوش ہیں اس دنیا میں خال خال لوگ
اور جابجا نظر آتے ہیں زبوں حال لوگ
یہ احساسِ زیاں تو فقط ظاہری ہے
کرتے ہی رہتے ہیں سوال پہ سوال لوگ
وحشت اثر، سیماب صفت، جنوں خیز
کہاں سے آتے ہیں محشر خیال لوگ
خواب کوئی بکھرے، نہ ٹوٹے کوئی امید
کبھی سمجھ جو پائیں وقت کی چال لوگ
وہی تجربے، وہی نتیجے، وہی معانئ بے معانی
گزار رہے ہیں ہر سال پچھلا سال لوگ
خواہشیں جب ڈھل جاتی ہیں جستجو میں
گزار کے جاتے ہیں بھرپور ماہ وسال لوگ
وقت کی تگ و تاز بکھیر دیتی ہے سب کچھ
دیکھتے ہی دیکھتے ہو جاتے ہیں پامال لوگ
ہر اندھیری بات کو قلب کا اجالا کہیں
ہوگئے ہیں کس قدر روشن خیال لوگ
دن کی تابناکی اور رات کی ظلمت کے بیچ
ہر دم بنے بیٹھے ہیں صورتِ سوال لوگ
اوروں کی خبر نہیں، لیکن اتنا پتہ ہے ہم کو
بزمِ شارق میں ہوتے ہیں کشف سے مالامال لوگ Muhammad Shariq
اور جابجا نظر آتے ہیں زبوں حال لوگ
یہ احساسِ زیاں تو فقط ظاہری ہے
کرتے ہی رہتے ہیں سوال پہ سوال لوگ
وحشت اثر، سیماب صفت، جنوں خیز
کہاں سے آتے ہیں محشر خیال لوگ
خواب کوئی بکھرے، نہ ٹوٹے کوئی امید
کبھی سمجھ جو پائیں وقت کی چال لوگ
وہی تجربے، وہی نتیجے، وہی معانئ بے معانی
گزار رہے ہیں ہر سال پچھلا سال لوگ
خواہشیں جب ڈھل جاتی ہیں جستجو میں
گزار کے جاتے ہیں بھرپور ماہ وسال لوگ
وقت کی تگ و تاز بکھیر دیتی ہے سب کچھ
دیکھتے ہی دیکھتے ہو جاتے ہیں پامال لوگ
ہر اندھیری بات کو قلب کا اجالا کہیں
ہوگئے ہیں کس قدر روشن خیال لوگ
دن کی تابناکی اور رات کی ظلمت کے بیچ
ہر دم بنے بیٹھے ہیں صورتِ سوال لوگ
اوروں کی خبر نہیں، لیکن اتنا پتہ ہے ہم کو
بزمِ شارق میں ہوتے ہیں کشف سے مالامال لوگ Muhammad Shariq
رہا شہر عدل میں ہوئے خطا کار اب کے رہا شہر عدل میں ہوئے خطا کار اب کے
کھل گئے قول و عمل کے اسرار اب کے
بے صرفہ ہی گیا موسم بہار اب کے
چاک ہوئے گریباں نہ داماں تار اب کے
آنکھوں میں شمعیں جلیں، نہ دل میں چراغ
جذبوں میں آنچ کوئی نہ دھڑکن بیقرار اب کے
ہوا کی چادر اوڑھ کے سوتے ہیں
گھر بھی اک بنایا ہے بے در و دیوار اب کے
جتنی دلیلیں تھیں جنبش لب یارکے آگے رد تھیں
مات کھا گئے شارق سے شہسوار اب کے Muhammad Shariq
کھل گئے قول و عمل کے اسرار اب کے
بے صرفہ ہی گیا موسم بہار اب کے
چاک ہوئے گریباں نہ داماں تار اب کے
آنکھوں میں شمعیں جلیں، نہ دل میں چراغ
جذبوں میں آنچ کوئی نہ دھڑکن بیقرار اب کے
ہوا کی چادر اوڑھ کے سوتے ہیں
گھر بھی اک بنایا ہے بے در و دیوار اب کے
جتنی دلیلیں تھیں جنبش لب یارکے آگے رد تھیں
مات کھا گئے شارق سے شہسوار اب کے Muhammad Shariq
ٰعشق امر ہے کہا جاتا ہے کہ عشق امر ہے
محبت بیاں کی حدوں سے بالاتر ہے
کہتے ہیں محبت دلوں کا پیمان ہے
آنکھوں کی راحت، دل کا وجدان ہے
محبت محیط عالم بے نہایت پر
ہر روایت پر اور ہر درایت پر
محبت نہاں ہر انسان کے دل میں
محبت عیاں نور مہ کامل میں
محبت پوشیدہ بہار کی آمد میں
محبت خوابیدہ کلیوں کی نکہت میں
محبت کی نمود ہر شاخ گلاب میں
محبت کی قیود بے حد و حساب میں
محبت وادیوں میں سبزے کا نکھار
محبت گلستاں میں بلبلوں کی پکار
محبت کے جلوے زمیں سے آسماں تک
محبت ہویدا مکاں سے لا مکاں تک
محبت عالم کی روشنی، محبت عالم کا نور
محبت درماندگی میں امیدوں کا ظہور
محبت جلوہ گر چاند کی ٹھنڈی کرنوں میں
محبت لہلہاتے کھیتوں، گنگناتے جھرنوں میں
محبت پنہاں جذبوں کی حرارت میں
محبت نمایاں افعال کی شدت میں
محبت غنا میں، محبت ساز میں
محبت دل کی دھڑکنوں کی آواز میں
محبت وقت سفر آنکھوں کا ڈبڈباجانا
محبت ملن میں نینوں کا بھر آنا
محبت شمع کے گرد رقص پروانوں کا
محبت صحرا میں پابجولاں پھرنا دیوانوں کا
محبت خوابوں کا سفر ایقان تک
محبت پیہم جستجو زیست کے عرفان تک
محبت کسی کے لئے فنا ہوجانا
محبت خود صحرا بننا، خود دریا ہوجانا
محبت صبح دم نسیم بہار کا گنگنانا
محبت نوخیز کلیوں پہ تتلیوں کا منڈلانا
محبت سایہ فگن شارق کائنات پر
ہر شے پر، ہر نفس پر، ہر ذات پر Muhammad Shariq
محبت بیاں کی حدوں سے بالاتر ہے
کہتے ہیں محبت دلوں کا پیمان ہے
آنکھوں کی راحت، دل کا وجدان ہے
محبت محیط عالم بے نہایت پر
ہر روایت پر اور ہر درایت پر
محبت نہاں ہر انسان کے دل میں
محبت عیاں نور مہ کامل میں
محبت پوشیدہ بہار کی آمد میں
محبت خوابیدہ کلیوں کی نکہت میں
محبت کی نمود ہر شاخ گلاب میں
محبت کی قیود بے حد و حساب میں
محبت وادیوں میں سبزے کا نکھار
محبت گلستاں میں بلبلوں کی پکار
محبت کے جلوے زمیں سے آسماں تک
محبت ہویدا مکاں سے لا مکاں تک
محبت عالم کی روشنی، محبت عالم کا نور
محبت درماندگی میں امیدوں کا ظہور
محبت جلوہ گر چاند کی ٹھنڈی کرنوں میں
محبت لہلہاتے کھیتوں، گنگناتے جھرنوں میں
محبت پنہاں جذبوں کی حرارت میں
محبت نمایاں افعال کی شدت میں
محبت غنا میں، محبت ساز میں
محبت دل کی دھڑکنوں کی آواز میں
محبت وقت سفر آنکھوں کا ڈبڈباجانا
محبت ملن میں نینوں کا بھر آنا
محبت شمع کے گرد رقص پروانوں کا
محبت صحرا میں پابجولاں پھرنا دیوانوں کا
محبت خوابوں کا سفر ایقان تک
محبت پیہم جستجو زیست کے عرفان تک
محبت کسی کے لئے فنا ہوجانا
محبت خود صحرا بننا، خود دریا ہوجانا
محبت صبح دم نسیم بہار کا گنگنانا
محبت نوخیز کلیوں پہ تتلیوں کا منڈلانا
محبت سایہ فگن شارق کائنات پر
ہر شے پر، ہر نفس پر، ہر ذات پر Muhammad Shariq
بظاہر تو ہم ترے در کے سائل تھے بظاہر تو ہم ترے در کے سائل تھے
در پردہ مگر کسی اور کی جانب مائل تھے
کسی کی ستم آرایئوں کا مذکور کیا
ہم تو بس اپنی انا کے گھائل تھے
وقت کو شکست دینے کی ٹھانی بہت نے
وقت کی بے نیازی کے سب ہی قائل تھے
غمِ جاناں، غم دوراں، غم ہستی، غم دنیا
ایک ذات سے وابستہ کتنے مسائل تھے
دل کی یا عقل کی، مانئے تو کس کی
پاس دونوں کے بڑے ٹھوس دلائل تھے
ہر ایک نے فریب کے نئے طور ڈھونڈے
جس کو میسر جتنے بھی وسائل تھے
ہم غریبوں پہ نظر کرم وہ بھلا کیا کرتے
ان کے پیش نظر اور کتنے مسائل تھے
اظہار شناسائی ان سے ممکن نہیں تھا
درمیاں عداوتوں کے پل صراط حائل تھے
زیست کے اندھیرے انہیں کیا دکھ دے پاتے
جو شارق کی طرح چمکنے کے قائل تھے Muhammad Shariq
در پردہ مگر کسی اور کی جانب مائل تھے
کسی کی ستم آرایئوں کا مذکور کیا
ہم تو بس اپنی انا کے گھائل تھے
وقت کو شکست دینے کی ٹھانی بہت نے
وقت کی بے نیازی کے سب ہی قائل تھے
غمِ جاناں، غم دوراں، غم ہستی، غم دنیا
ایک ذات سے وابستہ کتنے مسائل تھے
دل کی یا عقل کی، مانئے تو کس کی
پاس دونوں کے بڑے ٹھوس دلائل تھے
ہر ایک نے فریب کے نئے طور ڈھونڈے
جس کو میسر جتنے بھی وسائل تھے
ہم غریبوں پہ نظر کرم وہ بھلا کیا کرتے
ان کے پیش نظر اور کتنے مسائل تھے
اظہار شناسائی ان سے ممکن نہیں تھا
درمیاں عداوتوں کے پل صراط حائل تھے
زیست کے اندھیرے انہیں کیا دکھ دے پاتے
جو شارق کی طرح چمکنے کے قائل تھے Muhammad Shariq
یہ جو سر انجمن ہیں یہ جو سر انجمن ہیں بیٹھے شرمائے ہوئے
دراصل متعدد عقد ہیں فرمائے ہوئے
حالات زمانہ ہی تو ہیں، بگڑہں تو بگڑیں
وہ تو فقط پھرتے ہیں زلف کو الجھائے ہو ئے
گر کسی شوخ سے ٹکرا گئے تو کیا قصور
ہم تو چلے جاتے تھے افق پہ نظر جمائے ہوئے
اب اٹھ بھی چلیے ورنہ سواری نہ ملے گی
دیر سے ہیں بزم جاناں میں ڈیرے جمائے ہوئے
وقت ملاقات آہ بجلی نے دھوکہ دے دیا
لوٹ آئے کہ تھے گرمی سے گھبرائے ہوئے
غچہ ان کو دے، کس خوبی سے ہم نکلے
وہ کھڑے ہی رہ گئے ہاتھ پہیلائے ہوئے
غزل اس رنگ میں کہنا آساں نہیں شارق
جانے کتنے ہیں اس طرز سے مار کھائے ہوئے Muhammad Shariq
دراصل متعدد عقد ہیں فرمائے ہوئے
حالات زمانہ ہی تو ہیں، بگڑہں تو بگڑیں
وہ تو فقط پھرتے ہیں زلف کو الجھائے ہو ئے
گر کسی شوخ سے ٹکرا گئے تو کیا قصور
ہم تو چلے جاتے تھے افق پہ نظر جمائے ہوئے
اب اٹھ بھی چلیے ورنہ سواری نہ ملے گی
دیر سے ہیں بزم جاناں میں ڈیرے جمائے ہوئے
وقت ملاقات آہ بجلی نے دھوکہ دے دیا
لوٹ آئے کہ تھے گرمی سے گھبرائے ہوئے
غچہ ان کو دے، کس خوبی سے ہم نکلے
وہ کھڑے ہی رہ گئے ہاتھ پہیلائے ہوئے
غزل اس رنگ میں کہنا آساں نہیں شارق
جانے کتنے ہیں اس طرز سے مار کھائے ہوئے Muhammad Shariq
کل جو انڈہ اک رکھا تھا کل جو انڈہ اک رکھا تھا نعمت خا نے میں
آج وہ بھی نہ مل سکا رات کے کھانے میں
اے مہماں بتا تری کس طور تواضع کریں ہم
پیسےجو ہیں خرچ ہوجائیں گے آنے جانے میں
دھوپ کا چشمہ لگائیں اور خوب برف کھائیں
موسم کا لطف یوں اٹھائیں اس زمانے میں
مرچ کی تیزی تیرے مزاج جیسی لگتی ہے
ناچ کا مزہ آ گیا آج تو کھانا کھانے میں
اس شوخ نے منہ دھو کر جان ہماری بچا لی
ذرا سی کسر رہ گئی تھی قربان جانے میں
ضبط و تحمل، ایثار و عجز کا پیکر بنے رہے وہ
حشر کا سماں تھا بپا بارات کے کھانے میں
چائے دس بار تو پلائی ہوگی کم و بیش ہم نے
خرچہ بہت ہو گیا ان کے ناز اٹھانے میں
گر بہک گئے سڑک کنارے تو جیب ہی کٹے گی
دیکھئے مزہ خاص ہے سر راہ پینے پلانے میں
آج رات لطف جہاں گردی پھر سے دو بالا کریں
صبح کو کوئی پا ہی لے گا کسی تھانے میں
شارق شوخی حسینوں سے کیجئے، کہ انہیں
مزہ آتا ہے مچل جانے میں، سنبھل جانے میں Muhammad Shariq
آج وہ بھی نہ مل سکا رات کے کھانے میں
اے مہماں بتا تری کس طور تواضع کریں ہم
پیسےجو ہیں خرچ ہوجائیں گے آنے جانے میں
دھوپ کا چشمہ لگائیں اور خوب برف کھائیں
موسم کا لطف یوں اٹھائیں اس زمانے میں
مرچ کی تیزی تیرے مزاج جیسی لگتی ہے
ناچ کا مزہ آ گیا آج تو کھانا کھانے میں
اس شوخ نے منہ دھو کر جان ہماری بچا لی
ذرا سی کسر رہ گئی تھی قربان جانے میں
ضبط و تحمل، ایثار و عجز کا پیکر بنے رہے وہ
حشر کا سماں تھا بپا بارات کے کھانے میں
چائے دس بار تو پلائی ہوگی کم و بیش ہم نے
خرچہ بہت ہو گیا ان کے ناز اٹھانے میں
گر بہک گئے سڑک کنارے تو جیب ہی کٹے گی
دیکھئے مزہ خاص ہے سر راہ پینے پلانے میں
آج رات لطف جہاں گردی پھر سے دو بالا کریں
صبح کو کوئی پا ہی لے گا کسی تھانے میں
شارق شوخی حسینوں سے کیجئے، کہ انہیں
مزہ آتا ہے مچل جانے میں، سنبھل جانے میں Muhammad Shariq
دل کی بات چھوڑ کے دنیا کے سب حالات
آؤ سنائں تمھیں دل کی بات
دن گذرا ہے بھول بھلیوں میں
جانے اب کہاں کٹے گی رات
یہ بات سمجھنا کیا مشکل بہت
عشق دھن دولت دھرم نہ ذات
تمھیں بھی عشق نے گھیر لیا ہے
اب تم کو بھی ہوگی یقینی مات
غم دنیا سے پالیں راحت شاید
غم جاناں سے ملے گی کیسے نجات
صبح ہوئ تو سوچ میں گم ہیں
کونسے جلوے کس کے تیور کیسی رات
سر آئنہ کھڑے ہیں اور سوچتے ہیں
واہ ہماری کیا بات، واہ کیا بات
اندھیروں کا جنگل ہر جانب
روشنی شارق کی سوغات Muhammad Shariq
آؤ سنائں تمھیں دل کی بات
دن گذرا ہے بھول بھلیوں میں
جانے اب کہاں کٹے گی رات
یہ بات سمجھنا کیا مشکل بہت
عشق دھن دولت دھرم نہ ذات
تمھیں بھی عشق نے گھیر لیا ہے
اب تم کو بھی ہوگی یقینی مات
غم دنیا سے پالیں راحت شاید
غم جاناں سے ملے گی کیسے نجات
صبح ہوئ تو سوچ میں گم ہیں
کونسے جلوے کس کے تیور کیسی رات
سر آئنہ کھڑے ہیں اور سوچتے ہیں
واہ ہماری کیا بات، واہ کیا بات
اندھیروں کا جنگل ہر جانب
روشنی شارق کی سوغات Muhammad Shariq
تیور بدلنے لگے آئینوں کے تیور بدلنے لگے
کیا وہ پھر سے سنورنے لگے
در یاد پھر سے وا ہوا
زخم فرقت پھر سے بھرنے لگے
آزمائش میں پڑ گیا زمانہ
ارادے ان کے جو بدلنے لگے
عشق جز وقتی شے تو نہیں
پھر کیوں خیالات بھٹکنے لگے
وقت کی گھمبیرتا کیا کہیے
کون کس قالب میں ڈھلنے لگے
ان کی نظروں کا ملنا شارق
افکار سارے بکھرنے لگے Muhammad Shariq
کیا وہ پھر سے سنورنے لگے
در یاد پھر سے وا ہوا
زخم فرقت پھر سے بھرنے لگے
آزمائش میں پڑ گیا زمانہ
ارادے ان کے جو بدلنے لگے
عشق جز وقتی شے تو نہیں
پھر کیوں خیالات بھٹکنے لگے
وقت کی گھمبیرتا کیا کہیے
کون کس قالب میں ڈھلنے لگے
ان کی نظروں کا ملنا شارق
افکار سارے بکھرنے لگے Muhammad Shariq
کچھ پتہ نہیں قرب تھا کہ فاصلہ، کچھ پتہ نہیں
گرد تھی کہ قافلہ کچھ پتہ نہیں
اندیشہ فرقت کا، بیگانگی کا وہم
یا قربت کا سلسلہ کچھ پتہ نہیں
اندیشے اور واہمے، خوف اور وسوسے
یا وصل کا ولولہ، کچھ پتہ نہیں
وصل جاناں، فکر دوراں، خیال دل زدگاں
کس کس کا ہے مسئلہ کچھ پتہ نہیں
بنی آدم کی خواہش دراز تر اور عمر مختصر
کیسے چل رہا ہے سلسلہ کچھ پتہ نہیں
مات ہوگی کس کو، ہم کو یا زمانے کو
یہ وقت کرے گا فیصلہ، کچھ پتہ نہیں
پوچھا عشق کی بابت تو کہا شارق نے
بہت گھمبیر ہے معاملہ کچھ پتہ نہیں Muhammad Shariq
گرد تھی کہ قافلہ کچھ پتہ نہیں
اندیشہ فرقت کا، بیگانگی کا وہم
یا قربت کا سلسلہ کچھ پتہ نہیں
اندیشے اور واہمے، خوف اور وسوسے
یا وصل کا ولولہ، کچھ پتہ نہیں
وصل جاناں، فکر دوراں، خیال دل زدگاں
کس کس کا ہے مسئلہ کچھ پتہ نہیں
بنی آدم کی خواہش دراز تر اور عمر مختصر
کیسے چل رہا ہے سلسلہ کچھ پتہ نہیں
مات ہوگی کس کو، ہم کو یا زمانے کو
یہ وقت کرے گا فیصلہ، کچھ پتہ نہیں
پوچھا عشق کی بابت تو کہا شارق نے
بہت گھمبیر ہے معاملہ کچھ پتہ نہیں Muhammad Shariq
نہ رکھو گے یاد ہپیں تم، نہ یاد کبھی تم آؤ گے نہ رکھو گے یاد ہپیں تم، نہ یاد کبھی تم آؤ گے
کب تک ہم سے تم نہلو گے، کب تک ہیمں بہلاؤ گے
اپنی ذات میں گم ہوجاؤ، اپنی ذات سے جی بہلاؤ
اک روز ہمیں تم یاد کرو گے اور ہمیں نہ پاؤ گے
عشق، محبت، پیار، وفا یہ سب فرصی باتیں ہیں
کب تک ان سے بہل نہل کے دھوکے کھاتے جاؤ گے
جاتے ہوئے آنے کا کہو، آتے ہی جانے ک کہو
یوں نھی ہمیں بھلاتے ہو، یوں بھی ہمیں بھلاؤ گے
ان سے اور وفا کا خیال، بہت عجب ہے تمھارا حال
کب تک خود کو دحوکہ دو گے، زیست نباہتے جاؤ گے
جن کی سرشت خونمائ، جن کی گٹھی میں بے وفائ
ان سے جی کو لگا کر جانو، جی کو روگ لگاؤ گے
روز کا شارق قصہ ہے یہ، زندگی کا حصہ ہے یہ
لوگ انا کے قیدی سارے، لوگوں سے کیا پاؤ گے Muhammad Shariq
کب تک ہم سے تم نہلو گے، کب تک ہیمں بہلاؤ گے
اپنی ذات میں گم ہوجاؤ، اپنی ذات سے جی بہلاؤ
اک روز ہمیں تم یاد کرو گے اور ہمیں نہ پاؤ گے
عشق، محبت، پیار، وفا یہ سب فرصی باتیں ہیں
کب تک ان سے بہل نہل کے دھوکے کھاتے جاؤ گے
جاتے ہوئے آنے کا کہو، آتے ہی جانے ک کہو
یوں نھی ہمیں بھلاتے ہو، یوں بھی ہمیں بھلاؤ گے
ان سے اور وفا کا خیال، بہت عجب ہے تمھارا حال
کب تک خود کو دحوکہ دو گے، زیست نباہتے جاؤ گے
جن کی سرشت خونمائ، جن کی گٹھی میں بے وفائ
ان سے جی کو لگا کر جانو، جی کو روگ لگاؤ گے
روز کا شارق قصہ ہے یہ، زندگی کا حصہ ہے یہ
لوگ انا کے قیدی سارے، لوگوں سے کیا پاؤ گے Muhammad Shariq
ختم ہو گئے ستم ختم ہو گئے ستم ، تمہیں خبر ہی نہیں
مٹ ہی تو گئے ہم ، تمہیں خبر ہی نہیں
اپنی ذات کی کھوج میں افلاک سے آگے تلک
بڑھتے چلے گئے قدم، تمہیں خبر ہی نہیں
بے لوث وفا کی داستاں ریاکار زمین پر
ہمیشہ ہوئی ہے رقم، تہیں خبر ہی نہیں
میکدے میں جاؤ تم، جام منہ سے لگاؤ تم
مٹ جائیں گے سارے غم، تمہیں خبر ہی نہیں
جو زندگی کا وبال ہے، بس ہوش کا اک جال ہے
انا کا سب ہے بھرم، تمہیں خبر ہی نہیں
کب لکھی ہے شارق نے سچ کی کوئی داستاں
بہک گیا ہوگا قلم، تمہیں خبر ہی نہیں Muhammad Shariq
مٹ ہی تو گئے ہم ، تمہیں خبر ہی نہیں
اپنی ذات کی کھوج میں افلاک سے آگے تلک
بڑھتے چلے گئے قدم، تمہیں خبر ہی نہیں
بے لوث وفا کی داستاں ریاکار زمین پر
ہمیشہ ہوئی ہے رقم، تہیں خبر ہی نہیں
میکدے میں جاؤ تم، جام منہ سے لگاؤ تم
مٹ جائیں گے سارے غم، تمہیں خبر ہی نہیں
جو زندگی کا وبال ہے، بس ہوش کا اک جال ہے
انا کا سب ہے بھرم، تمہیں خبر ہی نہیں
کب لکھی ہے شارق نے سچ کی کوئی داستاں
بہک گیا ہوگا قلم، تمہیں خبر ہی نہیں Muhammad Shariq