✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
RABNAWAZ
Search
Add Poetry
Poetries by RABNAWAZ
عکس وطن
یہ کیسی گھڑی میرے ملک پہ آئی ہے یارب
زندگی کے خوف سے لوگ مرنے کی دعا کرتے ھیں
ظالم بھی ہے حق پر مظلوم بھی حق پر
جنت کے ٹکٹ سربازار ملا کرتے ہیں
جو مرےوہ شہید جو مارے وہ غازی
زندگی تو بس گنہگار جیا کرتے ہییں
حصول علم کی سزا موت ہے یہاں پر
دختر ملت کی تربت پر تحریر لکھا کرتے ہیں
اے آگاش وطن یہ منظر بھی تو نے بارہا دیکھا
پانی کے گھروں میں یہاں چراغ جلا کرتے ہیں
اےارض وطن کیا ہوا تیری آغوش کو
بچے تیرے آنگن میں صبیح شام مرا کرتے ہیں
اے شہید وطن تمہارا لہو تھا یا پانی تھا
بہار میں بھی یہاں کاغذ کے پھول سجا کرتےہیں
اے گلشن تیری شجر کاری کا کیا کہنا
تیرے باغبان قبروں سے پھول چناکرتے ہیں
تکرار نہ کرنا فقیہ شہر سے کبھی بھی
استاد اپنے شاگردوں سے التجا کیا کرتے ہیں
اس صحرا کی تنگی کو کب تک ڈھانپیں گے
ساںے شجر سے احتجاج کیا کرتے ہیں
دست و گریباں ہے آسمان اور زمین یہاں
شاگرد استادوں کو ملامت کیا کرتے ہیں
یہ بہار بھی کوںی بہار ہے اس سے تو خزاں اچھی
کانٹے اکثر پھولوں سے گلہ کیا کرتے ہیں
جی جی کے مرنا ہو تو اور بات تھی
لیکن لوگ یہاں مر مر کے جیا کرتے ھیں
ویراں ہے میکدہ آباد ہے ساقی یہاں
ٹوٹے ہوںے جام بھی بیش قیمت ہوا کرتے ہیں
اوج انسان کی تعبیر ہے یہ یہاں
مٹی کے لوگ مٹی میں ملا کرتے ہیں
rabnawaz
Copy
شہر بے رحم سے بغاوت کی ہے
شہر بے رحم سے بغاوت کی ہے
شائد اپنے آپ سے عداوت کی ہے
اتنا لپکی کہ حلقہ زنجیر بن گئی
فٹ پاتھ کی گھاس نے جسارت کی ہے
اب نہ ٹوٹیں گئے کبھی نازک آبگینے
شیشوں نے پتھروں سے تجارت کی ہے
شائد اسی لے ہمارے آنگن میں آگ برستی ہے
مظلوموں کے لہو سے ہم نے سخاوت کی ہے
کوئی اور نہیں مجرم گھر کی بربادی کا
ہمارے کردار نے ہماری ایسی حالت کی ہے
RABNAWAZ
Copy
چشم بینا کیلیے پردہ ہٹانا ہوگا
چشم بینا کیلے پردہ ہٹانا ہوگا
خاک مدینہ کو سرمہ بنانا ہو گا
اگر چاہے دو عالم کی کامرانی
انوار مدینہ سے خود کو چمکانا ہوگا
اگر طلب ہے کائناپ پہ چھانے کی
گنبد خضری کے سائے میں آنا ہوگا
اگر بجھانا چاہتے ہو ظلمت کی آگ
ابر مدینہ دشت عالم پہ برسانا ہوگا
اگر مٹانا چاہتے ہو یتیمی کا احساس
یتیموں کے والی کا بچپن دہرانا ہوگا
اگر خائف ہو ہجرت کے سانپوں سے
دامن غار ثور میں ایک بار جانا ہوگا
طفل شفقت سے ویراں ہے اگر قریہ آدم
حسنین کے بچپن کو چشم تخیل میں لانا ہوگا
اگر بھوک سے لرزیں ایمانوں کے ستون
بتول کے بابا کے گھر کو دیکھانا ہوگا
اگر اسیر ہو تخت شاھی کے قفس میں
منبر تاجدار عالم آنکھوں میں بسانا ہو گا
اگر مٹانا چاہتے ہو نا انصافی کے خیمے
پیغام منبر رصول پڑھ پڑھ کر سنانا ہو گا
اگر چاھے دنیا میں امن کی بہار
مدینے کی کلیوں سے آنگن سجانا ہوگا
ڈھونڈے بہت اصلاح کے متبادل راستے
منزل جس کیلے تڑپے اس گلی میں جانا ہوگا
بس کافی ہے میرے لیےشمع رسالت
جو روشنی نہ دیں ان دیوں کو بجھانا ہوگا
اس کے علاوہ کچھ نہیں خم گیسوئے حیات کے
آنے سے جانا اور پھر جانے سے آنا ہو گا
کوئی اور نہیں منزل در نبی کے بعد
سارے کچے گھروں کو اب گرانا ہوگا
rabnawaz
Copy
یہ جھوٹ کا بیج کس نے بویا ہے
یہ جھوٹ کا بیج کس نے بویا ہے
ماں روتی نہیں شاںد بچہ سویا ہے
زندہ ھیں لوگ اسی کشمکش میں یہاں
جو پایا وہ کھویا جو کھویا وہ پایا ہے
قدم لڑکھڑائے نہیں دستار گرنے تک
سر نے ہمارے پاؤں کا بوجھ اٹھایاہے
اب بھی نہ قبول ہوں تو قیامت ہو گی
ہر اشک گرنے سے پہلے بارہا دھویا ہے
بادباں سے گلہ کیا ناخدا سے شکایت کیسی
ساحل کی رقابت نے میری کشتی کو ڈبویا ہے
RABNAWAZ
Copy
کچھ چراغ بجھانے ہونگے
صبح روشن کیلیے کچھ چراغ بجھانے ہونگے
خوابیدہ پرندے درختوں سے اڑانے ہونگے
جبیں پہ سجایے ہوئے غیرت کی تجلی
بوسیدہ فلک پہ کچھ چاند شرمانے ہونگے
گرنے نہ پائے ایک آنسو بھی یہاں اب
بدن کے زخم اب روح سے چھپانے ہونگے
بکھریں گی یہاں نے دور کی رنگینیاں
درختوں سے پرانے پتے گرانے ہونگے
ہوگا حساب یہاں اب روز جزا کی طرح
قبروں سے سارے کتبےاب اٹھانے ہونگے
اس گھرکی تاریکیاں ایسے نہیں جائیں گی
ہر دیوار پہ یہاں چراغ طور جلانے ہونگے
RABNAWAZ
Copy
پاؤں زخمی ہیں سر کے بل چلتے ہیں
پاؤں زخمی ہیں سر کے بل چلتے ہیں
چراغ تو ازل سے ایسے ہی جلتے ہیں
یہ لازم نیں کہ مقید ہوں گردش ایام کے
کچھ رات کے سورج صبح کو ڈھلتے ہیں
اگر برسنا ہے تو برسات کی طرح برسو
کہ پھولوں کے ساتھ ساتھ کانٹے بھی پلتے ہیں
سوکھ جاؤ شاخ پہ مگر لڑکھڑانا نہیں
کہ گرنے والوں کو لوگ مسلتے ھیں
شاید اس لیے بھی تاریک ہےشب کا وجود
کہ سورج کےمقابل چراغ لے کے پھرتے ہیں
میں خود بھی گر جاتا ہوں گھر کے ساتھ ساتھ
کیونکہ آنسو اور بارش ایک ساتھ برستے ہیں
فلک بھی جھکا نہیں سکتا ان کے قدافلاک کو
جو لوگ اٹھنے سے پہلے کئی بار گرتے ہیں
RABNAWAZ
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets