Poetries by Sadaf Ghori
من میں پھول سجا رکھا ہے بہار سے پہلے من میں پھول سجا رکھا ہے بہار سے پہلے
کبھی ویرانہ تھا یہ گلزار سے پہلے
یہ تیری محبت کا کرشمہ ہے میرے صنم
دیوانہ بنا رکھا ہے اقرار سے پہلے
موسم گل کی رنگینی نے بڑے کام کیے
ملایا گل کو گل سے بہار سے پہلے
بچہ بوڑھا شاد ہوا گھر آنگن آ ٓباد ہوا
کتنے پھول کھلے ہیں اب کے رت بہار سے پہلے
آنکھیں اس کے نام پہ کھلتی ہے صدفؔ
مرے لیے اجنبی تھا جو دیدار سے پہلے
Sadaf Ghori
کبھی ویرانہ تھا یہ گلزار سے پہلے
یہ تیری محبت کا کرشمہ ہے میرے صنم
دیوانہ بنا رکھا ہے اقرار سے پہلے
موسم گل کی رنگینی نے بڑے کام کیے
ملایا گل کو گل سے بہار سے پہلے
بچہ بوڑھا شاد ہوا گھر آنگن آ ٓباد ہوا
کتنے پھول کھلے ہیں اب کے رت بہار سے پہلے
آنکھیں اس کے نام پہ کھلتی ہے صدفؔ
مرے لیے اجنبی تھا جو دیدار سے پہلے
Sadaf Ghori
کھلے ہیں پھول ، نکھرنے لگے بہار کے رنگ کھلے ہیں پھول ، نکھرنے لگے بہار کے رنگ
یہ رنگ اصل میں ہیں تیرے انتظار کے رنگ
دھنک لباس ترا جب نظر میں لہرایا
مہک اٹھے ہیں تن و جاں میں تیرے پیار کے رنگ
عجیب طرز تکلم ہے آج کل تیرا
طویل باتیں مگر ان میں اختصار کے رنگ
گلاب اڑتے نظر آئیں باغ میں ہر سو
جب آنچلوں میں نظر آئیں شاخسار کے رنگ
دماغ و دل تر و تازہ ہیں اس کی قربت میں
کسی کے لہجے میں خوشبو ہے اور بہار کے رنگ
خدا کرے مرے دل کو ےیقین آجائے
کہ صرف رنگ نہیں ، میرے انتظار کے رنگ
Sadaf Ghori
یہ رنگ اصل میں ہیں تیرے انتظار کے رنگ
دھنک لباس ترا جب نظر میں لہرایا
مہک اٹھے ہیں تن و جاں میں تیرے پیار کے رنگ
عجیب طرز تکلم ہے آج کل تیرا
طویل باتیں مگر ان میں اختصار کے رنگ
گلاب اڑتے نظر آئیں باغ میں ہر سو
جب آنچلوں میں نظر آئیں شاخسار کے رنگ
دماغ و دل تر و تازہ ہیں اس کی قربت میں
کسی کے لہجے میں خوشبو ہے اور بہار کے رنگ
خدا کرے مرے دل کو ےیقین آجائے
کہ صرف رنگ نہیں ، میرے انتظار کے رنگ
Sadaf Ghori
زندگی کٹ گئی سزاؤں میں زندگی کٹ گئی سزاؤں میں
تھی میں تنہا اُداس راہوں میں
میری منزل ہے میری چاہت وہ
مانگتی ہوں میں دعاؤں میں
کتنے دن کٹ گئے جدائی کے
دیپ اک جل رہا ہے گاؤں میں
لاکھ میں نے سنبھالا چاہت کو
کیوں بکھر سی گئی ہواؤں میں
چاند کو جب کبھی تلاش کیا
دیر تک میں رہی خلاؤں میں
گر زمانہ بنا میرا دشمن
تیری صورت رہی نگاہوں میں
جب بھی تیری صدا ہوئی محسوس
آگے بڑھتی گئی میں چھاؤں میں
دور تک منتشر تھے سرخ گلاب
ایک کانٹا چبھا تھا پاؤں میں
ادھورا ہے یہ افسانہ Sadaf Ghori
تھی میں تنہا اُداس راہوں میں
میری منزل ہے میری چاہت وہ
مانگتی ہوں میں دعاؤں میں
کتنے دن کٹ گئے جدائی کے
دیپ اک جل رہا ہے گاؤں میں
لاکھ میں نے سنبھالا چاہت کو
کیوں بکھر سی گئی ہواؤں میں
چاند کو جب کبھی تلاش کیا
دیر تک میں رہی خلاؤں میں
گر زمانہ بنا میرا دشمن
تیری صورت رہی نگاہوں میں
جب بھی تیری صدا ہوئی محسوس
آگے بڑھتی گئی میں چھاؤں میں
دور تک منتشر تھے سرخ گلاب
ایک کانٹا چبھا تھا پاؤں میں
ادھورا ہے یہ افسانہ Sadaf Ghori
کنارے لوٹ لیتے ہیں یہاں جب شام ڈھلتی ہے
اداسی پھیل سی جاتی ہے
سکوں دل کو نہیں ملتا
پریشانی رلاتی ہے
کسی کی یاد آنے پر
اداسی پھیل جاتی ہے
مگر تم فکر مت کرنا
تمہیں میں یاد رکھوں گی
بھلانا بھی اگر چاہا بھلا تم کو نہ پاؤ گی
تمہی تو اک سہارا ہو
جہاں میں نے اترنا ہے
تمہیں تو وہ کنارا ہو ،
مگر ہے یہ سنا میں نے
کنارے لوٹ لیتے ہیں!
سہارے لوٹ لیتے ہیں
Sadaf Ghori
اداسی پھیل سی جاتی ہے
سکوں دل کو نہیں ملتا
پریشانی رلاتی ہے
کسی کی یاد آنے پر
اداسی پھیل جاتی ہے
مگر تم فکر مت کرنا
تمہیں میں یاد رکھوں گی
بھلانا بھی اگر چاہا بھلا تم کو نہ پاؤ گی
تمہی تو اک سہارا ہو
جہاں میں نے اترنا ہے
تمہیں تو وہ کنارا ہو ،
مگر ہے یہ سنا میں نے
کنارے لوٹ لیتے ہیں!
سہارے لوٹ لیتے ہیں
Sadaf Ghori
ہم ہی گرتی ہوئی دیوار سنبھالے ہوئے ہیں ہم ہی گرتی ہوئی دیوار سنبھالے ہوئے ہیں
کتنے معصوم ہیں طوفان کو ٹالے ہوئے ہیں
دور تک دھول میں لپٹی ہے وفا کی منزل
چلتے چلتے مرے پاؤں میں تو چھالے ہوئے ہیں
میں نے دیکھا جو کہیں اڑتی ہوئی تتلی ہے
انہیں رنگوں سے تو باغوں میں اجالے ہوئے ہیں
جن کی راہوں میں اندھیرے نے بڑے ظلم کئے
وہی تو شمعِ محبت کو سنبھالے ہوئے ہیں
کچھ صدف جن کی خطا تھی نہ کوئی جن کا قصور
وہی معصوم تو زندان میں ڈالے ہوئے ہیں
ہر طرف رنگوں کے چرچے ہیں مری جان سنو !
خود ہی کچھ پھول خزاؤں کے حوالے ہوئے ہیں
لو چلو ختم ہوئے رستے سبھی ناطے سبھی
دل کے خانوں میں جو مدت سے سنبھالے ہوئے ہیں
آرزو کے وہ کبوتر بھی ہیں نالاں ہم سے
دل کے خانوں میں جو اک عمر سے پالے ہوئے ہیں
آنکھیں بھی اشکوں سے خالی ہیں تری فرقت میں
صبر سے کتنے ترے درد سنبھالے ہوئے ہیں Sadaf Ghori
کتنے معصوم ہیں طوفان کو ٹالے ہوئے ہیں
دور تک دھول میں لپٹی ہے وفا کی منزل
چلتے چلتے مرے پاؤں میں تو چھالے ہوئے ہیں
میں نے دیکھا جو کہیں اڑتی ہوئی تتلی ہے
انہیں رنگوں سے تو باغوں میں اجالے ہوئے ہیں
جن کی راہوں میں اندھیرے نے بڑے ظلم کئے
وہی تو شمعِ محبت کو سنبھالے ہوئے ہیں
کچھ صدف جن کی خطا تھی نہ کوئی جن کا قصور
وہی معصوم تو زندان میں ڈالے ہوئے ہیں
ہر طرف رنگوں کے چرچے ہیں مری جان سنو !
خود ہی کچھ پھول خزاؤں کے حوالے ہوئے ہیں
لو چلو ختم ہوئے رستے سبھی ناطے سبھی
دل کے خانوں میں جو مدت سے سنبھالے ہوئے ہیں
آرزو کے وہ کبوتر بھی ہیں نالاں ہم سے
دل کے خانوں میں جو اک عمر سے پالے ہوئے ہیں
آنکھیں بھی اشکوں سے خالی ہیں تری فرقت میں
صبر سے کتنے ترے درد سنبھالے ہوئے ہیں Sadaf Ghori
سنا ہے محبتیں برسی ہے رات بھر سنا ہے محبتیں برسی ہے رات بھر
دید کو آنکھیں ترسی ہے رات بھر
سنا ہے جگنوؤں نے آنکھوں سے
کی ہیں جی بھر کے باتیں رات بھر
سنا ہے تنہائی نے تاروں کی محفل میں
کی ہیں ان پر عنایتیں رات بھر
سنا ہے چاند بھی تکتا رہا ہے پیار سے
مسکراتی رہی میری اُنکھیں رات بھر
سنا ہے رنگ بھی رقص کرتے ہیں جھوم کر
کرتے رہے ہیں شرارتیں رات بھر
سنا ہے رات بھی مسکراتی رہی دیر تک
کرتی رہی خود سے باتیں رات بھر
Sadaf Ghori
دید کو آنکھیں ترسی ہے رات بھر
سنا ہے جگنوؤں نے آنکھوں سے
کی ہیں جی بھر کے باتیں رات بھر
سنا ہے تنہائی نے تاروں کی محفل میں
کی ہیں ان پر عنایتیں رات بھر
سنا ہے چاند بھی تکتا رہا ہے پیار سے
مسکراتی رہی میری اُنکھیں رات بھر
سنا ہے رنگ بھی رقص کرتے ہیں جھوم کر
کرتے رہے ہیں شرارتیں رات بھر
سنا ہے رات بھی مسکراتی رہی دیر تک
کرتی رہی خود سے باتیں رات بھر
Sadaf Ghori
نرالی سوچ ہے اپنی انوکھا پیار ہے اپنا نرالی سوچ ہے اپنی انوکھا پیار ہے اپنا
جسے دیکھا نہیں اب تک وہی ہے حصہ دار اپنا
محبت کی خریداری جہاں سے کر رہی ہوں میں
خیال و خواب والا اک عجب بازار ہے اپنا
بظاہر تو وفاؤں کا کوئی رشتہ نہیں اس سے
میں اس سے پیار کرتی ہوں کہاں انکار ہے اپنا
میری نیندیں اڑا کر جو مجھے بے چین رکھتا ہے
نہیں ہے دوسرا کوئی دلِ بیمار ہے اپنا
صدف جس سے تعلق ہے فقط میرا تصور تک
مجھے اقرار کرنا ہے وہی دلدار ہے اپنا
آدھورا ہے یہ افسانہ Sadaf Ghori
جسے دیکھا نہیں اب تک وہی ہے حصہ دار اپنا
محبت کی خریداری جہاں سے کر رہی ہوں میں
خیال و خواب والا اک عجب بازار ہے اپنا
بظاہر تو وفاؤں کا کوئی رشتہ نہیں اس سے
میں اس سے پیار کرتی ہوں کہاں انکار ہے اپنا
میری نیندیں اڑا کر جو مجھے بے چین رکھتا ہے
نہیں ہے دوسرا کوئی دلِ بیمار ہے اپنا
صدف جس سے تعلق ہے فقط میرا تصور تک
مجھے اقرار کرنا ہے وہی دلدار ہے اپنا
آدھورا ہے یہ افسانہ Sadaf Ghori
نیل گگن سے آیا چاند نیل گگن سے آیا چاند
میں نے دل سے لگایا چاند
جیون کی کالی شب میں
تاروں کے سنگ آیا چاند
کھوئی رہی میں جھلمل میں
جی بھر کے کب دیکھا چاند
تو کتنا ہرجائی ہے
دل نے تھا سمجھایا چاند
جانے کیوں اشکوں کے ساتھ
آنکھوں میں بھر آیا چاند
مانگ بھری مَیں ، افشاںسے
ماتھے پر چمکایا چاند
موج کی موج صدفؔ
لہروں پر لہرایا چاند
Sadaf Ghori
میں نے دل سے لگایا چاند
جیون کی کالی شب میں
تاروں کے سنگ آیا چاند
کھوئی رہی میں جھلمل میں
جی بھر کے کب دیکھا چاند
تو کتنا ہرجائی ہے
دل نے تھا سمجھایا چاند
جانے کیوں اشکوں کے ساتھ
آنکھوں میں بھر آیا چاند
مانگ بھری مَیں ، افشاںسے
ماتھے پر چمکایا چاند
موج کی موج صدفؔ
لہروں پر لہرایا چاند
Sadaf Ghori
ہوا بھی تیز ہے اور رات کا سفر بھی ہے ہوا بھی تیز ہے اور رات کا سفر بھی ہے
بجھی بجھی سی شمعِ راہبر بھی ہے
میں کوئی حرف ِ شکایت زباں پہ کیا لاؤں
کہ قافلے میں وہی شخص معتبر بھی ہے
جو در بہ در ہیں انہی کا ملال ہے ورنہ
میں آشیانہ بھی رکھتی ہوں ، میرا گھر بھی ہے
ہمارے رنج بہت مشترک سے لگتے ہیں
جو دُکھ ہے اس کا ، وہی میرا دردِ سر بھی ہے
ہمی ہیں جن کو فضا میں گھٹن کا ہے احساس
ہمی ہیں جن کو بہت رنجِ بال و پر بھی ہے
میں جس کے غم میں سلگتی ہوں روز و شب اے صدف
کمال یہ ہے وہی میرا چارہ گر بھی ہے Sadaf Ghori
بجھی بجھی سی شمعِ راہبر بھی ہے
میں کوئی حرف ِ شکایت زباں پہ کیا لاؤں
کہ قافلے میں وہی شخص معتبر بھی ہے
جو در بہ در ہیں انہی کا ملال ہے ورنہ
میں آشیانہ بھی رکھتی ہوں ، میرا گھر بھی ہے
ہمارے رنج بہت مشترک سے لگتے ہیں
جو دُکھ ہے اس کا ، وہی میرا دردِ سر بھی ہے
ہمی ہیں جن کو فضا میں گھٹن کا ہے احساس
ہمی ہیں جن کو بہت رنجِ بال و پر بھی ہے
میں جس کے غم میں سلگتی ہوں روز و شب اے صدف
کمال یہ ہے وہی میرا چارہ گر بھی ہے Sadaf Ghori
بہاروں کے دن وہ بہاروں کی راتیں بہاروں کے دن وہ بہاروں کی راتیں
مجھے آج لگتی ہیں سپنوں کی باتیں
صدا دے رہے ہیں وہ رہ رہ کے تم کو
وہ کمرہ ، وہ جگنو ، دریچہ وہ گھاتیں
چلو فیصلہ آج دونوں کریں ہم
نہ رہنا ہے الگ نہ کھانی ہیں ماتیں
محبت ہے ایسا وہ بے لوث جزبہ
نہ پوچھے یہ مذہب نہ دیکھے یہ ذاتیں
صدف کی محبت ہے پریوں کا ڈیرہ
طلسمی سے قصے حقیقت سی باتیں Sadaf Ghori
مجھے آج لگتی ہیں سپنوں کی باتیں
صدا دے رہے ہیں وہ رہ رہ کے تم کو
وہ کمرہ ، وہ جگنو ، دریچہ وہ گھاتیں
چلو فیصلہ آج دونوں کریں ہم
نہ رہنا ہے الگ نہ کھانی ہیں ماتیں
محبت ہے ایسا وہ بے لوث جزبہ
نہ پوچھے یہ مذہب نہ دیکھے یہ ذاتیں
صدف کی محبت ہے پریوں کا ڈیرہ
طلسمی سے قصے حقیقت سی باتیں Sadaf Ghori