Poetries by سلمیٰ رانی
اس محبت میں کیا سے کیا نہ ہوئے اس محبت میں کیا سے کیا نہ ہوئے
ہم مگر پھر بھی با وفا نہ ہوئے
چھوڑئیے ان کا واقعہ صاحب
درد تو بن گئے دوا نہ ہوئے
وہ مرے چارہ گر رہے برسوں
میری خاطر کبھی گھٹا نہ ہوئے
گرچہ منزل سبھی کی ایک ہی تھی
بے وفا لوگ با وفا نہ ہوئے
انھوں نے جب عطا کیے تو یہاں
درد حد سے کبھی سوانہ ہوئے
ساتھ چل کر بھی فاصلے ہی رہے
ہم سفر پھر بھی ہم نوا نہ ہوئے
آپ سے دور کیا ہوئے سلمیٰ
پھر کسی کے بھی دل ربا نہ ہوئے سلمٰی رانی
ہم مگر پھر بھی با وفا نہ ہوئے
چھوڑئیے ان کا واقعہ صاحب
درد تو بن گئے دوا نہ ہوئے
وہ مرے چارہ گر رہے برسوں
میری خاطر کبھی گھٹا نہ ہوئے
گرچہ منزل سبھی کی ایک ہی تھی
بے وفا لوگ با وفا نہ ہوئے
انھوں نے جب عطا کیے تو یہاں
درد حد سے کبھی سوانہ ہوئے
ساتھ چل کر بھی فاصلے ہی رہے
ہم سفر پھر بھی ہم نوا نہ ہوئے
آپ سے دور کیا ہوئے سلمیٰ
پھر کسی کے بھی دل ربا نہ ہوئے سلمٰی رانی
ریگ زار و بحر و بر کچھ بھی نہیں ریگ زار و بحر و بر کچھ بھی نہیں
زندگی میں خوب تر کچھ بھی نہیں
کس لیے مانگیں دعائیں روز و شب
جب دعاؤں میں اثر کچھ بھی نہیں
تو گیا آنکھوں کی بینائی گئی
پھو ل پھل،پتے شجر کچھ بھی نہیں
زندگی تجھ کو بتانے کے لیے
شعر کہنے کا ہنر کچھ بھی نہیں
ساتھ تم ہو تو ہمارے واسطے
یہ سفر اے ہم سفر کچھ بھی نہیں
پوچھیے خانہ بدوشوں سے کبھی
کون کہتا ہے کہ گھر کچھ بھی نہیں
میرے بارے کہہ رہا تھا اب وہی
وہ پر ی آشفتہ سر کچھ بھی نہیں
لو چلے ہیں ہم بھی اب سوئے عدم
تم گئے ہوتو ادھر کچھ بھی نہیں
سلمیٰ رانی کاٹ لیں گے دیکھنا
زندگانی کا سفر کچھ بھی نہیں
سلمیٰ رانی
زندگی میں خوب تر کچھ بھی نہیں
کس لیے مانگیں دعائیں روز و شب
جب دعاؤں میں اثر کچھ بھی نہیں
تو گیا آنکھوں کی بینائی گئی
پھو ل پھل،پتے شجر کچھ بھی نہیں
زندگی تجھ کو بتانے کے لیے
شعر کہنے کا ہنر کچھ بھی نہیں
ساتھ تم ہو تو ہمارے واسطے
یہ سفر اے ہم سفر کچھ بھی نہیں
پوچھیے خانہ بدوشوں سے کبھی
کون کہتا ہے کہ گھر کچھ بھی نہیں
میرے بارے کہہ رہا تھا اب وہی
وہ پر ی آشفتہ سر کچھ بھی نہیں
لو چلے ہیں ہم بھی اب سوئے عدم
تم گئے ہوتو ادھر کچھ بھی نہیں
سلمیٰ رانی کاٹ لیں گے دیکھنا
زندگانی کا سفر کچھ بھی نہیں
سلمیٰ رانی
دن کا راجہ،رات کی رانی، سلمیٰ رانی دن کا راجہ،رات کی رانی، سلمیٰ رانی
بھول گئے سب لوگ کہانی،سلمی رانی
سوکھا پھول گلاب کا شاید مل ہی جائے
دیکھوں گی سب کتب پرانی، سلمیٰ رانی
ان لوگوں کی باتوں پر کب غور کیا ہے
میں نے اپنے دل کی مانی،سلمیٰ رانی
ساری عمر بھلا نہ پائے شاید وہ بھی
برکھا رت وہ شام سہانی، سلمیٰ رانی
میں نے اس کی ہر ایک بات کو سچا سمجھا
میں پگلی تھی میں دیوانی، سلمیٰ رانی
میں نے سب کچھ اس کو جانا اس کو پوجا
شاید تھی یہ بھی نادانی،سلمیٰ رانی
پیار کی اب میت کو اپنے سامنے پاکر
کرتی ہوں میں نوحہ خوانی سلمیٰ رانی
تنہا بیٹھ کے سوچتی ہوں تو رو پڑتی ہوں
خوب تھا بچپن خوب جوانی سلمیٰ رانی
میرے پیار کا قاتل اور مسیحا بھی وہ
وہ ہی دشمن وہ ہی جانی سلمیٰ رانی سلمیٰ رانی
بھول گئے سب لوگ کہانی،سلمی رانی
سوکھا پھول گلاب کا شاید مل ہی جائے
دیکھوں گی سب کتب پرانی، سلمیٰ رانی
ان لوگوں کی باتوں پر کب غور کیا ہے
میں نے اپنے دل کی مانی،سلمیٰ رانی
ساری عمر بھلا نہ پائے شاید وہ بھی
برکھا رت وہ شام سہانی، سلمیٰ رانی
میں نے اس کی ہر ایک بات کو سچا سمجھا
میں پگلی تھی میں دیوانی، سلمیٰ رانی
میں نے سب کچھ اس کو جانا اس کو پوجا
شاید تھی یہ بھی نادانی،سلمیٰ رانی
پیار کی اب میت کو اپنے سامنے پاکر
کرتی ہوں میں نوحہ خوانی سلمیٰ رانی
تنہا بیٹھ کے سوچتی ہوں تو رو پڑتی ہوں
خوب تھا بچپن خوب جوانی سلمیٰ رانی
میرے پیار کا قاتل اور مسیحا بھی وہ
وہ ہی دشمن وہ ہی جانی سلمیٰ رانی سلمیٰ رانی
اک سفر دھوپ سے ہے چھاؤں تک اک سفر دھوپ سے ہے چھاؤں تک
اپنا آنا تمہارے گاؤں تک
کٹ گئی رات تو چراغ یہاں
چل کے خود آگئے ہواؤں تک
عشق میں حال یہ ہوا اپنا
بات پہنچی ہے اب دعاؤں تک
اپنا بچپن گزر گیا سارا
گھر سے برگد تمہاری چھاؤں تک
عاجزی کو ن سوچتا ہے یہاں
سوچتے لوگ ہیں اناؤن تک
اب قفس ہی نصیب ہے اپنا
آئی زنجیر میرے پاؤں تک
آپ نے چھو لیا ملک اگرچہ
ہم تو پہنچے نہیں خلاؤں تک
کون روکے لہو کی ہولی کو
ہاتھ پہنچے ہیں اب رداؤں تک
اک پیکر تھا پیار کا سلمیٰ
شخص وہ سر سے لے کر پاؤں تک
سلمٰی رانی
اپنا آنا تمہارے گاؤں تک
کٹ گئی رات تو چراغ یہاں
چل کے خود آگئے ہواؤں تک
عشق میں حال یہ ہوا اپنا
بات پہنچی ہے اب دعاؤں تک
اپنا بچپن گزر گیا سارا
گھر سے برگد تمہاری چھاؤں تک
عاجزی کو ن سوچتا ہے یہاں
سوچتے لوگ ہیں اناؤن تک
اب قفس ہی نصیب ہے اپنا
آئی زنجیر میرے پاؤں تک
آپ نے چھو لیا ملک اگرچہ
ہم تو پہنچے نہیں خلاؤں تک
کون روکے لہو کی ہولی کو
ہاتھ پہنچے ہیں اب رداؤں تک
اک پیکر تھا پیار کا سلمیٰ
شخص وہ سر سے لے کر پاؤں تک
سلمٰی رانی
محبت میں ہے گہرائی مسلسل محبت میں ہے گہرائی مسلسل
نہ مانو تو ہے رسوائی مسلسل
یہ دل کب مانتا ہے بات میری
اسے ہر بات سمجھائی مسلسل
کسی جانب نہیں جاتی یہ آندھی
مرے گھر کی طرف آئی مسلسل
اسے شہرت ہے نادانی نے بخشی
مجھے کھاتی ہے دانائی مسلسل
چھپا تھا راز کیا اس بات میں جو
کسی نے بات بتلائی مسلسل
میرے اس گھر کے واحد آئینے نے
تری تصویر دکھلائی مسلسل
جنازہ جب اٹھا اپنا تو جاناں
بجی کو چے ہیں تنہائی مسلسل
وہ جس کے ساتھ سلمیٰ رونقیں تھیں
گیا ہے تو ہے تنہائی مسلسل
سلمٰی رانی
نہ مانو تو ہے رسوائی مسلسل
یہ دل کب مانتا ہے بات میری
اسے ہر بات سمجھائی مسلسل
کسی جانب نہیں جاتی یہ آندھی
مرے گھر کی طرف آئی مسلسل
اسے شہرت ہے نادانی نے بخشی
مجھے کھاتی ہے دانائی مسلسل
چھپا تھا راز کیا اس بات میں جو
کسی نے بات بتلائی مسلسل
میرے اس گھر کے واحد آئینے نے
تری تصویر دکھلائی مسلسل
جنازہ جب اٹھا اپنا تو جاناں
بجی کو چے ہیں تنہائی مسلسل
وہ جس کے ساتھ سلمیٰ رونقیں تھیں
گیا ہے تو ہے تنہائی مسلسل
سلمٰی رانی
اک کہانی سناتے رہے عمر بھر اک کہانی سناتے رہے عمر بھر
ریت کا گھر بناتے رہے عمر بھر
یہ الگ بات ہے روشنی نہ ہوئی
ہم دیے تو جلاتے رہے عمر بھر
دیر تک جاگنا دیر تک سوچنا
اپنا وعدہ نبھاتے رہے عمر بھر
اس نے آنے کا اک دن کہا تھا ہمیں
اس کے کوچے ہیں جاتے رہے عمر بھر
اپنے روتے ہوئے روز و شب کٹ گئے
اور وہ خوشیاں مناتے رہے عمر بھر
جانے والے نے مڑ کر نہ دیکھا کبھی
ہم کسی کو بلاتے رہے عمر بھر
اس کی یادو ں نے دامن نہ چھوڑا کبھی
خونِ دل ہم جلاتے رہے عمر بھر
وہ نہ آیا جسے دیکھنا تھا ہمیں
لوگ تو آتے جاتے رہے عمر بھر
وہ ہی خوشیوں کا دشمن تھا سلمیٰ یہاں
ہاتھ جس سے ملاتے رہے عمر بھر سلمٰی رانی
ریت کا گھر بناتے رہے عمر بھر
یہ الگ بات ہے روشنی نہ ہوئی
ہم دیے تو جلاتے رہے عمر بھر
دیر تک جاگنا دیر تک سوچنا
اپنا وعدہ نبھاتے رہے عمر بھر
اس نے آنے کا اک دن کہا تھا ہمیں
اس کے کوچے ہیں جاتے رہے عمر بھر
اپنے روتے ہوئے روز و شب کٹ گئے
اور وہ خوشیاں مناتے رہے عمر بھر
جانے والے نے مڑ کر نہ دیکھا کبھی
ہم کسی کو بلاتے رہے عمر بھر
اس کی یادو ں نے دامن نہ چھوڑا کبھی
خونِ دل ہم جلاتے رہے عمر بھر
وہ نہ آیا جسے دیکھنا تھا ہمیں
لوگ تو آتے جاتے رہے عمر بھر
وہ ہی خوشیوں کا دشمن تھا سلمیٰ یہاں
ہاتھ جس سے ملاتے رہے عمر بھر سلمٰی رانی
دن کو دیپ جلا رکھا ہے دن کو دیپ جلا رکھا ہے
یہ کیا حال بنا رکھا ہے
جانے والے کب لوٹے ہیں
ان آہوں میں کیا رکھا ہے
مجھ کو پل پل یاد ہے ماضی
تو نے دوست بھلا رکھا ہے
عشق تیری منطق بھی کیا ہے
درد کا نام دوا رکھا ہے
ہرجائی کے پیار میں ہم نے
دل کو روگ لگا رکھا ہے
اس کو کون وفا کہتا ہے
جس کا نام وفا رکھا ہے
آنکھوں کو خاموشی دی ہے
دل میں درد سوا رکھا ہے
ان ہاتھوں کو مت دیکھیں جی
خون کا نام خدا رکھا ہے
شاید لوٹ آئے وہ سلمیٰ
گھر کو آج سجا رکھا ہے سلمٰی رانی
یہ کیا حال بنا رکھا ہے
جانے والے کب لوٹے ہیں
ان آہوں میں کیا رکھا ہے
مجھ کو پل پل یاد ہے ماضی
تو نے دوست بھلا رکھا ہے
عشق تیری منطق بھی کیا ہے
درد کا نام دوا رکھا ہے
ہرجائی کے پیار میں ہم نے
دل کو روگ لگا رکھا ہے
اس کو کون وفا کہتا ہے
جس کا نام وفا رکھا ہے
آنکھوں کو خاموشی دی ہے
دل میں درد سوا رکھا ہے
ان ہاتھوں کو مت دیکھیں جی
خون کا نام خدا رکھا ہے
شاید لوٹ آئے وہ سلمیٰ
گھر کو آج سجا رکھا ہے سلمٰی رانی
میں سچی بات کرتی ہوں طرف داری نہیں کرتی میں سچی بات کرتی ہوں طرف داری نہیں کرتی
کسی سے پیار کی جھوٹی اداکاری نہیں کرتی
مجھے دھوکے پہ وہ دھوکہ دیے جاتا ہے ہر لمحہ
مگر کہتا ہے کہ میں اس سے وفاداری نہیں کرتی
میں مفہومِ محبت سے شاسا ہوں مرے محسن
محبت میں کسی صورت ریا کاری نہیں کرتی
میں نمٹاتی ہوں اپنے کام خود سارے سلیقے سے
کسی بھی کام میں لیکن میں ہشیاری نہیں کرتی
سدا آسانیاں تقسیم کرتی ہوں خدا جانے
کسی کے واسطے پیدا میں دشواری نہیں کرتی
تجھے معلوم کیا دکھ درد آنسو سسکیاں آئیں
ستم نا آشنا ہوں میں ستم کاری نہیں کرتی
سبھی ہی جانتے ہیں ایک سادہ لوسی لڑکی ہوں
میں سادہ بات کرتی ہوں میں ہشیاری نہیں کرتی
میں اک سردار زادی ہوں مگر ہوں مختلف تھوڑی
قبیلے پر کبھی سلمیٰ میں سرداری نہیں کرتی سلمٰی رانی
کسی سے پیار کی جھوٹی اداکاری نہیں کرتی
مجھے دھوکے پہ وہ دھوکہ دیے جاتا ہے ہر لمحہ
مگر کہتا ہے کہ میں اس سے وفاداری نہیں کرتی
میں مفہومِ محبت سے شاسا ہوں مرے محسن
محبت میں کسی صورت ریا کاری نہیں کرتی
میں نمٹاتی ہوں اپنے کام خود سارے سلیقے سے
کسی بھی کام میں لیکن میں ہشیاری نہیں کرتی
سدا آسانیاں تقسیم کرتی ہوں خدا جانے
کسی کے واسطے پیدا میں دشواری نہیں کرتی
تجھے معلوم کیا دکھ درد آنسو سسکیاں آئیں
ستم نا آشنا ہوں میں ستم کاری نہیں کرتی
سبھی ہی جانتے ہیں ایک سادہ لوسی لڑکی ہوں
میں سادہ بات کرتی ہوں میں ہشیاری نہیں کرتی
میں اک سردار زادی ہوں مگر ہوں مختلف تھوڑی
قبیلے پر کبھی سلمیٰ میں سرداری نہیں کرتی سلمٰی رانی
ڈھلی ہے شام تو شاید اداس ہے کوئی ڈھلی ہے شام توشاید اداس ہے کوئی
سمجھ رہا ہے مرے آس پاس ہے کوئی
یہاں پہ آگ اگلتی ہیں چمنیاں پگلے
سمجھ رہا ہے دھوئیں کو کپاس ہے کوئی
سنا ہے ہم ہیں کنارے چناب کے دونوں
تمہارے ملنے کی کیا پھر بھی آس ہے کوئی
حضور یہ بھی ضروری نہیں کہ پوری ہو
لبوں پہ اپنے اگر التماس ہے کوئی
تم آکے شہر خموشاں میں پھول ڈھونڈو گے
ہماری قبر پہ خستہ سی گھا س ہے کوئی
ہماری خشک نگاہی پہ کون تڑپا ہے
ہمارے گاؤں میں چہرہ شناس ہے کوئی
تمہاری پارو تو کب کی مری ہے جانتی ہوں
ہمارے من میں مگر دیوداس ہے کوئی
ملے ہو تم بھی گلی میں تو اتفاق ہے یہ
دل حذیں کو مسرت تو راس ہے کوئی
بغیر تیرے گزارے گی زندگی سلمیٰ
حضور آپ کا وہم و قیاس ہے کوئی
سلمٰی رانی
سمجھ رہا ہے مرے آس پاس ہے کوئی
یہاں پہ آگ اگلتی ہیں چمنیاں پگلے
سمجھ رہا ہے دھوئیں کو کپاس ہے کوئی
سنا ہے ہم ہیں کنارے چناب کے دونوں
تمہارے ملنے کی کیا پھر بھی آس ہے کوئی
حضور یہ بھی ضروری نہیں کہ پوری ہو
لبوں پہ اپنے اگر التماس ہے کوئی
تم آکے شہر خموشاں میں پھول ڈھونڈو گے
ہماری قبر پہ خستہ سی گھا س ہے کوئی
ہماری خشک نگاہی پہ کون تڑپا ہے
ہمارے گاؤں میں چہرہ شناس ہے کوئی
تمہاری پارو تو کب کی مری ہے جانتی ہوں
ہمارے من میں مگر دیوداس ہے کوئی
ملے ہو تم بھی گلی میں تو اتفاق ہے یہ
دل حذیں کو مسرت تو راس ہے کوئی
بغیر تیرے گزارے گی زندگی سلمیٰ
حضور آپ کا وہم و قیاس ہے کوئی
سلمٰی رانی
کئے پر اب پشیمانی کا مطلب کئے پر اب پشیمانی کا مطلب
مجھے دیکھا تو حیرانی کا مطلب
تمہارے واسطے میرے ستم گر
ہر اک خواہش ہی دیوانی کا مطلب
لبوں پر ہر گھڑی تھا جب تبسم
تو ان آنکھوں میں اب پانی کا مطلب
کہا کچے گھڑے پر تیرنا ہے
نصیحت میں یہ طغیانی کا مطلب
بہ لمحہ لمحہ تڑپانے کی کوشش
بہ لمحہ لمحہ نادانی کا مطلب
جدائی پر ہنسی پھوٹے لبوں سے
یہ ملنے پر پریشانی کا مطلب
بہاروں سے خفا ہیں لوگ یاں کے
ہے فصلِ گل میں ویرانی کا مطلب
یہ غربت زاد کیا بتلائیں گے ہاں
امیر شہر سلطانی کا مطلب
سبھی وعدے پسِ دیوار سلمیٰ
محبت میں یہ ارزانی کا مطلب
سلمٰی رانی
مجھے دیکھا تو حیرانی کا مطلب
تمہارے واسطے میرے ستم گر
ہر اک خواہش ہی دیوانی کا مطلب
لبوں پر ہر گھڑی تھا جب تبسم
تو ان آنکھوں میں اب پانی کا مطلب
کہا کچے گھڑے پر تیرنا ہے
نصیحت میں یہ طغیانی کا مطلب
بہ لمحہ لمحہ تڑپانے کی کوشش
بہ لمحہ لمحہ نادانی کا مطلب
جدائی پر ہنسی پھوٹے لبوں سے
یہ ملنے پر پریشانی کا مطلب
بہاروں سے خفا ہیں لوگ یاں کے
ہے فصلِ گل میں ویرانی کا مطلب
یہ غربت زاد کیا بتلائیں گے ہاں
امیر شہر سلطانی کا مطلب
سبھی وعدے پسِ دیوار سلمیٰ
محبت میں یہ ارزانی کا مطلب
سلمٰی رانی
دائروں در دائروں میں بٹ گئے دائروں در دائروں میں بٹ گئے
ہجر کے جب زاویوں میں بٹ گئے
نیند کی دیوی نے نظریں پھیرلیں
سارے لمحے رتجگوں میں بٹ گئے
روبروخاموش سے بیٹھے رہے
اس طرح کچھ فاصلوں میں بٹ گئے
اپنی آنکھوں میں بچا کچھ بھی نہیں
خوا ب سارے موسموں میں بٹ گئے
دو گھڑی میں راکھ تصویریں ہوئیں
اور خاکے حاشیوں میں بٹ گئے
جو یقین کے دیوتے تھے کس لیے
لمحہ بھر میں وسوسوں میں بٹ گئے
دوریاں بڑھنے لگیں تو پیار میں
دن مہینے ساعتوں میں بٹ گئے
اب تو سلمیٰ رہ گئیں یادیں فقط
دوست سارے دشمنوں میں بٹ گئے سلمٰی رانی
ہجر کے جب زاویوں میں بٹ گئے
نیند کی دیوی نے نظریں پھیرلیں
سارے لمحے رتجگوں میں بٹ گئے
روبروخاموش سے بیٹھے رہے
اس طرح کچھ فاصلوں میں بٹ گئے
اپنی آنکھوں میں بچا کچھ بھی نہیں
خوا ب سارے موسموں میں بٹ گئے
دو گھڑی میں راکھ تصویریں ہوئیں
اور خاکے حاشیوں میں بٹ گئے
جو یقین کے دیوتے تھے کس لیے
لمحہ بھر میں وسوسوں میں بٹ گئے
دوریاں بڑھنے لگیں تو پیار میں
دن مہینے ساعتوں میں بٹ گئے
اب تو سلمیٰ رہ گئیں یادیں فقط
دوست سارے دشمنوں میں بٹ گئے سلمٰی رانی
اول و آخرپیار ا تو اول و آخر پیارا تو
دکھ سکھ، درد مداوا تو
میرے ہاتھ کی ریکھائیں
ریکھاؤں میں لکھا تو
چیختی،چلاتی دنیا
ایک سکون کا لمحہ تو
تیرے لاکھ کروڑ پیا
او ر فقط بس میرا تو
چودہویں رات کا چندا میں
اور چندا کا ہالہ تو
میری زیست کا سرمایا
سوچا سوچا سوچا تو
چاروں سمت گلاب کھلے
جب بھی پیار سے بولا تو
سلمیٰ سے ناراضی کیا
میں ہاری اور جیتا تو
سلمٰی رانی
دکھ سکھ، درد مداوا تو
میرے ہاتھ کی ریکھائیں
ریکھاؤں میں لکھا تو
چیختی،چلاتی دنیا
ایک سکون کا لمحہ تو
تیرے لاکھ کروڑ پیا
او ر فقط بس میرا تو
چودہویں رات کا چندا میں
اور چندا کا ہالہ تو
میری زیست کا سرمایا
سوچا سوچا سوچا تو
چاروں سمت گلاب کھلے
جب بھی پیار سے بولا تو
سلمیٰ سے ناراضی کیا
میں ہاری اور جیتا تو
سلمٰی رانی
دن سے رات نکالی جائے دن سے رات نکالی جائے
بات سے بات نکالی جائے
آنکھوں میں پوشیدہ موتی
یہ سوغات نکالی جائے
قصہ جھوٹا ہے تو اس سے
میری ذات نکالی جائے
کچے گھڑے ہیں اس گاؤں سے
اب برسات نکالی جائے
بدنامی کے اس قصے سے
اپنی ذات نکالی جائے
رات کی تاریکی میں اک دن
اک بارات نکالی جائے
فن سے حرص کی ناگن جو ہے
وہ کم ذات نکالی جائے
کوئی جیتے سلمی رانی
کھیل سے مات نکالی جائے سلمٰی رانی
بات سے بات نکالی جائے
آنکھوں میں پوشیدہ موتی
یہ سوغات نکالی جائے
قصہ جھوٹا ہے تو اس سے
میری ذات نکالی جائے
کچے گھڑے ہیں اس گاؤں سے
اب برسات نکالی جائے
بدنامی کے اس قصے سے
اپنی ذات نکالی جائے
رات کی تاریکی میں اک دن
اک بارات نکالی جائے
فن سے حرص کی ناگن جو ہے
وہ کم ذات نکالی جائے
کوئی جیتے سلمی رانی
کھیل سے مات نکالی جائے سلمٰی رانی
اپنی چال بدل کر دیکھو اپنی چال بدل کر دیکھو
آج کی رات سنبھل کر دیکھو
دو قالب کا مطلب کیا ہے
اک قالب میں ڈھل کر دیکھو
بوڑھی رسمیں طو ر طریقے
سوچو اور بدل کر دیکھو
صدیوں لوگ نہ بھولیں جس کو
ایسا ایک عمل کر دیکھو
اک دن تنہا رہ جاؤ گی
ساتھ کسی کے چل کر دیکھو
پیار کا مطلب پھر جانو گے
ہجر کی رات میں جل کر دیکھو
رزق خدا دیتا ہے پیارے
کام تو تم ہر پل کر دیکھو
پیار سمجھ آئے گا تجھ کو
زیست کو مارو تھل کر دیکھو
اپنی ذات سے باہر سلمیٰ
اک دن آپ نکل کر دیکھو سلمٰی رانی
آج کی رات سنبھل کر دیکھو
دو قالب کا مطلب کیا ہے
اک قالب میں ڈھل کر دیکھو
بوڑھی رسمیں طو ر طریقے
سوچو اور بدل کر دیکھو
صدیوں لوگ نہ بھولیں جس کو
ایسا ایک عمل کر دیکھو
اک دن تنہا رہ جاؤ گی
ساتھ کسی کے چل کر دیکھو
پیار کا مطلب پھر جانو گے
ہجر کی رات میں جل کر دیکھو
رزق خدا دیتا ہے پیارے
کام تو تم ہر پل کر دیکھو
پیار سمجھ آئے گا تجھ کو
زیست کو مارو تھل کر دیکھو
اپنی ذات سے باہر سلمیٰ
اک دن آپ نکل کر دیکھو سلمٰی رانی
مری آنکھوں کی حیرانی نہ پوچھو مری آنکھوں کی حیرانی نہ پوچھو
محبت میں پریشانی نہ پوچھو
جو کم عمری میں اس سے ہو گئی ہے
مرے دل سے وہ نادانی نہ پوچھو
یہ حد ہے دشمنی کی کہہ رہا تھا
تڑپتی ہے تو پھر پانی نہ پوچھو
مجھے ہر گام پر اس نے ڈبویا
مرے اس دل کی من مانی نہ پو چھو
تمہار ے پیار میں میرے مسیحا
جو ہم نے دی ہے قربانی نہ پوچھو
بہت آزاد دل تھا بانکپن میں
گر دل کی ہے نگہبانی نہ پوچھو
سفیدی خون کی بتلا رہی ہے
یہاں رشتوں کی ارزانی نہ پوچھو
یہ دل گر سلطنت ہے تو مری جاں
ہے اس پہ کس کی سلطانی نہ پوچھو
نہ بھاگو روز و شب پیچھے اس کے
یہ دنیا تو ہے بس فانی نہ پوچھو
میں اپنا خود تعارف ہوں جہاں میں
کہیں سلمیٰ کہیں رانی نہ پوچھو سلمٰی رانی
محبت میں پریشانی نہ پوچھو
جو کم عمری میں اس سے ہو گئی ہے
مرے دل سے وہ نادانی نہ پوچھو
یہ حد ہے دشمنی کی کہہ رہا تھا
تڑپتی ہے تو پھر پانی نہ پوچھو
مجھے ہر گام پر اس نے ڈبویا
مرے اس دل کی من مانی نہ پو چھو
تمہار ے پیار میں میرے مسیحا
جو ہم نے دی ہے قربانی نہ پوچھو
بہت آزاد دل تھا بانکپن میں
گر دل کی ہے نگہبانی نہ پوچھو
سفیدی خون کی بتلا رہی ہے
یہاں رشتوں کی ارزانی نہ پوچھو
یہ دل گر سلطنت ہے تو مری جاں
ہے اس پہ کس کی سلطانی نہ پوچھو
نہ بھاگو روز و شب پیچھے اس کے
یہ دنیا تو ہے بس فانی نہ پوچھو
میں اپنا خود تعارف ہوں جہاں میں
کہیں سلمیٰ کہیں رانی نہ پوچھو سلمٰی رانی
جب بھی باتیں میری ہوں گی جب بھی باتیں میری ہوں گی
اس میں کچھ کچھ تیری ہوں گی
جگ والوں کو چھوڑو کیا ہے
باتیں اور بتیری ہو ں گی
کیسے آنکھوں میں کاٹو گے
راتیں گھپ اندھیری ہوں گی
لکھنے والوں نے اس جانب
ہجر کی گھڑیاں پھیری ہوں گی
اب لوگوں کے منہ میں باتیں
کچھ تیری کچھ میری ہوں گی
ہم جیسی ناری نے چھت پر
زلفیں آج بکھیری ہوں گی
کس نے قول نبھایا ہو گا
کس نے آنکھیں پھیری ہوں گی
خوشیوں کی کیا حالت ہو گی
جب حالات نے گھیری ہوں گی
تکلیفیں سب اک دن سلمیٰ
ثابت ریت کی ڈھیری ہوں گی
سلمٰی رانی
اس میں کچھ کچھ تیری ہوں گی
جگ والوں کو چھوڑو کیا ہے
باتیں اور بتیری ہو ں گی
کیسے آنکھوں میں کاٹو گے
راتیں گھپ اندھیری ہوں گی
لکھنے والوں نے اس جانب
ہجر کی گھڑیاں پھیری ہوں گی
اب لوگوں کے منہ میں باتیں
کچھ تیری کچھ میری ہوں گی
ہم جیسی ناری نے چھت پر
زلفیں آج بکھیری ہوں گی
کس نے قول نبھایا ہو گا
کس نے آنکھیں پھیری ہوں گی
خوشیوں کی کیا حالت ہو گی
جب حالات نے گھیری ہوں گی
تکلیفیں سب اک دن سلمیٰ
ثابت ریت کی ڈھیری ہوں گی
سلمٰی رانی
قصہ اور کہانی چھوڑو قصہ اور کہانی چھوڑو
باتیں دوست پرانی چھوڑو
تم کیسے ہو کچھ تو بتلاؤ
برکھا رت طغیانی چھوڑو
گزرے لمحوں سے کیا مطلب
کس نے کس کی مانی چھوڑو
عمر کی دیوی چینخ رہی تھی
اب تو یہ نادانی چھوڑو
کن آنکھوں میں شوخی ہے اب
کن آنکھوں میں پانی چھوڑو
چاندی سر سے جھانک رہی ہے
بچپن اور جوانی چھوڑو
تیری دنیا کی سچائی
ہم نے ہے پہچانی چھوڑو
سب کا ثانی مل جاتا ہے
کون ہے یاں لاثانی چھوڑو
کل وہ شخص ملا تو بولا
شہر نہ سلمیٰ رانی چھوڑو
سلمٰی رانی
باتیں دوست پرانی چھوڑو
تم کیسے ہو کچھ تو بتلاؤ
برکھا رت طغیانی چھوڑو
گزرے لمحوں سے کیا مطلب
کس نے کس کی مانی چھوڑو
عمر کی دیوی چینخ رہی تھی
اب تو یہ نادانی چھوڑو
کن آنکھوں میں شوخی ہے اب
کن آنکھوں میں پانی چھوڑو
چاندی سر سے جھانک رہی ہے
بچپن اور جوانی چھوڑو
تیری دنیا کی سچائی
ہم نے ہے پہچانی چھوڑو
سب کا ثانی مل جاتا ہے
کون ہے یاں لاثانی چھوڑو
کل وہ شخص ملا تو بولا
شہر نہ سلمیٰ رانی چھوڑو
سلمٰی رانی
زندگی کا گوشوارہ چھوڑئیے زندگی کا گوشوارہ چھوڑئیے
ہے خسارہ ہی خسارہ چھوڑئیے
چار سو گرداب ہی گرداب ہیں
دور ہے اب تو کنارا چھوڑئیے
کھیل تھا دونوں نے کھیلا ٹھیک ہے
کون جیتا کون ہارا چھوڑئیے
دکھ کا دیمک چاٹتا ہے ہر گھڑی
کچھ نہیں ہے دکھ کا چارا چھوڑئیے
آپ کا کیا چائیے اپنا یہاں
جس طرح ہو گا گزرا چھوڑئیے
عالمِ غربت میں تنہا رہ گئے
کون بنتا ہے سہارا چھوڑیے
آپ نے دیکھا نہیں تو کچھ نہیں
ہم نے کیا خود کو سنوارا چھوڑئیے
دشمنوں کا شائبہ بھی ہے غلط
ہر جگہ اپنوں نے مارا چھوڑئیے
دوریاں لکھی تھیں سلمیٰ اب قصور
کیا ہمار اکیا تمہارا چھوڑئیے
سلمیٰ رانی
ہے خسارہ ہی خسارہ چھوڑئیے
چار سو گرداب ہی گرداب ہیں
دور ہے اب تو کنارا چھوڑئیے
کھیل تھا دونوں نے کھیلا ٹھیک ہے
کون جیتا کون ہارا چھوڑئیے
دکھ کا دیمک چاٹتا ہے ہر گھڑی
کچھ نہیں ہے دکھ کا چارا چھوڑئیے
آپ کا کیا چائیے اپنا یہاں
جس طرح ہو گا گزرا چھوڑئیے
عالمِ غربت میں تنہا رہ گئے
کون بنتا ہے سہارا چھوڑیے
آپ نے دیکھا نہیں تو کچھ نہیں
ہم نے کیا خود کو سنوارا چھوڑئیے
دشمنوں کا شائبہ بھی ہے غلط
ہر جگہ اپنوں نے مارا چھوڑئیے
دوریاں لکھی تھیں سلمیٰ اب قصور
کیا ہمار اکیا تمہارا چھوڑئیے
سلمیٰ رانی