✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
Santosh Kumar Gomani
Search
Add Poetry
Poetries by Santosh Kumar Gomani
ہر روش مجھ میں تو وقت معین تک بستا رہا
ہر روش مجھ میں تو وقت معین تک بستا رہا
الجھنوں نے استقلال توڑدیا اور زمانہ ہنستا رہا
ان روپ بدلتے چہروں میں کسے مستقل مزاج سمجھوں
اعتبار تھا بھی ایک مہلک بیماری اور درد بڑہتا رہا
اپنی ہی آواز ہونٹوں پر لاکر گمراہ ہوگئے
بڑی بے بس رہی عرضی یہ جہاں کٹتا رہا
یہ دروغی دنیا پیار پر تہمت لگانے سے باز نہ آئی
سلوک تو ضبط سے باہر مگر دشوار وقت گذرتا رہا
بے لطفی ہے مگر اپنی فضیلت کو کیسے بے جان کریں
کچھ شجاعت رکھی اور کچھ خیالوں میں دل بہلتا رہا
یہ رعیت گیری صداقت سے بدخواہی رکھتی ہے سنتوشؔ
بدر ہوکے بھی ایک دیوانہ یوں محبت مانگتا رہا
Santosh Gomani
Copy
میں کس کی علامت ہوں جستجو سوال پوچھتی ہے
میں کس کی علامت ہوں جستجو سوال پوچھتی ہے
عجب ہے کہ تفتیش کبھی کبھی احوال پوچھتی ہے
اس ساحرہ کی تلخی میں کچھ ناسُور بن گئے
پھر سنگدلی بار بار وہی ملال پوچھتی ہے
کہو کہاں ہم شرف کی پھر حدیں روکلیں
یہ معزور سوچ تو تبادلے لازوال پوچھتی ہے
وہاں دروغ بندی کو جنت کا آسرا مل گیا
یہاں زندگی تو اپنا استقلال پوچھتی ہے
آج ہم ظرافت سے بھی رہا ہو چکے ہیں
ہر خوشی کی غنیمت یہی کمال پوچھتی ہے
میں ناتواں شخص کہاں جا سکتا ہوں سنتوشؔ
کہ مزاج دوراندیشی اب بھی خیال پوچھتی ہے
Santosh Gomani
Copy
تیرے حجاب میں قدرت کے سات پردے حائل ہیں
تیرے حجاب میں قدرت کے سات پردے حائل ہیں
ہر نین یہ مغلوب اور دل میں خوش اندام مائل ہیں
یوں تو مجھے اِن دیدوں کی بھی مفلسی رہی ہے
رہو اگر سود مند تو تیرے ہی در کے سائل ہیں
دنیائے رغبت کچھ بھی ہو لیکن شفقت بخش نہیں
جو ہاتھ دعاؤں لیئے اٹھے وہ بھی آج گھاءِل ہیں
بے حس کردیا ہے عاجزی نے اِنکسار کرتے کرتے
حیوانیت نے یوں محاصرے میں رکھا کہ یہ جاہل ہیں
مجھے تو سُر تال کی ہر ساکت نے بتایا کہ
سبھی ردم یہی تیری پاؤں کی پایل ہیں
رسم الفت میں بے باکی ہوئی تو رسوائی کے ساتھ
کبھی وہ انتہا بھی نہیں ملی جن کے ہم قائل ہیں
Santosh Gomani
Copy
جذب حسرتیں لبوں پہ کبھی تشنگی بھی آتی
جذب حسرتیں لبوں پہ کبھی تشنگی بھی آتی
اپنی جوش خواہشوں میں کوئی خفگی بھی آتی
کناروں کی تفریح سے کوئی تعمل سے گذر گیا
ملائم رنج زباں پہ کوئی تلخی بھی آتی
زخموں کے پیوند آج بھی گہرے ہیں مگر
خون میں بالخصوص کوئی سرخی بھی آتی
ہاں بھلادی انہوں نے ہر رمز کی تاریکیاں
کبھی یاد کرتے تو ہمیں ہچکی بھی آتی
کئی دنوں سے کچھ یوں مناسب نہیں لگتا
اِسی حال محرم میں کوئی عمدگی بھی آتی
خیالوں کی حد میں کتنی آوارگیاں پھیل گئی
کبھی قریب سے دیکھنے وہ زندگی بھی آتی
Santosh Gomani
Copy
چند روز کی تسکیں آخر ہمیں کہاں لے جائے گی
چند روز کی تسکیں آخر ہمیں کہاں لے جائے گی
بے خودی اور حالت غمگین ہمیں کہاں لے جائے گی
وہ کون ہے جو بہاروں کی تقاضہ ہی نہیں کرتا
ہر طرف یہ دنیا رنگین ہمیں کہاں لے جائے گی
یہاں ہر ایک کو ہے تجارت کی فوقیت حاصل
وفا کے بدلے جفا کی توہین ہمیں کہاں لے جائے گی
ہم مسافروں کو سفر سے عہد و پیمان ہے شاید
آزمائش اور یہ سِنِین ہمیں کہاں لے جائے گی
جاکے جس چوکھٹ پر سجدہ کیا تو حقارت ملی
ایسی کیفیت شرمگین ہمیں کہاں لے جائے گی
ہم پائداری کے شرط پر اطاعت کرنا جانتے ہیں مگر
پاؤں سے کھسکتی یہ زمین ہمیں کہاں لے جائے گی
Santosh Gomani
Copy
ہر طرف پھیل رہی ہیں ویرانیاں ذرا ٹھہرکے دیکھ
ہر طرف پھیل رہی ہیں ویرانیاں ذرا ٹھہر کے دیکھ
منظروں میں چھپ گئی کہانیاں ذرا ٹھہر کے دیکھ
ضبط تشنگی میں اب مزاحمت نہیں رہی مگر
تردید اعتراض ہیں خاموشیاں ذرا ٹھہر کے دیکھ
میں کئی وسعتوں سے کتراکے گذرتا آیا ہوں
اب جینے نہیں دیتی مہربانیاں ذرا ٹھہر کے دیکھ
عیاں تو حالتوں میں شدت ہی نہ تھی پھر
کیسے بڑہ گئی سرکشیاں ذرا ٹھہر کے دیکھ
دل کے کئی احاطے ابکہ سبزہ زار نہیں رہے
محبت ہار چکی یہ بازیاں ذرا ٹھہر کے دیکھ
تم لمحہ طبیعت کو کس طرح تولو گے سنتوشؔ
یہاں ہر پہلو کی اپنی اکائیاں ذرا ٹھہر کے دیکھ
Santosh Gomani
Copy
تم نے کیسے سوچ لیا کہ
تم نے کیسے سوچ لیا کہ
جو جوش ہوگئے
وہ خاموش ہوگئے
اب فکر اس بات کا ہے کہ
تیرے سرپرست کچھ ایسے نہیں ہیں
وہ تیری یاد کے پہلوسے کچھ
غم اُدھار لے گئے ہیں
جو تم سے پیار کر گئے ہیں
آج شب معقول روئے گی
لیکن کوئی کندھے پہ ہاتھ رکھ کر
بھی نہیں کہے گا کہ اے بے زر
خاموش ہوجاؤ
ہر مصنف تیری یاد تک روئے گا
مگر یہ تمہیں کون ہے جوسنائے گا
جو تو کبھی سبب پوچھنے جاتی
اور حال مطرب سنتی
تیری شفا سے ملنے تک
انہوں نے حق قدامت چھوڑدی
وہ عبث زندگی گذار رہے ہیں اور
تم سے پیار کر رہے ہیں
Santosh Gomani
Copy
قیاس کے رنج شفا بخش نہیں ہوتے
قیاس کے رنج شفا بخش نہیں ہوتے
تباہ خیالوں کے کوئی نقش نہیں ہوتے
نظر نظر سے مل کر ٹھہراؤ پالیتی ہے
آنکھوں میں چھپے کوئی قفس نہیں ہوتے
وہ تسکین کی ترازو جسے بھی مرتبہ دے
دل کے سبھی ٹھکانے مقدس نہیں ہوتے
جہاں درخشانی وہاں ہے توضیع اپنی
آئینے کے پاس دوسرے عکس نہیں ہوتے
حالاتوں کی دقت سے سمجھوتہ کرلیں گے
رفاقتوں کے قریب لوگ مفلس نہیں ہوتے
احساس تجویز کو کردار ملتا ہے سنتوشؔ
تقدیروں کے پیچھے کوئی شخص نہیں ہوتے
Santosh Gomani
Copy
کیا ملتا ہے ہمت کے پرزور عدم سے ہارکے
کیا ملتا ہے ہمت کے پرزور عدم سے ہار کے
ہم نے تو ہر خوشی حاصل کی ستم میں گذار کے
درصورت راستبازی ہر شخص کے پاس تو نہیں
خطا کرکے نکل جاتے ہیں یہ آدم مسکرا کے
سادگی میں یکساں رہوں، یہ عہد تو نہیں ہوا
دنیا ہم عصر نہیں رہتی اپنے ہی ماتم جتا کے
یہ حسرت تو جسم کی حدوں سے بھی بڑی
مانگو بھی صدق دلی کے حق تو الم اٹھا کے
ذیل مقدار سے چھوٹی ہیں منزلیں مگر!
تیرے پاس ہیں سب بازو اور قدم اُدھار کے
بہت عمدہ ہے زندگی کا فسانہ سنتوشؔ
لیکن کون لکھے یہ پست ہمتی قلم جھاڑ کے
Santosh Gomani
Copy
جب تک زندگی میں کوئی ستم نہ آئے گا
جب تک زندگی میں کوئی ستم نہ آئے گا
بنے گا ہر لمحہ ماضی اور عدم نہ آئے گا
بے مقصد بھی منزلوں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا
مڑتی جائیں گی راہیں قدم جہاں چاہے گا
میرے مقدر نے اختیار کیا گردش کا راستہ
مگر منزل کے ہر موڑ پہ چشم نہ آئے گا
آواز بھی چلتے ہیں کلا کی مرضی سے
بے ترغیب تاروں سے ردم نہ آئے گا
سہارا بھی دو تو گرتی خودی کو اپنی
حالاتوں سے مکر کر کبھی ہمدم نہ آئے گا
اب ہے زندگی جنت بنا سکتے ہو ورنہ
دوسرا ایسا بھی کوئی جنم کہاں آئے گا
Santosh Gomani
Copy
زندگی موت کی امانت ہے کوئی بخشش کا روپ نہیں
زندگی موت کی امانت ہے کوئی بخشش کا روپ نہیں
ہم خود سے رنج ہیں کسی کی کشش سے دھوپ نہیں
سہل کر چلو کہ سنجیدگی ہی آپ میں ٹھہر جائے
جس کے عمل مہانتا ہیں ان کو ضرور محبوب نہیں
ہم ہر خوشامدی کی اہل تکمیل مانتے ہی آئے ہیں
دلکشی نے بھی شکایت کی کہ یہ تمہارے اسلوب نہیں
حق دیرینہ کسی کی مانگ میں بھی تروید کرتے ہیں؟
تدبیر کی تصدیق ہوئی ہے کہیں یہ ستارہ غروب نہیں
میری فرہنگ طبیعت آپ کو محروم تو نہیں کرتی
پھر بھی یوں حقارت مزاج رہو یہ تو ضرور نہیں
میرا انتخاب، دلسوزی اور یہ خیالوں کی بلندیاں دیکھ
سب اپنے فہم کی تجویز ہے اس میں کوئی غرور نہیں
Santosh Gomani
Copy
درد مسکرانے کی کلا میں چبھہ رہہ گیا
درد مسکرانے کی کلا میں چبھہ رہہ گیا
زخم چاک ہوکے بھی ایک دھبہ رہہ گیا
کیا خبر تھی کہ کشش کرہت ہی بنے گی
اپنی امید پہ میں یوں بے وجہ رہہ گیا
وہ روز پوچھ بیٹھے کہ کتنا چاہتے ہو
میری چاہتوں میں تھوڑا شبہ رہہ گیا
اعتبار ٹوٹتے گئے اختیار تو تھا بھی نہیں
حیات پر ہر حیلا ایسے دبہ رہہ گیا
اپنی تنہائیوں کے قافلے دھکیل چکے تھے
دل نے پھر کروٹ لی کہ دلربہ رہہ گیا
ویسی نہیں دنیا جیسے ہم سوچتے ہیں اکثر
جس کی جہاں دل لگی وہ اس جگہ رہہ گیا
Santosh Gomani
Copy
خواہشوں کی تکمیل تک ہر چیز بے قدر ہو جاتی ہے
خواہشوں کی تکمیل تک ہر چیز بے قدر ہو جاتی ہے
بے فہمائش سے بھی کوئی گھڑی مقدر ہو جاتی ہے
کوشش ہے کہ زندگی کی کشتی کو تیراکے آگے چلیں
ہوتی ہے طوفاں کی مذمت تو یہ دربدر ہو جاتی ہے
جہاں پارسائی جائز ہو، وہاں ہم روا کیا کریں
یونہی پھر بت تراشی ہماری ہمسفر ہو جاتی ہے
حُسن پوشیدہ اگر تو دلفریبی نزاکت کا کیا کہیں
مگر یہ سامنے رہنے پر آنکھ کنکر ہو جاتی ہے
کبھی ادراک کی موصولی شہرت پرست نہیں ہوتی
یہ جائے حَس دیوانگی کوئی عضر ہو جاتی ہے
اب نازک خیالی میں آندہیوں سے غافل ہیں سنتوشؔ
درد انگیز چٹانوں میں ہر سوچ اگر مگر ہو جاتی ہے
Santosh Gomani
Copy
میرے خیال میں یہ کیسا خیال ہے
میرے خیال میں یہ کیسا خیال ہے
کہ کوئی پوچھے ابکہ کیا حال ہے
دل کی ترجیحات پہ گھٹاؤں سے نہ ملو
یہاں تو ہر زلف کا اپنا جال ہے
اپنا ماضی جھاڑ کر تو پت جھڑ پاؤ گے
آئیندہ کی امید پہ یہ حال بے حال ہے
جوڑ بنے وہاں جہاں دل نہیں ملتے
کوئی نہیں سوچتا کہ زندگی کا سوال ہے
ہم تو ہم ہی سے پریشاں بہت ہیں
مگر جیء رہے ہیں کیسی مجال ہے
جو ضروری لگے وہاں ہی رجوع کرو
بے مقصدی میں اکثر زندگی کا زوال ہے
Santosh Gomani
Copy
وہ پاکیزگی بیاں کرکے بھی اکتاتا نہیں
وہ پاکیزگی بیاں کرکے بھی اکتاتا نہیں
کس اَفراط میں تڑپ رہا ہے بتاتا نہیں
اگر شوق ہے تو، بے قراری بھی کم نہیں
مگر حماقت سے کسی کا دل دکھاتا نہیں
رسوم کے پیروی میں سب عکس دھندلے
یہ حقیقت کوئی بھی شاید جانتا نہیں
قصور یہ کہ آمیزش سے محروم ہیں
کتنا لاپرواہ ہے وقت کہ کٹتا نہیں
یا تقدیر کا چہلم ہم سے فراموش رہا!
یا وہ جادوگر کوئی قزاق جانتا نہیں
ہم نے اپنی سرحدوں میں پت جھڑ پائی
بہاروں کا تصور پھر سے آتا نہیں
Santosh Gomani
Copy
تیری خودی میں جب سے جلالت بس گئی ہے
تیری خودی میں جب سے جلالت بس گئی ہے
اپنے حال کی بھی کیسی حالت بس گئی ہے
تیرے دید پہ ہی گذر کرنے کے بعد
ہر روح میں تھوڑی علالت بس گئی ہے
چلو آج ارمان منصفی کا فیصلہ سنتے ہیں
کئی دنوں سے دل میں عدالت بس گئی ہے
کوئی سمجھ لیتا ہے طرز ادا عاشقی ورنہ
آنکھ کی آنکھ سے کوئی رسالت بس گئی ہے
میرے خیال اُس خیال سے کترا جاتے ہیں
اب ارادوں میں جیسے سلاست بس گئی ہے
کئی راتوں کے بیداری سے لگتا ہے کہ
مجھ میں سنتوشؔ کوئی ظرافت بس گئی ہے
Santosh Gomani
Copy
اُسی ہجر کے پاس یادیں کثیر ہوتی ہیں
اُسی ہجر کے پاس یادیں کثیر ہوتی ہیں
عارفوں کے ہاں تو حسرتیں بر صغیر ہوتی ہیں
تو اپنی صدا سے انہیں محو کیا کرے گا
قسمت کی لکیریں غیر متغیر ہوتی ہیں
اِن اجاڑ ویرانیوں سے دل نے بہلایا کر
یہ سنسان گلیاں تو بڑی دلگیر ہوتی ہیں
میں نے نگاہ سے نگاہ کو چراکر دیکھا ہے
کہیں آنکھوں کی حرکتیں بھی مُبِیر ہوتی ہیں
طبیعت کا جھکاؤ بھی حسب ضرورت نہ رہا
مگر ذوق ملن، کچھ رغبتیں امیر ہوتی ہیں
یہ دوریاں بھی کسے راس ہیں سنتوشؔ مگر
فرد کے ہاں اپنی مصروفیتیں زنجیر ہوتی ہیں
Santosh Gomani
Copy
کوئی الجھن میں کھوگیا کسے اظہار کی مانگ
کوئی الجھن میں کھوگیا کسے اظہار کی مانگ
اکثر نینوں میں بھٹکتی ہے خمار کی مانگ
وہ گرجکر صحراؤں سے رخ موڑ لیتا ہے
مفلسی ویرانیوں میں رہہ گئی بہار کی مانگ
سہارے بھی کہیں غیر مستقل سے لگتے ہیں
اور زندگی کو پڑگئی جیسے اُدھار کی مانگ
کئی چاہتوں کے محرم سرگردان گھمتے ہیں
مگر کہاں کہاں ہوتی ہے سُدھار کی مانگ
فرد کردار کو حالتیں بے ترتیب کرتی ہیں
کسی کو بھی نہ رہی یوں انتشار کے مانگ
عشق حقیقی کا گر زینہ ہے سنتوشؔ تو
مجھے اس سے بڑہ کر کس مجاز کی مانگ
Santosh Gomani
Copy
میری تقدیر کی ہر عروضی میں جان گیا تھا
میری تقدیر کی ہر عروضی میں جان گیا تھا
اپنے حال لیئے کیا ضروری میں جان گیا تھا
مزاج چہرے کے فسانے آئینہ دیکھ لیتا ہے
اُس مرطوب نین کی مخموری میں جان گیا تھا
جو جریدے بارگاہوں میں اُداس بیٹھے ہیں
انہوں کی بھی علالت حضوری میں جان گیا تھا
کہو تو اور بھید بھی سر شام آگاہ کردوں
کہ تیرے رُخ کی وہ سَرُوَری میں جان گیا تھا
پوُچھتے ہیں لوگ کہ تیری آشنائی کا کیا ہوا
رہہ گئی کہانی ادھوری کہ میں جان گیا تھا
اُس عداوت کو میں نے رہا کردیا سنتوشؔ
اور میری کیا تھی مجبوری میں جان گیا تھا
Santosh Gomani
Copy
ایسا تو کوئی فرد نہیں جو درد لئے ترس گیا
ایسا تو کوئی فرد نہیں جو درد لئے ترس گیا
ہاں مگر ہو سکتا ہے کوئی گرد لئے ترس گیا
دید کی کئی خوشامدیں جو مائلی سے گریز نہیں کرتی
حد میں رہا جو شخص وہ لاحد لئے ترس گیا
خیال اور خواہش کی تو بڑی پرواہ کی تھی
اس طرح بھی یہ خیال ضرب لئے ترس گیا
جو کبھی سند شاہی سے بڑی شہرت رکتھے تھے
وہی وقت فرمان آج آہ سرد لئے ترس گیا
یہاں محبتوں کے دامن بھی مقروض ہیں سارے
نین سے ملائے نین کوئی قرض لئے ترس گیا
ہماری خودغرضی تو نہ بھی سوچے سنتوشؔ مگر
جو جہاں ٹھہرا شخص، اپنے غرض لئے ترس گیا
Santosh Gomani
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets