Poetries by Shahmeer Mughal
رفتار تک پہنچنے میں پھول مہکار تک پہنچنے میں
مر گئے ہار تک پہنچنے میں
چارہ گر کتنے ہوگئے بیمار
تیرے بیمار تک پہنچنے میں
کٹ گئے ہاتھ میرے دشمن کے
میری دستار تک پہنچنے میں
شرم کا پیرہن اتار گئے
لوگ اخبار تک پہنچنے میں
خود سے ہم ہوگئے ہیں انکاری
تیرے اقرار تک پہنچنے میں
کتنے کردار تار تار ہوئے
ایک کردار تک پہنچنے میں
پارسائی ہے کس قدر بے تاب
مجھ گنہگار تک پہنچنے میں
ربط گھو بیٹھے سارے سیارے
تیری رفتار تک پہنچنے میں
شاہ میر ایک عمر ہے درکار
ذات کے غار تک پہنچنے میں
محمد شاہ میر مغل
مر گئے ہار تک پہنچنے میں
چارہ گر کتنے ہوگئے بیمار
تیرے بیمار تک پہنچنے میں
کٹ گئے ہاتھ میرے دشمن کے
میری دستار تک پہنچنے میں
شرم کا پیرہن اتار گئے
لوگ اخبار تک پہنچنے میں
خود سے ہم ہوگئے ہیں انکاری
تیرے اقرار تک پہنچنے میں
کتنے کردار تار تار ہوئے
ایک کردار تک پہنچنے میں
پارسائی ہے کس قدر بے تاب
مجھ گنہگار تک پہنچنے میں
ربط گھو بیٹھے سارے سیارے
تیری رفتار تک پہنچنے میں
شاہ میر ایک عمر ہے درکار
ذات کے غار تک پہنچنے میں
محمد شاہ میر مغل
کہانی جو میرے بارے میں مشہور اک کہانی ہے
وہی کہانی ترے ذہن سے مٹانی ہے
جو میرے بارے میں تم پوچھتے ہو ہر اک سے
یہ چھان بین نہیں ہے یہ بد گمانی ہے
ہے شامیانہ تنا میرے سر پہ شیشے کا
یہ دھوپ سے ہے تعاون کہ سائبانی ہے
کیا ہے راہِ محبت میں خاک خود کو بھی
ہماری طرح بھلا کس نے خاک چھانی ہے
اسی لیے تو چمک ہے بلا کی شعروں میں
سیاہ شب میں جو چادر غزل کی تانی ہے
سوال نامہ ہے کوئی یہ زندگی اپنی
اور اس پہ اپنی طبیعت بھی امتحانی ہے
میں شاہ میر مغل زاد ہوں اسی باعث
یہ شعر گوئی مرا شغل خاندانی ہے محمد شاہ میر مغل
وہی کہانی ترے ذہن سے مٹانی ہے
جو میرے بارے میں تم پوچھتے ہو ہر اک سے
یہ چھان بین نہیں ہے یہ بد گمانی ہے
ہے شامیانہ تنا میرے سر پہ شیشے کا
یہ دھوپ سے ہے تعاون کہ سائبانی ہے
کیا ہے راہِ محبت میں خاک خود کو بھی
ہماری طرح بھلا کس نے خاک چھانی ہے
اسی لیے تو چمک ہے بلا کی شعروں میں
سیاہ شب میں جو چادر غزل کی تانی ہے
سوال نامہ ہے کوئی یہ زندگی اپنی
اور اس پہ اپنی طبیعت بھی امتحانی ہے
میں شاہ میر مغل زاد ہوں اسی باعث
یہ شعر گوئی مرا شغل خاندانی ہے محمد شاہ میر مغل
دل سے نکال کر شکوے شکایتیں سبھی دل سے نکال کر
مجھ سے بھی گفتگو کبھی اے خوش مقال کر
مرنے کے بعد بھی تری ہوتی رہے گی دید
میں چھوڑے جا رہا ہوں یہ آنکھیں نکال کر
کر دائمی عطا مجھے غم ہو کہ یا خوشی
اتنی سی آرزو ہے مجھے لازوال کر
بجھنے کو ہے چراغِ غمِ دل ہوائے تند
ڈھلتی ہوئی حیات کا ہی کچھ خیال کر
زلفیں گرا تو چاند سے چہرے پہ اس طرح
دن رات کا ملاپ ہو ایسا کمال کر
یونہی نہیں ہوا ہے دھنک رنگ آسمان
آیا ہے دور وہ کہیں آنچل اچھال کر
اک بے وفا کے ہجر میں رونے کو شاہ میر
رکھے ہیں میں نے آنکھ میں آنسو سنبھال کر صاحبزادہ محمد شاہ میر مغل
مجھ سے بھی گفتگو کبھی اے خوش مقال کر
مرنے کے بعد بھی تری ہوتی رہے گی دید
میں چھوڑے جا رہا ہوں یہ آنکھیں نکال کر
کر دائمی عطا مجھے غم ہو کہ یا خوشی
اتنی سی آرزو ہے مجھے لازوال کر
بجھنے کو ہے چراغِ غمِ دل ہوائے تند
ڈھلتی ہوئی حیات کا ہی کچھ خیال کر
زلفیں گرا تو چاند سے چہرے پہ اس طرح
دن رات کا ملاپ ہو ایسا کمال کر
یونہی نہیں ہوا ہے دھنک رنگ آسمان
آیا ہے دور وہ کہیں آنچل اچھال کر
اک بے وفا کے ہجر میں رونے کو شاہ میر
رکھے ہیں میں نے آنکھ میں آنسو سنبھال کر صاحبزادہ محمد شاہ میر مغل
کانپیں ٹانگ جاتی ہیں وہ جب ناراض ہوتے ہیں تو "کانپیں ٹانگ" جاتی ہیں
کسی سے کچھ نہ کہتے ہیں تو "کانپیں ٹانگ" جاتی ہیں
وہ دز دیدہ نظر سے دیکھ کر مجھ کو سرِ محفل
کبھی جو مسکراتے ہیں تو "کانپیں ٹانگ" جاتی ہیں
مری موجودگی میں ہی مری اس جاں کے دشمن سے
جو ہنس کے بات کرتے ہیں تو "کانپیں ٹانگ" جاتی ہیں
ناراضی ان کی میں شاہ میر کر پاتا نہیں برداشت
وہ جب خاموش رہتے ہیں تو "کانپیں ٹانگ" جاتی ہیں محمد شاہ میر مغل
کسی سے کچھ نہ کہتے ہیں تو "کانپیں ٹانگ" جاتی ہیں
وہ دز دیدہ نظر سے دیکھ کر مجھ کو سرِ محفل
کبھی جو مسکراتے ہیں تو "کانپیں ٹانگ" جاتی ہیں
مری موجودگی میں ہی مری اس جاں کے دشمن سے
جو ہنس کے بات کرتے ہیں تو "کانپیں ٹانگ" جاتی ہیں
ناراضی ان کی میں شاہ میر کر پاتا نہیں برداشت
وہ جب خاموش رہتے ہیں تو "کانپیں ٹانگ" جاتی ہیں محمد شاہ میر مغل
نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم رفعتِ ذکرِ شاہِ زمن دیکھیے
نور سے ضوفشاں ہے چمن دیکھیے
سو گیا پڑھتے پڑھتے درود و سلام
اپنے بندے کی آقا لگن دیکھیے
بھیجئیے کچھ ہوا شہرِ طیبہ سے پھر
اس ہوا میں بہت ہے گھٹن دیکھیے
جب لیا نامِ احمد زباں سے تو پھر
جھٹ سے اتری مری سب تھکن دیکھیے
نعت پڑھنے لگا جب سے سرکار کی
مشک سے ہے معطر دَہن دیکھیے
کیجئے بس ادا نامِ مشکل کشا
پھر منافق کے منہ پر جلن دیکھیے
کر دیا زیر دشمن کو پل بھر میں ہی
زورِ بازوئے خیبر شکن دیکھیے
چشمِ سرکار کے ہی سبب شاہ میر
بن گیا ہے جی رشکِ چمن دیکھیے Shahmeer Mughal
نور سے ضوفشاں ہے چمن دیکھیے
سو گیا پڑھتے پڑھتے درود و سلام
اپنے بندے کی آقا لگن دیکھیے
بھیجئیے کچھ ہوا شہرِ طیبہ سے پھر
اس ہوا میں بہت ہے گھٹن دیکھیے
جب لیا نامِ احمد زباں سے تو پھر
جھٹ سے اتری مری سب تھکن دیکھیے
نعت پڑھنے لگا جب سے سرکار کی
مشک سے ہے معطر دَہن دیکھیے
کیجئے بس ادا نامِ مشکل کشا
پھر منافق کے منہ پر جلن دیکھیے
کر دیا زیر دشمن کو پل بھر میں ہی
زورِ بازوئے خیبر شکن دیکھیے
چشمِ سرکار کے ہی سبب شاہ میر
بن گیا ہے جی رشکِ چمن دیکھیے Shahmeer Mughal
یہ جو دل اقرار پر اقرار سا کرنے لگا ہے یہ جو دل اقرار پر اقرار سا کرنے لگا ہے
اب کسی اور سے بھی پیار سا کرنے لگا ہے
اب جو الزامِ محبت سے وہ ڈرتا ہی نہیں
اب محبت کو وہ شَہْکار سا کرنے لگا ہے
اپنی دل پھینک اداوں کے سبب دیکھو وہ
پارساوں کو گنہگار سا کرنے لگا ہے
اب چھپانے جو لگا ہے رُخِ زیبا شاہ میؔر
اب مری آنکھ کو بیکار سا کرنے لگا ہے شاہ میر مغل
اب کسی اور سے بھی پیار سا کرنے لگا ہے
اب جو الزامِ محبت سے وہ ڈرتا ہی نہیں
اب محبت کو وہ شَہْکار سا کرنے لگا ہے
اپنی دل پھینک اداوں کے سبب دیکھو وہ
پارساوں کو گنہگار سا کرنے لگا ہے
اب چھپانے جو لگا ہے رُخِ زیبا شاہ میؔر
اب مری آنکھ کو بیکار سا کرنے لگا ہے شاہ میر مغل
جو شہرِ دل میں یہ فِتنہ فساد باقی ہے جو شہرِ دل میں یہ فِتنہ فساد باقی ہے
یُوں لگ رہا ہے تری کوئی یاد باقی ہے
میں شاعروں میں سراہا گیا ہوں خوب مگر
تری طرف سے جو ملنی ہے داد باقی ہے
کہ شہرِ سخن میں آجاو تمہیں سنبھالنے کو
سخن وروں کی صفوں میں کُشاد باقی ہے
میں تیرے بعد ابھی تک اکیلا رہتا ہوں
خیال و وہم میں اب انفراد باقی ہے
ترے اُدھار کا کھاتہ تو بند پڑا ہے مگر
شہر کہ لوگوں پہ ترا اعتماد باقی ہے
وہ آنے والے ہیں بیٹھو ابھی تو محفل میں
دلوں کو تھام لو تقسیمِ اَسناد باقی ہے
طرح طرح کے سوالوں سے شیخ ہیں برہم
یہاں تو لوگوں میں اب بھی تضاد باقی ہے
جسم کے سارے ہی اعضاء پہ تیرا قبضہ ہے
فقط جسم میں مرے قلبِ شاد باقی ہے Shahmeer Mughal
یُوں لگ رہا ہے تری کوئی یاد باقی ہے
میں شاعروں میں سراہا گیا ہوں خوب مگر
تری طرف سے جو ملنی ہے داد باقی ہے
کہ شہرِ سخن میں آجاو تمہیں سنبھالنے کو
سخن وروں کی صفوں میں کُشاد باقی ہے
میں تیرے بعد ابھی تک اکیلا رہتا ہوں
خیال و وہم میں اب انفراد باقی ہے
ترے اُدھار کا کھاتہ تو بند پڑا ہے مگر
شہر کہ لوگوں پہ ترا اعتماد باقی ہے
وہ آنے والے ہیں بیٹھو ابھی تو محفل میں
دلوں کو تھام لو تقسیمِ اَسناد باقی ہے
طرح طرح کے سوالوں سے شیخ ہیں برہم
یہاں تو لوگوں میں اب بھی تضاد باقی ہے
جسم کے سارے ہی اعضاء پہ تیرا قبضہ ہے
فقط جسم میں مرے قلبِ شاد باقی ہے Shahmeer Mughal
ہے خام و خجل خستہ مقالی، مرے سائیں ہے خام و خجل خستہ مقالی، مرے سائیں
ممکن ہے کہاں مدحتِ عالی، مرے سائیں
امکان سے باہر ہی رہی مدح سرائی
تدبیر نے جو طرح بھی ڈالی، مرے سائیں
حاضر ہیں، بصد عجز، ترے شہرِ کرم میں
مَیں اور مرا دامنِ خالی، مرے سائیں
بہہ جاؤں کسی روز کسی سیلِ طلب میں
جا دیکھوں ترے روضے کی جالی، مرے سائیں
صد شکر تری نعت کے گُلزار کھِلے ہیں
بے برگ تھی افکار کی ڈالی، مرے سائیں
بے روک ترے جُود و عنایات کی بارش
بے مثل ترا فیضِ مثالی، مرے سائیں
گو جسم ابھی کوئے مشیّت میں پڑا ہے
یہ دل ہے ترے در کا سوالی، مرے سائیں
اِک نعت کی خیرات بصد لطف و عنایت
الطاف و عنایات کے والی، مرے سائیں
جاذب ہے ترا صیغۂ اجلالِ مجلّیٰ
دلکش ہے تری خُوئے جمالی، مرے سائیں
اب آمدِ تسکینِ دل و جاں کی خبر ہو
دل نے ہے بہت دُھوم مچا لی، مرے سائیں
شاہانِ زمن بھی ترے الطاف کے سائل
مقصود بھی ہے تیرا سوالی، مرے سائیں Shahmeer Mughal
ممکن ہے کہاں مدحتِ عالی، مرے سائیں
امکان سے باہر ہی رہی مدح سرائی
تدبیر نے جو طرح بھی ڈالی، مرے سائیں
حاضر ہیں، بصد عجز، ترے شہرِ کرم میں
مَیں اور مرا دامنِ خالی، مرے سائیں
بہہ جاؤں کسی روز کسی سیلِ طلب میں
جا دیکھوں ترے روضے کی جالی، مرے سائیں
صد شکر تری نعت کے گُلزار کھِلے ہیں
بے برگ تھی افکار کی ڈالی، مرے سائیں
بے روک ترے جُود و عنایات کی بارش
بے مثل ترا فیضِ مثالی، مرے سائیں
گو جسم ابھی کوئے مشیّت میں پڑا ہے
یہ دل ہے ترے در کا سوالی، مرے سائیں
اِک نعت کی خیرات بصد لطف و عنایت
الطاف و عنایات کے والی، مرے سائیں
جاذب ہے ترا صیغۂ اجلالِ مجلّیٰ
دلکش ہے تری خُوئے جمالی، مرے سائیں
اب آمدِ تسکینِ دل و جاں کی خبر ہو
دل نے ہے بہت دُھوم مچا لی، مرے سائیں
شاہانِ زمن بھی ترے الطاف کے سائل
مقصود بھی ہے تیرا سوالی، مرے سائیں Shahmeer Mughal
وہ جو دل کے قریب ہوتے ہیں وہ جو دل کے قریب ہوتے ہیں
لوگ وہ بھی عجیب ہوتے ہیں
پڑھنا لکھنا جو جانتے نہ ہوں
شہر میں وہ اَدیب ہوتے ہیں
ہر بیماری کے جو مُعالج ہوں
دِل کے کب وہ طبیب ہوتے ہیں
زندگی بَسر کرچکے ہم لوگ
آج کل بس غریب ہوتے ہیں
جن کی سنتے ہیں کارواں والے
قافلوں کے نقیب ہوتے ہیں
اہل دنیا کو جو مَیسر ہوں
کب ہمیں وہ نصیب ہوتے ہیں
فِتنہ پروَر جو دوست ہوں شاہ میر
وہ درحقیقت رقیب ہوتے ہیں Shahmeer Mughal
لوگ وہ بھی عجیب ہوتے ہیں
پڑھنا لکھنا جو جانتے نہ ہوں
شہر میں وہ اَدیب ہوتے ہیں
ہر بیماری کے جو مُعالج ہوں
دِل کے کب وہ طبیب ہوتے ہیں
زندگی بَسر کرچکے ہم لوگ
آج کل بس غریب ہوتے ہیں
جن کی سنتے ہیں کارواں والے
قافلوں کے نقیب ہوتے ہیں
اہل دنیا کو جو مَیسر ہوں
کب ہمیں وہ نصیب ہوتے ہیں
فِتنہ پروَر جو دوست ہوں شاہ میر
وہ درحقیقت رقیب ہوتے ہیں Shahmeer Mughal
منقبت امام حسین کتنا بلند مرتبہ پایا حسین نے
راہِ خدا میں گھر کو لٹایا حسین نے
کیسے بیاں ہو حضرتِ شبیر کا مقام
بے حد بلند مرتبہ پایا حسین نے
چھوڑی نا وقتِ نزع بھی شبیر نے نماز
سجدے میں رکھ کے سر کو کٹایا حسین نے
جاری تھی لبِ حسین پہ تلاوت قرآن کی
کلام خدا اس حال میں سنایا حسین نے
آلِ نبی کی شانِ تلاوت تو دیکھیے
نیزے کی نوک پہ قرآں سنایا حسین نے
کربل کی خاک پہ نثار جاوں میں بار بار
خونِ رسول اِس کو پلایا حسین نے
چہرے کا دیکھ کہ سکون ہوتا ہے یہ گماں
نانا کا وعدہ خوب نبھایا حسین نے
چھوڑا قلم یہ کہ کر شاہ میرؔ برملا
دین رسول پاک کو بچایا حسین نے Imam Hussain RA Poetry
راہِ خدا میں گھر کو لٹایا حسین نے
کیسے بیاں ہو حضرتِ شبیر کا مقام
بے حد بلند مرتبہ پایا حسین نے
چھوڑی نا وقتِ نزع بھی شبیر نے نماز
سجدے میں رکھ کے سر کو کٹایا حسین نے
جاری تھی لبِ حسین پہ تلاوت قرآن کی
کلام خدا اس حال میں سنایا حسین نے
آلِ نبی کی شانِ تلاوت تو دیکھیے
نیزے کی نوک پہ قرآں سنایا حسین نے
کربل کی خاک پہ نثار جاوں میں بار بار
خونِ رسول اِس کو پلایا حسین نے
چہرے کا دیکھ کہ سکون ہوتا ہے یہ گماں
نانا کا وعدہ خوب نبھایا حسین نے
چھوڑا قلم یہ کہ کر شاہ میرؔ برملا
دین رسول پاک کو بچایا حسین نے Imam Hussain RA Poetry
Hazrat Abu Bakr Siddique RA Poetry خلافت میں امامت میں جدا صدیق اکبر ہیں
امام الاتقیاء و اولیاء صدیق اکبر ہیں
مُصلہ جن کو خود آقا نے دے کہ کر دیا اعلاں
کہ دنیائے اِمامت میں جدا صدیق اکبر ہے
سلایا جِن کو خود آقا نے اپنے پاک پہلو میں
رتبے میں کچھ ایسے جدا صدیق اکبر ہیں
لُٹا کہ گھر کہا جس نے خدا کافی نبی کافی
قسم رب کی امام الاولیاء صدیق اکبر ہیں
علی ؓ کا دیکھنا چہرہ عبادت جنکی ہے لوگو
حبیب تاجدارِ ھل اتٰی صدیق اکبر ہیں
" ثانی اثنین اذھما فی الغار" کا فرمان بھی دیکھو
محب مصطفٰی عبد خدا صدیق اکبر ہیں
خدا نے خود جنھیں صدیق بولا ہے قرآں میں
صحابہ کے بنے وہ مقتداء صدیق اکبر ہیں
نبی کے ساتھ ہی ٹھہرے وہ غار ثور میں تنہا
بنے پھر یار غار مصطفٰی ﷺ صدیق اکبر ہیں
خدا شاہد غلامِ شاہِ نقشبند ہوں شاہ میر ؔ
ہمارے تو روحانی پیشوا صدیق اکبر ہیں Shahmeer Mughal
امام الاتقیاء و اولیاء صدیق اکبر ہیں
مُصلہ جن کو خود آقا نے دے کہ کر دیا اعلاں
کہ دنیائے اِمامت میں جدا صدیق اکبر ہے
سلایا جِن کو خود آقا نے اپنے پاک پہلو میں
رتبے میں کچھ ایسے جدا صدیق اکبر ہیں
لُٹا کہ گھر کہا جس نے خدا کافی نبی کافی
قسم رب کی امام الاولیاء صدیق اکبر ہیں
علی ؓ کا دیکھنا چہرہ عبادت جنکی ہے لوگو
حبیب تاجدارِ ھل اتٰی صدیق اکبر ہیں
" ثانی اثنین اذھما فی الغار" کا فرمان بھی دیکھو
محب مصطفٰی عبد خدا صدیق اکبر ہیں
خدا نے خود جنھیں صدیق بولا ہے قرآں میں
صحابہ کے بنے وہ مقتداء صدیق اکبر ہیں
نبی کے ساتھ ہی ٹھہرے وہ غار ثور میں تنہا
بنے پھر یار غار مصطفٰی ﷺ صدیق اکبر ہیں
خدا شاہد غلامِ شاہِ نقشبند ہوں شاہ میر ؔ
ہمارے تو روحانی پیشوا صدیق اکبر ہیں Shahmeer Mughal
Hazrat Ali Poetry in Urdu Text مشکِ تر سے معطر ہیں میرے مولا علی
تجلیات کا محور ہیں میرے مولا علی
کہا نبی نے اَنّتَّ اَخِّی ہے کس کے لیے
بنے جو نفسِ پیمبر ہیں میرے مولا علی
ہیں شہر علم محمد علی ہیں دروازہ
نبی کے علم کا مظہر ہیں میرے مولا علی
نبی کے سارے صحابہ میں دیکھ لو تم جو
بلند و بالا و بہتر ہیں میرے مولا علی
میں ڈگمگا نہیں سکتا کسی بھی میداں میں
کہ رہنما اور رہبر ہیں میرے مولا علی
بلا یا سورج واپس نبی نے جانب عصر
مہر و مہ سے منور ہیں میرے مولا علی
ولی و غوث قطب بھی مرید جن کے ہیں
وہ پیشوائے قلندر ہیں میرے مولا علی
وظیفہ شام و سحر کا ہے اپنا تو شاہ میر
ہیں میرے مولا علی بس ہیں میرے مولا علی Shahmeer Mughal
تجلیات کا محور ہیں میرے مولا علی
کہا نبی نے اَنّتَّ اَخِّی ہے کس کے لیے
بنے جو نفسِ پیمبر ہیں میرے مولا علی
ہیں شہر علم محمد علی ہیں دروازہ
نبی کے علم کا مظہر ہیں میرے مولا علی
نبی کے سارے صحابہ میں دیکھ لو تم جو
بلند و بالا و بہتر ہیں میرے مولا علی
میں ڈگمگا نہیں سکتا کسی بھی میداں میں
کہ رہنما اور رہبر ہیں میرے مولا علی
بلا یا سورج واپس نبی نے جانب عصر
مہر و مہ سے منور ہیں میرے مولا علی
ولی و غوث قطب بھی مرید جن کے ہیں
وہ پیشوائے قلندر ہیں میرے مولا علی
وظیفہ شام و سحر کا ہے اپنا تو شاہ میر
ہیں میرے مولا علی بس ہیں میرے مولا علی Shahmeer Mughal
Imam Hassan Shayari Urdu مِرا تو جان و جگر سب کا سب برائے حسن
ہزار جان بھی دے رب کروں فِدائے حسن
یہ آسماں کی بلندی سے بھی جو اونچا ہے
بُلند کتنا ہے دیکھو تو یہ لِوائے حسن
نبی کے دین کی خاطر کیا ہے سب قرباں
کہ زہر پی کے بھی دیکھو ہیں مسکرائے حسن
ہوائیں مہک اٹھی اور دل ہوا روشن
مِرے خیال کے گُلشن میں جب سَمائے حسن
گدائے بے سر و ساماں کو بھیک دیتے ہیں
جہان سارے کا سارا ہے بس گدائے حسن
عطاء کرے جو حکومت فقیر ِدر کو بھی
سخاوتوں کی بلندی پہ ہے سخائے حسن
سخی ہیں جتنے جہاں بھر کے ان کے نوکر ہیں
یہ کائناتِ سخاوت ہے زیرِ پائے حسن
کروں گا ذکر میں ہر دم علی کے بیٹے کا
عرش سے فرش تلک گونجے گی یہ نوائے حسن
مِرے نصیب میں شاہ میر ذکر ہے انکا
صُبح سے شام تَلک کرتا رہوں ثنائے حسن Shahmeer Mughal
ہزار جان بھی دے رب کروں فِدائے حسن
یہ آسماں کی بلندی سے بھی جو اونچا ہے
بُلند کتنا ہے دیکھو تو یہ لِوائے حسن
نبی کے دین کی خاطر کیا ہے سب قرباں
کہ زہر پی کے بھی دیکھو ہیں مسکرائے حسن
ہوائیں مہک اٹھی اور دل ہوا روشن
مِرے خیال کے گُلشن میں جب سَمائے حسن
گدائے بے سر و ساماں کو بھیک دیتے ہیں
جہان سارے کا سارا ہے بس گدائے حسن
عطاء کرے جو حکومت فقیر ِدر کو بھی
سخاوتوں کی بلندی پہ ہے سخائے حسن
سخی ہیں جتنے جہاں بھر کے ان کے نوکر ہیں
یہ کائناتِ سخاوت ہے زیرِ پائے حسن
کروں گا ذکر میں ہر دم علی کے بیٹے کا
عرش سے فرش تلک گونجے گی یہ نوائے حسن
مِرے نصیب میں شاہ میر ذکر ہے انکا
صُبح سے شام تَلک کرتا رہوں ثنائے حسن Shahmeer Mughal
جب سے اِس دِل میں تری یاد بَسائی ہے صنم جب سے اِس دِل میں تری یاد بَسائی ہے صنم
اپنی ہستی تو اِس ہستی سے مِٹائی ہے صنم
عید اگر نام ہے دیدارِ رُخِ مَحبوب کا تو
میں نے کب آج تَلک عید منائی ہے صنم
میں تو مشہور ہی مجنوں ہوں مگر تو لیلہ ہے
یہ خبر کس نے زمانے میں اُڑائی ہے صنم
اہلِ دُنیا نے لگایا یہ تماشہ مگر افسوس
آج اس بزم میں تو بھی تماشائی ہے صنم
میری پرواز کے اَفلاک فقط تیرے قدم
تیرے قدموں ہی تلک میری رسائی ہے صنم
میں نے تو آنکھ سے دیکھا ہی نہیں چہرہ شاہؔ میر
بس فقط آنکھ تری رَہ میں بچھائی ہے صنم Shahmeer Mughal
اپنی ہستی تو اِس ہستی سے مِٹائی ہے صنم
عید اگر نام ہے دیدارِ رُخِ مَحبوب کا تو
میں نے کب آج تَلک عید منائی ہے صنم
میں تو مشہور ہی مجنوں ہوں مگر تو لیلہ ہے
یہ خبر کس نے زمانے میں اُڑائی ہے صنم
اہلِ دُنیا نے لگایا یہ تماشہ مگر افسوس
آج اس بزم میں تو بھی تماشائی ہے صنم
میری پرواز کے اَفلاک فقط تیرے قدم
تیرے قدموں ہی تلک میری رسائی ہے صنم
میں نے تو آنکھ سے دیکھا ہی نہیں چہرہ شاہؔ میر
بس فقط آنکھ تری رَہ میں بچھائی ہے صنم Shahmeer Mughal
حالتِ عشق ایسی ہے جیسے کوئی بیمار ہو حالتِ عشق ایسی ہے جیسے کوئی بیمار ہو
پتھروں کے گھر میں کوئی کانچ کی دیوار ہو
چہرہ اس کا کیا ہی کہنا چاند سے بڑھ کے حسیں
جیسے وہ ظُلمت کدے میں نُور کا مینار ہو
اے مِرے رَشکِ قَمر دِل نشین و دلفریب
کُچھ درد کا کُچھ عِشق کا اور پیار کا اظہار ہو
محوْ ہیں آرائشِ گیسو میں وہ کچھ اس طرح
زُلف انکی ایسے ہے جیسے کوئی شَہکار ہو
حسرتِ دیدار ہے کُچھ اس طرح شاہ میر کو
ریت کے صحراوں میں جیسے کوئی گلزار ہو Shahmeer Mughal
پتھروں کے گھر میں کوئی کانچ کی دیوار ہو
چہرہ اس کا کیا ہی کہنا چاند سے بڑھ کے حسیں
جیسے وہ ظُلمت کدے میں نُور کا مینار ہو
اے مِرے رَشکِ قَمر دِل نشین و دلفریب
کُچھ درد کا کُچھ عِشق کا اور پیار کا اظہار ہو
محوْ ہیں آرائشِ گیسو میں وہ کچھ اس طرح
زُلف انکی ایسے ہے جیسے کوئی شَہکار ہو
حسرتِ دیدار ہے کُچھ اس طرح شاہ میر کو
ریت کے صحراوں میں جیسے کوئی گلزار ہو Shahmeer Mughal
نقش آنکھوں سے چہرے کا لگائے ہوئے ہیں نقش آنکھوں سے چہرے کا لگائے ہوئے ہیں
کوئے دل میں تیری یاد بسائے ہوئے ہیں
ذرا مسکراو لَبھوں کو ہلاو
ہم نظریں تُم ہی پر جَمائے ہوئے ہیں
اے ساقی! ہمیں تو پِلا جام الفت
وہ مے خانے میں تیرے آج آئے ہوئے ہیں
مہک آرہی ہے بہت پیاری پیاری
وہ زلفوں کو اپنی سجائے ہوئے ہیں
خبر ہے زمانے کی نہ ہے کوئی پرواہ
ہم تم پہ ہی سب کچھ لٹائے ہوئے ہیں
تیری یاد سے خالی نہ رہا لمحہ کوئی
تنہا بھی آنسو بہائے ہوئے ہیں
صَنم تُم ہِی جھوُٹے پڑو گے سرِحشر
ہم اپنا تو وعدہ نبھائے ہوئے ہیں
تیری خُوش نَصیبی پہ قُربان شاہ میؔر
وہ محفل میں تشریف لائے ہوئے ہیں Shahmeer Mughal
کوئے دل میں تیری یاد بسائے ہوئے ہیں
ذرا مسکراو لَبھوں کو ہلاو
ہم نظریں تُم ہی پر جَمائے ہوئے ہیں
اے ساقی! ہمیں تو پِلا جام الفت
وہ مے خانے میں تیرے آج آئے ہوئے ہیں
مہک آرہی ہے بہت پیاری پیاری
وہ زلفوں کو اپنی سجائے ہوئے ہیں
خبر ہے زمانے کی نہ ہے کوئی پرواہ
ہم تم پہ ہی سب کچھ لٹائے ہوئے ہیں
تیری یاد سے خالی نہ رہا لمحہ کوئی
تنہا بھی آنسو بہائے ہوئے ہیں
صَنم تُم ہِی جھوُٹے پڑو گے سرِحشر
ہم اپنا تو وعدہ نبھائے ہوئے ہیں
تیری خُوش نَصیبی پہ قُربان شاہ میؔر
وہ محفل میں تشریف لائے ہوئے ہیں Shahmeer Mughal
عشق فقط عشق اب پھر انجامِ محبت سے کیوں ڈریے صاحب
عِشق کرنا ہے تو پھر عِشق ہی کریے صاحب
اُنکی بَستی سے نِکل کر بھی تو مَرنا ہے ہمیں
اُنکی بستی میں ہی پھر کیوں نہ مریے صاحب
عشق کرتے ہیں کوئی غلط کام نہیں
تمہیں اعلان بھی کرنا ہے تو کریے صاحب
یہ سنا ہے کہ بڑے چارہ ساز ہیں آپ
دو زخم دل کے ہمارے بھی تو بھریے صاحب
پہنچ کر کوچہ محبوب میں ہی ہم دم لیں گے
تمہیں آرام اگر کرنا ہے تو کریے صاحب
ہے محبت کے بغیر ناکام سا جینا شاہ میرؔ
عشق فقط عشق فقط عشق ہی کریے صاحب Shahmeer Mughal
عِشق کرنا ہے تو پھر عِشق ہی کریے صاحب
اُنکی بَستی سے نِکل کر بھی تو مَرنا ہے ہمیں
اُنکی بستی میں ہی پھر کیوں نہ مریے صاحب
عشق کرتے ہیں کوئی غلط کام نہیں
تمہیں اعلان بھی کرنا ہے تو کریے صاحب
یہ سنا ہے کہ بڑے چارہ ساز ہیں آپ
دو زخم دل کے ہمارے بھی تو بھریے صاحب
پہنچ کر کوچہ محبوب میں ہی ہم دم لیں گے
تمہیں آرام اگر کرنا ہے تو کریے صاحب
ہے محبت کے بغیر ناکام سا جینا شاہ میرؔ
عشق فقط عشق فقط عشق ہی کریے صاحب Shahmeer Mughal
ہجر یار ہجر میں تیرے شب بھر نہیں سویا جاتا
دے وصل میرے یار کہ اب نہیں رویا جاتا
کرنا پڑتا ہے جدائی میں بہت صدمہ برداشت
یونہی آنسووں سے تو چہرہ نہیں دھویا جاتا
کبھی آکر میرے دکھ کا بھی مداوا کردے
اس طرح رات بھر مجھ سے نہیں رویا جاتا
جن کو مانگا ہو دعاؤں میں خدا سے رو کر شاہ میر
ایسے رشتوں کو تو پل بھر میں نہیں کھویا جاتا Shahmeer Mughal
دے وصل میرے یار کہ اب نہیں رویا جاتا
کرنا پڑتا ہے جدائی میں بہت صدمہ برداشت
یونہی آنسووں سے تو چہرہ نہیں دھویا جاتا
کبھی آکر میرے دکھ کا بھی مداوا کردے
اس طرح رات بھر مجھ سے نہیں رویا جاتا
جن کو مانگا ہو دعاؤں میں خدا سے رو کر شاہ میر
ایسے رشتوں کو تو پل بھر میں نہیں کھویا جاتا Shahmeer Mughal