✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
Sidra Subhan
Search
Add Poetry
Poetries by Sidra Subhan
میرے جہاں میں تیری کمی ہے!
گئے دنوں کا ملال لے کر
تمھاری چاہت کی سرحدوں سے
بہت ہی آگے نکل چکی ہوں
تمہیں خبر ہے
یہاں کی دنیا بہت حسیں ہے
ہر ایک جانب سے روشنی ہے
ہر اک جاں ہے وفا کا پیکر
ہر اک پہلو میں زندگی ہے
ہر اک منظر میں لاکھوں چہرے
ہر اک چہرے پہ تازگی ہے
ہر اک دل میں چھپے خزینے
وفا ہے، چاہت ہے، چاشنی ہے.
بڑے سلیقے کی زندگی ہے
میں اتنی خوش ہوں
کہ اپنے ہاتھوں کی سب لکیروں کو چومتی ہوں،
حسین رنگوں سے بنتے محلوں کے ہرتصورمیں جھومتی ہوں
مگر یہ کیا کہ
میری روح کے ہر بام و در پر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
عجب سی الجھن ہے، بے کلی ہے
ہر اک ڈھرکن میں خامشی ہے
جو میرے کانوں میں کہہ رہی ہے
جو تو نہیں ہے تو کچھ نہیں ہے
میرے جہاں میں تیری کمی ہے
میرے جہاں میں تیری کمی ہے
Sidra Subhan
Copy
سیال شوق میں ہے باغیانہ تنہائی
سیال شوق میں ہے باغیانہ تنہائی
زوال رت میں ہر اک تازیانہ تنہائی
ندائے طورکی ہر بازگشت سنتی ہے
حرا کی گود میں ہے صوفیانہ تنہائی
قبائے حرف و سخن ساتھ لیے پھرتی ہے
ردائے درد اوڑھے شاعرانہ تنہائی
نقوش سطوت ماضی تراش لائی ہے
جلال عشق میں ہے حاکمانہ تنہائی
اداس موسموں کیساتھ رقص کرتے ہوئے
خمار وصل میں ہے والہانہ تنہائی
ہجوم گردش یاراں کو بھی خبر نہ ہوئی
فصیل جاں میں رہی جارحانہ تنہائی
نگار خانہ دل میں دھمال ہے اسکی
جو دیکھتا ہے میری غائبانہ تنہائی
Sidra Subhan
Copy
کبھی ظلمتوں میں سفر کیا کبھی روشنی میں ٹھہر گئے
کبھی ظلمتوں میں سفر کیا کبھی روشنی میں ٹھہر گئے
غم دوست تری تلاش میں کبھی جی اٹھے کبھی مر گئے
اے ہجوم شہر مسافراں، تجھے کیا خبر میری داستاں
کہ جو لوگ میرے قدم چلے وہ مثال گرد سفر گئے
وہ جو لوگ میرے قریب تھے انہیں فاصلوں نے بدل دیا
جنہیں دوریوں کا گمان تھا میری چشم خوش میں اتر گئے
کبھی یوں ہوا ترے درد نے مجھے دشت جاں سے نجات دی
کبھی یوں ہوا کہ تیرے کرم مجھے ملنے آئے تو ڈر گئے
کبھی دیکھنا میرے ہمسفر جو دھنک ہماری نظر میں ہے
یہ تمہارے نام کے خواب تھے جو برنگ خواب سحر گئے
غم زندگی، غم بندگی تجھے کیا خبر غم خواجگی
جنہیں دست ناز پہ ناز تھا وہی پروری سے مکر گئے
تیرے حوصلے کی زمین پر ابھی کٹ رہی ہے نشاط غم
دل بےخبر ترے شوق میں مرے ہاتھ زخموں سے بھر گئے
انہیں کوئی مشت یقین دے جو اتر کہ زینہ شام سے
جو رکے تو صبح امید پر جو چلے تو جاں سے گزر گئے
Sidra Subhan
Copy
بارش کی خاموشی میں پکاروں کا ازدحام
بارش کی خاموشی میں پکاروں کا ازدحام
جیسے ہو اندھیرے میں نظاروں کا ازدحام
لمبی اداس رات میں یادوں کی.....ریل پیل
آنکھوں میں جلتے بجھتے نگاروں کا ازدحام
اس شہر لا مکاں کا عجب المیہ ہے دوست
ہر اک مکاں میں قید....سہاروں کا ازدحام
یوں تو تلاش یار میں منزل کی کھوج عبث
ہر موڑ پر مگر ہے......اشاروں کا ازدحام
پرچھائیوں میں انکی میری ذات کھو گئی
بے فائدہ ہے زیست میں یاروں کا ازدحام
وہ طائر نغمہ سرا ہے میرے چمن میں
اسکی ہنسی میں قید بہاروں کا ازدحام
تو ماورائے شوق ہے وہ ماورائے درد
سدرہ تیری طلب میں ستاروں کا ازدحام
Sidra Subhan
Copy
مانا کہ زندگی میں میرے غم نہیں کوئی
مانا کہ زندگی میں میرے غم نہیں کوئی
یہ زندگی بھی غم سے مگر کم نہیں کوئی
چاہت کا اک ہجوم سا رہتا ہے آس پاس
اس بھیڑ کے سینے میں مگر دم نہیں کوئی
وہ جگنوؤں میں دیس میں ہے مثل ماہتاب
پر روشنی میں اسکے بھی ردھم نہیں کوئی
تحفے میں ملا رب سے سمندر کی طرح دل
لہروں کو دیا اسکے مگر خم نہیں کوئی
محفل بھی پر وقار ہے، ساقی بھی آشنا
جام و سبو میں لذت صنم نہیں کوئی
جینے کی آرزو ہے تو مرنے کا شوق بھی
آزار بھی یاروں میرے پیہم نہیں کوئی
گھبرا گیا تھا دل ذرا شب کے غبار سے
ورنہ سحر سے رنجش و الم نہیں کوئی
Sidra Subhan
Copy
میری زندگی ہے گویا کسی صبح کا ستارہ
میری زندگی ہے گویا کسی صبح کا ستارہ
کبھی ظلمتوں سےجیتا کبھی روشنی سے ہارا
کبھی دشت جنوں لے کر پھرتا ہے مارا مارا
کبھی خضر بن کے دیتا ہے منزل کا استعارہ
میرا شوق میری محنت، میری منزلیں مقدر
مجھے فخر ہے کہ میں نے کبھی حوصلہ نہ ہارا
مجھے چاہ کے سفر میں کئی راہزن ملے ہیں
میں ہزار لٹ گئی پر نہ کیں نفرتیں گوارہ
میرا سوز جاوداں ہے اور ساز دائمی سا
میرا نغمہ سن سکے گا کوئی ڈوبتا کنارہ
میرے ہمنوا چلانا کوئی چال نہ ہی سازش
تیری اک نگاہ نفرت میری عمر کا خسارہ
کوئی واسطہ کسی سے نہ طلب بچی ہے سدرہ
غم دوست ہو گیا ہے مجھے زندگی سے پیارا
Sidra Subhan
Copy
ہجر کی زد میں ستاروں کو کبھی دیکھا ہے
ہجر کی زد میں ستاروں کو کبھی دیکھا ہے
زندگی! دشت کے ماروں کو کبھی دیکھا ہے
لوگ موسم کی طرح آتے چلے جاتے ہیں
آنکھ میں قید نظاروں کو کبھی دیکھا ہے
انکی مٹھی میں دعاٶوں کے سوا کچھ بھی نہیں
اجڑے ویران مزاروں کو کبھی دیکھا ہے
کسطرح ٹوٹ کہ پت جڑ سے گلے ملتے ہیں
نٸے موسم کی بہاروں کو کبھی دیکھا ہے
یار مخلص ہوں تو خوشیوں کی ہوا چلتی ہے
مرے اشکوں کی قطاروں کو کبھی دیکھا ہے
انکا شکوہ ہے کہ صدیق نہیں ملتے یہاں
تم نے اس شہر میں غاروں کو کبھی دیکھا ہے
آج پھر روزن ِزنداں میں کوٸی چاپ نہیں
ایسی خاموش پکاروں کو کبھی دیکھا ہے
شب دیجور کے ماتھے پہ سحر پھوٹے گی
سدرہ قدرت کے اشاروں کو کبھی دیکھا ہے
Sidra Subhan
Copy
عجیب مَنظَر ہے دِل کی چوکھٹ پہ منزلیں نارسأ ملی ہیں
عجیب مَنظَر ہے دِل کی چوکھٹ پہ منزلیں نارسأ ملی ہیں
یقیں کے منبر پہ, تیری آنکھیں, مگر بدست ِ دعا ملی ہیں
وہ ایک لَمحہ کہ جِس مِیں مَیں نے مُراد مانگی تھی زندگی کی
تمہاری سانسوں کی ساری کَڑیاں اُس ایک لمحے سے آ ملی ہیں
میں مُنتَظِر ہوں کہ میری آنکھوں پہ تیرے چَہرے کا نُور اترے
تیرے تَخَیُّلٗ میں ڈُوبی کِرنیں دیار ِ مشرِق سے جا ملی ہیں
میں سَبز موسم پہن کے نکلی تھی زِندگی سے نِباہٗ کرنے
تیری وفاٸیں ، گُلال بن کر ، مجھے بَرَنگ ِ جزا ملی ہیں
کوٸی تو شَبنم کا ہار لے کر ، وفا کے صِحرا میں چَل پڑا ہے
بھٹَکتِی پیاسی ہَوا کے آنچل میں خُوشبُوٸیں بے پناہ ملی ہیں
میں مُطمٸن ہوں کہ خَواہشوں نے تمہاری دَھڑکن سنبھال لی ہے
تمہارے لہجے کی شَوخِیوں سے میری اُمنگیں بَجَا ملی ہیں
کوٸی تو لَوح و قَلم سے آگے میرے جَواز ِ سخن کو سمجھے
نگار ِ ہستی کی ساری خوشیاں کسی غزل کی گدا ملی ہیں
ہماری بستی میں شام اُتری تو یاد آیا ہے مجھ کو سِدرہ
نجوم ِشب کو, شمار کرتیں، تمام نیندیں، سزا ملی ہیں!
Sidra Subhan
Copy
اپنے تکیے پہ میرا چاند اُدھاری رکھ لو
اپنے تکیے پہ میرا چاند اُدھاری رکھ لو
زندگی آج یہ خوابوں کی پِٹاری رکھ لو
رات کیا؟ سُرمئی ڈَھیری سے بَہا پانی ہے
جام بھر بھر کے پیو درد شُماری رکھ لو
منزل ِشوق کے رستے سبھی پُر پَیچ مگر
ساتھ اپنے کسی جذبے کی سواری رکھ لو
لب معذور ہیں ہنستے ہوئے جَل اٹھتے ہیں
دل ِخوش فہم! کوئی اور مَداری رکھ لو
شام ڈَھلتے ہی ستاروں کی فُغاں ہوتی ہے
اپنے آنگن میں مری صبح کی خواری رکھ لو
اے میرے روح ِعصر! میرے اَمر ہونے تک
قریہ ِجاں میں رہو! دل کی اِجاری رکھ لو!
نیند آئی ہے مگر رات سے نسبت نہ رہی
مرے لہجے میں کسی دن کی خماری رکھ لو
Sidra Subhan
Copy
بجھے ستاروں کی کہکشاٶں میں بیٹھ جاٶں
بجھے ستاروں کی کہکشاٶں میں بیٹھ جاٶں
زمیں سے اُٹھ کر کہیں خلاٶں میں بیٹھ جاٶں
تمہارے لہجے کی نرم مصری زباں پہ رکھ کر
میں تلخیوں سے بھری ہواٶں میں بیٹھ جاٶں
ميں سرخ موسم كے زرد چہرے کا درد اوڑھے
تمہارى آنكهوں كى سبز چهاٶں ميں بيٹھ جاٶں
اجاڑ بستی میں بے بسی کا دھواں بھرا ہے
میں سانس لینے کو ناخداٶں میں بیٹھ جاٶں
دیار ِدل میں, نشاط ِغم کی, فصل کھڑی ہے
میں اسکو کاٹوں یا نارساٶں میں بیٹھ جاٶں
اٹھا کے پھینکوں گماں میں لپٹی پکار سدرہ!
یقین لے کر، تیری دعاٶں میں بیٹھ جاٶں
Sidra Subhan
Copy
غموں کا حظ اُٹھایا ہے خوشی کا جام باندھا ہے
غموں کا حظ اُٹھایا ہے خوشی کا جام باندھا ہے
تلاش ِ درد سے منزل کا ہر ایک گام باندھا ہے
طواف ِ آرزو ممکن نہیں اب غیر کی ہمدم!
میرے جذبوں نے تیرے نام کا اِحرام باندھا ہے
کہیں پَر شُوخ جملوں نے سکوں چھینا ہے لوگوں کا
کہیں خاموش چیخوں نے کوٸی کُہرام باندھا ہے
گُماں کے وَسط میں، اِمکان ہونے سے ذرا پہلے
وفا کے زاٸِچے میں عشق کا انجام باندھا ہے
وہ لمحہ، جسکے سینے پر اداسی راکھ ملتی ہے
اسی کی روشنی سے وقت نے الہام باندھا ہے
تری فطرت میں یہ صحرا بدوشی یوں نہیں سدرہ!
تیری وحشت سے قدرت نے کوٸی انعام باندھا ہے!
Sidra Subhan
Copy
دشت جنوں میں درد کے درمان سو گئے
دشت جنوں میں درد کے درمان سو گئے
اتنا جگے کہ ، زیست کے امکان سو گئے
چنتے رہے تھے رات بھر مژگاں سے غم کے پھول
صبح ہوئی تو آنکھ میں ہجران سو گئے
ایسا نہیں کہ ہم کو محبت نہیں ہوئی
لیکن تھی وہ گھڑی کہ جب ارمان سو گئے
کس درجہ رائیگاں ہے میرے شوق کا سفر
منزل جگی تو قدموں کے نشان سو گئے
کچھ تم نے بھی پلائی ہمیں ہوش کی شراب
کچھ ہم بھی تھک گئےسو میری جان، سو گئے
خوابوں میں جاگتے ہیں میرے آج بھی وہ لوگ
جو کر کے مجھ پہ, نیند کو قربان, سو گئے
Sidra Subhan
Copy
ہوا میں رہتے ہوئے واسطے زمین سے رکھ
ہوا میں رہتے ہوئے واسطے زمین سے رکھ
مکان بیچ کے بھی ضابطے مکین سے رکھ
ہر اک مقام پہ رک کر گماں سے کیا لینا
یہ راہ شوق ہے یاں رابطے یقین سے رکھ
بڑے نصیب سے ملتی ہے یار کی چھوکٹ
تمہیں ملی ہے تو نہ فاصلے جبین سے رکھ
نگار خانہء دل میں سجا کے دیکھ اسے
نگاہ ناز کے سب سلسلے اس حسین سے رکھ
نوائے شام کی اس بے بسی کو جینے دے
جنوں کے مرحلے سارے دل حزین سے رکھ
sidra subhan
Copy
بندگی میں تیری میں اس قدر دھلتا گیا
بندگی میں تیری میں اس قدر دھلتا گیا
نفرتوں کا زہر میری چشم تر تک آ گیا
اس قدر رویا کہ سارا درد خالی ہو گیا
اس قدر کھویا کہ آخرکار تجھکو پا گیا
یہ مقام شکر ہے یا آزمائش کی گھڑی
منزلوں کے پاس آ کر راستوں کو بھا گیا
قربتوں سے لڑ جھگڑ کر اک بحرہجر میں
میں تمہارا نام لے کر دور تک بہتا گیا
زندگی تجھ سے فقط یہ شکایت ہے کہ میں
اس قدر ناداں نہ تھاجس قدر سمجھا گیا
اسکی چاہت پر مجھے بھی ناز آخر کیوں نہ ہو
آبروئے عشق میں جو مجھ سے دور ہوتا گیا
جو میرا زاد سفر تھے وہ رہے ہیں ہمسفر
وہ سفر کی دھول تھا بن کہ ہوا اڑتا گیا
sidra subhan
Copy
ہوش کے صحرا میں آنکھوں کا سمندر رکھ دیا
ہوش کے صحرا میں آنکھوں کا سمندر رکھ دیا
میں نے خود کو، تم بنا کر، تیرے اندر رکھ دیا
زہر میں بھیگی ہوئی لو سے محبت ہو گئی
جسم کو تحلیل کر کے ایک کھنڈر رکھ دیا
کیسے نہ جھکتی میرے آگے بلائے شام غم
اپنی پیشانی پہ میں نے تیرا مندر رکھ دیا
ہاتھ ملتے رہ گئے مجھکو گرانے والے جب
آسماں نے، تخت پر، میرا مقدر رکھ دیا
ناصحان شہر نے جذبوں کی حرمت چھین کر
حسن کو کلغی لگا لی، نام چندر رکھ دیا
اب کبھی ہو گی نہ میری نارسائی شام سے
میں نے جلتے دن کا دھواں اپنے اندر رکھ دیا
sidra subhan
Copy
لوگ میری حالت کو شعر مان لیتے ہیں!
بے کلی کے موسم میں
جب کسی بھی برگد سے
راز کہہ نہیں پاتی
ان ضعیف لمحوں میں
سوزِ جاں سے گھبرا کر
الٹی سیدھی سوچوں کو
ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے
آڑھی ترچی سطروں میں
آگے پیچھے کر کر کے
خود سے باتیں کرتی ہوں
آگہی کی بھٹی میں
ہوش کی سلاخوں پر
بے بسی کی شدت کو
الجھنوں کے ایندھن پر
وجد میں لٹا کر میں
زہر یاس چھڑکا کر
درد پھونک دیتی ہوں
پھر بہت تسلی سے
دیدہ و دل وا کر کے
حوصلے کی کھڑکی سے
اس عجیب منظر کو
دیکھ کر تڑپتی ہوں
آگہی کے شعلوں میں
درد رقص کرتا ہے
جلتے بجھتے انگارے
دل کے نہاں خانوں سے
یادوں کے خزانوں کو
کھینچ کر جلاتے ہیں
اور پگھلتا مائع جب
خون میں اترتا ہے
تو طنابِ ہستی کا
ہر ستون گر گر کر
شور کرتا جاتا ہے
جسکی سخت دھاڑوں سے
دل کے کان پھٹتے ہیں
مایوسی کا دھواں بھی
حوصلوں کے دھانے پر
دستکیں بجاتا ہے
ایسے کسی لمحے میں
ضبط ٹوٹ جاتا ہے
غم کا سیاہ لاوہ جب
ذات کو تباہ کرکے
آہ سے نباہ کر کے
آنکھ سے نکلتا ہے
تب ہی شعر بنتا ہے
اور لوگ کہتے ہیں
شعر کتنا اچھا ہے
تم بھی اچھی شاعر ہو!
تب میں سوچتی ہوں کہ
ایسا کیا کیا میں نے
جس سے شعر بن پایا
بے سبب اداسی کو
کیوں یہ شعر کہتے ہیں
ورنہ سچ تو یہ ہے کہ
کیمیا گری میں جب
دن کو رام کرتی ہوں
ادب کی تڑپ میں پھر
اپنی شام کرتی ہوں
کرب کو آہنگ دے کر
ہر زخم کو رنگ دے کر
سر سے سر ملاتی ہوں
ہر لفظ کے ماتھے پر
زندگی کے جھومر سے
روشنی جگاتی ہوں
مجھکو تو فقط اپنے
درد سے عقیدت ہے
سوچنے کی عادت ہے
تب ہی شاید ایسا ہے
درد آہ بن کر جب
میری جان لیتے ہیں
لوگ میری حالت کو
شعر مان لیتے ہیں
sidra subhan
Copy
ایسا نہیں کہ لوٹ کر جانا بھی نہیں ہے
ایسا نہیں کہ لوٹ کر جانا بھی نہیں ہے
پر دشت مزاجوں کا ٹھکانا بھی نہیں ہے
وہ دشمن جاں ہے تو تقابل ہے ضروری
نیت میں مگر اسکو گرانا بھی نہیں ہے
نشتر کیطرح روح میں چبھتا تو ہے لیکن
وہ درد ہے ایسا کہ گنوانا بھی نہیں ہے
ایسی بھی کیا جہد کہ رہیں در بدر سدا
ایسا سکوں ہی کیا جو لٹانا بھی نہیں ہے
یہ سچ ہے کہ کچھ یاد بھی رکھنا نہیں ہمکو
فطرت میں مگر اپنی بھلانا بھی نہیں ہے
اے میری محبت میں چمکتے ہوئے دن سن
مجھکو شب ظلمت نے بجھانا بھی نہیں ہے
یہ کیسے تمہیں پھر سے یقیں آگیا سدرہ
تازہ ہے ابھی زخم، پرانا بھی نہیں ہے
sidra subhan
Copy
پتھر مزاج آنکھ سے جاتا رہا ہے نم
پتھر مزاج آنکھ سے جاتا رہا ہے نم
روتی سسکتی رات کا غم کیا کرینگے ہم
آشفتگان شہر! کہیں دور جا بسیں
شام الم کی پیٹھ سےکچھ بوجھ تو ہو کم
لگتا ہے زندگی سے نباہ کر لیا کہ اب
لب پہ کوئی گلہ ہے نہ دل میں کوئی بھرم
بے سدھ پڑا ہے تب سے، حرارت نہیں رہی
منزل کے اک فریب سے نکلا تھا جا کہ دم
کیاشان سے کھڑے ہو، بہت خوب مگر دوست
وہ لوگ کیا ہوئے جو تجھے دے رہے تھے خم؟
sidra subhan
Copy
محبتوں میں کہاں ہم نے سروری کی ہے،
محبتوں میں کہاں ہم نے سروری کی ہے
تمہارے درد کے ٹکڑوں پہ زندگی کی ہے
کہیں امید کے جگنو ہیں نہ یادوں کے چراغ
دیار دل کے ہر کوچے میں تیرگی کی ہے
وفا کے مرحلوں میں عقل ے بے بہرہ ہیں
ہر اک مقام پہ فقط دل کی پیروی کی ہے
یہ تیرے نام کی ڈھرکن، جو اب نہیں بجتی
تمہاری موت نہیں، ہم نے خودکشی کی ہے
جگر کا خون پلایا ہے ہم نے لفظوں کو
دمکتے اشکوں کی کرنوں سے شاعری کی ہے
اندھیری رات میں بھٹکیں گے تب قدر ہو گی
وہ جن کی زندگی میں ہم نے روشنی کی ہے
sidra subhan
Copy
میں چاہتوں کی غزل تراشوں کہ نفرتوں کا حساب لکھوں،
میں چاہتوں کی غزل تراشوں کہ نفرتوں کا حساب لکھوں،
تمہی بتاؤ میں کس طرح سے یہ زندگی کی کتاب لکھوں.
رفاقتیں تو جواں ہیں لیکن، وفا کے بالوں میں چاندنی ہے،
کہاں گلابوں کے پھول رکھوں،کہاں پہ قسمت خراب لکھوں.
سنا ہے ہر سو برف پڑی ہے، ہوا میں لیکن درشتگی ہے،
میں خنک موسم کا ذکر چھیڑوں یا سرد لہجوں کہ باب لکھوں
تمہارے جانے سے زندگی کی تمام خوشیاں بلک رہی ہیں،
میں کیسے بوجہ مسکراوں اورکس حقیققت کو خواب لکھوں
معاملہ انتساب کا تھا وہ حل ہوا ہے تو سوچتی ہوں،
ترے سوالوں پہ سر جھکا کر کوئی مناسب جواب لکھوں
sidra subhan
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets