Poetries by سید مجتبی داودی
دسترس میں نہ ہوں حالات تو پھر کیا کیجئے دسترس میں نہ ہوں حالات تو پھر کیا کیجئے
وقت دکھلائے کرشمات تو پھر کیا کیجئے
صاحِبِ وقت ہیں جو ان کی طبیعت چاہے
ظلم کو کہہ دیں مکافات تو پھر کیا کیجئے
ہم نے رو لیں ہیں گہر اشک ندامت کے بہت
ہوں نہ منظور یہ سوغات تو پھر کیا کیجیے
ہم نے برتا ہے رویوں کو عبادت کی طرح
جرم بن جائے مناجات تو پھر کیا کیجئے
تیرگئ غم ہستی کا تسلسل ٹوٹے
چلیے یہ کٹ بھی گئی رات تو پھر کیا کیجئے
زندہ رہنے کے لیے شرط تحمل ٹھہری
اس پہ قائل نہ ہوئی ذات تو پھر کیا کیجئے
زیست کے لمحوں رکھا ہے سجا کر شاعر نے
مانگ لے کوئی حسابات تو پھر کیا کیجئے
سید مجتبیٰ داودی
وقت دکھلائے کرشمات تو پھر کیا کیجئے
صاحِبِ وقت ہیں جو ان کی طبیعت چاہے
ظلم کو کہہ دیں مکافات تو پھر کیا کیجئے
ہم نے رو لیں ہیں گہر اشک ندامت کے بہت
ہوں نہ منظور یہ سوغات تو پھر کیا کیجیے
ہم نے برتا ہے رویوں کو عبادت کی طرح
جرم بن جائے مناجات تو پھر کیا کیجئے
تیرگئ غم ہستی کا تسلسل ٹوٹے
چلیے یہ کٹ بھی گئی رات تو پھر کیا کیجئے
زندہ رہنے کے لیے شرط تحمل ٹھہری
اس پہ قائل نہ ہوئی ذات تو پھر کیا کیجئے
زیست کے لمحوں رکھا ہے سجا کر شاعر نے
مانگ لے کوئی حسابات تو پھر کیا کیجئے
سید مجتبیٰ داودی
یکجا تھے سارے فہم و فراست میں پست عوام یکجا تھے سارے فہم و فراست میں پست عوام
قبلہ بنے ہوئے تھے قبیلہ پرست عوام
لگتا تھا چھو گیا تھا اُنھیں جنونیت کا جن
اِس طرح اپنے آپ میں رہتے تھے مست عوام
کیا خوب ہر طرف ہے ترقّی کی دھوم دھام
کشکول تھامے ملک ہے کاسہ بدست عوام
سر پر ہے سائباں کی طرح دھوپ کا شجر
آرام کر رہے ہیں ابھی فاقہ مست عوام
یوں ہی رہیں گے حرص و ہوَس کے اگر اسیر
کھائیں گے اپنے آپ سے یوں ہی شکست عوام
سید مجتبیٰ داودی
قبلہ بنے ہوئے تھے قبیلہ پرست عوام
لگتا تھا چھو گیا تھا اُنھیں جنونیت کا جن
اِس طرح اپنے آپ میں رہتے تھے مست عوام
کیا خوب ہر طرف ہے ترقّی کی دھوم دھام
کشکول تھامے ملک ہے کاسہ بدست عوام
سر پر ہے سائباں کی طرح دھوپ کا شجر
آرام کر رہے ہیں ابھی فاقہ مست عوام
یوں ہی رہیں گے حرص و ہوَس کے اگر اسیر
کھائیں گے اپنے آپ سے یوں ہی شکست عوام
سید مجتبیٰ داودی
آگہی گمرہی ضروری ہے آگہی گمرہی ضروری ہے
یہ کبھی وہ کبھی ضروری ہے
چاندنی کا سراغ پانے کو
دھوپ سے دوستی ضروری ہے
خودسروں کو بھی راہ پر لائے
ایسی کچھ بندگی ضروری ہے
ظلمتِ شب بھی مانگتی ہے دعا
میرے گھر روشنی ضروری ہے
رہبری کو ہو اعتبار نصیب
اس لئے رہبری ضروری ہے
منزلیں اس طرح نہیں ملتیں
کچھ تو دیوانگی ضروری ہے
دل سے مجبور ہوں میں اے شاعر
اس لئے شاعری ضروری ہے
سید مجتبیٰ داودی
یہ کبھی وہ کبھی ضروری ہے
چاندنی کا سراغ پانے کو
دھوپ سے دوستی ضروری ہے
خودسروں کو بھی راہ پر لائے
ایسی کچھ بندگی ضروری ہے
ظلمتِ شب بھی مانگتی ہے دعا
میرے گھر روشنی ضروری ہے
رہبری کو ہو اعتبار نصیب
اس لئے رہبری ضروری ہے
منزلیں اس طرح نہیں ملتیں
کچھ تو دیوانگی ضروری ہے
دل سے مجبور ہوں میں اے شاعر
اس لئے شاعری ضروری ہے
سید مجتبیٰ داودی
کون کیا کہتا ہے اُس پر دھیان رکھ کون کیا کہتا ہے اُس پر دھیان رکھ
رات کی سرگوشیوں پر کان رکھ
چاہے دل میں درد کا طوفان ہو
اپنے چہرے پر مگر مسکان رکھ
جو کسی صورت نہ پورا ہوسکے
اپنے دل میں ایسا مت ارمان رکھ
لکھ دیا جو کاتبِ تقدیر نے
تجھ کو حاصل ہوگا اطمینان رکھ
سر اٹھاکر تجھ کو جینا ہے اگر
مت کسی کا اپنے سر احسان رکھ
لوگ تجھ کو دور سے پہچان لیں
شاعرؔ اپنی منفرد پہچان رکھ
سید مجتبیٰ داودی
رات کی سرگوشیوں پر کان رکھ
چاہے دل میں درد کا طوفان ہو
اپنے چہرے پر مگر مسکان رکھ
جو کسی صورت نہ پورا ہوسکے
اپنے دل میں ایسا مت ارمان رکھ
لکھ دیا جو کاتبِ تقدیر نے
تجھ کو حاصل ہوگا اطمینان رکھ
سر اٹھاکر تجھ کو جینا ہے اگر
مت کسی کا اپنے سر احسان رکھ
لوگ تجھ کو دور سے پہچان لیں
شاعرؔ اپنی منفرد پہچان رکھ
سید مجتبیٰ داودی
اس رنگ اور بوئے گلشن کا افسانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
اس رنگ اور بوئے گلشن کا افسانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
ان تھکے تھکے موسموں کو دیوانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
احباب کا دکھ اغیار کا غم اپنوں کا گلہ دشمن کے ستم
بے کیف و سرور اس دنیا کو آشیانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
ہیں دل و جگر ہی دشمن جاں پر دل و جگر تو اپنے ہیں
جب اپنے ہیں تو اپنوں کو بیگانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
کیا جذب و فنا کی منزل ہے کیا نشونما کا حاصل ہے
اک باب نصیحت لکھنا ہے ہر دانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
دو گھونٹ یہاں پینے کے لیئے دو سانس یہاں جینے کے لئیے
لمحات وصولا کرتے ہیں نذرانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
ہر خواہش کی سو خواہش ہیں سو خواہش کی سو علت بھی
بھرتا ہی نہیں کبھی چاہت کا پیمانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
جذبات سے کچھ الفت کی تھی لمحے بھر کی غفلت کی تھی
تا عمر دیا ہے اے شاعر ہرجانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
سید مجتبیٰ داودی
اس رنگ اور بوئے گلشن کا افسانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
ان تھکے تھکے موسموں کو دیوانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
احباب کا دکھ اغیار کا غم اپنوں کا گلہ دشمن کے ستم
بے کیف و سرور اس دنیا کو آشیانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
ہیں دل و جگر ہی دشمن جاں پر دل و جگر تو اپنے ہیں
جب اپنے ہیں تو اپنوں کو بیگانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
کیا جذب و فنا کی منزل ہے کیا نشونما کا حاصل ہے
اک باب نصیحت لکھنا ہے ہر دانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
دو گھونٹ یہاں پینے کے لیئے دو سانس یہاں جینے کے لئیے
لمحات وصولا کرتے ہیں نذرانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
ہر خواہش کی سو خواہش ہیں سو خواہش کی سو علت بھی
بھرتا ہی نہیں کبھی چاہت کا پیمانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
جذبات سے کچھ الفت کی تھی لمحے بھر کی غفلت کی تھی
تا عمر دیا ہے اے شاعر ہرجانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
سید مجتبیٰ داودی
اس دیس کو تم گہوارہ امن بنا دو اس دیس کو تم گہوارہ امن بنا دو
قائد کے اصولوں کو تم آئین بنا دو
ایوانوں کے تم سب در و دیوار ہلا دو
انصاف بس انصاف کا تم نعرہ لگا دو
انصاف کے قاتل کو کٹہرے میں سزا دو
منصف ہوں اگر ایسے تو منصب سے ہٹا دو
جس نے تمہیں لوٹا وہی اب تخت نشیں ہے
اٹھو نو جوانو تم یہ تخت ہلا دو
یہ سانپ جو بیٹھے ہیں خزانوں پہ تمہارے
وہ بین بجاؤ کے انہیں دھرتی سے بھگا دو
چاہیں ہیں جو ہم امن و اماں سے یہاں رہنا
مرضی ہے عدو کی انہیں آپس میں لڑا دو
بچوں کو سیاست کی ابجد بھی سکھا دو
حق گوئی کا بھی یہ سبق ان کو پڑھا دو
زرخیز زمیں ہے اسے فصلوں سے سجا دو
گوداموں میں گندم کے تم انبار لگا دو
پہنو کوئی پوشاک تو ہو دیس کی اپنے
غیروں سے خریدی ہوئی ہر چیز ہٹا دو
ملا کے لیے قتل تو واجب ہے سبھی کا
اس ملک سے جنگل کا یہ دستور ہٹا دو
ملا کو ذرا باندھ کے رکھ کوئی دن کو
قرآن کے بس درس سے انسان بنا دو
رکھ تو غرض اپنی عبادات سے ہی بس
کیا فرقہ کسی کا ہے یہ اب دل سے بھلا دو
پھر کوئی نہ دیکھے ہم کو ترچھی نظر سے
گروی ہے وطن تم اسے دشمن سے چھڑا دو
میدان سیاست کے اے مانے ہوے مہرو
تم ہار کے اک دن یہ وطن اپنا جتا دو
سید مجتبیٰ داودی
قائد کے اصولوں کو تم آئین بنا دو
ایوانوں کے تم سب در و دیوار ہلا دو
انصاف بس انصاف کا تم نعرہ لگا دو
انصاف کے قاتل کو کٹہرے میں سزا دو
منصف ہوں اگر ایسے تو منصب سے ہٹا دو
جس نے تمہیں لوٹا وہی اب تخت نشیں ہے
اٹھو نو جوانو تم یہ تخت ہلا دو
یہ سانپ جو بیٹھے ہیں خزانوں پہ تمہارے
وہ بین بجاؤ کے انہیں دھرتی سے بھگا دو
چاہیں ہیں جو ہم امن و اماں سے یہاں رہنا
مرضی ہے عدو کی انہیں آپس میں لڑا دو
بچوں کو سیاست کی ابجد بھی سکھا دو
حق گوئی کا بھی یہ سبق ان کو پڑھا دو
زرخیز زمیں ہے اسے فصلوں سے سجا دو
گوداموں میں گندم کے تم انبار لگا دو
پہنو کوئی پوشاک تو ہو دیس کی اپنے
غیروں سے خریدی ہوئی ہر چیز ہٹا دو
ملا کے لیے قتل تو واجب ہے سبھی کا
اس ملک سے جنگل کا یہ دستور ہٹا دو
ملا کو ذرا باندھ کے رکھ کوئی دن کو
قرآن کے بس درس سے انسان بنا دو
رکھ تو غرض اپنی عبادات سے ہی بس
کیا فرقہ کسی کا ہے یہ اب دل سے بھلا دو
پھر کوئی نہ دیکھے ہم کو ترچھی نظر سے
گروی ہے وطن تم اسے دشمن سے چھڑا دو
میدان سیاست کے اے مانے ہوے مہرو
تم ہار کے اک دن یہ وطن اپنا جتا دو
سید مجتبیٰ داودی
اس رنگ اور بوئے گلشن کا افسانہ لکھوں تو کیسے لکھوں اس رنگ اور بوئے گلشن کا افسانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
ان تھکے تھکے موسموں کو دیوانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
احباب کا دکھ اغیار کا غم اپنوں کا گلہ دشمن کے ستم
بے کیف و سرور اس دنیا کو آشیانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
ہیں دل و جگر ہی دشمن جاں پر دل و جگر تو اپنے ہیں
جب اپنے ہیں تو اپنوں کو بیگانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
کیا جذب و فنا کی منزل ہے کیا نشونما کا حاصل ہے
اک باب نصیحت لکھنا ہے ہر دانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
دو گھونٹ یہاں پینے کے لیئے دو سانس یہاں جینے کے لئیے
لمحات وصولا کرتے ہیں نذرانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
ہر خواہش کی سو خواہش ہیں سو خواہش کی سو علت بھی
بھرتا ہی نہیں کبھی چاہت کا پیمانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
جذبات سے کچھ الفت کی تھی لمحے بھر کی غفلت کی تھی
تا عمر دیا ہے اے شاعر ہرجانہ لکھوں تو کیسے لکھوں سید مجتبیٰ داودی
ان تھکے تھکے موسموں کو دیوانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
احباب کا دکھ اغیار کا غم اپنوں کا گلہ دشمن کے ستم
بے کیف و سرور اس دنیا کو آشیانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
ہیں دل و جگر ہی دشمن جاں پر دل و جگر تو اپنے ہیں
جب اپنے ہیں تو اپنوں کو بیگانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
کیا جذب و فنا کی منزل ہے کیا نشونما کا حاصل ہے
اک باب نصیحت لکھنا ہے ہر دانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
دو گھونٹ یہاں پینے کے لیئے دو سانس یہاں جینے کے لئیے
لمحات وصولا کرتے ہیں نذرانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
ہر خواہش کی سو خواہش ہیں سو خواہش کی سو علت بھی
بھرتا ہی نہیں کبھی چاہت کا پیمانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
جذبات سے کچھ الفت کی تھی لمحے بھر کی غفلت کی تھی
تا عمر دیا ہے اے شاعر ہرجانہ لکھوں تو کیسے لکھوں سید مجتبیٰ داودی
حدِّ نظر تک اپنے سوا کچھ وہاں نہ تھا حدِّ نظر تک اپنے سوا کچھ وہاں نہ تھا
میں وہ زمین جس کا کوئی آسماں نہ تھا
سب میں کرائے داروں کے پائے گیے نشاں
جسموں کے شہر میں کوئی خالی مکاں نہ تھا
بچپن کے ساتھ ہو گئے بوڑھے تمام ذہن
ہم مفلسوں کے گھر میں کوئی نوجواں نہ تھا
چہرے سبھی کے لگتے تھے مہمانوں سے مگر
خود کے سوا کسی کا کوئی میزباں نہ تھا
ہر زاویے سے بول چکے تھے مرے بزرگ
باقی مرے لیے کوئی طرزِ بیاں نہ تھا
ان خواہشوں کی چھاؤں میں گزری تمام عمر
جن خواہشوں کے سر پہ کوئی سائباں نہ تھا
سید مجتبی داودی
میں وہ زمین جس کا کوئی آسماں نہ تھا
سب میں کرائے داروں کے پائے گیے نشاں
جسموں کے شہر میں کوئی خالی مکاں نہ تھا
بچپن کے ساتھ ہو گئے بوڑھے تمام ذہن
ہم مفلسوں کے گھر میں کوئی نوجواں نہ تھا
چہرے سبھی کے لگتے تھے مہمانوں سے مگر
خود کے سوا کسی کا کوئی میزباں نہ تھا
ہر زاویے سے بول چکے تھے مرے بزرگ
باقی مرے لیے کوئی طرزِ بیاں نہ تھا
ان خواہشوں کی چھاؤں میں گزری تمام عمر
جن خواہشوں کے سر پہ کوئی سائباں نہ تھا
سید مجتبی داودی
چلو مانگ لیں نور شمس و قمر سے چلو مانگ لیں نور شمس و قمر سے
کریں دہر آباد فکر و نظر سے
طلب میں ہو اخلاص کی رہنمائی
دعائیں نہ مایوس ہوں گی اثر سے
کرو اپنی منزل کا اول تعین
پتہ پوچھ لو جاکے تم پھر خضر سے
اجالے میں جگنو دکھائی نہ دے گا
حقیقت کو جانو حقیقی نظر سے
تو شاہین۔۔۔۔ پرواز کی فکر کرلے
پلٹنا ہی ہے زندگی کے سفر سے
سید مجتبی داودی
کریں دہر آباد فکر و نظر سے
طلب میں ہو اخلاص کی رہنمائی
دعائیں نہ مایوس ہوں گی اثر سے
کرو اپنی منزل کا اول تعین
پتہ پوچھ لو جاکے تم پھر خضر سے
اجالے میں جگنو دکھائی نہ دے گا
حقیقت کو جانو حقیقی نظر سے
تو شاہین۔۔۔۔ پرواز کی فکر کرلے
پلٹنا ہی ہے زندگی کے سفر سے
سید مجتبی داودی
جاتا ہے بھرم زیست کا اے دیدہ تر جائے جاتا ہے بھرم زیست کا اے دیدہ تر جائے
موتی کی طرح برگ پہ شبنم تو نکھر جائے
لمحوں کے تسلسل سے ہے حرکت کا تسلسل
لمحے جو ٹھہر جائیں تو حرکت بھی ٹھہر جائے
اس طفل کی مانند ہوئی جاتی ہے ہستی
جو طفل کہ ہر خواب سے ہر بات سے ڈر جائے
بڑھتی ہے تھکن اور بھی احساس سفر سے
آرام سفر آئے جب احساس سفر جائے
یوں دیر تلک ساحل دریا پہ نہ بیٹھے
شاعر سے کہو شام ہوئی جاتی ہے گھر جائے
سید مجتبی داودی
موتی کی طرح برگ پہ شبنم تو نکھر جائے
لمحوں کے تسلسل سے ہے حرکت کا تسلسل
لمحے جو ٹھہر جائیں تو حرکت بھی ٹھہر جائے
اس طفل کی مانند ہوئی جاتی ہے ہستی
جو طفل کہ ہر خواب سے ہر بات سے ڈر جائے
بڑھتی ہے تھکن اور بھی احساس سفر سے
آرام سفر آئے جب احساس سفر جائے
یوں دیر تلک ساحل دریا پہ نہ بیٹھے
شاعر سے کہو شام ہوئی جاتی ہے گھر جائے
سید مجتبی داودی
وقت ہرچند ہے کڑا دختر وقت ہرچند ہے کڑادختر
ہار دینا نہ حوصلہ دختر
فصل جاں کو ہوا کیا ہے
زخم دینے لگے صدا دختر
کھڑکی بھی بند رکھتی ہو
گھر میں آنے بھی دو ہوا دختر
ہے تپش تیز تر شب غم کی
اوڑھ لو دھوپ کی ردادختر
وقت پر سب ہی روٹھ جاتے ہیں
کام تو آتا ہے حوصلہ دختر
ذندگی پر محیط ہوتا ہے
ایک لمحے کا فیصلہ دختر
دیدہ و دل بچھائے رکھتے ہیں
کون کب آئے گا کیا پتہ دختر سید مجتبی داودی
ہار دینا نہ حوصلہ دختر
فصل جاں کو ہوا کیا ہے
زخم دینے لگے صدا دختر
کھڑکی بھی بند رکھتی ہو
گھر میں آنے بھی دو ہوا دختر
ہے تپش تیز تر شب غم کی
اوڑھ لو دھوپ کی ردادختر
وقت پر سب ہی روٹھ جاتے ہیں
کام تو آتا ہے حوصلہ دختر
ذندگی پر محیط ہوتا ہے
ایک لمحے کا فیصلہ دختر
دیدہ و دل بچھائے رکھتے ہیں
کون کب آئے گا کیا پتہ دختر سید مجتبی داودی
خودی تضحیک حسرت کی ثمر ہے خودی تضحیک حسرت کی ثمر ہے
تجھے ائے بے نیازی کچھ خبر ہے
جو ہے وہ زد میں ہے وہم و گماں کی
نہیں ہے جو وہی تو معتبر ہے
بہت حساس ہوتا جا رہا ہوں
میرے اندر بھی کوئی شیشہ گر ہے
خرد کہتی ہے کانٹوں سے نہ الجھو
جنوں کہتا ہے یہ کار ہنر ہے
انا کی کارفرمائی ابد تک
انا کی عمر گر چہ مختصر ہے
سید مجتبی داودی
تجھے ائے بے نیازی کچھ خبر ہے
جو ہے وہ زد میں ہے وہم و گماں کی
نہیں ہے جو وہی تو معتبر ہے
بہت حساس ہوتا جا رہا ہوں
میرے اندر بھی کوئی شیشہ گر ہے
خرد کہتی ہے کانٹوں سے نہ الجھو
جنوں کہتا ہے یہ کار ہنر ہے
انا کی کارفرمائی ابد تک
انا کی عمر گر چہ مختصر ہے
سید مجتبی داودی
خودی کی انتہائی مات کہیے خودی کی انتہائی مات کہیے
محبت کو شکست ذات کہیے
اثر انگیزی کےحالات کہیے
کچھ اپنے بھی تو احساسات کہیے
بہت تمہید سن لی درد دل کی
جو کہنا چاہتے ہیں بات کہیے
در و دیوار پر مٹی جمی ہے
کسی سے گھر کے کیا حالات کہیے
پشیمانی کی باعث نا ہو جائے
سمجھ کر سوچ کر ہر بات کہیے
ہے دانا کے لیے کافی اشارہ
جو ناداں ہوں تو کھل کر بات کہیے
کوئی پوچھے تو چپ رہنا ہی بہتر
کسی سے کیا کسی کی بات کہیے
سید مجتبی داودی
محبت کو شکست ذات کہیے
اثر انگیزی کےحالات کہیے
کچھ اپنے بھی تو احساسات کہیے
بہت تمہید سن لی درد دل کی
جو کہنا چاہتے ہیں بات کہیے
در و دیوار پر مٹی جمی ہے
کسی سے گھر کے کیا حالات کہیے
پشیمانی کی باعث نا ہو جائے
سمجھ کر سوچ کر ہر بات کہیے
ہے دانا کے لیے کافی اشارہ
جو ناداں ہوں تو کھل کر بات کہیے
کوئی پوچھے تو چپ رہنا ہی بہتر
کسی سے کیا کسی کی بات کہیے
سید مجتبی داودی
دست رس میں نہ ہوں حالات تو پھر کیا کیجئے دست رس میں نہ ہوں حالات تو پھر کیا کیجئے
وقت دکھلائے کرشمات تو پھر کیا کیجئے
صاحِبِ وقت ہیں جو ان کی طبیعت چاہے
ظلم کو کہہ دیں مکافات تو پھر کیا کیجئے
تیرگئ غم ہستی کا تسلسل ٹوٹے
چلیے یہ کٹ بھی گئی رات تو پھر کیا کیجئے
زندہ رہنے کے لیے شرط تحمل ٹھہری
اس پہ قائل نہ ہوئی ذات تو پھر کیا کیجئے
زیست کے لمحوں رکھا ہے سجا کر شاعر
مانگ لے کوئی حسابات تو پھر کیا کیجئے
سید مجتبی داودی
وقت دکھلائے کرشمات تو پھر کیا کیجئے
صاحِبِ وقت ہیں جو ان کی طبیعت چاہے
ظلم کو کہہ دیں مکافات تو پھر کیا کیجئے
تیرگئ غم ہستی کا تسلسل ٹوٹے
چلیے یہ کٹ بھی گئی رات تو پھر کیا کیجئے
زندہ رہنے کے لیے شرط تحمل ٹھہری
اس پہ قائل نہ ہوئی ذات تو پھر کیا کیجئے
زیست کے لمحوں رکھا ہے سجا کر شاعر
مانگ لے کوئی حسابات تو پھر کیا کیجئے
سید مجتبی داودی
دل کو سر مضراب کیا ہے میں نے دل کو سر مضراب کیا ہے میں نے
ہر سانس کو بیتاب کیا ہے میں نے
کچھ اپنے لئیے قریہ جاں میں بھٹکے
کچھ خاطر احباب کیا ہے میں نے
ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر چلا کر
اندازہ گرداب کیا ہے میں نے
ہرغم کو رگ جاں کا تقرب دے کر
تَجْزِیَہ اعصاب کیا ہے میں نے
دل کو بھی ڈبویا ہے لہو میں اکثر
آنکھوں کو بھی سیراب کیا ہے میں نے
سید مجتبی داودی
ہر سانس کو بیتاب کیا ہے میں نے
کچھ اپنے لئیے قریہ جاں میں بھٹکے
کچھ خاطر احباب کیا ہے میں نے
ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر چلا کر
اندازہ گرداب کیا ہے میں نے
ہرغم کو رگ جاں کا تقرب دے کر
تَجْزِیَہ اعصاب کیا ہے میں نے
دل کو بھی ڈبویا ہے لہو میں اکثر
آنکھوں کو بھی سیراب کیا ہے میں نے
سید مجتبی داودی
دیکھو تو اُبھَر آتا ہے نقشہ میرے آگے دیکھو تو اُبھَر آتا ہے نقشہ میرے آگے
جیسے کہ ہو آئِینَہ فَرْدا میرے آگے
اہمیت اوصاف بشر اول و آخر
اَدْنٰی بھی بہرکیف ہے اَعْلیٰ میرے آگے
خُونِ تَمَنّا سے نکھرتی ہے یہ ہستی
ناکامی حسرت کا گلہ کیا میرے آگے
جو کچھ بھی ہے حادث ہےحَوادِث کے اثر سے
اس دہر کا ہر نقش ہے دھوکا میرے آگے
میں غرق تخیل ہوں بڑی دیر سے "شاعر"
ٹوٹا ہوا رکھا ہے کھلونا میرے آگے
سید مجتبی داودی
جیسے کہ ہو آئِینَہ فَرْدا میرے آگے
اہمیت اوصاف بشر اول و آخر
اَدْنٰی بھی بہرکیف ہے اَعْلیٰ میرے آگے
خُونِ تَمَنّا سے نکھرتی ہے یہ ہستی
ناکامی حسرت کا گلہ کیا میرے آگے
جو کچھ بھی ہے حادث ہےحَوادِث کے اثر سے
اس دہر کا ہر نقش ہے دھوکا میرے آگے
میں غرق تخیل ہوں بڑی دیر سے "شاعر"
ٹوٹا ہوا رکھا ہے کھلونا میرے آگے
سید مجتبی داودی
ڈالا ہے وقت نے مجھےکس امتحان میں ڈالا ہے وقت نے مجھےکس امتحان میں
خود ہی ہدف ہوں تیر ہوں خود اپنی کمان میں
اپنی حد اور خیال کو رکھ کر گمان میں
احساس کا پرند ہے اونچی اڑان میں
اہل خرد تو عقل کے جھانسے میں آگئے
دیوانگی ہمیشہ رہی اپنی شان میں
محروم انسباط ہوں حیرت کی بات ہے
بندہ ہوں تیرا اور ہوں تیرے جہان میں
پوچھا نہ جب کسی نے خریدار خود بنا
اک جنس بے بہا تھا میں اپنی دکان میں
" شاعر" میں اپنی ذات سے ہوں مطمئن بہت
محفوظ ہر طرح سے ہوں اپنی امان میں
سید مجتبی داودی
خود ہی ہدف ہوں تیر ہوں خود اپنی کمان میں
اپنی حد اور خیال کو رکھ کر گمان میں
احساس کا پرند ہے اونچی اڑان میں
اہل خرد تو عقل کے جھانسے میں آگئے
دیوانگی ہمیشہ رہی اپنی شان میں
محروم انسباط ہوں حیرت کی بات ہے
بندہ ہوں تیرا اور ہوں تیرے جہان میں
پوچھا نہ جب کسی نے خریدار خود بنا
اک جنس بے بہا تھا میں اپنی دکان میں
" شاعر" میں اپنی ذات سے ہوں مطمئن بہت
محفوظ ہر طرح سے ہوں اپنی امان میں
سید مجتبی داودی
رابطہ جسم کا جب روح سے کٹ جاتا ہے رابطہ جسم کا جب روح سے کٹ جاتا ہے
آدمی مختلف حالات میں بٹ جاتا ہے
دیکھ کر ساحل دریا کا سکوت پیہم
چڑھ کے آیا ہوا طوفاں بھی پلٹ جاتا ہے
آئینہ دیکھ کے ہوتا ہے توہم کا اسیر
قد وہی ہوتا ہے پر آدمی گھٹ جاتا ہے
کوئی خوشبو غم حالات کو ملتی ہوگی
سانپ بن کے جو رگ جاں سے لپٹ جاتا ہے
پھر اسے ملتی نہیں منزل مقصود کبھی
جادۃ عشق سے اک گام جو ہٹ جاتا ہے
دل بھی کیا شئے ہے بھلا دیتا ہے سارے مضمون
اور اک لفظ جو مقصود ہے رٹ جاتا ہے
ہر نئی صبح کا مضمون نیا ہے شاعر
ہر نئی صبح کو اک صفحہ پلٹ جاتا ہے
سید مجتبی داودی
آدمی مختلف حالات میں بٹ جاتا ہے
دیکھ کر ساحل دریا کا سکوت پیہم
چڑھ کے آیا ہوا طوفاں بھی پلٹ جاتا ہے
آئینہ دیکھ کے ہوتا ہے توہم کا اسیر
قد وہی ہوتا ہے پر آدمی گھٹ جاتا ہے
کوئی خوشبو غم حالات کو ملتی ہوگی
سانپ بن کے جو رگ جاں سے لپٹ جاتا ہے
پھر اسے ملتی نہیں منزل مقصود کبھی
جادۃ عشق سے اک گام جو ہٹ جاتا ہے
دل بھی کیا شئے ہے بھلا دیتا ہے سارے مضمون
اور اک لفظ جو مقصود ہے رٹ جاتا ہے
ہر نئی صبح کا مضمون نیا ہے شاعر
ہر نئی صبح کو اک صفحہ پلٹ جاتا ہے
سید مجتبی داودی
زرد زرد پتے ہیں ماند رنگتیں ساری زرد زرد پتے ہیں ماند رنگتیں ساری
چھین لی ہواؤں نے گل کی نکہتیں ساری
لاکھ خود ستائی میں لوگ ہوں اثاثہ ہو
اک دِیئے کے دم سے ہے گھر کی رونقیں ساری
خیر کی توقع کیا جاں گداز صحرا سے
اک جنون خستہ جاں اور وحشتیں ساری
اک خودی بڑھاتی ہے قدر آدمیت کی
اک سوال لے جائے ساتھ وقعتیں ساری
لازوال قدرت کے زیر سایہ ہیں شاعر
آزما لے یہ دنیا اپنی قدرتیں ساری
سید مجتبی داودی
چھین لی ہواؤں نے گل کی نکہتیں ساری
لاکھ خود ستائی میں لوگ ہوں اثاثہ ہو
اک دِیئے کے دم سے ہے گھر کی رونقیں ساری
خیر کی توقع کیا جاں گداز صحرا سے
اک جنون خستہ جاں اور وحشتیں ساری
اک خودی بڑھاتی ہے قدر آدمیت کی
اک سوال لے جائے ساتھ وقعتیں ساری
لازوال قدرت کے زیر سایہ ہیں شاعر
آزما لے یہ دنیا اپنی قدرتیں ساری
سید مجتبی داودی