✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
سید مجتبی داودی
Search
Add Poetry
Poetries by سید مجتبی داودی
دسترس میں نہ ہوں حالات تو پھر کیا کیجئے
دسترس میں نہ ہوں حالات تو پھر کیا کیجئے
وقت دکھلائے کرشمات تو پھر کیا کیجئے
صاحِبِ وقت ہیں جو ان کی طبیعت چاہے
ظلم کو کہہ دیں مکافات تو پھر کیا کیجئے
ہم نے رو لیں ہیں گہر اشک ندامت کے بہت
ہوں نہ منظور یہ سوغات تو پھر کیا کیجیے
ہم نے برتا ہے رویوں کو عبادت کی طرح
جرم بن جائے مناجات تو پھر کیا کیجئے
تیرگئ غم ہستی کا تسلسل ٹوٹے
چلیے یہ کٹ بھی گئی رات تو پھر کیا کیجئے
زندہ رہنے کے لیے شرط تحمل ٹھہری
اس پہ قائل نہ ہوئی ذات تو پھر کیا کیجئے
زیست کے لمحوں رکھا ہے سجا کر شاعر نے
مانگ لے کوئی حسابات تو پھر کیا کیجئے
سید مجتبیٰ داودی
Copy
یکجا تھے سارے فہم و فراست میں پست عوام
یکجا تھے سارے فہم و فراست میں پست عوام
قبلہ بنے ہوئے تھے قبیلہ پرست عوام
لگتا تھا چھو گیا تھا اُنھیں جنونیت کا جن
اِس طرح اپنے آپ میں رہتے تھے مست عوام
کیا خوب ہر طرف ہے ترقّی کی دھوم دھام
کشکول تھامے ملک ہے کاسہ بدست عوام
سر پر ہے سائباں کی طرح دھوپ کا شجر
آرام کر رہے ہیں ابھی فاقہ مست عوام
یوں ہی رہیں گے حرص و ہوَس کے اگر اسیر
کھائیں گے اپنے آپ سے یوں ہی شکست عوام
سید مجتبیٰ داودی
Copy
آگہی گمرہی ضروری ہے
آگہی گمرہی ضروری ہے
یہ کبھی وہ کبھی ضروری ہے
چاندنی کا سراغ پانے کو
دھوپ سے دوستی ضروری ہے
خودسروں کو بھی راہ پر لائے
ایسی کچھ بندگی ضروری ہے
ظلمتِ شب بھی مانگتی ہے دعا
میرے گھر روشنی ضروری ہے
رہبری کو ہو اعتبار نصیب
اس لئے رہبری ضروری ہے
منزلیں اس طرح نہیں ملتیں
کچھ تو دیوانگی ضروری ہے
دل سے مجبور ہوں میں اے شاعر
اس لئے شاعری ضروری ہے
سید مجتبیٰ داودی
Copy
کون کیا کہتا ہے اُس پر دھیان رکھ
کون کیا کہتا ہے اُس پر دھیان رکھ
رات کی سرگوشیوں پر کان رکھ
چاہے دل میں درد کا طوفان ہو
اپنے چہرے پر مگر مسکان رکھ
جو کسی صورت نہ پورا ہوسکے
اپنے دل میں ایسا مت ارمان رکھ
لکھ دیا جو کاتبِ تقدیر نے
تجھ کو حاصل ہوگا اطمینان رکھ
سر اٹھاکر تجھ کو جینا ہے اگر
مت کسی کا اپنے سر احسان رکھ
لوگ تجھ کو دور سے پہچان لیں
شاعرؔ اپنی منفرد پہچان رکھ
سید مجتبیٰ داودی
Copy
اس رنگ اور بوئے گلشن کا افسانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
اس رنگ اور بوئے گلشن کا افسانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
ان تھکے تھکے موسموں کو دیوانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
احباب کا دکھ اغیار کا غم اپنوں کا گلہ دشمن کے ستم
بے کیف و سرور اس دنیا کو آشیانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
ہیں دل و جگر ہی دشمن جاں پر دل و جگر تو اپنے ہیں
جب اپنے ہیں تو اپنوں کو بیگانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
کیا جذب و فنا کی منزل ہے کیا نشونما کا حاصل ہے
اک باب نصیحت لکھنا ہے ہر دانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
دو گھونٹ یہاں پینے کے لیئے دو سانس یہاں جینے کے لئیے
لمحات وصولا کرتے ہیں نذرانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
ہر خواہش کی سو خواہش ہیں سو خواہش کی سو علت بھی
بھرتا ہی نہیں کبھی چاہت کا پیمانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
جذبات سے کچھ الفت کی تھی لمحے بھر کی غفلت کی تھی
تا عمر دیا ہے اے شاعر ہرجانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
سید مجتبیٰ داودی
Copy
اس دیس کو تم گہوارہ امن بنا دو
اس دیس کو تم گہوارہ امن بنا دو
قائد کے اصولوں کو تم آئین بنا دو
ایوانوں کے تم سب در و دیوار ہلا دو
انصاف بس انصاف کا تم نعرہ لگا دو
انصاف کے قاتل کو کٹہرے میں سزا دو
منصف ہوں اگر ایسے تو منصب سے ہٹا دو
جس نے تمہیں لوٹا وہی اب تخت نشیں ہے
اٹھو نو جوانو تم یہ تخت ہلا دو
یہ سانپ جو بیٹھے ہیں خزانوں پہ تمہارے
وہ بین بجاؤ کے انہیں دھرتی سے بھگا دو
چاہیں ہیں جو ہم امن و اماں سے یہاں رہنا
مرضی ہے عدو کی انہیں آپس میں لڑا دو
بچوں کو سیاست کی ابجد بھی سکھا دو
حق گوئی کا بھی یہ سبق ان کو پڑھا دو
زرخیز زمیں ہے اسے فصلوں سے سجا دو
گوداموں میں گندم کے تم انبار لگا دو
پہنو کوئی پوشاک تو ہو دیس کی اپنے
غیروں سے خریدی ہوئی ہر چیز ہٹا دو
ملا کے لیے قتل تو واجب ہے سبھی کا
اس ملک سے جنگل کا یہ دستور ہٹا دو
ملا کو ذرا باندھ کے رکھ کوئی دن کو
قرآن کے بس درس سے انسان بنا دو
رکھ تو غرض اپنی عبادات سے ہی بس
کیا فرقہ کسی کا ہے یہ اب دل سے بھلا دو
پھر کوئی نہ دیکھے ہم کو ترچھی نظر سے
گروی ہے وطن تم اسے دشمن سے چھڑا دو
میدان سیاست کے اے مانے ہوے مہرو
تم ہار کے اک دن یہ وطن اپنا جتا دو
سید مجتبیٰ داودی
Copy
اس رنگ اور بوئے گلشن کا افسانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
اس رنگ اور بوئے گلشن کا افسانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
ان تھکے تھکے موسموں کو دیوانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
احباب کا دکھ اغیار کا غم اپنوں کا گلہ دشمن کے ستم
بے کیف و سرور اس دنیا کو آشیانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
ہیں دل و جگر ہی دشمن جاں پر دل و جگر تو اپنے ہیں
جب اپنے ہیں تو اپنوں کو بیگانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
کیا جذب و فنا کی منزل ہے کیا نشونما کا حاصل ہے
اک باب نصیحت لکھنا ہے ہر دانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
دو گھونٹ یہاں پینے کے لیئے دو سانس یہاں جینے کے لئیے
لمحات وصولا کرتے ہیں نذرانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
ہر خواہش کی سو خواہش ہیں سو خواہش کی سو علت بھی
بھرتا ہی نہیں کبھی چاہت کا پیمانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
جذبات سے کچھ الفت کی تھی لمحے بھر کی غفلت کی تھی
تا عمر دیا ہے اے شاعر ہرجانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
سید مجتبیٰ داودی
Copy
حدِّ نظر تک اپنے سوا کچھ وہاں نہ تھا
حدِّ نظر تک اپنے سوا کچھ وہاں نہ تھا
میں وہ زمین جس کا کوئی آسماں نہ تھا
سب میں کرائے داروں کے پائے گیے نشاں
جسموں کے شہر میں کوئی خالی مکاں نہ تھا
بچپن کے ساتھ ہو گئے بوڑھے تمام ذہن
ہم مفلسوں کے گھر میں کوئی نوجواں نہ تھا
چہرے سبھی کے لگتے تھے مہمانوں سے مگر
خود کے سوا کسی کا کوئی میزباں نہ تھا
ہر زاویے سے بول چکے تھے مرے بزرگ
باقی مرے لیے کوئی طرزِ بیاں نہ تھا
ان خواہشوں کی چھاؤں میں گزری تمام عمر
جن خواہشوں کے سر پہ کوئی سائباں نہ تھا
سید مجتبی داودی
Copy
چلو مانگ لیں نور شمس و قمر سے
چلو مانگ لیں نور شمس و قمر سے
کریں دہر آباد فکر و نظر سے
طلب میں ہو اخلاص کی رہنمائی
دعائیں نہ مایوس ہوں گی اثر سے
کرو اپنی منزل کا اول تعین
پتہ پوچھ لو جاکے تم پھر خضر سے
اجالے میں جگنو دکھائی نہ دے گا
حقیقت کو جانو حقیقی نظر سے
تو شاہین۔۔۔۔ پرواز کی فکر کرلے
پلٹنا ہی ہے زندگی کے سفر سے
سید مجتبی داودی
Copy
جو ہے دیوار وہ مسمار کردے
جو ہے دیوار وہ مسمار کردے
تعلق کی فضا ہموار کردے
کہیں ایسا نہ ہو میری گلی کو
سیاست کی فضا بیمار کردے
مرے سچ بولنے کا دکھ ہے تجھ کو
مجھے رسوا سرِ بازار کردے
مجھے گمنامیاں ڈسنے لگی ہیں
مجھے اے زندگی اخبار کردے
لگا مت بھیڑ اتنی خواہشوں کی
کہ لینا سانس بھی دشوار کردے
سید مجتبی داودی
Copy
جاتا ہے بھرم زیست کا اے دیدہ تر جائے
جاتا ہے بھرم زیست کا اے دیدہ تر جائے
موتی کی طرح برگ پہ شبنم تو نکھر جائے
لمحوں کے تسلسل سے ہے حرکت کا تسلسل
لمحے جو ٹھہر جائیں تو حرکت بھی ٹھہر جائے
اس طفل کی مانند ہوئی جاتی ہے ہستی
جو طفل کہ ہر خواب سے ہر بات سے ڈر جائے
بڑھتی ہے تھکن اور بھی احساس سفر سے
آرام سفر آئے جب احساس سفر جائے
یوں دیر تلک ساحل دریا پہ نہ بیٹھے
شاعر سے کہو شام ہوئی جاتی ہے گھر جائے
سید مجتبی داودی
Copy
وقت ہرچند ہے کڑا دختر
وقت ہرچند ہے کڑادختر
ہار دینا نہ حوصلہ دختر
فصل جاں کو ہوا کیا ہے
زخم دینے لگے صدا دختر
کھڑکی بھی بند رکھتی ہو
گھر میں آنے بھی دو ہوا دختر
ہے تپش تیز تر شب غم کی
اوڑھ لو دھوپ کی ردادختر
وقت پر سب ہی روٹھ جاتے ہیں
کام تو آتا ہے حوصلہ دختر
ذندگی پر محیط ہوتا ہے
ایک لمحے کا فیصلہ دختر
دیدہ و دل بچھائے رکھتے ہیں
کون کب آئے گا کیا پتہ دختر
سید مجتبی داودی
Copy
خودی تضحیک حسرت کی ثمر ہے
خودی تضحیک حسرت کی ثمر ہے
تجھے ائے بے نیازی کچھ خبر ہے
جو ہے وہ زد میں ہے وہم و گماں کی
نہیں ہے جو وہی تو معتبر ہے
بہت حساس ہوتا جا رہا ہوں
میرے اندر بھی کوئی شیشہ گر ہے
خرد کہتی ہے کانٹوں سے نہ الجھو
جنوں کہتا ہے یہ کار ہنر ہے
انا کی کارفرمائی ابد تک
انا کی عمر گر چہ مختصر ہے
سید مجتبی داودی
Copy
خودی کی انتہائی مات کہیے
خودی کی انتہائی مات کہیے
محبت کو شکست ذات کہیے
اثر انگیزی کےحالات کہیے
کچھ اپنے بھی تو احساسات کہیے
بہت تمہید سن لی درد دل کی
جو کہنا چاہتے ہیں بات کہیے
در و دیوار پر مٹی جمی ہے
کسی سے گھر کے کیا حالات کہیے
پشیمانی کی باعث نا ہو جائے
سمجھ کر سوچ کر ہر بات کہیے
ہے دانا کے لیے کافی اشارہ
جو ناداں ہوں تو کھل کر بات کہیے
کوئی پوچھے تو چپ رہنا ہی بہتر
کسی سے کیا کسی کی بات کہیے
سید مجتبی داودی
Copy
دست رس میں نہ ہوں حالات تو پھر کیا کیجئے
دست رس میں نہ ہوں حالات تو پھر کیا کیجئے
وقت دکھلائے کرشمات تو پھر کیا کیجئے
صاحِبِ وقت ہیں جو ان کی طبیعت چاہے
ظلم کو کہہ دیں مکافات تو پھر کیا کیجئے
تیرگئ غم ہستی کا تسلسل ٹوٹے
چلیے یہ کٹ بھی گئی رات تو پھر کیا کیجئے
زندہ رہنے کے لیے شرط تحمل ٹھہری
اس پہ قائل نہ ہوئی ذات تو پھر کیا کیجئے
زیست کے لمحوں رکھا ہے سجا کر شاعر
مانگ لے کوئی حسابات تو پھر کیا کیجئے
سید مجتبی داودی
Copy
دل کو سر مضراب کیا ہے میں نے
دل کو سر مضراب کیا ہے میں نے
ہر سانس کو بیتاب کیا ہے میں نے
کچھ اپنے لئیے قریہ جاں میں بھٹکے
کچھ خاطر احباب کیا ہے میں نے
ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر چلا کر
اندازہ گرداب کیا ہے میں نے
ہرغم کو رگ جاں کا تقرب دے کر
تَجْزِیَہ اعصاب کیا ہے میں نے
دل کو بھی ڈبویا ہے لہو میں اکثر
آنکھوں کو بھی سیراب کیا ہے میں نے
سید مجتبی داودی
Copy
دیکھو تو اُبھَر آتا ہے نقشہ میرے آگے
دیکھو تو اُبھَر آتا ہے نقشہ میرے آگے
جیسے کہ ہو آئِینَہ فَرْدا میرے آگے
اہمیت اوصاف بشر اول و آخر
اَدْنٰی بھی بہرکیف ہے اَعْلیٰ میرے آگے
خُونِ تَمَنّا سے نکھرتی ہے یہ ہستی
ناکامی حسرت کا گلہ کیا میرے آگے
جو کچھ بھی ہے حادث ہےحَوادِث کے اثر سے
اس دہر کا ہر نقش ہے دھوکا میرے آگے
میں غرق تخیل ہوں بڑی دیر سے "شاعر"
ٹوٹا ہوا رکھا ہے کھلونا میرے آگے
سید مجتبی داودی
Copy
ڈالا ہے وقت نے مجھےکس امتحان میں
ڈالا ہے وقت نے مجھےکس امتحان میں
خود ہی ہدف ہوں تیر ہوں خود اپنی کمان میں
اپنی حد اور خیال کو رکھ کر گمان میں
احساس کا پرند ہے اونچی اڑان میں
اہل خرد تو عقل کے جھانسے میں آگئے
دیوانگی ہمیشہ رہی اپنی شان میں
محروم انسباط ہوں حیرت کی بات ہے
بندہ ہوں تیرا اور ہوں تیرے جہان میں
پوچھا نہ جب کسی نے خریدار خود بنا
اک جنس بے بہا تھا میں اپنی دکان میں
" شاعر" میں اپنی ذات سے ہوں مطمئن بہت
محفوظ ہر طرح سے ہوں اپنی امان میں
سید مجتبی داودی
Copy
رابطہ جسم کا جب روح سے کٹ جاتا ہے
رابطہ جسم کا جب روح سے کٹ جاتا ہے
آدمی مختلف حالات میں بٹ جاتا ہے
دیکھ کر ساحل دریا کا سکوت پیہم
چڑھ کے آیا ہوا طوفاں بھی پلٹ جاتا ہے
آئینہ دیکھ کے ہوتا ہے توہم کا اسیر
قد وہی ہوتا ہے پر آدمی گھٹ جاتا ہے
کوئی خوشبو غم حالات کو ملتی ہوگی
سانپ بن کے جو رگ جاں سے لپٹ جاتا ہے
پھر اسے ملتی نہیں منزل مقصود کبھی
جادۃ عشق سے اک گام جو ہٹ جاتا ہے
دل بھی کیا شئے ہے بھلا دیتا ہے سارے مضمون
اور اک لفظ جو مقصود ہے رٹ جاتا ہے
ہر نئی صبح کا مضمون نیا ہے شاعر
ہر نئی صبح کو اک صفحہ پلٹ جاتا ہے
سید مجتبی داودی
Copy
زرد زرد پتے ہیں ماند رنگتیں ساری
زرد زرد پتے ہیں ماند رنگتیں ساری
چھین لی ہواؤں نے گل کی نکہتیں ساری
لاکھ خود ستائی میں لوگ ہوں اثاثہ ہو
اک دِیئے کے دم سے ہے گھر کی رونقیں ساری
خیر کی توقع کیا جاں گداز صحرا سے
اک جنون خستہ جاں اور وحشتیں ساری
اک خودی بڑھاتی ہے قدر آدمیت کی
اک سوال لے جائے ساتھ وقعتیں ساری
لازوال قدرت کے زیر سایہ ہیں شاعر
آزما لے یہ دنیا اپنی قدرتیں ساری
سید مجتبی داودی
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets