Poetries by سید سفیر علی شیرازی
مانو کے دل بھر گیا ہوگا مانو کے دل بھر گیا ہوگا
ہاں، بھر گیا ہو گا پیار ہو گیا ہوگا
یہ جو تم آہستہ آہستہ سے دور جا رہے ہو
یقیناً کوئی اور مل گیا ہوگا
تم نے جو سیکھا اے ہیں ہمیں آداب محبت
تو پھر ان کو انھیں پر لاگو کر دیا ہوگا
ہمارے ساتھ جو تم نے کچھ دیر سفر کیا ہے
اب اس میں مزید اضافہ کر لیا ہوگا
نہ جانے تم راتوں کو سکون سے سوتے ہو
مجھے تو لگتا ھے ارادہ کر لیا ہوگا
آگے ہم تمہاری جان تھے، ہیں نا
اب یہ وعدہ کسی اور سے کر لیا ہوگا
سفیر ہر وقت رہتا ہے آپ کی سوچ میں محترمہ
کون بتائے اسے کے آپ نے دل کو آزما لیا ہوگا سید سفیر علی شیرازی
ہاں، بھر گیا ہو گا پیار ہو گیا ہوگا
یہ جو تم آہستہ آہستہ سے دور جا رہے ہو
یقیناً کوئی اور مل گیا ہوگا
تم نے جو سیکھا اے ہیں ہمیں آداب محبت
تو پھر ان کو انھیں پر لاگو کر دیا ہوگا
ہمارے ساتھ جو تم نے کچھ دیر سفر کیا ہے
اب اس میں مزید اضافہ کر لیا ہوگا
نہ جانے تم راتوں کو سکون سے سوتے ہو
مجھے تو لگتا ھے ارادہ کر لیا ہوگا
آگے ہم تمہاری جان تھے، ہیں نا
اب یہ وعدہ کسی اور سے کر لیا ہوگا
سفیر ہر وقت رہتا ہے آپ کی سوچ میں محترمہ
کون بتائے اسے کے آپ نے دل کو آزما لیا ہوگا سید سفیر علی شیرازی
آیک اور غزل لکھنے لگا ہوں آیک اور غزل لکھنے لگا ہوں
سچ جو ہے آب یاد کرنے لگا ہوں
تیرے عشق کی دیوانگی میں
آب روز عیدیں منانے لگا ہوں
ایک واقع جو کبھی ہوا ہی نہ تھا
اسے کو آج کل سوچنے لگا ہوں
ہم ہیں آوارہ اور بیزار اس قدر کہ
آب گھر کو ہی مقدر سمجھنے لگا ہوں
وہ تیرا روز مرہ میرے حال کا پوچھنا
یقین کیجیے آب اپنا حال دیکھنے لگا ہوں
اس روز، ہاں اس روز کی توسیع محبت
تیرے ان الفاظ کو آب پرکھنے لگا ہوں
حال دل ہوا اب کچھ ایسا کہ بس
خود میں ہی تجھے تلاش کرنے لگا ہوں
اس احمقانہ میں کہ تم کہیں کھو نہ جاؤ
تجھے اب تجھ سے چھیننے لگا ہوں
لکھ رہا آج کل کے حالات پر سفیر
پس اب سے حجر کو آزمانے لگا ہوں سید سفیر علی شیرازی
سچ جو ہے آب یاد کرنے لگا ہوں
تیرے عشق کی دیوانگی میں
آب روز عیدیں منانے لگا ہوں
ایک واقع جو کبھی ہوا ہی نہ تھا
اسے کو آج کل سوچنے لگا ہوں
ہم ہیں آوارہ اور بیزار اس قدر کہ
آب گھر کو ہی مقدر سمجھنے لگا ہوں
وہ تیرا روز مرہ میرے حال کا پوچھنا
یقین کیجیے آب اپنا حال دیکھنے لگا ہوں
اس روز، ہاں اس روز کی توسیع محبت
تیرے ان الفاظ کو آب پرکھنے لگا ہوں
حال دل ہوا اب کچھ ایسا کہ بس
خود میں ہی تجھے تلاش کرنے لگا ہوں
اس احمقانہ میں کہ تم کہیں کھو نہ جاؤ
تجھے اب تجھ سے چھیننے لگا ہوں
لکھ رہا آج کل کے حالات پر سفیر
پس اب سے حجر کو آزمانے لگا ہوں سید سفیر علی شیرازی