Poetries by Tanzila Yousaf
کھلی آنکھوں سے سپنے دیکھتی ہوں کھلی آنکھوں سے سپنے دیکھتی ہوں
تعجب ہے میں اب بھی سوچتی ہوں
میرے بچے قربان ہورہے ہیں
میں پھر کیوں سبزے کو دیکھتی ہوں
گماں غالب مگر یقیں نہیں مجھ کو
مگر کیوں لکیر یں ہاہاتھوں کی دیکھتی ہوں
مرا اک پل بھی نہیں اوجھل ہے رب سے
تو کیوں عذر گناہ کو دیکھتی ہوں
حیراں ہوں اپنی کوتاہ نظری پر
ترے اندر کے روشن پہلو کو دیکھتی ہوں Tanzila Yousaf
تعجب ہے میں اب بھی سوچتی ہوں
میرے بچے قربان ہورہے ہیں
میں پھر کیوں سبزے کو دیکھتی ہوں
گماں غالب مگر یقیں نہیں مجھ کو
مگر کیوں لکیر یں ہاہاتھوں کی دیکھتی ہوں
مرا اک پل بھی نہیں اوجھل ہے رب سے
تو کیوں عذر گناہ کو دیکھتی ہوں
حیراں ہوں اپنی کوتاہ نظری پر
ترے اندر کے روشن پہلو کو دیکھتی ہوں Tanzila Yousaf
شہاب آنکھیں ستارہ سپنے وہ جل گئے ہیں شہاب آنکھیں ستارہ سپنے وہ جل گئے ہیں
مری آنکھوں کے خواب جو تھے وہ جل گئے ہیں
وہ رتجگوں میں سرور تھا جو نہیں رہا ہے
مقابل جو تھے ادھورے قصے وہ جل گئے ہیں
رہوں میں تجھ بن یہ سوچنا ہی محال ہے اب
جو ٹوٹے بندھن کے باٹ تھے وہ جل گئے ہیں
میری وفا کا تماشا دیکھا ہے اک جہاں نے
مثال شمع تمام سپنے وہ جل گئے ہیں
وصال کیا ہے، یہ ہجر کیا ہے، نہیں ہے معلوم
محبتوں کی کتاب کے تمام صفحے وہ جل گئے ہیں Tanzila Yousaf
مری آنکھوں کے خواب جو تھے وہ جل گئے ہیں
وہ رتجگوں میں سرور تھا جو نہیں رہا ہے
مقابل جو تھے ادھورے قصے وہ جل گئے ہیں
رہوں میں تجھ بن یہ سوچنا ہی محال ہے اب
جو ٹوٹے بندھن کے باٹ تھے وہ جل گئے ہیں
میری وفا کا تماشا دیکھا ہے اک جہاں نے
مثال شمع تمام سپنے وہ جل گئے ہیں
وصال کیا ہے، یہ ہجر کیا ہے، نہیں ہے معلوم
محبتوں کی کتاب کے تمام صفحے وہ جل گئے ہیں Tanzila Yousaf
دیوانہ کوئی راہ میں بیٹھا ہو جیسے دیوانہ کوئی راہ میں بیٹھا ہو جیسے
پروانہ شمع پہ قربان ہو جیسے
ہم ترے نافرمان ہیں مالک
لطف و کرم کی بارش ماننے والے پر ہو جیسے
مر جانے کی تمنالئے پھرتے ہیں
جینا دشوار ہو جیسے
تیرے دیدار کو یوں مچلتے ہیں
سانس لینا ہم پہ لازم ہو جیسے
اس کے ہونٹوں پہ تبسم لہجے میں تھکن عریاں تھی
زندگی بہت آسودہ گزاری ہو جیسے Tanzila Yousaf
پروانہ شمع پہ قربان ہو جیسے
ہم ترے نافرمان ہیں مالک
لطف و کرم کی بارش ماننے والے پر ہو جیسے
مر جانے کی تمنالئے پھرتے ہیں
جینا دشوار ہو جیسے
تیرے دیدار کو یوں مچلتے ہیں
سانس لینا ہم پہ لازم ہو جیسے
اس کے ہونٹوں پہ تبسم لہجے میں تھکن عریاں تھی
زندگی بہت آسودہ گزاری ہو جیسے Tanzila Yousaf
نجانےفروری کیوں اپنا سا لگتا ہے نجانےفروری کیوں اپنا سا لگتا ہے
مگر مجھ کو تری آنکھ کا سپنا سا لگتا ہے
تو اور میں، یک جاں دو قالب
مگر ایماں لانا مشکل سا لگتا ہے
منزل چند قدم کی دوری پر
مگر ہم کو ایک زمانہ سا لگتا ہے
اندھیروں کو روشنی میں بدلنا سہل ہے لیکن
مگر مجھ کو یہ مشکل سا لگتا ہے
ابتدا میں دقتیں تو ہوتی ہیں
مگر پھر آساں سا لگتا ہے
Tanzila Yousaf
مگر مجھ کو تری آنکھ کا سپنا سا لگتا ہے
تو اور میں، یک جاں دو قالب
مگر ایماں لانا مشکل سا لگتا ہے
منزل چند قدم کی دوری پر
مگر ہم کو ایک زمانہ سا لگتا ہے
اندھیروں کو روشنی میں بدلنا سہل ہے لیکن
مگر مجھ کو یہ مشکل سا لگتا ہے
ابتدا میں دقتیں تو ہوتی ہیں
مگر پھر آساں سا لگتا ہے
Tanzila Yousaf
ترے مقدر کا ستارہ بلند ہوا ترے مقدر کا ستارہ بلند ہوا
خواب اس کی بھی آنکھوں کا روشن ہوا
بےرنگ ونور تتلیوں کی مانند
رنگ ظلمتوں کا اڑا ہوا
مولا عزم وہمت قائم رکھنا
دعائیں کرنے والوں کا سہارہ ہوا
گردش دوراں کے پھیر ختم اب
مشکلوں کا دور آساں ہوا
میری یہ زیست تھوڑی باقی
میرے پیاروں کا دائرہ بڑھا ہوا
ہمیں گر مات ہوئی، شہ مات دیں گے
میرا جذبہ ہے یہ سوا ہوا
تنزیلہ بھی سدا بھولی ناداں
تیری خواہشوں کا دھارہ پھیلا ہوا Tanzila Yousaf
خواب اس کی بھی آنکھوں کا روشن ہوا
بےرنگ ونور تتلیوں کی مانند
رنگ ظلمتوں کا اڑا ہوا
مولا عزم وہمت قائم رکھنا
دعائیں کرنے والوں کا سہارہ ہوا
گردش دوراں کے پھیر ختم اب
مشکلوں کا دور آساں ہوا
میری یہ زیست تھوڑی باقی
میرے پیاروں کا دائرہ بڑھا ہوا
ہمیں گر مات ہوئی، شہ مات دیں گے
میرا جذبہ ہے یہ سوا ہوا
تنزیلہ بھی سدا بھولی ناداں
تیری خواہشوں کا دھارہ پھیلا ہوا Tanzila Yousaf
لکھتے لکھتے مجھ کو آخر یاد آیا لکھتے لکھتے مجھ کو آخر یاد آیا
پڑھنا تو اب بھول چکی ہوں یاد آیا
میری کہانی قریہ قریہ عام ہوئی
پوشیدہ تھا رکھنا جس کو یاد آیا
دور افق کے پار دھواں سا اٹھتا ہے
ساتھی دل کے پاس رہا تھا یاد آیا
میری ویراں آنکھیں ہیں اور خاموشی
کرنی تھی لیکن فریاد یاد آیا
دل میں تیری یادوں کا طوفان اٹھا
رکھنا تھا جس کو ہموار یاد آیا
دور تلک اندھیرہ سا پھیلا ہے
روشن کرنا تھا اک چراغ یاد آیا
گاؤں کے بچے ان پڑھ کے ان پڑھ رہ گئے
کرنا تھا جن کو خواندہ یاد آیا Tanzila Yousaf
پڑھنا تو اب بھول چکی ہوں یاد آیا
میری کہانی قریہ قریہ عام ہوئی
پوشیدہ تھا رکھنا جس کو یاد آیا
دور افق کے پار دھواں سا اٹھتا ہے
ساتھی دل کے پاس رہا تھا یاد آیا
میری ویراں آنکھیں ہیں اور خاموشی
کرنی تھی لیکن فریاد یاد آیا
دل میں تیری یادوں کا طوفان اٹھا
رکھنا تھا جس کو ہموار یاد آیا
دور تلک اندھیرہ سا پھیلا ہے
روشن کرنا تھا اک چراغ یاد آیا
گاؤں کے بچے ان پڑھ کے ان پڑھ رہ گئے
کرنا تھا جن کو خواندہ یاد آیا Tanzila Yousaf
جنوری اب تو ہم کو بھاتا نہیں ہے جنوری اب تو ہم کو بھاتا نہیں ہے
خوشی کی نوید لاتا نہیں ہے
الہی زیست کا کوئی سامان کر
یہ جیون گزارہ جاتا نہیں ہے
میں شکستہ پا اور زخم زخم ہوں
کوئےمنزل کوئی ہمت دلاتا نہیں ہے
میرے شانوں پہ پیاروں کا دکھ بڑھتا جارہا ہے
یہ بوجھ اب اٹھایا جاتا نہیں ہے
میں ریزہ ریزہ بکھرتی جارہی ہوں
یہ ٹوٹتاوجودجوڑنےکوئی آتا نہیں ہے
زمیں مجھ پہ تنگ ہوتی جارہی ہے
یہ دکھ کم ہونے آتا نہیں ہے
میرے مولا ہنستی سی نئی دنیا دے دو
زمیں پہ دکھ کا موسم ڈھلنے پاتانہیں ہے Tanzila Yousaf
خوشی کی نوید لاتا نہیں ہے
الہی زیست کا کوئی سامان کر
یہ جیون گزارہ جاتا نہیں ہے
میں شکستہ پا اور زخم زخم ہوں
کوئےمنزل کوئی ہمت دلاتا نہیں ہے
میرے شانوں پہ پیاروں کا دکھ بڑھتا جارہا ہے
یہ بوجھ اب اٹھایا جاتا نہیں ہے
میں ریزہ ریزہ بکھرتی جارہی ہوں
یہ ٹوٹتاوجودجوڑنےکوئی آتا نہیں ہے
زمیں مجھ پہ تنگ ہوتی جارہی ہے
یہ دکھ کم ہونے آتا نہیں ہے
میرے مولا ہنستی سی نئی دنیا دے دو
زمیں پہ دکھ کا موسم ڈھلنے پاتانہیں ہے Tanzila Yousaf
اک شخص جو اپنا بن کر ملتا تھا اکثر اک شخص جو اپنا بن کر ملتا تھا اکثر
اب اجنبی بن کر ملتا ہے اکثر
جو بہاریں خوشیوں کے پھول کھلایا کرتی تھیں
وہ بہاریں اب زخم دیا کرتی ہیں اکثر
جو گزرا سانحہ اب ماضی ٹہرا
دل برباد پر ایسے طوفان گزرا کرتے ہیں اکثر
چپ چاپ گزر جاتی ہیں بہاریں
میں نے سنی ہیں درختوں کی سرگوشیاں اکثر
میرے دل کی اجاڑ بستی میں بہاریں اتریں
میرے پیارے یہ دعا مانگتے ہیں اکثر
عشق کا دریا بچوں کو نگل لیتا ہے
میں نے ڈوبنے والوں سے سنا ہے اکثر
محبت کے سفر کی کوئی منزل نہیں ہوتی
میں نے بھٹکنے والوں سے سنا ہے اکثر Tanzila Yousaf
اب اجنبی بن کر ملتا ہے اکثر
جو بہاریں خوشیوں کے پھول کھلایا کرتی تھیں
وہ بہاریں اب زخم دیا کرتی ہیں اکثر
جو گزرا سانحہ اب ماضی ٹہرا
دل برباد پر ایسے طوفان گزرا کرتے ہیں اکثر
چپ چاپ گزر جاتی ہیں بہاریں
میں نے سنی ہیں درختوں کی سرگوشیاں اکثر
میرے دل کی اجاڑ بستی میں بہاریں اتریں
میرے پیارے یہ دعا مانگتے ہیں اکثر
عشق کا دریا بچوں کو نگل لیتا ہے
میں نے ڈوبنے والوں سے سنا ہے اکثر
محبت کے سفر کی کوئی منزل نہیں ہوتی
میں نے بھٹکنے والوں سے سنا ہے اکثر Tanzila Yousaf
مقابر کو ہم آباد نہیں کرتے ہیں مقابر کو ہم آباد نہیں کرتے ہیں
راہ سے جو پلٹ جائیں ان کو یاد نہیں کرتے ہیں
میں ہوں اور یہ سرما کی تاریکی میں ترا خیال
بے آب وگیاہ وادیاں ویران نہیں کرتے ہیں
تیرا خیال بھی اب تو سکوں نہیں دیتا
تنہائیاں، خاموشیاں برباد نہیں کرتے ہیں
میں غم سے آشنا کیوں کر، اس کا غم نہیں
سکوں کے پل بے مزہ نہیں کرتے ہیں
کوئی تو ہو جو کہ دے حرف ناصح چپکے سے
بے مائیگیء وجود سے خود کو بہلایا نہیں کرتے ہیں Tanzila Yousaf
راہ سے جو پلٹ جائیں ان کو یاد نہیں کرتے ہیں
میں ہوں اور یہ سرما کی تاریکی میں ترا خیال
بے آب وگیاہ وادیاں ویران نہیں کرتے ہیں
تیرا خیال بھی اب تو سکوں نہیں دیتا
تنہائیاں، خاموشیاں برباد نہیں کرتے ہیں
میں غم سے آشنا کیوں کر، اس کا غم نہیں
سکوں کے پل بے مزہ نہیں کرتے ہیں
کوئی تو ہو جو کہ دے حرف ناصح چپکے سے
بے مائیگیء وجود سے خود کو بہلایا نہیں کرتے ہیں Tanzila Yousaf
کہانی محبت کی کچھ ایسے موڑ آیا ہوں کہانی محبت کی کچھ ایسے موڑ آیا ہوں
میں اپنے ہاتھ سے ہی اپنا گھر جلاآیا ہوں
زندگی ہم سے نہ مانگ قربانی
میں ترے ہاتھ میں تاوان تھماآیاہوں
رنج راحت کدہ کیوں کر ہوتا ہے
میں اپنی روح کو تجربہ گاہ بناآیا ہوں
موت بھی ہم ایسوں سے دور بھاگتی ہوگی
میں اس کی آنکھوں میں آج آنکھیں ڈال آیا ہوں
حصار تخیل کا تیرے ٹوٹ گیا
میں تیرے ہاتھ میں پروانہء ہجر تھماآیاہوں Tanzila Yousaf
میں اپنے ہاتھ سے ہی اپنا گھر جلاآیا ہوں
زندگی ہم سے نہ مانگ قربانی
میں ترے ہاتھ میں تاوان تھماآیاہوں
رنج راحت کدہ کیوں کر ہوتا ہے
میں اپنی روح کو تجربہ گاہ بناآیا ہوں
موت بھی ہم ایسوں سے دور بھاگتی ہوگی
میں اس کی آنکھوں میں آج آنکھیں ڈال آیا ہوں
حصار تخیل کا تیرے ٹوٹ گیا
میں تیرے ہاتھ میں پروانہء ہجر تھماآیاہوں Tanzila Yousaf
ایک کہانی کے دو کردار میں اور تم ایک کہانی کے دو کردار میں اور تم
ٹہرائے گئے ہیں سزاوار میں اور تم
وقت رخصت آیا تو دل تھم سا گیا
تنہائی میں رونے لگے ہیں میں اور تم
اجنبی تھے اجنبی ہی رہ گئے
اپنی اپنی ذات میں گم ہو گئے میں اور تم
زندگی گر کرے وفا تو وعدہ ہے
اک بار پھر ملیں گے میں اور تم
موت بھی ہم پہ رشک کرنے لگی
زیست کے ٹھکرائے ہوئے ہیں میں اور تم Tanzila Yousaf
ٹہرائے گئے ہیں سزاوار میں اور تم
وقت رخصت آیا تو دل تھم سا گیا
تنہائی میں رونے لگے ہیں میں اور تم
اجنبی تھے اجنبی ہی رہ گئے
اپنی اپنی ذات میں گم ہو گئے میں اور تم
زندگی گر کرے وفا تو وعدہ ہے
اک بار پھر ملیں گے میں اور تم
موت بھی ہم پہ رشک کرنے لگی
زیست کے ٹھکرائے ہوئے ہیں میں اور تم Tanzila Yousaf
تری صداؤں سے دور آگئی ہوں تری صداؤں سے دور آگئی ہوں
پلٹ کے اپنے ہی گھر آگئی ہوں
ایک روزن جو کھلا دیکھا ہے
رنج و غم بھلا کر آگئی ہوں
میں تہی داماں، سب لٹا بیٹھی
یاالہی! تری رحمت کے در پر آگئی ہوں
نقش پا جن کے مٹ چکے ہیں
انہی قدموں پہ چل کر آگئی ہوں
میرا ماضی بھی دہائی دیتا ہے
بیتی یادوں کو جلا کر آگئی ہوں Tanzila Yousaf
پلٹ کے اپنے ہی گھر آگئی ہوں
ایک روزن جو کھلا دیکھا ہے
رنج و غم بھلا کر آگئی ہوں
میں تہی داماں، سب لٹا بیٹھی
یاالہی! تری رحمت کے در پر آگئی ہوں
نقش پا جن کے مٹ چکے ہیں
انہی قدموں پہ چل کر آگئی ہوں
میرا ماضی بھی دہائی دیتا ہے
بیتی یادوں کو جلا کر آگئی ہوں Tanzila Yousaf
نکھرگیامیرےدل کا موسم بارش کے بعد نکھرگیامیرےدل کا موسم بارش کے بعد
قوس قزح نظرآئی ہے مجھ کو بارش کے بعد
آج مینہ ٹوٹ کے برسا تو یاد آیا
کچے گھروں کے ڈھیر لگ گئے بارش کے بعد
دل کی زمیں بنجر ہوگئی تھی
زرخیز ہونے لگی ہے بارش کے بعد
دھوپ ساون کی بہت تیز ہوتی ہے
بات یہ مجھ کو ہوئی معلوم بارش کے بعد
خلق خدا بھی کسی حال میں نہیں راضی
اپنے رب سے شکوہ کناں ہیں بارش کے بعد Tanzila Yousaf
قوس قزح نظرآئی ہے مجھ کو بارش کے بعد
آج مینہ ٹوٹ کے برسا تو یاد آیا
کچے گھروں کے ڈھیر لگ گئے بارش کے بعد
دل کی زمیں بنجر ہوگئی تھی
زرخیز ہونے لگی ہے بارش کے بعد
دھوپ ساون کی بہت تیز ہوتی ہے
بات یہ مجھ کو ہوئی معلوم بارش کے بعد
خلق خدا بھی کسی حال میں نہیں راضی
اپنے رب سے شکوہ کناں ہیں بارش کے بعد Tanzila Yousaf
اک اجنبی کی یاد میں آنکھ تیری کیوں بھیگی اک اجنبی کی یاد میں آنکھ تیری کیوں بھیگی
دل کو صبر آیا پر آنکھ تیری کیوں بھیگی
جس نے تجھ کو لوٹا تھا درمیاں میں راہوں کے
اس کو معافی کیوں ملی آنکھ تیری کیوں بھیگی
بن کر جو سوالی راہ میں کھڑی ہے تو
بھیک ملتی دیکھ کر آنکھ تیری کیوں بھیگی
منزل پر پہنچا ہے وہ، راہ میں کھڑی ہے تو
منزل تو نے خود کھوئی، آنکھ تیری کیوں بھیگی
محبت تو عشق کا پہلا زینہ ہے پھر
شعلہ اک جو بھڑکا تو آنکھ تیری کیوں بھیگی
Tanzila Yousaf
دل کو صبر آیا پر آنکھ تیری کیوں بھیگی
جس نے تجھ کو لوٹا تھا درمیاں میں راہوں کے
اس کو معافی کیوں ملی آنکھ تیری کیوں بھیگی
بن کر جو سوالی راہ میں کھڑی ہے تو
بھیک ملتی دیکھ کر آنکھ تیری کیوں بھیگی
منزل پر پہنچا ہے وہ، راہ میں کھڑی ہے تو
منزل تو نے خود کھوئی، آنکھ تیری کیوں بھیگی
محبت تو عشق کا پہلا زینہ ہے پھر
شعلہ اک جو بھڑکا تو آنکھ تیری کیوں بھیگی
Tanzila Yousaf