دیوانہ کوئی راہ میں بیٹھا ہو جیسے
پروانہ شمع پہ قربان ہو جیسے
ہم ترے نافرمان ہیں مالک
لطف و کرم کی بارش ماننے والے پر ہو جیسے
مر جانے کی تمنالئے پھرتے ہیں
جینا دشوار ہو جیسے
تیرے دیدار کو یوں مچلتے ہیں
سانس لینا ہم پہ لازم ہو جیسے
اس کے ہونٹوں پہ تبسم لہجے میں تھکن عریاں تھی
زندگی بہت آسودہ گزاری ہو جیسے