Poetries by Tariq Baloch
خواب کیا تھا، خواب کی تعبیر کیا خواب کیا تھا، خواب کی تعبیر کیا
ہو گئی ہم سے کوئی تقصیر کیا
میں نے تو اک عام سی تھی بات کی
لگ گیا سینے میں جا کر تیر کیا
یہ جو تُم مُجھ میں نظر آنے لگے
کرلیا ہمزاد کو تسخیر کیا
مانتے ہو کیوں نہیں دُنیا کی بات
اب تُمہیں بھیجوں کوئی تصویر کیا
یوں گریباں چاک سے پھرتے ہو کیوں
ہوگیا ہے عشق دامن گیر کیا
آگیا کیا اب دُعاؤں پہ یقیں
کام کُچھ کرتی نہیں تدبیر کیا
مشورہ تھا عشق کے ہو لو مُرید
کر لیا تُم نے مُجھی کو پیر کیا
ہتھکڑی نے جو کلائی تھام لی
پاؤں میرے پڑ گئی زنجیر کیا
اپنےگھر کو آگ میں جھونکو ہو کیوں
کرسکو گے پھر اسے تعمیر کیا
سامنےتیرے سبھی پانی بھریں
شیریں،سوہنی،لیلیٰ، سسی،ہیر کیا
ایک تیرے بن ہُوں میں کُچھ بھی نہیں
لکھ کے دے دوں اب تُجھے تحریر کیا
ہےالگ اِن سے مری راہیں صبا
مصحفی،غالِب و درد و میر کیا TARIQ BALOCH
ہو گئی ہم سے کوئی تقصیر کیا
میں نے تو اک عام سی تھی بات کی
لگ گیا سینے میں جا کر تیر کیا
یہ جو تُم مُجھ میں نظر آنے لگے
کرلیا ہمزاد کو تسخیر کیا
مانتے ہو کیوں نہیں دُنیا کی بات
اب تُمہیں بھیجوں کوئی تصویر کیا
یوں گریباں چاک سے پھرتے ہو کیوں
ہوگیا ہے عشق دامن گیر کیا
آگیا کیا اب دُعاؤں پہ یقیں
کام کُچھ کرتی نہیں تدبیر کیا
مشورہ تھا عشق کے ہو لو مُرید
کر لیا تُم نے مُجھی کو پیر کیا
ہتھکڑی نے جو کلائی تھام لی
پاؤں میرے پڑ گئی زنجیر کیا
اپنےگھر کو آگ میں جھونکو ہو کیوں
کرسکو گے پھر اسے تعمیر کیا
سامنےتیرے سبھی پانی بھریں
شیریں،سوہنی،لیلیٰ، سسی،ہیر کیا
ایک تیرے بن ہُوں میں کُچھ بھی نہیں
لکھ کے دے دوں اب تُجھے تحریر کیا
ہےالگ اِن سے مری راہیں صبا
مصحفی،غالِب و درد و میر کیا TARIQ BALOCH
بتاؤ کون تھا ، کیسا تھا جس سے سلسلہ ٹھہرا؟ بتاؤ کون تھا ، کیسا تھا جس سے سلسلہ ٹھہرا؟
کہا کرکے وفا کا خون، آخر بے وفا ٹھہرا
بھلا پھولوں سے بھنورے کس زباں میں بات کرتے ہیں؟
کہا، خوشبو سے خوشبو کا انوکھا رابطہ ٹھہرا
ذرا بتلاؤ اِک انجان پر اتنی عنایت کیوں؟
کہا، دل کے صحیفے میں یہی تو معجزہ ٹھہرا
سنو کیسا لگا اس شخص سے ملنا ، بچھڑ جانا؟
ملا تو اجنبی تھا وہ ، بچھڑ کر آشنا ٹھہرا
بھلا محبوب سو پردوں میں بھی کیونکر نمایاں ہے ؟
ازل سے تا ابد دل کے وہ کعبے کا خدا ٹھہرا
TARIQ BALOCH
کہا کرکے وفا کا خون، آخر بے وفا ٹھہرا
بھلا پھولوں سے بھنورے کس زباں میں بات کرتے ہیں؟
کہا، خوشبو سے خوشبو کا انوکھا رابطہ ٹھہرا
ذرا بتلاؤ اِک انجان پر اتنی عنایت کیوں؟
کہا، دل کے صحیفے میں یہی تو معجزہ ٹھہرا
سنو کیسا لگا اس شخص سے ملنا ، بچھڑ جانا؟
ملا تو اجنبی تھا وہ ، بچھڑ کر آشنا ٹھہرا
بھلا محبوب سو پردوں میں بھی کیونکر نمایاں ہے ؟
ازل سے تا ابد دل کے وہ کعبے کا خدا ٹھہرا
TARIQ BALOCH
پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے
اجل مر رہی تو کہاں آتے آتے؟
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
سنا ہے کہ آتا ہے سر نامہ بر کا
کہاں رہ گیا ارمغاں آتے آتے
یقیں ہے کہ ہو جائے آخر کو سچی
مرے منہ میں تیری زباں آتے آتے
سنانے کے قابل جو تھی بات ان کو
وہی رہ گئی درمیاں آتے آتے
مجھے یاد کرنے سے یہ مدّعا تھا
نکل جائے دم ہچکیاں آتے آتے
ابھی سن ہی کیا ہے، جو بے باکیاں ہوں
اُنہیں آئیں گی شوخیاں آتے آتے
کلیجا مرے منہ کو آئے گا اِک دن
یونہی لب پر آہ و فغاں آتے آتے
چلے آتے ہیں دل میں ارمان لاکھوں
مکاں بھر گیا مہماں آتے آتے
نتیجہ نہ نکلا، تھکے سب پیامی
وہاں جاتے جاتے یہاں آتے آتے
تمہارا ہی مشتاقِ دیدار ہو گا
گیا جان سے اک جواں آتے آتے
تری آنکھ پھرتے ہی کیسا پھرا ہے
مری راہ پر آسماں آتے آتے
پڑا ہے بڑا پیچ پھر دل لگی میں
طبیعت رکی ہے جہاں آتے آتے
مرے آشیاں کے تو تھے چار تنکے
چمن اُڑ گیا آندھیاں آتے آتے
کسی نے کچھ ان کو ابھارا تو ہوتا
نہ آتے، نہ آتے، یہاں آتے آتے
قیامت بھی آتی تھی ہمراہ اس کے
مگر رہ گئی ہم عناں آتے آتے
بنا ہے ہمیشہ یہ دل باغ و صحرا
بہار آتے آتے، خزاں آتے آتے
نہیں کھیل اے داغ ، یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے TARIQ BALOCH
اجل مر رہی تو کہاں آتے آتے؟
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
سنا ہے کہ آتا ہے سر نامہ بر کا
کہاں رہ گیا ارمغاں آتے آتے
یقیں ہے کہ ہو جائے آخر کو سچی
مرے منہ میں تیری زباں آتے آتے
سنانے کے قابل جو تھی بات ان کو
وہی رہ گئی درمیاں آتے آتے
مجھے یاد کرنے سے یہ مدّعا تھا
نکل جائے دم ہچکیاں آتے آتے
ابھی سن ہی کیا ہے، جو بے باکیاں ہوں
اُنہیں آئیں گی شوخیاں آتے آتے
کلیجا مرے منہ کو آئے گا اِک دن
یونہی لب پر آہ و فغاں آتے آتے
چلے آتے ہیں دل میں ارمان لاکھوں
مکاں بھر گیا مہماں آتے آتے
نتیجہ نہ نکلا، تھکے سب پیامی
وہاں جاتے جاتے یہاں آتے آتے
تمہارا ہی مشتاقِ دیدار ہو گا
گیا جان سے اک جواں آتے آتے
تری آنکھ پھرتے ہی کیسا پھرا ہے
مری راہ پر آسماں آتے آتے
پڑا ہے بڑا پیچ پھر دل لگی میں
طبیعت رکی ہے جہاں آتے آتے
مرے آشیاں کے تو تھے چار تنکے
چمن اُڑ گیا آندھیاں آتے آتے
کسی نے کچھ ان کو ابھارا تو ہوتا
نہ آتے، نہ آتے، یہاں آتے آتے
قیامت بھی آتی تھی ہمراہ اس کے
مگر رہ گئی ہم عناں آتے آتے
بنا ہے ہمیشہ یہ دل باغ و صحرا
بہار آتے آتے، خزاں آتے آتے
نہیں کھیل اے داغ ، یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے TARIQ BALOCH
کوئی آہٹ نہیں آتی سرِ دشتِ گُماں جاناں کوئی آہٹ نہیں آتی سرِ دشتِ گُماں جاناں
غُبارِ راہ کو تکتے ہوئیں آنکھیں دھواں جاناں
چمکتا ہے ہمارے نام کا تارا جہاں جاناں
نجانے کس افق کے پار ہے وہ کہکشاں جاناں
مجھے یہ وہم لاحق تھا، در و دالان ہیں میرے
مجھے یہ خوش گمانی تھی، مرا ہے یہ مکاں جاناں
تمہاری گفتگو سنتی رہی دنیا، پہ دم بھر میں
ہماری خوش کلامی بھی بنی اِک داستاں جاناں
مری دہلیز پر صدیوں سے ہے پہرا عذابوں کا
مجھے اِذنِ سفر کب ہے جو کھولوں بادباں جاناں
عجب بے چارگی ہے، ہر طرف ہیں خوف کے پہرے
جہانِ ہست کی وحشت میں ہوں بے سائباں جاناں
قفس کے اُس طرف پہنچے کبھی میری کہانی بھی
اُفق کے پار بھی جائے کبھی میری فغاں جاناں
کبھی مجھ کو پکارو تو مرے اپنے حوالے سے
تمہارے ہاتھ پہ رکھ دوں زمین و آسماں جاناں TARIQ BALOCH
غُبارِ راہ کو تکتے ہوئیں آنکھیں دھواں جاناں
چمکتا ہے ہمارے نام کا تارا جہاں جاناں
نجانے کس افق کے پار ہے وہ کہکشاں جاناں
مجھے یہ وہم لاحق تھا، در و دالان ہیں میرے
مجھے یہ خوش گمانی تھی، مرا ہے یہ مکاں جاناں
تمہاری گفتگو سنتی رہی دنیا، پہ دم بھر میں
ہماری خوش کلامی بھی بنی اِک داستاں جاناں
مری دہلیز پر صدیوں سے ہے پہرا عذابوں کا
مجھے اِذنِ سفر کب ہے جو کھولوں بادباں جاناں
عجب بے چارگی ہے، ہر طرف ہیں خوف کے پہرے
جہانِ ہست کی وحشت میں ہوں بے سائباں جاناں
قفس کے اُس طرف پہنچے کبھی میری کہانی بھی
اُفق کے پار بھی جائے کبھی میری فغاں جاناں
کبھی مجھ کو پکارو تو مرے اپنے حوالے سے
تمہارے ہاتھ پہ رکھ دوں زمین و آسماں جاناں TARIQ BALOCH
ہم ہیں متاعِ کوچہ وبازار کی طرح ہم ہیں متاعِ کوچہ وبازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
وہ تو کہیں ہے اور مگر دل کے آس پاس
پھرتی ہے کوئی شئے نگہ یار کی طرح
سیدھی ہے راہِ شوقع پہ یونہی کہیں کہیں
خم ہوگئی ہے گیسوئے دلدار کی طرح
مجروح لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کانام
ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہگار کی طرح TARIQ BALOCH
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
وہ تو کہیں ہے اور مگر دل کے آس پاس
پھرتی ہے کوئی شئے نگہ یار کی طرح
سیدھی ہے راہِ شوقع پہ یونہی کہیں کہیں
خم ہوگئی ہے گیسوئے دلدار کی طرح
مجروح لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کانام
ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہگار کی طرح TARIQ BALOCH
کبھی کچھ خط پرانے دیکھ لینا کبھی کچھ خط پرانے دیکھ لینا
کسی میں میرا وعدھ رہ گیا ہے
سزا کٹ بھی گئ اور مجرموں میں
ہمارا نام لکھا رہ گیا ہے
ہمارے ساتھ کیا کیا جھیلتا وہ
بچھڑ کر کتنا اچھا رہ گیا ہے
عجب رفتار ہے اس زندگی کی
کہ جو جیسا تھا ویسا رہ گیا ہے
رضی میں ہر کسی سے پوچھتا ہوں
سفر جیون کا کتنا رہ گیا ہے TARIQ BALOCH
کسی میں میرا وعدھ رہ گیا ہے
سزا کٹ بھی گئ اور مجرموں میں
ہمارا نام لکھا رہ گیا ہے
ہمارے ساتھ کیا کیا جھیلتا وہ
بچھڑ کر کتنا اچھا رہ گیا ہے
عجب رفتار ہے اس زندگی کی
کہ جو جیسا تھا ویسا رہ گیا ہے
رضی میں ہر کسی سے پوچھتا ہوں
سفر جیون کا کتنا رہ گیا ہے TARIQ BALOCH
اے رات آ اور میرے گلے لگ جا اے رات
آ اور میرے گلے لگ جا
آ میں تمھاری آنکھیں، تمہارے ہونٹ
تمہارے رخسار اور تمہاری پیشانی چوموں
تمہاری ٹھوڑی پہ بوسہ دُوں
تمھیں کاجل لگاؤں
تمھارے بال سنواروں
اور تمہاری مانگ میں ستارے بھر دُوں
اور تمہارے شانوں پہ سر رکھ کے
بچھڑے ہوئے لوگوں
اور بیتے ہوئے لمحوں کو یاد کروں
اور ٹوٹ کے چاروں طرف بکھر ے ہوئے آئینوں کی کرچیاں
چن چن کے
تمہیں اپنی زخمی پوریں دکھاؤں
اے رات
آ اور میرے وجود میں اُتر
آ اور میری ہتھیلیوں پہ آہستہ آہستہ
اپنا تمام روپ پھیلا دے
TARIQ BALOCH
آ اور میرے گلے لگ جا
آ میں تمھاری آنکھیں، تمہارے ہونٹ
تمہارے رخسار اور تمہاری پیشانی چوموں
تمہاری ٹھوڑی پہ بوسہ دُوں
تمھیں کاجل لگاؤں
تمھارے بال سنواروں
اور تمہاری مانگ میں ستارے بھر دُوں
اور تمہارے شانوں پہ سر رکھ کے
بچھڑے ہوئے لوگوں
اور بیتے ہوئے لمحوں کو یاد کروں
اور ٹوٹ کے چاروں طرف بکھر ے ہوئے آئینوں کی کرچیاں
چن چن کے
تمہیں اپنی زخمی پوریں دکھاؤں
اے رات
آ اور میرے وجود میں اُتر
آ اور میری ہتھیلیوں پہ آہستہ آہستہ
اپنا تمام روپ پھیلا دے
TARIQ BALOCH
میں نے کیا کام لاجواب کیا میں نے کیا کام لاجواب کیا
اس کو عالم میں انتخاب کیا
کرم اس کے ستم سے بڑھ کر تھے
آج جب بیٹھ کر حساب کیا
کیسے موتی چھپائے آنکھوں میں
ہائے کس فن کا اکتساب کیا
کیسی مجبوریاں نصیب میں تھیں
زندگی کی کہ اک عذاب کیا
ساتھ جب گردِ کوئے یار رہی
ہر سفر ہم نے کامیاب کیا
کچھ ہمارے لکھے گئے قصّے
بارے کچھ داخلِ نصاب کیا
کیا عبیدؔ اب اسے میں دوں الزام
اپنا خانہ تو خود خراب کیا TARIQ BALOCH
اس کو عالم میں انتخاب کیا
کرم اس کے ستم سے بڑھ کر تھے
آج جب بیٹھ کر حساب کیا
کیسے موتی چھپائے آنکھوں میں
ہائے کس فن کا اکتساب کیا
کیسی مجبوریاں نصیب میں تھیں
زندگی کی کہ اک عذاب کیا
ساتھ جب گردِ کوئے یار رہی
ہر سفر ہم نے کامیاب کیا
کچھ ہمارے لکھے گئے قصّے
بارے کچھ داخلِ نصاب کیا
کیا عبیدؔ اب اسے میں دوں الزام
اپنا خانہ تو خود خراب کیا TARIQ BALOCH
کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
میں کیسا زندہ آدمی تھا اک شخص نے مجھ کو مار دیا
ایک سبز شاخ گلاب کی تھی اک دنیا اپنے خواب کی تھی
وہ ایک بہار جو آئی نہیں اس کے لئے سب کچھ ہار دیا.
یہ سجا سجایا گھر ساتھی مری ذات نہیں مرا حال نہیں
اے کاش کبھی تم جان سکو اس سکھ نے جو آزار دیا
میں کھلی ہوئی اک سچائی مجھے جاننے والے جانتے ہیں
میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگوں کو پیار دیا
وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یوں جینا بھی
اس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا TARIQ BALOCH
میں کیسا زندہ آدمی تھا اک شخص نے مجھ کو مار دیا
ایک سبز شاخ گلاب کی تھی اک دنیا اپنے خواب کی تھی
وہ ایک بہار جو آئی نہیں اس کے لئے سب کچھ ہار دیا.
یہ سجا سجایا گھر ساتھی مری ذات نہیں مرا حال نہیں
اے کاش کبھی تم جان سکو اس سکھ نے جو آزار دیا
میں کھلی ہوئی اک سچائی مجھے جاننے والے جانتے ہیں
میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگوں کو پیار دیا
وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یوں جینا بھی
اس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا TARIQ BALOCH
دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابلِ دید ہوا دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابلِ دید ہوا
ایک ستارہ بیٹھے بیٹھے تابش میں خورشید ہوا
آج تو جانی رستہ تکتے، شام کا چاند پدید ہوا
تو نے تو انکار کیا تھا، دل کب ناامید ہوا
آن کے اس بیمار کو دیکھے، تجھ کو بھی توفیق ہوئی
لب پر اس کے نام تھا ترا، جب بھی درد شدید ہوا
ہاں اس نے جھلکی دکھلائی، ایک ہی پل کودریچےمیں
جانو اک بجلی لہرائی، عالم ایک شہید ہوا
تو نےہم سےکلام بھی چھوڑا، عرضِ وفا کے سنتے ہی
پہلے کون قریب تھا ہم سے، اب تو اور بعید ہوا
دنیا کے سب کاج چھوڑے، نام پہ ترے انشا نے
اور اسے کیا تھوڑے غم تھا؟ تیرا عشق مزید ہوا TARIQ BALOCH
ایک ستارہ بیٹھے بیٹھے تابش میں خورشید ہوا
آج تو جانی رستہ تکتے، شام کا چاند پدید ہوا
تو نے تو انکار کیا تھا، دل کب ناامید ہوا
آن کے اس بیمار کو دیکھے، تجھ کو بھی توفیق ہوئی
لب پر اس کے نام تھا ترا، جب بھی درد شدید ہوا
ہاں اس نے جھلکی دکھلائی، ایک ہی پل کودریچےمیں
جانو اک بجلی لہرائی، عالم ایک شہید ہوا
تو نےہم سےکلام بھی چھوڑا، عرضِ وفا کے سنتے ہی
پہلے کون قریب تھا ہم سے، اب تو اور بعید ہوا
دنیا کے سب کاج چھوڑے، نام پہ ترے انشا نے
اور اسے کیا تھوڑے غم تھا؟ تیرا عشق مزید ہوا TARIQ BALOCH
کوئی تہمت لگائے تو اذیّت کم نہیں ہوتی کوئی تہمت لگائے تو اذیّت کم نہیں ہوتی
مگر میں جانتی ہوں اس سے عزّت کم نہیں ہوتی
یہ وہ دولت ہے جو دل کی بدولت کم نہیں ہوتی
محّبت کرتے رہنے سے محّبت کم نہیں ہوتی
محّبت بدگمانی کو ہمیشہ ساتھ رکھتی ہے
مداوا ہو بھی جائے تو شکایت کم نہیں ہوتی
جو باتیں لب پہ آئی ہوں وہ باتیں ہو کہ رہتی ہیں
کبھی اُنگلی چبانے سے اذّیت کم نہیں ہوتی
نکل آتا ہے رستے سے نیا رستہ قمر لیکن
کسی کے ساتھ ہونے سے مسافت کم نہیں ہوتی
TARIQ BALOCH
مگر میں جانتی ہوں اس سے عزّت کم نہیں ہوتی
یہ وہ دولت ہے جو دل کی بدولت کم نہیں ہوتی
محّبت کرتے رہنے سے محّبت کم نہیں ہوتی
محّبت بدگمانی کو ہمیشہ ساتھ رکھتی ہے
مداوا ہو بھی جائے تو شکایت کم نہیں ہوتی
جو باتیں لب پہ آئی ہوں وہ باتیں ہو کہ رہتی ہیں
کبھی اُنگلی چبانے سے اذّیت کم نہیں ہوتی
نکل آتا ہے رستے سے نیا رستہ قمر لیکن
کسی کے ساتھ ہونے سے مسافت کم نہیں ہوتی
TARIQ BALOCH
اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا
جان کر ہم نے انھیں نا مہرباں رہنے دیا
آرزوِ قرب بھی بخشی دلوں کو عشق نے
فاصلہ بھی میرے ان کے درمیاں رہنے دیا
کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے
عشق نے لیکن ہمیں بے خانماں رہنے دیا
اپنے اپنے حوصلے اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے تمھیں سارا جہاں رہنے دیا
کون اس طرزِ جفائے آسماں کی داد دے
باغ سارا پھونک ڈالا آشیاں رہنے دیا
یہ بھی کوئی جینے میں جینا، بغیر انکے ادیب
شمع گُل کر دی گئی باقی دھواں رہنے دیا
TARIQ BALOCH
جان کر ہم نے انھیں نا مہرباں رہنے دیا
آرزوِ قرب بھی بخشی دلوں کو عشق نے
فاصلہ بھی میرے ان کے درمیاں رہنے دیا
کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے
عشق نے لیکن ہمیں بے خانماں رہنے دیا
اپنے اپنے حوصلے اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے تمھیں سارا جہاں رہنے دیا
کون اس طرزِ جفائے آسماں کی داد دے
باغ سارا پھونک ڈالا آشیاں رہنے دیا
یہ بھی کوئی جینے میں جینا، بغیر انکے ادیب
شمع گُل کر دی گئی باقی دھواں رہنے دیا
TARIQ BALOCH
دَر ِ ستارہ ء دُم دار کر کے وا کوئی دَر ِ ستارہ ء دُم دار کر کے وا کوئی
عجب ادا سے مجھے دیکھتا رہا کوئی
گواہی دے رہے ہیں خود نقُوش ِ پا سَر ِ دشت
اِدھر سے گُزرا ہے ( پہلے بھی ) قافلہ کوئی
دُعائیں بیچنے والے ! چَل اِس نگر سے نکل
یہاں تو مُفت بھی لیتا نہیں دُعا کوئی
ہے یُوں تو دَہر میں کِتنوں سے آشنائی مِری
پَر ' آئنے سا نہیں دیر آشنا کوئی
اِسی لئے تو ہُوں ساحِر ! بُجھا بُجھا سا مَیں
مِری طرح کا نہیں اَور دِل جَلا کوئی
TARIQ BALOCH
عجب ادا سے مجھے دیکھتا رہا کوئی
گواہی دے رہے ہیں خود نقُوش ِ پا سَر ِ دشت
اِدھر سے گُزرا ہے ( پہلے بھی ) قافلہ کوئی
دُعائیں بیچنے والے ! چَل اِس نگر سے نکل
یہاں تو مُفت بھی لیتا نہیں دُعا کوئی
ہے یُوں تو دَہر میں کِتنوں سے آشنائی مِری
پَر ' آئنے سا نہیں دیر آشنا کوئی
اِسی لئے تو ہُوں ساحِر ! بُجھا بُجھا سا مَیں
مِری طرح کا نہیں اَور دِل جَلا کوئی
TARIQ BALOCH
ﺩﻋﺎ ﮐﺎ ﭨﻮﭨﺎ ﮨﻮﺍ ﺣﺮﻑ ۔۔۔۔۔ ﺳﺮﺩ ﺁﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺎ ﭨﻮﭨﺎ ﮨﻮﺍ ﺣﺮﻑ ۔۔۔۔۔ ﺳﺮﺩ ﺁﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﺗﺮﯼ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ ﺍﺑﮭﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﺗﺮﮮ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺎ ﻭﺻﻒ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﺎ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﻣﺮﮮ ﮔﻨﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﻋﺬﺍﺏ ﺩﯾﮕﺎ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮕﺎ
ﻣﯿﮟ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﮨﻮﮞ ﻣﺮﺍ ﺩﻝ ﺗﺮﯼ ﭘﻨﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﺑﮑﮭﺮ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ۔۔۔۔۔ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﮯ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺭﮐﮫ ﺭﮐﮭﺎﺅ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺞ ﮐﻼﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﺟﺴﮯ ﺑﮩﺎﺭ ﮐﮯ ﻣﮩﻤﺎﻥ ۔۔۔۔۔۔ ﺧﺎﻟﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﮔﺌﮯ
ﻭﮦ ﺍﮎ ﻣﮑﺎﻥ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﻣﮑﯿﮟ ﮐﯽ ﭼﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﯾﮩﯽ ﻭﮦ ﺩﻥ ﺗﮭﮯ ﺟﺐ ﺍﮎ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺳﺎﻟﮕﺮﮦ ۔۔۔۔۔۔۔ ﭨﮭﯿﮏ ﺍﮔﻠﮯ ﻣﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺑﭻ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺅﮞ ﺗﻮ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﻣﺎﺭ ﮈﺍﻟﮯ ﮔﯽ
ﻣﺮﮮ ﻗﺒﯿﻠﮯ ﮐﺎ ﮨﺮ ﻓﺮﺩ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ﻗﺘﻞ ﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ TARIQ BALOCH
ﺗﺮﯼ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ ﺍﺑﮭﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﺗﺮﮮ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺎ ﻭﺻﻒ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﺎ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﻣﺮﮮ ﮔﻨﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﻋﺬﺍﺏ ﺩﯾﮕﺎ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮕﺎ
ﻣﯿﮟ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﮨﻮﮞ ﻣﺮﺍ ﺩﻝ ﺗﺮﯼ ﭘﻨﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﺑﮑﮭﺮ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ۔۔۔۔۔ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﮯ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺭﮐﮫ ﺭﮐﮭﺎﺅ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺞ ﮐﻼﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﺟﺴﮯ ﺑﮩﺎﺭ ﮐﮯ ﻣﮩﻤﺎﻥ ۔۔۔۔۔۔ ﺧﺎﻟﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﮔﺌﮯ
ﻭﮦ ﺍﮎ ﻣﮑﺎﻥ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﻣﮑﯿﮟ ﮐﯽ ﭼﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﯾﮩﯽ ﻭﮦ ﺩﻥ ﺗﮭﮯ ﺟﺐ ﺍﮎ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺳﺎﻟﮕﺮﮦ ۔۔۔۔۔۔۔ ﭨﮭﯿﮏ ﺍﮔﻠﮯ ﻣﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺑﭻ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺅﮞ ﺗﻮ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﻣﺎﺭ ﮈﺍﻟﮯ ﮔﯽ
ﻣﺮﮮ ﻗﺒﯿﻠﮯ ﮐﺎ ﮨﺮ ﻓﺮﺩ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ﻗﺘﻞ ﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ TARIQ BALOCH
تجھے اب کس لئے شکوہ ہے بچے گھر نہیں رہتے تجھے اب کس لئے شکوہ ہے بچے گھر نہیں رہتے
جو پتے زرد ہو جائیں وہ شاخوں پر نہیں رہتے
تو کیوں بے دخل کرتا ہے مکانوں سے مکینوں کو
وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے
جھکا دے گا تیری گردن کو یہ خیرات کا پتھر
جہاں میں مانگنے والوں کے اونچے سر نہیں رہتے
یقیناً یہ رعایا بادشاہ کو قتل کر دے گی
مسلسل جبر سے محسن دلوں میں ڈر نہیں رہتے
TARIQ BALOCH
جو پتے زرد ہو جائیں وہ شاخوں پر نہیں رہتے
تو کیوں بے دخل کرتا ہے مکانوں سے مکینوں کو
وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے
جھکا دے گا تیری گردن کو یہ خیرات کا پتھر
جہاں میں مانگنے والوں کے اونچے سر نہیں رہتے
یقیناً یہ رعایا بادشاہ کو قتل کر دے گی
مسلسل جبر سے محسن دلوں میں ڈر نہیں رہتے
TARIQ BALOCH
فریب دیتی ھوئی مہربانیوں سے مجھے فریب دیتی ھوئی مہربانیوں سے مجھے
کسی نے کھینچ لیا خوش گمانیوں سے مجھے
کُھلا کہ میں ابھی ازبر نہیں ھوا اُس کو
وہ یاد رکھتا ھے میری نشانیوں سے مجھے
میں اپنے آپ کو شک کی نظر سے دیکھتا ھون
وہ دکھ ملے ھیں تری بد گمانیوں سے مجھے
میں جانتا ھوں کسی روز بیچنے کے لئے
بچا رھا ھے کوئی رائیگانیوں سے مجھے
مرے خُدا مرے ماتھے پہ جاوداں لکھ کر
کیا ھے کس لئے منسوب فانیوں سے مجھے
میں اک خزانہ ھوں پہچان کو ترستا ھوا
نکالتا ھی نہیں کوئی پانیوں سے مجھے
کچھ اس لئے بھی مری نیند اُڑ گئی شاھد
سُلا رھا تھا وہ سچی کہانیوں سے مجھے
TARIQ BALOCH
کسی نے کھینچ لیا خوش گمانیوں سے مجھے
کُھلا کہ میں ابھی ازبر نہیں ھوا اُس کو
وہ یاد رکھتا ھے میری نشانیوں سے مجھے
میں اپنے آپ کو شک کی نظر سے دیکھتا ھون
وہ دکھ ملے ھیں تری بد گمانیوں سے مجھے
میں جانتا ھوں کسی روز بیچنے کے لئے
بچا رھا ھے کوئی رائیگانیوں سے مجھے
مرے خُدا مرے ماتھے پہ جاوداں لکھ کر
کیا ھے کس لئے منسوب فانیوں سے مجھے
میں اک خزانہ ھوں پہچان کو ترستا ھوا
نکالتا ھی نہیں کوئی پانیوں سے مجھے
کچھ اس لئے بھی مری نیند اُڑ گئی شاھد
سُلا رھا تھا وہ سچی کہانیوں سے مجھے
TARIQ BALOCH
ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﭼﯿﺖ ﮐﯽ ﺯﺣﻤﺖ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﭼﯿﺖ ﮐﯽ ﺯﺣﻤﺖ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﺑﺲ ﭼﻞ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﺎﺗﮫ، ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﯿﺎﮞ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ
ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﺣﺎﻝِ ﺩﻝ ﮐﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻧﺎﺋﯿﮟ ﻋﺰﯾﺰ ﮨﯿﮟ
ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻧﺬﺭِ ﻣﻼﻣﺖ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﭨﮭﮩﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﺮﺍﺳﻢ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ
ﭘﯿﺪﺍ ﺧﻠﯿﺞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺳﻌﺖ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺗﻨﮯ ﺑﺮﺱ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﭧ ﮔﺌﮯ
ﺭﺳﻤﯽ ﺳﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﮩﺪِ ﺭﻓﺎﻗﺖ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﻭﮦ ﺟﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ
ﺗﻨﮩﺎ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ ﺍُﺳﮯ ﺭﺧﺼﺖ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﺍﺳﻄﮧ
ﻟﯿﮑﻦ ﮐِﺴﯽ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺎﻧﺖ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ
TARIQ BALOCH
ﺑﺲ ﭼﻞ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﺎﺗﮫ، ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﯿﺎﮞ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ
ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﺣﺎﻝِ ﺩﻝ ﮐﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻧﺎﺋﯿﮟ ﻋﺰﯾﺰ ﮨﯿﮟ
ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻧﺬﺭِ ﻣﻼﻣﺖ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﭨﮭﮩﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﺮﺍﺳﻢ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ
ﭘﯿﺪﺍ ﺧﻠﯿﺞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺳﻌﺖ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺗﻨﮯ ﺑﺮﺱ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﭧ ﮔﺌﮯ
ﺭﺳﻤﯽ ﺳﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﮩﺪِ ﺭﻓﺎﻗﺖ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﻭﮦ ﺟﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ
ﺗﻨﮩﺎ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ ﺍُﺳﮯ ﺭﺧﺼﺖ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﺍﺳﻄﮧ
ﻟﯿﮑﻦ ﮐِﺴﯽ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺎﻧﺖ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ
TARIQ BALOCH
ﺍﮎ ﻟﻔﻆِ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺍﺩﻧﯽٰ ﯾﮧ ﻓﺴﺎﻧﮧ ﮨﮯ ﺍﮎ ﻟﻔﻆِ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺍﺩﻧﯽٰ ﯾﮧ ﻓﺴﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺳﻤﭩﮯ ﺗﻮ ﺩﻝِ ﻋﺎﺷﻖ، ﭘﮭﯿﻠﮯ ﺗﻮ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﮐِﺲ ﮐﺎ ﺗﺼﻮّﺭ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﮐِﺲ ﮐﺎ ﻓﺴﺎﻧﮧ ﮨﮯ؟
ﺟﻮ ﺍﺷﮏ ﮨﮯ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ، ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮐﺎ ﺩﺍﻧﮧ ﮨﮯ
ﺩﻝ ﺳﻨﮓِ ﻣﻼﻣﺖ ﮐﺎ ﮨﺮﭼﻨﺪ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺩﻝ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﺮﺍ ﺩﻝ ﮨﮯ، ﺩﻝ ﮨﯽ ﺗﻮ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﮨﻢ ﻋﺸﻖ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﻓﺴﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺭﻭﻧﮯ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ، ﮨﻨﺴﻨﮯ ﮐﻮ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﻭﻓﺎ ﺩﺷﻤﻦ، ﻣﺎﻧﯿﮟ ﮔﮯ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﺳﺐ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﮨﮯ، ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﮩﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺷﺎﻋﺮ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻋﺮ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﺮﺍ ﮨﯽ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﻓﻄﺮﺕ ﻣﺮﺍ ﺁﺋﯿﻨﮧ، ﻗﺪﺭﺕ ﻣﺮﺍ ﺷﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﺍُﻥ ﭘﮧ ﮔﺰﺭﺗﯽ ﮨﮯ، ﮐﺲ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ؟
ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﮨﮯ، ﺍﭘﻨﺎ ﮨﯽ ﻓﺴﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺁﻏﺎﺯِ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ، ﺁﻧﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﺍﺷﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮨﮯ، ﺁﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﯽ ﺳﯽ ﮨﮯ ﭼُﭗ ﭼُﭗ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ
ﻧﺎﺯﮎ ﺳﯽ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺯﮎ ﺳﺎ ﻓﺴﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﯾﺎ ﻭﮦ ﺗﮭﮯ ﺧﻔﺎ ﮨﻢ ﺳﮯ ﯾﺎ ﮨﻢ ﮨﯿﮟ ﺧﻔﺎ ﺍُﻥ ﺳﮯ
ﮐﻞ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺗﮭﺎ، ﺁﺝ ﺍﭘﻨﺎ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺟﻨﻮﮞ ﭘﯿﺸﮧ! ﮨﺎﮞ ﻋﺸﻖ ﺟﻨﻮﮞ ﭘﯿﺸﮧ
ﺁﺝ ﺍﯾﮏ ﺳﺘﻤﮕﺮ ﮐﻮ ﮨﻨﺲ ﮨﻨﺲ ﮐﮯ ﺭُﻻﻧﺎ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﻋﺸﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺳﺎﮞ، ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﺠﺌﮯ
ﺍﮎ ﺁﮒ ﮐﺎ ﺩﺭﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮈﻭﺏ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﺧﻮﺩ ﺣﺴﻦ ﻭﺷﺒﺎﺏ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﻢ ﮨﮯ ﺭﻗﯿﺐ ﺍﭘﻨﺎ
ﺟﺐ ﺩﯾﮑﮭﺌﮯ، ﺗﺐ ﻭﮦ ﮨﯿﮟ، ﺁﺋﯿﻨﮧ ﮨﮯ، ﺷﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﮨﻢ ﻋﺸﻖِ ﻣﺠﺴّﻢ ﮨﯿﮟ، ﻟﺐ ﺗﺸﻨﮧ ﻭﻣﺴﺘﺴﻘﯽ
ﺩﺭﯾﺎ ﺳﮯ ﻃﻠﺐ ﮐﯿﺴﯽ، ﺩﺭﯾﺎ ﮐﻮ ﺭُﻻﻧﺎ ﮨﮯ
ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮐﮯ ﺩﻭ ﺭُﺥ ﮨﯿﮟ ﺟﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﻏﻢِ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺍﮎ ﻧﻘﺶ ﭼﮭﭙﺎﻧﺎ ﮨﮯ، ﺍﮎ ﻧﻘﺶ ﺩِﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﺳﯽ ﺩُﮬﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮨﺮ ﻟﺤﻈﮧ ﺑﺴﺮ ﮐﺮﻧﺎ
ﺍﺏ ﺁﺋﮯ، ﻭﮦ ﺍﺏ ﺁﺋﮯ، ﻻﺯﻡ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﺎ ﮨﮯ
ﺧﻮﺩﺍﺭﯼ ﻭ ﻣﺤﺮﻭﻣﯽ، ﻣﺤﺮﻭﻣﯽ ﻭ ﺧﻮﺩﺍﺭﯼ
ﺍﺏ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺧﺪﺍ ﺭﮐﮭﮯ، ﺍﺏ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺍﺷﮑﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺒﺴّﻢ ﻣﯿﮟ، ﺁﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺮﻧّﻢ ﻣﯿﮟ
ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻓﺴﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺁﻧﺴﻮ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮕﺮ ﻟﯿﮑﻦ
ﺑﻨﺪﮪ ﺟﺎﺋﮯ ﺳﻮ ﻣﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺭﮦ ﺟﺎﺋﮯ ﺳﻮ ﺩﺍﻧﺎ ﮨﮯ
TARIQ BALOCH
ﺳﻤﭩﮯ ﺗﻮ ﺩﻝِ ﻋﺎﺷﻖ، ﭘﮭﯿﻠﮯ ﺗﻮ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﮐِﺲ ﮐﺎ ﺗﺼﻮّﺭ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﮐِﺲ ﮐﺎ ﻓﺴﺎﻧﮧ ﮨﮯ؟
ﺟﻮ ﺍﺷﮏ ﮨﮯ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ، ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮐﺎ ﺩﺍﻧﮧ ﮨﮯ
ﺩﻝ ﺳﻨﮓِ ﻣﻼﻣﺖ ﮐﺎ ﮨﺮﭼﻨﺪ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺩﻝ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﺮﺍ ﺩﻝ ﮨﮯ، ﺩﻝ ﮨﯽ ﺗﻮ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﮨﻢ ﻋﺸﻖ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﻓﺴﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺭﻭﻧﮯ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ، ﮨﻨﺴﻨﮯ ﮐﻮ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﻭﻓﺎ ﺩﺷﻤﻦ، ﻣﺎﻧﯿﮟ ﮔﮯ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﺳﺐ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﮨﮯ، ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﮩﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺷﺎﻋﺮ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻋﺮ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﺮﺍ ﮨﯽ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﻓﻄﺮﺕ ﻣﺮﺍ ﺁﺋﯿﻨﮧ، ﻗﺪﺭﺕ ﻣﺮﺍ ﺷﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﺍُﻥ ﭘﮧ ﮔﺰﺭﺗﯽ ﮨﮯ، ﮐﺲ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ؟
ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﮨﮯ، ﺍﭘﻨﺎ ﮨﯽ ﻓﺴﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺁﻏﺎﺯِ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ، ﺁﻧﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﺍﺷﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮨﮯ، ﺁﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﯽ ﺳﯽ ﮨﮯ ﭼُﭗ ﭼُﭗ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ
ﻧﺎﺯﮎ ﺳﯽ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺯﮎ ﺳﺎ ﻓﺴﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﯾﺎ ﻭﮦ ﺗﮭﮯ ﺧﻔﺎ ﮨﻢ ﺳﮯ ﯾﺎ ﮨﻢ ﮨﯿﮟ ﺧﻔﺎ ﺍُﻥ ﺳﮯ
ﮐﻞ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺗﮭﺎ، ﺁﺝ ﺍﭘﻨﺎ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺟﻨﻮﮞ ﭘﯿﺸﮧ! ﮨﺎﮞ ﻋﺸﻖ ﺟﻨﻮﮞ ﭘﯿﺸﮧ
ﺁﺝ ﺍﯾﮏ ﺳﺘﻤﮕﺮ ﮐﻮ ﮨﻨﺲ ﮨﻨﺲ ﮐﮯ ﺭُﻻﻧﺎ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﻋﺸﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺳﺎﮞ، ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﺠﺌﮯ
ﺍﮎ ﺁﮒ ﮐﺎ ﺩﺭﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮈﻭﺏ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﺧﻮﺩ ﺣﺴﻦ ﻭﺷﺒﺎﺏ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﻢ ﮨﮯ ﺭﻗﯿﺐ ﺍﭘﻨﺎ
ﺟﺐ ﺩﯾﮑﮭﺌﮯ، ﺗﺐ ﻭﮦ ﮨﯿﮟ، ﺁﺋﯿﻨﮧ ﮨﮯ، ﺷﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﮨﻢ ﻋﺸﻖِ ﻣﺠﺴّﻢ ﮨﯿﮟ، ﻟﺐ ﺗﺸﻨﮧ ﻭﻣﺴﺘﺴﻘﯽ
ﺩﺭﯾﺎ ﺳﮯ ﻃﻠﺐ ﮐﯿﺴﯽ، ﺩﺭﯾﺎ ﮐﻮ ﺭُﻻﻧﺎ ﮨﮯ
ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮐﮯ ﺩﻭ ﺭُﺥ ﮨﯿﮟ ﺟﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﻏﻢِ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺍﮎ ﻧﻘﺶ ﭼﮭﭙﺎﻧﺎ ﮨﮯ، ﺍﮎ ﻧﻘﺶ ﺩِﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﺳﯽ ﺩُﮬﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮨﺮ ﻟﺤﻈﮧ ﺑﺴﺮ ﮐﺮﻧﺎ
ﺍﺏ ﺁﺋﮯ، ﻭﮦ ﺍﺏ ﺁﺋﮯ، ﻻﺯﻡ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﺎ ﮨﮯ
ﺧﻮﺩﺍﺭﯼ ﻭ ﻣﺤﺮﻭﻣﯽ، ﻣﺤﺮﻭﻣﯽ ﻭ ﺧﻮﺩﺍﺭﯼ
ﺍﺏ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺧﺪﺍ ﺭﮐﮭﮯ، ﺍﺏ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺍﺷﮑﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺒﺴّﻢ ﻣﯿﮟ، ﺁﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺮﻧّﻢ ﻣﯿﮟ
ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻓﺴﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺁﻧﺴﻮ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮕﺮ ﻟﯿﮑﻦ
ﺑﻨﺪﮪ ﺟﺎﺋﮯ ﺳﻮ ﻣﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺭﮦ ﺟﺎﺋﮯ ﺳﻮ ﺩﺍﻧﺎ ﮨﮯ
TARIQ BALOCH