Poetries by اُسامہ علی
خوشی لکھنا چاہوں تو غم لکھتا ہوں خوشی لکھنا چاہوں تو غم لکھتا ہوں
اِسی خوف سے اب میں کم لکھتا ہوں
بھلا کر کروں کیا زمانے کے غم
ملا کر سبھی غم، صنم لکھتا ہوں
میں کچھ اور لکھوں یا نہیں بھی لکھوں
رُخِ یار پر ایک دم لکھتا ہوں
کبھی جو میں نے میں یا تُو ہو لکھا
ہمیشہ میں تجھ مجھ کو ہم لکھتا ہوں
مری شاعری کے اصولوں میں ہے
میں دشمن کو بھی محترم لکھتا ہوں
منافق ہوں اور سانپ زہریلے بھی
انہیں دوست میں ہر قدم لکھتا ہوں
ہو انسانیت زندہ دل میں کسی
میں اس شخص کو محتشم لکھتا ہوں
علیٓ ایک خواہش رہی باقی اب
دعا میں خدا سے حرم لکھتا ہوں اُسامہ علیٓ
اِسی خوف سے اب میں کم لکھتا ہوں
بھلا کر کروں کیا زمانے کے غم
ملا کر سبھی غم، صنم لکھتا ہوں
میں کچھ اور لکھوں یا نہیں بھی لکھوں
رُخِ یار پر ایک دم لکھتا ہوں
کبھی جو میں نے میں یا تُو ہو لکھا
ہمیشہ میں تجھ مجھ کو ہم لکھتا ہوں
مری شاعری کے اصولوں میں ہے
میں دشمن کو بھی محترم لکھتا ہوں
منافق ہوں اور سانپ زہریلے بھی
انہیں دوست میں ہر قدم لکھتا ہوں
ہو انسانیت زندہ دل میں کسی
میں اس شخص کو محتشم لکھتا ہوں
علیٓ ایک خواہش رہی باقی اب
دعا میں خدا سے حرم لکھتا ہوں اُسامہ علیٓ
ابھی نئے ہو تو شاید وفا دغا نہ لگے ابھی نئے ہو تو شاید وفا دغا نہ لگے
خدا کرے کہ تجھے شہر کی ہوا نہ لگے
بس ایک بار لگی تھی تری گلی کی ہوا
اور اب یہ حال کہ کوئی دعا، دوا نہ لگے
پھنسا ہوں سحر بیانی کے جال میں تیری
میں صید وہ ہوں کہ صیاد بھی برا نہ لگے
میں چاہتا ہوں عدالت میں فیصلہ وہ کرے
وہ عمر قید سنا دے مجھے سزا نہ لگے
مطالعہ سبھی مضمون کر چکا ہوں مگر
مجھے تو یہ بھی ترے ذکر سے جدا نہ لگے
خموش لب سے اسے چاہتا رہوں کہ علیٓ
یہ رسمِ عشق چلے اور اسے پتہ نہ لگے اُسامہ علی
خدا کرے کہ تجھے شہر کی ہوا نہ لگے
بس ایک بار لگی تھی تری گلی کی ہوا
اور اب یہ حال کہ کوئی دعا، دوا نہ لگے
پھنسا ہوں سحر بیانی کے جال میں تیری
میں صید وہ ہوں کہ صیاد بھی برا نہ لگے
میں چاہتا ہوں عدالت میں فیصلہ وہ کرے
وہ عمر قید سنا دے مجھے سزا نہ لگے
مطالعہ سبھی مضمون کر چکا ہوں مگر
مجھے تو یہ بھی ترے ذکر سے جدا نہ لگے
خموش لب سے اسے چاہتا رہوں کہ علیٓ
یہ رسمِ عشق چلے اور اسے پتہ نہ لگے اُسامہ علی
باپ بلندی کے سنہرے خواب بچوں کو دکھاتا ہے
پڑھاتا ہے لکھاتا ہے سبق روشن سکھاتا ہے
بھلے مجبور ہو کر بھوک کو اپنی چھپاتا ہے
وہی تو پیٹ اپنا کاٹ کر سب کو کھلاتا ہے
اگر اولاد مہنگی چیز کی خواہش ذرا کردے
سو پھر کتنے ہی خرچے ہوں ادھاری پر اٹھاتا ہے
مجھے ہے یاد دو جوڑی فقط اس کے ہیں کُل کپڑے
وہ اپنا آپ کھوتا ہے تو گھر کیوں کر چلاتا ہے
ذرا سوچو زمانے کے ستم کو کیوں بھلاتا ہے
وہ اپنے اور پرائے جتنے ہیں رشتے نبھاتا ہے
میں آنکھیں بند شب ساری اسے تکتا رہا ہوں بس
ستاروں سے بھی روشن، ذہن میں وہ ٹمٹماتا ہے
بڑا اچھا علیٓ لگتا ہے سن کر فخر ہوتا ہے
جہاں بھر میں مری گن کامیابی کے وہ گاتا ہے
اُسامہ علی
پڑھاتا ہے لکھاتا ہے سبق روشن سکھاتا ہے
بھلے مجبور ہو کر بھوک کو اپنی چھپاتا ہے
وہی تو پیٹ اپنا کاٹ کر سب کو کھلاتا ہے
اگر اولاد مہنگی چیز کی خواہش ذرا کردے
سو پھر کتنے ہی خرچے ہوں ادھاری پر اٹھاتا ہے
مجھے ہے یاد دو جوڑی فقط اس کے ہیں کُل کپڑے
وہ اپنا آپ کھوتا ہے تو گھر کیوں کر چلاتا ہے
ذرا سوچو زمانے کے ستم کو کیوں بھلاتا ہے
وہ اپنے اور پرائے جتنے ہیں رشتے نبھاتا ہے
میں آنکھیں بند شب ساری اسے تکتا رہا ہوں بس
ستاروں سے بھی روشن، ذہن میں وہ ٹمٹماتا ہے
بڑا اچھا علیٓ لگتا ہے سن کر فخر ہوتا ہے
جہاں بھر میں مری گن کامیابی کے وہ گاتا ہے
اُسامہ علی
غزل "ناخوش ہوں" میں نا انصافئ منصف کے نذرانے سے ناخوش ہوں
میں جشنِ فتح پر ناجانے پچھتانے سے ناخوش ہوں
میں کھلتا اک چمن سینے میں مرجھانے سے ناخوش ہوں
میں اپنے غم کی زد، سگریٹ سلگانے سے ناخوش ہوں
منازل کامیابی کی سبھی طے کر چکا ہوں پر
میں آغوشِ خوشی میں ڈوبے کاشانے سے ناخوش ہوں
میں نے لوگوں کو دیکھا ڈوبتے رنجش کے دریا میں
میں ساحل پر اکیلا بیٹھے رہ جانے سے ناخوش ہوں
ہیں اعلیٰ ظرف ہر منظر کی جو تصویر لیتے ہیں
میں دل کے یادِ بچپن یاد دلوانے سے ناخوش ہوں
ہیں گُل چھرّے گلستاں میں اسی برسات کے باعث
میں ہمدردی میں، اشکِ ابر بہہ جانے سے ناخوش ہوں
بڑی اپنائیت سے وہ ملا پہلے پہل اور اب
نبھا کر وعدہ ناخوش ہوں، اُسے پانے سے ناخوش ہوں
میں تنہائی میں خوش تھا، دوستی کرلی فلانے سے
علیٓ خوش ہوں مگر اس دوست انجانے سے ناخوش ہوں اُسامہ علی
میں جشنِ فتح پر ناجانے پچھتانے سے ناخوش ہوں
میں کھلتا اک چمن سینے میں مرجھانے سے ناخوش ہوں
میں اپنے غم کی زد، سگریٹ سلگانے سے ناخوش ہوں
منازل کامیابی کی سبھی طے کر چکا ہوں پر
میں آغوشِ خوشی میں ڈوبے کاشانے سے ناخوش ہوں
میں نے لوگوں کو دیکھا ڈوبتے رنجش کے دریا میں
میں ساحل پر اکیلا بیٹھے رہ جانے سے ناخوش ہوں
ہیں اعلیٰ ظرف ہر منظر کی جو تصویر لیتے ہیں
میں دل کے یادِ بچپن یاد دلوانے سے ناخوش ہوں
ہیں گُل چھرّے گلستاں میں اسی برسات کے باعث
میں ہمدردی میں، اشکِ ابر بہہ جانے سے ناخوش ہوں
بڑی اپنائیت سے وہ ملا پہلے پہل اور اب
نبھا کر وعدہ ناخوش ہوں، اُسے پانے سے ناخوش ہوں
میں تنہائی میں خوش تھا، دوستی کرلی فلانے سے
علیٓ خوش ہوں مگر اس دوست انجانے سے ناخوش ہوں اُسامہ علی
نظم اردو اجالا چاند کے بِن جو ہے وہ لشکار اردو ہے
کہ دنیائے ادب کا منفرد گلزار اردو ہے
مصنف، شاعروں کا بولتا ہتھیار اردو ہے
کہ میدانِ سخن کی جاں سپہ سالار اردو ہے
ہماری مادری علمی زباں اردو ہے اردو ہے
محبت کی اخوت کی علمبردار اردو ہے
پرندے چہچہاتے دھن میں گم ہیں اتنے صبح و شام
جو گاتے نغمے اردو کے ہیں اور گفتار اردو ہے
کلامِ فیض و میر و غالب و اقبال ہیں گل دار
کِھلا ہر پھول ہے جس میں وہی پھلوار اردو ہے
خوشی میں غم میں ہر آنسو کے قطرے میں لکھی اردو
قلم کاروں نے لکھنا ہے مرا گھر بار اردو ہے
مری پہلی محبت، آخری جذبات اردو ہیں
علیٓ کا نعرۂ عشق و وفا ہر بار اردو ہے
اُسامہ علی
کہ دنیائے ادب کا منفرد گلزار اردو ہے
مصنف، شاعروں کا بولتا ہتھیار اردو ہے
کہ میدانِ سخن کی جاں سپہ سالار اردو ہے
ہماری مادری علمی زباں اردو ہے اردو ہے
محبت کی اخوت کی علمبردار اردو ہے
پرندے چہچہاتے دھن میں گم ہیں اتنے صبح و شام
جو گاتے نغمے اردو کے ہیں اور گفتار اردو ہے
کلامِ فیض و میر و غالب و اقبال ہیں گل دار
کِھلا ہر پھول ہے جس میں وہی پھلوار اردو ہے
خوشی میں غم میں ہر آنسو کے قطرے میں لکھی اردو
قلم کاروں نے لکھنا ہے مرا گھر بار اردو ہے
مری پہلی محبت، آخری جذبات اردو ہیں
علیٓ کا نعرۂ عشق و وفا ہر بار اردو ہے
اُسامہ علی