✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
Usman Tarar
Search
Add Poetry
Poetries by Usman Tarar
اجداد کی پہچان بن گیا
روشن خیالی کا شوق ، تباہی کا سامان بن گیا
اقدار کم ہوتی گئیں ، خود غرض انسان بن گیا
محبت کو بھی دولت کے ترازو میں تولا گیا
حسرتیں لہو ہوتی رہیں، ہر شخص انجان بن گیا
لوگ میری سوچ کو بوسیدہ و فرسودہ کہتے رہے
میں اپنی ڈگر پہ قائم رہا اور منزل کا نشان بن گیا
آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں جب کسی نے یہ کہا
عثمان تیرا اخلاق ترے، اجداد کی پہچان بن گیا
Usman Tarar
Copy
بکرا “ قطعات “
بکرا
چھوٹا سا ملازم ہوں اور سوسائٹی ہے بڑی اپنی
بڑی مشکل سے قربانی کی اک نوید لایا ہوں
ہمسایوں کے سامنے کہیں مری ناک نہ کٹ جائے
میں گاڑی بیچ کر اپنی اک بکرا خرید لایا ہوں
مہنگائی
جو کچھ بھی تھا نکال دیا جیبوں کو جھاڑ کر
بیگم پھر بھی کہتی ہے کہ اسے خرچہ نہیں ملتا
اک دور تھا چالیس ہزار میں بیاہ لاتے تھے دلہن
اک دور ہے کہ اس رقم میں بھی بکرا نہیں ملتا
کھال
امریکی ڈالر بھی تمھاری حوس کو مٹا نہ سکے
اے مرے دیس کے حکمرانوں تم کتنے عجیب ہو
عثمان اب کے سال قربانی بانٹیے گا ذرا اس طرح
کھال حکومت کو دیجئیے گا اور گوشت غریب کو
گوشت
قربانی کا گوشت رکھ لیا تو نے سنبھال کر
اس شہر کے غریبوں کا کچھ تو خیال کر
حق داروں کو حق دے ضمیر کو جگا ذرا
غریبوں میں بانٹ دے اسے فریزر سے نکال کر
ملک
پولیس ، فوج اور عوام کوئی بھی محفوظ نہیں
ہر کسی کی جان کو خطرہ بنا ہوا ہے
بیرونی ایجنسیوں کے ہاتھ میں ہے چھری
اور بیچارہ ملک اپنا بکرا بنا ہوا ہے
Usman Tarar
Copy
بکرا
پولیس فوج اور عوام، کوئی بھی محفوظ نہیں
ہر کسی کی جان کو خطرہ بنا ہوا ہے
بیرونی ایجنسیوں کے ہاتھ میں ہے چھری
اور بیچارہ ملک اپنا بکرا بنا ہوا ہے
چھوٹا سا ملازم ہوں اور سوسائٹی ہے بڑی اپنی
بڑی مشکل سے قربانی کی اک نوید لایا ہوں
ہمسایوں کے سامنے کہیں میری ناک نہ کٹ جائے
میں گاڑی بیچ کر اپنی اک بکرا خرید لایا ہوں
Usman Tarar
Copy
التجا ہے عید کے چاند سے
التجا ہے عید کے چاند سے
ذرا نکل آنا سر شام سے
کہیں یہ نہ ہو
کہ بچے سو جائیں جب آرام سے
ہم بیٹھے ہوں روزے کے اہتمام سے
اک مولانا اچانک ٹی ۔ وی پر
تمہیں پکڑ لائیں کہیں مردان سے
ذرا نکل آنا سر شام سے
التجا ہے عید کے چاند سے
Usman Tarar
Copy
ہمیں وطن کی مٹی پیاری ہے
جو بھی اپنے وڈیرے ہیں
سب کے سب لٹیرے ہیں
انکی راہیں روشن ہیں
ہمارے لیے اندھیرے ہیں
کھانے پینے اور رہنے کی
سوچیں ہم کو گھیرے ہیں
ہمیں وطن کی مٹی پیاری ہے
ان کے باہر بسیرے ہیں
انصاف کی توقع کریں کس سے
مرضی کے پنچائیت اور ڈیرے ہیں
اے وطن تو اکیلا ہے
اور تجھے کھانے والے بتیرے ہیں
عثمان انکی باتوں میں آنا مت
یہ تیرے ہیں نہ میرے ہیں
Usman Tarar
Copy
جذبہ ہو تو بند بنایا جا سکتا ہے
جذبہ ہو تو بند بنایا جا سکتا ہے
ڈوبتا ہوا شہر بچایا جا سکتا ہے
بہتی ہوئی ندی کے دو کناروں کی طرح
آخر کب تک ساتھ نبھایا جا سکتا ہے
سامنے سے جب کوئی بھی آواز نہ دے
کب تک تنہا شور مچایا جا سکتا ہے
طویل مسافت پہ محبت کے رہی کو
ہاتھ پکڑ کے راہ دکھلایا جا سکتا ہے
مستقبل کی منصوبہ بندی ضروری ہے
گزرے دنوں پہ بس پچھتایا جا سکتا ہے
اپنی اپنی اوقات کے مطابق اے اہل ستم
ڈھا لو جتنا ستم ڈھایا جا سکتا ہے
جس کا حق ہے اس کو مل ہی جانا ہے
نا حق کب تک خون بہایا جا سکتا ہے
Usman Tarar
Copy
کچھ میری اناؤں کی نظر میں
کچھ میری اناؤں کی نظر میں کچھہ اپنے جذبات سنبھال کے۔
چلیں یوں ہی ہم عمر بھر ، لاؤ کوئی ایسی راہ نکال کے۔
تیرا ضبط تو اک پہاڑ تھا سو جانِ جاں اسے کیا ہوا
کیوں ریزہ ریزہ وہ ہوا ، اک لفظ کے بھونچال سے۔
یوں تو زندگی کے یر موڑ ہر ہے حادثوں کا سامنا
مگر کٹ جائے گا یہ سفر چلیں ہاتھ جو ہاتھوں میں ڈال کے۔
میرے راستوں کی گرد ابھی میری پلکوں پہ ہے جمی ہوئی
میری طلب بھی ہے وہی ابھی جو تھی پچھلے ماہُ سال سے۔
عثمان کل شب میرے خواب میں پھر آئی تھیں تنہائیاں
میری روح تک کانپ اٹھی تیرے بچھڑنے کے خیال سے
Usman Tarar
Copy
کوئی تو ہو جو روح کی تسکین بھی کرے
جھوٹی تسلیوں کا سہارا نہیں چاہیے
کوئی بھی زخم اب دوبارہ نہیں چاہیے
جاگ اٹھیں جس سے ماضی کی حسرتیں
ایسا اب کوئی بھی نظارہ نہیں چاہیے
اپنا وجود بھی کھو دے لہروں کے سامنے
ہم کو اب ریت کا کنارہ نہیں چاہیے
عمر بھر آگ میں جلتا رہے ، چلتا رہے
ہمیں سورج سا ستارہ نہیں چاہیے
کوئی تو ہو جو روح کی تسکین بھی کرے
عثمان وفاؤں کے عوض ہم کو خسارہ نہیں چاہیے
اے زمانے اک عمر ہم تیری زد پہ رہے
اب کوئی بھی ہمیں فیصلہ تمہارا نہیں چاہیے
Usman Tarar
Copy
منزل کے کھوج میں اکثر
منزل کے کھوج میں اکثر راہیں بدلتی رہیں
بھٹکے ہوئے مسافروں کی نوائیں بدلتی رہیں
رشتے کے باوجود مجھے لا تعلق ٹھرایا گیا
وقت کے ساتھ ساتھ میری سزائیں بدلتی رہیں
طلب کے ساتھ وفا کا مفہوم بدل دیا گیا
اس دور میں محبت کی اصطلاحیں بدلتی رہیں
کبھی پھولوں سے سج گئے کبھی پتے بھی چھٹ گئے
موسم کے ساتھ پیڑوں کی ردائیں بدلتی رہیں
عمر کے ساتھ ساتھ سوچ بھی پختہ ہوتی گئی
عثمان فیصلے بدلتے رہے، انائیں بدلتی رہیں
ہر قدم پہ مجھ کو مشکلات کا سامنا رہا
مجبوریوں کے تحت میری دعائیں بدلتی رہیں
Usman Tarar
Copy
کچے گھڑے
تیرے پاس تو پہلے بھی تھے مگر یہ سوچا نہ تھا
دل کی دھڑکن رک جائے گی تیرے اک اشارے پر
کتنے ظالم ہیں یہ لوگ ڈوبنے والوں پہ ہنسیں گے
کچے گھڑے جو بیچ رہے ہیں دریا کے کنارے پر
Usman Tarar
Copy
اے وطن تو اکیلا ہے
جو بھی اپنے وڈیرے ہیں
سب کے سب لٹیرے ہیں
انکی راہیں روشن ہیں
ہمارے لیے اندھیرے ہیں
کھانے پینے اور رہنے کی
سوچیں ہم کو گھیرے ہیں
ہمیں وطن کی مٹی پیاری ہے
ان کے باہر بسیرے ہیں
انصاف کی توقع کریں کس سے
مرضی کے پنچائیت اور ڈیرے ہیں
گھنے چنے ہیں شریف یہاں
کن ٹٹے چار چفیرے ہیں
اے وطن تو اکیلا ہے
اور تجھے کھانے والے بتیرے ہیں
عثمان انکی باتوں میں آنا مت
یہ تیرے ہیں نہ میرے ہیں
Usman Tarar
Copy
گھر کو آگ لگی ہے او ر یہ لوگ
خشک آنکھوں میں برسات دے رہے ہیں
میرے مقدرمیں اندھیری رات دے رہے ہیں
گھر پہ میسر نہیں دو وقت کی روٹی بھی
یہ نئی نئی رسومات دے رہے ہیں
حبس دولت کی بڑھتی جا رہی ہے
لوگ رشتوں کو مات دے رہے ہیں
پھول مانگنے والوں کے ہاتھوں میں
سوکھے ہوئے پات دے رہے ہیں
گھر کو آگ لگی ہے او ر یہ لوگ
ہواؤں کو جذبات دے رہے ہیں
عثمان ظلم پہ خاموش رہ کر ہم
ظالموں کا ساتھ دے رہے ہیں
Usman Tarar
Copy
زندگی جو سبق سکھاتی ہے
دن میں دیپ جلائے نہیں جاتے
یوں مقدر مٹائے نہیں جاتے
دشمنی کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں
یوں ہی گھر جلائے نہیں جاتے
خوش مزاجی سے جیت لوگوں کو
دلوں میں یونہی گھر بنائے نہیں جاتے
کسی کے آنے کی اگر امید ہو
نشاں قدموں کے مٹائے نہیں جاتے
پہلی بارش سے ہی دھل جائیں
ایسے رنگ چڑھائے نہیں جاتے
دھوپ چاہے جدھر سے بھی آئے
گھنے پیڑوں کے سائے نہیں جاتے
عثمان زندگی جو سبق سکھاتی ہے
وہ نصابوں میں پڑھائے نہیں جاتے
Usman Tarar
Copy
تشنگی کو بڑھائے جا رہی ہے
زندگی مجھے آزمائے جا رہی ہے
موت قریب آئے جا رہی ہے
زرد پتوں پہ کوئی چل رہا ہے
یا بہار انہیں رلائے جا رہی ہے
ڈار سے بچھڑی ہوئی کونچ
اندھیرے میں کرلائے جا رہی ہے
گھنی چھاؤں سے ڈر لگ رہ ہے
دھوپ ہے کہ کھائے جا رہی ہے
میٹھی میٹھی، بھینی بھینی برسات
تشنگی کو بڑھائے جا رہی ہے
منصفوں کی قلم ہے یا کوئی تلوار
بس سروں کو گرائے جا رہی ہے
منڈیر سے گرا کے بجھے چراغوں کو
عثمان، ہوا دشمنی نبھائے جا رہی ہے
Usman Tarar
Copy
تیار کھڑے ہیں پروانے
دیار غیر میں رہ کر بھی شناسائی کی باتیں کرتے ہیں
میرا رہنا بھی یہاں مشکل ہے یہ پزیرائی کی باتیں کرتے ہیں
یہ کیا ہوا کہ اپنی وفاؤں کے ہم خود ہی قاتل ٹھہرے ہیں
کبھی ہم بھی انہیں سمجھاتے تھے جو دانائی کی باتیں کرتے ہیں
تیار کھڑے ہیں پروانے اپنی جان نچھاور کرنے کو
شمع پھر بھی یہ کہتی ہے کہ رسوائی کی باتیں کرتے ہیں
اس شہر کے اندر عجب ہی کچھ رہزن بھی بستے ہیں
خود چھین کے روشنی آنکھوں کی بینائی کی باتیں کرتے ہیں
تم ڈھونڈو تو اب بھی مل جائیں تمہیں ایسے لوگ زمانے میں
دکھ رکھ کے اپنے سینے میں جو بھلائی کی باتیں کرتے ہیں
سن کر ترک تعلق کا عثمان کیوں پریشان ہوتے ہو
کیا ان کے دل میں درد نہیں جو جدائی کی باتیں کرتے ہیں
Usman Tarar
Copy
کاش حوصلہ مجھے دیتا
کاش حوصلہ مجھے دیتا کوئی تنہائی میں آ کر
روتی رہی میری تقدیر مجھے گلے سے لگا کر
اسے بھولنا چاہوں تو بڑھ جاتی ہے بے چینی
نہ جانے وہ کہاں کھو گیا مجھے خواب دکھا کر
اب مقدمے کو لڑنے کی سکت مجھ میں نہیں ہے
اے منصف مجھے سزا دے یا مجھ کو رہا کر
میری لمبی ہے مسافت اور انجانے ہیں رستے
تو نے ساتھ نہیں دینا تو دعائیں تو دیا کر
غیر تو خاموش ہیں میری بربادی پہ لیکن
کتنا خوش ہے میرا قبیلہ میرے خیمے کو جلا کر
Usman Tarar
Copy
بے نقاب
جاگتی آنکھوں میں یوں خواب آتے ہیں
جیسے سامنے زندگی کے عذاب آتے ہیں
چہرے پہ لگائے ہوئے روایات کا غازہ
بہت سے چہرے اب بے نقاب آتے ہیں
پہلے تو خط ہوتے تھے آدھی ملاقات
اپ خطوں میں بھی صرف آداب آتے ہیں
دم گھٹ کہ مر جاتی ہے جب کوئی خواہش
میری آنکھوں میں اشکوں کے سیلاب آتے ہیں
اے خدا میری منزل کو سلامت رکھنا
میرے رستوں میں سوکھے ہوئے گلاب آتے ہیں
عثمان دل وہ درویش ہے کہ نظر اٹھاتا ہی نہیں
ورنہ اس کے در پہ تو سو احباب آتے ہیں
Usman Tarar
Copy
کچے گھڑے
تیرے پاس تو پہلے بھی تھے مگر یہ سوچا نہ تھا
دل کی دھڑکن رک جائے گی تیرے اک اشارے پر
کتنے ظالم ہیں یہ لوگ ڈوبنے والوں پہ ہنسیں گے
کچے گھڑے جو بیچ رہے ہیں دریا کے کنارے پر
Usman Tarar
Copy
مشرف
خواب جتنے بھی ہم نے دیکھے تھے
وہ سارے ہی دھاگے کچے تھے
وقت برے سے برا آ رہا ہے ابھی
شاہ مشرف ہی ہم کو اچھے تھے
Usman Tarar
Copy
میرے پاس رہو
چاہتوں کے لہراتے بادل ہونگے
جب ہم تم پھر مقابل ہونگے
اپنے چہرے کو چھپاؤ گے کیسے
اڑتے ہوئے سب آنچل ہونگے
زباں پہ چپ کا تالا ہوگا
آنکھوں کے چھلکتے چھاگل ہونگے
جب تک میرے پاس رہو گے
وہ لمحے کاٹنے مشکل ہونگے
پتھر مارنے والوں کو دیکھو
دوست بھی ان میں شامل ہونگے
کسی کی بات سمجھے گا نہ کوئی
واعظ بول بول پاگل ہونگے
اپنے، غیر کی پہچان نہ ہو گی
میت کے ساتھ ہی قاتل ہونگے
لاکھہ بانٹو عثمان تم خوشیاں
درد ہی تم کو حاصل ہونگے
Usman Tarar
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets