Add Poetry

Wo Bhi Sarahne Lage Arbab-E-Fan Ke Baad

Poet: Kaifi Azmi By: Zehra, Karachi

wo bhi sarahne lage arbab-e-fan ke baad
dad-e-sukhan mili mujhe tark-e-sukhan ke baad

divana-var chand se aage nikal gae
thahra na dil kahin bhi tiri anjuman ke baad

honton ko si ke dekhiye pachhtaiyega aap
hangame jaag uthte hain aksar ghutan ke baad

ghurbat ki thandi chhanv men yaad aai us ki dhuup
qadr-e-vatan hui hamen tark-e-vatan ke baad

elan-e-haq men khatra-e-dar-o-rasan to hai
lekin saval ye hai ki dar-o-rasan ke baad

insan ki khvahishon ki koi intiha nahin
do gaz zamin bhi chahiye do gaz kafan ke baad

Rate it:
Views: 1085
23 Dec, 2020
Related Tags on Kaifi Azmi Poetry
Load More Tags
More Kaifi Azmi Poetry
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو یہ کس طرح یاد آ رہی ہو یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
کہ جیسے سچ مچ نگاہ کے سامنے کھڑی مسکرا رہی ہو
یہ جسم نازک، یہ نرم باہیں، حسین گردن، سڈول بازو
شگفتہ چہرہ، سلونی رنگت، گھنیرا جوڑا، سیاہ گیسو
نشیلی آنکھیں، رسیلی چتون، دراز پلکیں، مہین ابرو
تمام شوخی، تمام بجلی، تمام مستی، تمام جادو
ہزاروں جادو جگا رہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
گلابی لب، مسکراتے عارض، جبیں کشادہ، بلند قامت
نگاہ میں بجلیوں کی جھل مل، اداؤں میں شبنمی لطافت
دھڑکتا سینہ، مہکتی سانسیں، نوا میں رس، انکھڑیوں میں امرت
ہمہ حلاوت، ہمہ ملاحت، ہمہ ترنم، ہمہ نزاکت
لچک لچک گنگنا رہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
تو کیا مجھے تم جلا ہی لو گی گلے سے اپنے لگا ہی لو گی
جو پھول جوڑے سے گر پڑا ہے تڑپ کے اس کو اٹھا ہی لو گی
بھڑکتے شعلوں، کڑکتی بجلی سے میرا خرمن بچا ہی لو گی
گھنیری زلفوں کی چھاؤں میں مسکرا کے مجھ کو چھپا ہی لو گی
کہ آج تک آزما رہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
نہیں محبت کی کوئی قیمت جو کوئی قیمت ادا کرو گی
وفا کی فرصت نہ دے گی دنیا ہزار عزم وفا کرو گی
مجھے بہلنے دو رنج و غم سے سہارے کب تک دیا کرو گی
جنوں کو اتنا نہ گدگداؤ، پکڑ لوں دامن تو کیا کرو گی
قریب بڑھتی ہی آ رہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
رانا علی
مکان آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو، میں بھی اٹھوں تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
یہ زمیں تب بھی نگل لینے پہ آمادہ تھی
پاؤں جب ٹوٹتی شاخوں سے اتارے ہم نے
ان مکانوں کو خبر ہے نہ مکینوں کو خبر
ان دنوں کی جو گپھاؤں میں گزارے ہم نے
ہاتھ ڈھلتے گئے سانچے میں تو تھکتے کیسے
نقش کے بعد نئے نقش نکھارے ہم نے
کی یہ دیوار بلند، اور بلند، اور بلند
بام و در اور، ذرا اور سنوارے ہم نے
آندھیاں توڑ لیا کرتی تھیں شمعوں کی لویں
جڑ دیئے اس لیے بجلی کے ستارے ہم نے
بن گیا قصر تو پہرے پہ کوئی بیٹھ گیا
سو رہے خاک پہ ہم شورش تعمیر لیے
اپنی نس نس میں لیے محنت پیہم کی تھکن
بند آنکھوں میں اسی قصر کی تصویر لیے
دن پگھلتا ہے اسی طرح سروں پر اب تک
رات آنکھوں میں کھٹکتی ہے سیہ تیر لیے
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو، میں بھی اٹھوں تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
Anila
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets