✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
ZIA ULLAH TAHIR
Search
Add Poetry
Poetries by ZIA ULLAH TAHIR
لگی ہے میرے قلب و جگر میں آگ
لگی ہے میرے قلب و جگر میں آگ
نہاں ہے میری چشم تر میں آگ
بڑا عجب سا حال ہے ان دنوں
آگ میں سر کبھی سر میں آگ
لوگ آئے تھے اکثر تماشہ دیکھنے
لگی تھی جب میرے گھر میں آگ
در و دیوار اپنے بچاتا کس طرح
پھیل گئی تھی پورے شہر میں آگ
چھوڑے کس کو پڑھے کس کو آدمی
بھری ہوئی ہے خبر خبر میں آگ
خدا خیر کرے میرے چمن کی طاہر
رقصاں ہے آج بحر و بر میں آگ
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
وہم تھا گماں تھا کوئی
وہم تھا گماں تھا کوئی
لگتا ہے مہرباں تھا کوئی
ترستے رہے گلوں کو لیکن
یوں ہمارا گلستاں تھا کوئی
مدت ہوئی ، بھلا بیٹھے جو
درمیاں ہمارے پیماں تھا کوئی
رقیبوں کو خبر دو میرے
گھر آیا مہماں تھا کوئی
جاتے تو آخر جاتے کہاں
زمیں اپنی نہ آسماں تھا کوئی
سوئے مقتل ضرور جاتے لیکن
رستے میں پڑتا آستان تھا کوئی
سفر زندگی کٹتا کیسے طاہر
پاس اپنے ساماں تھا کوئی
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
شب فتنہ ساماں چاروں طرف
شب فتنہ ساماں چاروں طرف
روز نیا جہاں چاروں طرف
میں تنہا محفل میں لیکن
میرے بد گماں چاروں طرف
میری کہانی میری بے زبانی
میرے بد زباں چاروں طرف
ساحل ہے نہ کشتی میری
مگر بحر بے کراں چاروں طرف
رقصاں ہے لاشوں کا ہجوم
بے کفن انساں چاروں طرف
یزید شہر کا سنتے ہیں
عجب سا اعلاں چاروں طرف
ستم اتنا عام ہو گیا
پھیل گئی داستاں چاروں طرف
شرمانے لگی ہے شام کربلا
حکائت خوں چکاں چاروں طرف
ہر شخص سوچ میں گرفتار
کیسا ہے امتحاں چاروں طرف
شب تیرہ ، اس پر مزید
طوفان باد و باراں چاروں طرف
رہبر ہے نہ کوئی رہنما
کارواں منتشر پریشاں چاروں طرف
بے نشاں ، امن و اماں سارا
موت کا ساماں چاروں طرف
کرتا ہے ادا ہر شخص طاہر
یہاں رسم سوگوراں چاروں طرف
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
زاد راہ ہے نہ اسباب میرے پاس
زاد راہ ہے نہ اسباب میرے پاس
فقط ہے دل بے تاب میرے پاس
پیش کروں کیا ، در سرکار میں
کچھ بھی نہیں ، جناب میرے پاس
درد ہجر و فراق میں بہائے ہوئے
اشکوں کے ہیں در نایاب میرے پاس
لے کے آ گیا ہوں ، شاہ کائنات
گناہوں کی تھی جو کتاب میرے پاس
کروں گا کیسے روز محشر سامنا
سوالوں کا نہیں کوئی جواب میرے پاس
چھپاؤں گا کیونکر شرم سے منہ طاہر
نہیں ہے کوئی بھی حجاب میرے پاس
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
اک بیتا ہوا لمحہ
وہ اک بیتا ہوا لمحہ
کتنا رنگین تھا ، کتنا ، کتانا سنگین تھا
گلی کی اس نکڑ پر
رات کے پچھلے پہر
منتظر تھا میرا کوئی
شائد وہی مہ جبین تھا
وہ لمحہ کتنا رنگین تھا ، سنگین تھا
تاروں بھری رات تھی
آنکھوں میں برسات تھی
ہونٹوں پہ کوئی بات تھی
دل بڑا غمگین تھا
وہ لمحہ کتنا رنگین تھا ، سنگین تھا
مدت ہوئی وہ لمحہ بیتے
غم کھاتے اور آنسو پیتے
جیتے مرتے اور مرتے جیتے
وہ جینا کیسا حسین تھا
وہ لمحہ کتنا رنگین تھا ، سنگین تھا
تنہائی کیسی تنہائی تھی
موت گلے لگائی تھی
قبر ہی راس آئی تھی
آخر یہی یقین تھا
وہ لمحہ کتنا رنگین تھا سنگین تھا
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
قصہء ہجر و وصال کیسا
قصہء ہجر و وصال کیسا
بیان رنج و ملال کیسا
مت پوچھ ، مجھ سے زاہد
ہے دل کا اب حال کیسا
گزر جاتے ہیں جیسے تیسے
پھر ذکر ماہ و سال کیسا
ہاتھوں سے، گر پلائیں وہ
اس میں ہے کمال کیسا
جو تھے کل صاحب محل سرا
آیا ان پہ ، زوال کیسا
عدل ہے ، نہ عدالت کوئی
کریں پھر یہاں سوال کیسا
زندگی بھر ، نہ دیکھا کبھی
کندھوں پہ طاہر ، وبال کیسا
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
کھلے پھول تو بہار دکھلا گئے
کھلے پھول تو بہار دکھلا گئے
درد صدیوں کے سوئی جگا گئے
چھپا رکھے تھے جو زمانے سے
نکلے آنسو تو پردہ اٹھا گئے
کہا ، کچھ تو فرمائیے حضور
مسکرائے اور غزل میری سنا گئے
سایہ بھی ساتھ چھوڑ گیا اپنا
جہاں بھی گئے ہم تنہا گئے
نکلے جب بھی ، محفل یار سے
لئے ساتھ اپنے ، آہ و بکا گئے
جیسے بھی ہو سکا ، ہم سے
مرتے مرتے بھی وعدہ نبھا گئے
وقت رخصت ہی مل جائے طاہر
کرتے دنیا سے یہی دعا گئے
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
خوف برق رہا نہ خوف بلا مجھے
خوف برق رہا نہ خوف بلا مجھے
ملا ہے تیرا جب سے آسرا مجھے
تیرے در پہ جھکی جبیں تو دیکھا
مل گیا سجدے ہی میں خدا مجھے
تھام لیا ہے ، تیرا دامن آقا
ڈرائیں گے منکر ، نکیر پھر کیا مجھے
گزرے جاتی ہے بیکار ، عمر ساری
اب تو مدینے میں لو بلا مجھے
دے دیجئے ابھی پروانہ معافی کا
آتے ہوئے سامنے آتی ہے حیا مجھے
مدت ہوئی ہے دبائے ، آرزو طاہر
پیغام دیتی ہے کب دیکھئے صبا مجھے
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
ملی جو مجھے سزا کیسی تھی
ملی جو مجھے سزا کیسی تھی
میرے چمن کی ہوا کیسی تھی
کھنچے آتے تھے سوئے مقتل لوگ
ستم گر کی آخر ادا کیسی تھی
بھرے شہر میں ، نہ سنائی دیتی
جانے وہ میری صدا کیسی تھی
بے خبر رہا، جس سے برسوں
میرے محسن کی رضا کیسی تھی
ملا ہوا تھا ، جس میں زہر
صبح وطن تیری صبا کیسی تھی
کر دیا بے نیاز زندگی سے مجھے
تیرے غم کی ، ردا کیسی تھی
رات بھر نہ سونے دیا جس نے
شہر پریشاں میں ، ندا کیسی تھی
کچھ دکھائی نہ ، دیتا تھا طاہر
شہر میں وہ ، ضیاء کیسی تھی
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
حیثیت ہی کیا ہے تنکے کی دریا کے سامنے
حیثیت ہی کیا ہے تنکے کی دریا کے سامنے
دیا چلے ہے جیسے کوئی ہوا کے سامنے
کچھ کرنے سے پہلے ذرا سوچ لیا کرو
جواب دینا ہا گا کل ، خدا کے سامنے
ہجوم ماہ و انجم ،رقص گل و ریحان ساقی
ماند پڑ گئے سبھی تیرے رنگ حنا کے سامنے
چشم تصور نے شفق کے دیکھے ، ہزار رنگ
کچھ نہ تھے مگر تیری سرخیء حیاء کے سامنے
جبیں ہماری ، قدم بقدم جھکتی رہی تمام عمر
سجدہ گاہ بنتی گئی تیرے نقش پاء کے سامنے
بڑے سر مارے تھے طاہر تیرے کوچے میں لیکن
کوئی نہ چل سکی ہماری ، قضاء کے سامنے
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
ذرا سنبھل کے چلا کرو جاناں
پائے نازک کو موچ نہ آ جائے
ذرا سنبھل کے چلا کرو جاناں
زباں سے مانا، غیر ممکن ہے لیکن
آنکھوں سے کچھ کہا کرو جاناں
میری تنہائی کی باتوں کو کبھی
رات کے پچھلے پہر ، سنا کرو جاناں
لوگ فسانے بنا لیتے ہیں اکثر
سر راہ نہ ہنسا کرو جاناں
میرے دل کے خشک دریاؤں میں
بادل بن کے برسا کرو جاناں
بڑا بے حال ہے طاہر ان دلوں
نہ اور اب جفا کرو جاناں
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
دل میں کچھ دل سے اتر گئے لوگ
دل میں کچھ دل سے اتر گئے لوگ
ہم اجڑے تو ، کئی سنور گئے لوگ
رقص پانی پہ کیا ، ایسا ہم نے
تماشہ دیکھنے دریا میں اتر گئے لوگ
میت پہ اپنی آج کوئی نہیں آیا
خالی کر شہر کے شہر گئے لوگ
شگوفوں کا قتل عام ہوتا دیکھ کر
چھوڑ پورے کے پورے شجر گئے لوگ
چرچا سن کے میرے قتل کا طاہر
سوئے مقتل شام تا سحر گئے لوگ
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
عجب انداز سے سزا دیتے ہیں لوگ
عجب انداز سے سزا دیتے ہیں لوگ
چاہوں بیٹھنا تو اٹھا دیتے ہیں لوگ
دل ہوتا ہے جب کبھی اداس میرا
میری غزل مجھے سنا دیتے ہیں لوگ
وہم و گماں میں بھی نہیں ہوتی ابھی
بات جو یہاں پھیلا دیتے ہیں لوگ
زندگی سے کیا پایا ، آخر میں نے
کیوں زندگی کی دعا دیتے ہیں لوگ
کیا چاہتے ہیں ، زمانے میں جو
کر کے احسان ، جتلا دیتے ہیں لوگ
بھول چکا تھا ، جسے مدت سے طاہر
انہیں زخموں کو ، ہوا دیتے ہیں لوگ
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
بارود پھٹا دکانوں میں
بارود پھٹا دکانوں میں
لگی آگ مکانوں میں
بیٹھیں وہ تماشہ دیکھیں
خاموشی سے ایوانوں میں
فرق کیا رہ گیا
حیوانوں میں انسانوں میں
بھرا سارا خون ہے میرا
ان کے سب پیمانوں میں
محنت میری رات تھی رقصاں
ان کے مئے خانوں میں
اندر اندر پکتا لاوہ
دیکھا کچھ طوفانوں میں
کر لو کچھ وقت سحری
مشورے تھے آسمانوں میں
بجھنے لگے ہیں چراغ
رکھے ہوئے روشندانوں میں
ہو گیا گم ، مدت سے
رنگ جو تھا اذانوں میں
کسے خبر ، کیا ہوتا ہے
ان کالے تہہ خانوں میں
دیکھو کون ، ہو کامیاب
آج کے امتحانوں میں
بس طاہر ، چپ ہو جا
اثر نہ رہا زبانوں میں
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
ہر کام نرالہ دیکھا
ہر کام نرالہ دیکھا
اندھیرا کبھی اجالا دیکھا
بکروں کو شہر میں
چھولوں کا رکھوالا دیکھا
چھت اپنی کا گرتا
بڑوس میں پرنالہ دیکھا
کہا جب سفید اس نے
پھر نہ کوا کالا دیکھا
صاحب مسند بن بیٹھے
جسے تھا کل گوالا دیکھا
شہر تھا سارا گونگوں کا
سوچوں پر یوں تالا دیکھا
کھوئے ایسے ذات میں اپنی
پھر نہ اپنا حوالا دیکھا
اجنبی بن بیٹھا ، طاہر جسے
کل تھا دیکھا بھالہ دیکھا
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
مر رہے ہیں کوچہء بتاں کے بیچ
مر رہے ہیں کوچہء بتاں کے بیچ
جیسے کوئی دشت کفر و ایماں کے بیچ
زندگی تو کٹی ہے ، اس طور اپنی
شجر تنہا کوئی جیسے گلستاں کے بیچ
نام و نشاں ہمارا ، پوچھتے ہیں لوگ
نہاں ہیں ہم چشم گریاں کے بیچ
جلنا ہے مدام شب و روز کام اپنا
جلتا ہے آفتاب جیسے آسماں کے بیچ
ہجوم درد میں حوصلہ جینے کا الٰہی
گرفتار گرداب ہوں بحر بیکراں کے بیچ
جل رہا ہے ، ذرا دیکھنا تو شائد
دل کسی کو گور غریباں کے بیچ
قصہء جنوں کیا کہتے ط اہر اپنا
نہ چھوڑا فرق دامن و گریباں کے بیچ
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
مسرت کو کبھی راحت کو ترسے
مسرت کو کبھی راحت کو ترسے
زمانہ یوں تیری چاہت کو ترسے
بہت روکا اسے آنکھوں نے پھر بھی
مرا دل تیر ہی صورت کو ترسے
عداوت کے سبھی انداز دیکھے
محبت کو کبھی ، الفت کو ترسے
عجب اس دل نے پائی ہے طبیعت
کبھی وصلت کبھی فرقت کو ترسے
زمانے بھر سے ہو آئے ہیں طاہر
مگر اپنوں کی ہی جنت کو ترسے
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
بات مانی تیری یقیں کر لیا
بات مانی تیری یقیں کر لیا
دل میں تجھے مکیں کر لیا
رکھ کے سامنے تیری تصویر کو
اداس لمحوں کو حسیں کر لیا
یاد تیری کے ، چرا کے رنگ
کتاب زندگی کو رنگیں کر لیا
جدھر دیکھا، نقش پاء تیرا
ادھر ہی رخ جبیں کر لیا
نام تیرا ورد زباں ہم نے
کس طرح دم وآپسیں کر لیا
نکلا جائے تھا ، ہاتھوں سے طاہر
قابو تم نے دل حزیں کر لیا
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
کب کہا تھا خدائی دے مجھے
کب کہا تھا خدائی دے مجھے
میرا مقدر میری رسوائی دے مجھے
پاؤں کر دے زخم زخم لیکن
پھر ذوق بادیہ پیمائی دے مجھے
مصلوب ہر شخص وقت کے ہاتھوں
رنگ مسیحائی صورت مسیحائی دے مجھے
زبانوں پر لگے ہیں تالے شہر میں
خدایا اب قوت گویائی دے مجھے
وجہ سکوں بن جاؤں واسطے لوگوں کے
کوئی ایسا راستہ دکھائی دے مجھے
کوئی بھی گنگنا تا ، نظر آئے طاہر
غزل میری ہی سنائی دے مجھے
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
کوچہ قاتل کو سجا دو آج
کوچہ قاتل کو سجا دو آج
پھر مجھے کوئی سزا دو آج
سر مدفن کون ہے آیا دیکھنا
الٰہی ذرا مجھے جگا دو آج
تنہا ہوں یہاں کب سے دوستوں
بہلنے کو ذرا صدا دو آج
آیا چاہتے ہیں ابھی منکر نکیر
اعجاز مسیحا تم دکھا دو آج
سنتے ہیں لوگوں سے قصے تمہارے
زبانی تم اپنی سنا دو آج
مدت سے کچھ دیکھا نہیں طاہر
ہاتھوں سے اپنے پلا دو آج
ZIA ULLAH TAHIR
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets