میں تری آنکھوں میں رہتا ہوں
تم مری دھڑکنوں میں بستے ہو
مرے سپنوں میں ترا بسیرا ہے
تری سوچوں میں مرا ڈیرا ہے
بچھڑیں تو ملنے کا بہانہ تلاشیں
لمس سے کوسوں دور رہے
اک دوجے کی سانسوں میں
رچ بس سے گءے ہیں
جادو ٹونے کو
میں نے کب کبھی مانا ہے
ترے جادو گر ہونے پر
مجھ کو یقین ہونے لگا ہے
تری آنکھوں میں
آشاؤں کی کہکشاءیں ہیں
ترے ہونٹوں سے
افسراءیں گیت چراءیں
مری نظمیں
ترے قہقہوں سے شکتی مانگیں
مرے تری ذات سے
ترے مری ذات سے
لاکھوں ان جانے
بےنام رشتوں کا رشتہ ہے
ہم اپنے سہی
مگر ہم اک دوجے کے کیا ہیں؟
آؤ کوئ رشتہ استوارر کریں
کہ تکمیل ذات‘ تکمیل ہستی ہے