آدم شناس مجھے پہچان آدم صحرائی سے آیا ہوں
سعد بن کر بھی دل میں درد ہے خامی بتا اصلاح کے لیے ایا ہوں
آدمی کا شیطان آدمی ہے
بات پرانی ہوں مگر عمل میں اب بھی ہوں
آدمی آدمی انتر کوئی ہیرا کوئی لنکر
بتا مجھے اگر لنکر ہوں تو ہیرا لینے آیا ہوں
اے استاد بھر دے زندگی میری اپنے علم کی دولت سے
فائدہ ہے تیرا تیری چمک بھرے گی
ورنہ جو آئینہ اب ہے اسی سے دیکھتا ہوں