نہ میں جوگی نہ آوارہ
ہیر سیال نہ تخت ہزارہ
نہ میں پاگل نہ بنجارہ
آسمان سے ٹوٹا تارہ
بے قدروں کی دھرتی آیا
اس دل کو کیا شوق چرایا
کون ہے اپنا کون پرایا
سمجھ سکے نہ دل بے چارہ
آسمان سے ٹوٹا تارہ
یہ جگ تو میدان حشر ہے
کرب و بلا اسکا محور ہے
پل کی یہاں پہ کس کو خبر ہے
عجب یہاں پہ ہے نظارہ
آسمان سے ٹوٹا تارہ
وہ بے خبری میں لوٹ گئے
سب ہنسی کے تارے روٹھ گئے
لو ہم تو جہاں سے چھوٹ گئے
کس کو ملا ہے کس کا سہارا
آسمان سے ٹوٹا تارہ
غم کے جھولے میں جھول گئے
ہم اپنے صنم کو بھول گئے
ہم کیا تھے اور کس مول گئے
تو آزما ہم کو دوبارہ
آسمان سے ٹوٹا تارہ