مصرعِ طرح:
“پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا“
پہ ایک کاوش ۔۔۔ جو ایک مشاعرہ میں پیش کی آپ کی نظر ۔۔۔
آنکھوں سے اپنا حال چھپایا نہ جائے گا
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا
دو کشتی کا سوار وہ، کوئی فیصلہ کرے
یوں ہم سے اُس کا ساتھ نبھایا نہ جائے گا
اُس کا پلٹنا ہی بنے شاید کوئی سبب
دامن سے گہرا داغ مٹایا نہ جائے گا
زندگی میں چھوڑ کر خوابوں میں آئے کیوں
اب ہم سے اپنا آپ سلایا نہ جائے گا
اُجاڑیں میرا ملک وہ اور چپ رہے ریاض
پیچھے ہے کس کا ہاتھ بتایا نہ جائے گا