اب دل کی طرف درد کی یلغار بہت ہے
دنیا مرے زخموں کی طلب گار بہت ہے
اب ٹوٹ رہا ہے مری ہستی کا تصور
اس وقت مجھے تجھ سے سروکار بہت ہے
مٹی کی یہ دیوار کہیں ٹوٹ نہ جائے
روکو کہ مرے خون کی رفتار بہت ہے
ہر سانس اکھڑ جانے کی کوشش میں پریشاں
سینے میں کوئی ہے جو گرفتار بہت ہے
پانی سے الجھتے ہوئے انسان کا یہ شور
اس پار بھی ہوگا مگر اس پار بہت ہے