اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا
دل کا عالم ہے ترے بعد خلاؤں جیسا
کاش دنیا مرے احساس کو واپس کر دے
خامشی کا وہی انداز صداؤں جیسا
پاس رہ کر بھی ہمیشہ وہ بہت دور ملا
اس کا انداز تغافل تھا خداؤں جیسا
کتنی شدت سے بہاروں کو تھا احساس مآل
پھول کھل کر بھی رہا زرد خزاؤں جیسا
کیا قیامت ہے کہ دنیا اسے سردار کہے
جس کا انداز سخن بھی ہو گداؤں جیسا
پھر تری یاد کے موسم نے جگائے محشر
پھر مرے دل میں اٹھا شور ہواؤں جیسا
بارہا خواب میں پا کر مجھے پیاسا محسنؔ
اس کی زلفوں نے کیا رقص گھٹاؤں جیسا