میرے گلشن کو یوں آباد نہ رکھا جائے
میرے حصے میں پری زاد نہ رکھا جائے
اتنا کافی ہے تماشا ہیں ترے شہر میں ہم
اپنی دنیا کو تو ناشاد نہ رکھا جائے
زندہ دل اہل محبت کے ہیں چہرے لیکن
آئینہ شہر کا آزاد نہ رکھا جائے
جس کے ہوتے ہوئے لٹ جائے یہ عزت اپنی
ایسا کم ظرف تو استاد نہ رکھا جائے
اب نئے لہجے میں لکھتی ہوں یہ تازہ غزلیں
میرے افکار کو بے داد نہ رکھا جائے
جن کا بس کام ہے پھولوں کو اذیت دینا
ایسے بھنورے کو چمن زاد نہ رکھا جائے
درد غیروں کے یہ پڑھتے ہوئے سوچا وشمہ
اپنا افسانہ کبھی یاد نہ رکھا جائے