اسی کی طرح مجھے سارا زمانا چاہے
وہ مرا ہونے سے زیادہ مجھے پانا چاہے
میری پلکوں سے پھسل جاتا ہے چہرہ تیرا
یہ مسافر تو کوئی اور ٹھکانا چاہے
ایک بن پھول تھا اس شہر میں وہ بھی نہ رہا
کوئی اب کس کے لیے لوٹ کے آنا چاہے
زندگی حسرتوں کے ساز پہ سہما سہما
وہ ترانہ ہے جسے دل نہیں گانا چاہے