پھر اک ستم اٹھا لیا تو کیا ہوا
پھر اک فریب کھالیا تو کیا ہوا
ہزاروں الجھنیں ہزاروں تلخیاں
حقیقتوں کو پا لیا تو کیا ہوا
فضا میں آنچلوں کی راکھ اڑ چکی
کسی نے گھر جلا لیا تو کیا ہوا
ہماری فکر آج بھی غلام ہے
الگ وطن بنا لیا تو کیا ہوا
بھلائی کے حروف سارے اڑ گئے
کتاب کو بچا لیا تو کیا ہوا
دلوں کے درمیاں تو فاصلے رہے
اگر گلے لگا لیا تو کیا ہوا
ضمیر سو چکا ہے ساری قوم کا
شریر کو جگا لیا تو کیا ہوا
مزید قوتِ خرید کم ہوئی
مشاہرہ بڑھا لیا تو کیا ہوا
حریف سے جہاد جو نہ کر سکا
حلیف کو دبا لیا تو کیا ہوا
ہیں دست و بازو وَرد کے قوی ابھی
نصیب آزما لیا تو کیا ہوا