ان کے فراق نے مجھے اچھا صلہ دیا
جو دکھ نہیں رہا تھا وہ سب کچھ دکھا دیا
پہلے لگی نسیم سحر مژدۂ وصال
اس جھونکے نے پھر آنکھوں سے دریا بہا دیا
اک خواب مشکلات میں ہوتا ہے ساتھ ساتھ
اک خواب نے حیات کا ہر غم بھلا دیا
میں سوچتا رہا کہ کروں کیسے لب کشائی
اشکوں نے ترجمانی کی دکھڑا سنا دیا
کچھ اور ہی نظارہ تھا شہر حضور کا
جو عکس تھا دماغ میں یکسر مٹا دیا
جب بن نہیں رہی تھی کوئی طیبہ کی سبیل
کاغذ قلم اٹھایا تو رستہ بنا دیا