گم ہو گیا ہوں روز و شب میں میں
ڈھونڈ رہا ہوں خود کو میں
آررزؤں کی طویل مسافتیں ہیں
تھک گیا ہوں اس سفر میں میں
جانے کب مکتب کی گھنٹی بج اٹھے
اپنا سبق تو یاد کر لوں میں
جانے کیسے فریب میں آ گیا دل میرا
ورنہ کھاتا نہ کبھی گندم کو میں
کوہ طور پر جا کر ضد کی موسیٰ نے
پھر اک تجلی کا منتظر ہوں میں
تو سمندر ہے تیرا کوئی کنارا نہیں
قطرے کی طرح مل جانا چاہتا ہوں میں
تو کوشش کو دیتا ہے ثمر اس کا
میں چاہتا ہوں کہ ہو جاؤں روبرو میں